خطبہ جمعہ اور نماز جمعہ پر صحیح احادیث کا مجموعہ

تحریر : ابوعبدالرحمن شبیر بن نور حفظ اللہ

خطبہ جمعہ اور نماز:

خطبہ جمعہ ہمیشہ منبر پر ہونا چاہئے ۔

ابتداء میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کے تنے کے ساتھ ٹیک لگا کر خطبہ ارشاد فرماتے تھے ، بعد میں منبر بنوا لیا ۔ اُس وقت سے لے کر آج تک خطبہ جمعہ کے لئے منبر کا استعمال معمول اُمت بن چکا ہے ۔
عن ابن عمر رضي الله عنهما كان النبى صلی اللہ علیہ وسلم يخطب إلى جذع ، فلما اتخذ المنبر تحول إليه ، فحن الجذع ، فأتاه ، فمسح يده عليه» [صحيح البخارى كتاب المناقب باب علامات النبوة فى الاسلام ح 3390]
”حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کے خشک تنے کے پاس کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرماتے تھے ، پھر جب منبر بنوا لیا تو تشریف لے آئے ۔ یہ ماجرا دیکھ کر تنا رونے لگا ۔ چنانچہ آپ میلی ام صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لے آئے اور اپنا ہاتھ اُس پر پھیرا ۔“

منبر کم سے کم تین سیڑھیوں کا ہونا چاہئے:

و عن أنس ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يقوم يوم الجمعة فيسند ظهره إلى جذع منصوب فى المسجد ، فيخطب ، فجاء رومی ، فقال: الا نصنع لك شيئا تقعد وكانك قائم؟ فصنع له منبرا له درجتان ، ويقعد على الثالثة . فلما قعد نبي الله صلى الله عليه وسلم على المنبر خار الجذع خوار الثور حتى ارتج المسجد بخواره حزنا على رسول الله صلى الله عليه وسلم فنزل إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم من المنبر فالتزمه وهو يخور فلما التزمہ رسول الله صلى الله عليه وسلم سكت ثم قال: والذى نفسي بيده لو لم التزمه ما زال هكذا حتى تقوم الساعة حزنا على رسول الله صلى الله عليه وسلم» [صحيح ابن خزيمه باب ذكر العلة التى لها حن الجذع عند قيام النبى صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ على المنبر ح 1777 ۔ حديث صحيح هے ۔ و سنن الدارمى 19/1 باب ما أكرم النبى صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بحنين المنبر ح 42]
علامہ الالبانی نے اسے حسن قرار دیا ہے ۔
”حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں گڑے ہوئے ایک ستون کے ساتھ پشت لگا کر خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے ایک رومی آیا اس نے اجازت چاہی اور پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کوئی ایسی چیز بنا دیں کہ جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے بھی کھڑے محسوس ہوں؟ أس رومی نے منبر بنایا جس کی دو سیڑھیاں تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیسری پر بیٹھتے تھے ۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف فرما ہوئے تو اُس ستون سے اس طرح کی آواز نکلی جس طرح بیل آواز نکالتا ہے ۔ اُس کی آواز سے ساری مسجد گونج گئی اور یہ آواز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی کی وجہ سے تھی ۔ وہ ابھی تک آواز نکال رہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے نیچے تشریف لائے اور اُس کو اپنے بازوؤں میں لے لیا اور جو نہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بازوؤں میں لیا وہ خاموش ہو گیا ۔ اس موقع پر آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اُس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر میں اس کو بازوؤں میں نہ لیتا تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی کے صدمہ سے قیامت تک اسی طرح آواز نکالتا رہتا ۔“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منبر لکڑی کا تھا ، تین سیڑھیوں والا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہونے کے بعد تیسری سیڑھی پر بیٹھ جاتے ۔ اسے ذرا دیوار سے ہٹا کر رکھا گیا تھا ۔
جانب قبلہ دیوار اور منبر کے درمیان اتنا فاصلہ تھا کہ بکری آرام سے گزر سکتی تھی ۔ حضرت سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
كان بين منبر رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم وبين الحائط كقدر ممر الشاۃ» [سنن ابي داود كتاب الصلاة باب موضع المنبر ج 1082 حدیث صحیح ہے .]
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر اور دیوار کے درمیان اتنی جگہ تھی کہ بکری گزر سکے ۔“

امام جب مسجد میں داخل ہو تو منبر پر چڑھنے کے بعد حاضرین کو سلام کے:

عن جابر بن عبد الله أن النبى صلی اللہ علیہ وسلم كان إذا صعد المنبر سلم» [سنن ابن ماجه كتاب اقامة الصلاة باب ما جاء فى الخطبة يوم الجمعة ح 1109 حدیث حسن ہے ۔ ]
”حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لاتے تو حاضرین کو سلام کہتے ۔ “

جب امام منبر پر بیٹھ جائے تو مؤذن کو جمعہ کی اذان پکارنی چاہئے اور یہ آذان امام کے سامنے اور مسجد کے دروازے پر ہونی چاہئے ۔

