خطبہ جمعہ کے متعلق شرعی رہنمائی
📌 خطبہ میں صرف ایک ہاتھ کی انگلی سے اشارہ کرنا
روایت: سیدنا عمارہ بن رویبہ رضی اللہ عنہ نے بشیر بن مروان کو جمعہ کے دن منبر پر دونوں ہاتھ اٹھاتے دیکھا تو فرمایا:
"اللہ تعالیٰ ان دونوں ہاتھوں کو ہلاک کرے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ میں صرف ایک ہاتھ کی شہادت والی انگلی سے اشارہ کرتے تھے۔”
(مسلم، الجمعۃ، باب تخفیف الصلوٰۃ والخطبۃ ۴۷۸.)
📌 خطبہ جمعہ کھڑے ہو کر دینا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ:
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر خطبہ دیا اور آپ کے ہاتھ میں عصا یا کمان تھی۔”
(ابوداود، الصلاۃ، باب: الرجل یخطب علی قوس، ۶۹۰۱۔ امام ابن خزیمہ نے اسے صحیح کہا)
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی روایت:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر خطبہ دیتے، پھر بیٹھتے، اور دوبارہ کھڑے ہو کر دوسرا خطبہ دیتے۔ جو شخص کہے کہ آپ بیٹھ کر خطبہ دیتے تھے، اس نے غلط بیانی کی۔”
(مسلم، الجمعۃ، باب ذکر الخطبتین قبل الصلاۃ وما فیھما من الجلسۃ ۲۶۸)
سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کا قول:
"وہ مسجد میں داخل ہوئے اور عبدالرحمن بن ام الحکم کو بیٹھے ہوئے خطبہ دیتے دیکھا تو فرمایا: اس خبیث کو دیکھو، بیٹھے ہوئے خطبہ دے رہا ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
(وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَۃً أَوْ لَہْوًا انْفَضُّوْا إِلَیْہَا وَتَرَکُوْکَ قَاءِماً) (الجمعۃ: ۱۱)
"اور جب یہ لوگ کوئی سودا بکتا دیکھتے ہیں یا کوئی تماشا دیکھتے ہیں تو اس کی طرف بھاگ اٹھتے ہیں اور آپ کو (خطبے میں) کھڑا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔”
(مسلم، الجمعۃ، باب فی قولہ تعالی: واذا راوا تجارۃ او لھوا انفضوا الیھا و ترکوک قائما: ۴۶۸)
حکم: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قرآن سے دلیل دے کر ثابت کیا کہ خطبہ کھڑے ہو کر دینا سنت ہے۔ اس آیت میں خطبہ جمعہ کی فرضیت پر بھی دلالت موجود ہے۔
📌 خطبہ چھوڑ کر ضرورت پوری کرنا
واقعہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے کہ حسن اور حسین رضی اللہ عنہما آئے، سرخ قمیص پہنے ہوئے، مشکل سے چلتے ہوئے۔
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اترے، دونوں کو اٹھایا اور اپنے سامنے بٹھایا، پھر فرمایا:
(إِنَّمَا أَمْوَالُکُمْ وَأَوْلاَدُکُمْ فِتْنَۃٌ)
’’بیشک تمہارا مال اور تمہاری اولاد آزمائش ہیں‘‘
"میں نے ان دونوں بچوں کو دیکھا جو مشکل سے چل رہے تھے پس مجھ سے صبر نہ ہوا حتیٰ کہ میں نے اپنا کلام منقطع کیا اور انہیں اٹھایا۔”
(ترمذی: المناقب، باب: مناقب الحسن والحسین: ۴۷۷۳)
حکم: امام خطبہ کے دوران کسی ضروری کام کے لیے وقفہ کر سکتا ہے۔
📌 دوران خطبہ گوٹ مار کر بیٹھنا
منع:
"نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران خطبہ گوٹ مار کر بیٹھنے سے منع فرمایا۔”
(ترمذی، الجمعۃ، باب ما جاء فی کراھیۃ الاحتباء والامام یخطب ۴۱۵، امام ترمذی نے اسے حسن کہا)
وضاحت: گوٹ مارنے سے نیند آنے، خطبہ نہ سننے، گرنے اور شرمگاہ کے بے پردہ ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔
📌 خطبہ میں سیاہ رنگ کا عمامہ پہننا
روایت:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور آپ کے سر پر سیاہ رنگ کا عمامہ تھا، جس کے دونوں سرے آپ نے کندھوں کے درمیان چھوڑے ہوئے تھے۔”
(مسلم، الحج، باب جواز دخول مکۃ بغیر احرام، ۹۵۳۱)
📌 خطبہ جمعہ سے پہلے تقریر کرنا
منع:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن مسجد میں نماز جمعہ سے پہلے حلقہ بنانے سے منع فرمایا۔”
(ابو داود، الصلاۃ، باب التحلق یوم الجمعۃ قبل الصلاۃ، ۹۷۰۱، ترمذی، الصلاۃ، باب ما جاء فی کراھیۃ البیع والشراء و انشاد الشعر، ۲۲۳، امام ترمذی نے حسن، امام ابن خزیمہ نے صحیح کہا)
حکم: اذان اور دو خطبوں سے پہلے تقریر کرنا درست نہیں۔ اس عمل سے اجتناب لازم ہے۔
📌 غیر عربی زبان میں خطبہ دینا
فتویٰ شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ:
"خطبہ کا مقصد سامعین کو فائدہ پہنچانا، اللہ کے احکام یاد دلانا اور اس کی طرف دعوت دینا ہے۔ یہ تبھی ممکن ہے جب وہ زبان استعمال کی جائے جو سامعین سمجھیں۔
اللہ تعالیٰ نے تمام رسولوں کو ان کی قوموں کی زبان میں بھیجا تاکہ وہ اللہ کا پیغام واضح طور پر پہنچا سکیں۔
خاص طور پر اس زمانے میں جب ہر قوم اپنی زبان سے جڑی ہوئی ہے، ترجمہ کی ضرورت اور اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔ داعی ترجمہ کے بغیر مؤثر دعوت نہیں دے سکتا۔”
(فتاوی اسلامیہ، اول ۲۴۵)
📌 خطیب کے علاوہ کسی اور کا جمعہ پڑھانا
فتویٰ (اللجنۃ الدائمۃ للافتاء والارشاد، سعودی عرب):
"سنت یہی ہے کہ خطبہ دینے والا ہی نماز جمعہ بھی پڑھائے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کا یہی معمول تھا۔
البتہ اگر کسی عذر کی بنا پر دوسرا شخص نماز پڑھا دے تو نماز درست ہو گی، لیکن بلاعذر ایسا کرنا خلاف سنت ہے۔”
(فتاوی اسلامیہ، اول ۱۳۵)
📌 جمعہ کی اذان
اذان کا مقام:
"جمعہ کے دن اذان منبر کے پاس ہونی چاہیے۔”
(المعجم الکبیر للطبرانی :۷/۶۴۱ ۔۷۴۱ ۔ حدیث :۶۴۶۶، رجالہ ثقات)
روایت سیدنا سائب بن یزید رضی اللہ عنہ:
"نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، سیدنا ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں اذان اس وقت ہوتی تھی جب امام منبر پر بیٹھتا۔
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں جب لوگ زیادہ ہو گئے تو بازار (زوراء) میں ایک اور اذان کا اضافہ کیا گیا۔”
(بخاری: الجمعۃ، باب: الأذان یوم الجمعۃ: ۲۱۹)
وضاحت:
مسجد نبوی میں دی جانے والی دوسری اذان سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا انتظامی فیصلہ تھا، شرعی حکم نہیں۔
یہ بدعت نہیں کیونکہ خلفائے راشدین کا عمل اور صحابہ کی خاموش تائید موجود تھی۔
آج مسجد کے اندر اذانوں کی کثرت یا خطبہ سے پہلے اضافی اذان درست نہیں۔