متعدد روایات سے یہ مسائل واضح ہو جاتے ہیں ۔ حضرت السائب بن یزید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:

كان النداء يوم الجمعة أوله إذا جلس الإمام على المنبر على عهد النبى صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وعمر رضي الله عنهما ………. الخ» [صحيح البخارى كتاب الجُمُعَة باب الأذان يوم الجمعة ح 870]
”جمعہ کے روز پہلی اذان اس وقت ہوتی تھی جب امام منبر پر بیٹھ جاتا تھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں یہی معمول رہا ۔“
دوسری روایت میں ہے:
كان يؤذن بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا جلس على المنبر يوم الجمعة على باب المسجد وأبي بكر وعمر . . . . . . . . . .» [سنن ابي داؤد كتاب الصلاة باب النداء يوم الجُمُعَة ح 1088]
”جمعہ کے روز جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر بیٹھ جاتے تو مسجد کے دروازے کے بالکل سامنے آذان دی جاتی ۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بھی یہی طریقہ رائج رہا ۔“

جونہی مؤذن اذان سے فارغ ہو امام کو کھڑے ہو کر خطبہ دینا چاہئے ۔

خطبہ جمعہ دو حصوں میں ہو ، درمیان میں امام خاموش ہو کر بیٹھ جائے ۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہا بیان کرتے ہیں کہ:
كان النبى صلى الله عليه وسلم يخطب خطبتين ، كان يجلس إذا صعد المنبر حتى يفرغ المؤذن ، ثم يقوم فيخطب ، ثم يجلس فلا يتكلم ، ثم يقوم فيخطب» [سنن ابي داؤد كتاب الصلاة باب الجلوس اذا صعد المنبر ح 1092]
علامہ الالبانی نے حدیث کو صحیح کہا ہے ، و مختصراً [صحيح بخاري ح 886/878 و مسلم ح 861]
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو خطبے ارشاد فرماتے تھے ۔ ہوتا یوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر چڑھ کر بیٹھ جاتے ، جب مؤذن فارغ ہو جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو جاتے ، پھر خطبہ ارشاد فرماتے ، پھر بیٹھ جاتے اور کوئی بات نہ کرتے پھر کھڑے ہو کر دوسرا خطبہ ارشاد فرماتے ۔“

خطبہ ہمیشہ کھڑے ہو کر ہی دینا چاہئے ، بیٹھ کر خطبہ دینا خلاف سنت ہے ۔

عن كعب بن عجرة أنه دخل المسجد وعبد الرحمن ابن أم الحكم يخطب قاعدا ، فقال: انظروا إلى هذا الخبيث يخطب قاعدا وقال الله تعالى ﴿وَاِذَا رَاَوْا تِجَارَةً اَوْ لَهْوَا انْفَضُّوْۤا اِلَیْهَا وَ تَرَكُوْكَ قَآىٕمًا﴾» [صحيح مسلم كتاب الجُمُعَة باب قوله تعالى: ﴿وَاِذَا رَاَوْا تِجَارَةً اَوْ لَهْوَا﴾ 864]
حضرت کعب بن عجزۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ مسجد میں داخل ہوئے اور عبد الرحمن بن ام الحکم بیٹھ کر خطبہ دے رہے تھے ۔ انہوں نے کہا: اس نالائق کو دیکھو بیٹھ کر خطبہ دے رہا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد یہ ہے ﴿وَاِذَا رَاَوْا تِجَارَةً اَوْ لَهْوَ انْفَضُّوْۤا اِلَیْهَا وَ تَرَكُوْكَ قَآىٕمًا﴾
[الجمعه: 1] ”اور جب وہ تجارت کا مال یا کھیل تماشہ دیکھ لیتے ہیں تو دوڑ کر وہاں جا پہنچتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھڑا چھوڑ جاتے ہیں ۔ “
دوسری روایت میں ہے: حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يخطب قائما ، ثم يجلس ، ثم يقوم فيخطب قائما ، فمن نبأك أنه كان يخطب جالسا فقد كذب ، فقد والله صليت معه أكثر من ألقي صلاة» [صحيح مسلم كتاب الجُمُعَة باب ذكر الخطبتين قبل الصلاة وما فيها من الجلسة ح 862]
”رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر ہی خطبہ دیتے تھے ، پھر بیٹھ جاتے ، دوبارہ کھڑے ہو کر خطبہ دیتے ۔ جس نے تم کو یہ بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر خطبہ دیتے تھے اُس نے جھوٹ کہا ۔ قسم بخدا میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی دو ہزار نماز پڑھی ہو گی ۔ “

امام کو لاٹھی یا کمان ہاتھ میں لے کر خطبہ دینا چاہئے ۔

حضرت الحکم بن حزن الکلفی ایک وفد کے ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تعلیم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں قیام کے حالات بیان کرتے ہوئے روایت کرتے ہیں کہ:
فأقمنا بها أياما شهدنا فيها الجمعة مع رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم فقام متوكنا على عصا أو قوس فحمد الله وأثنى عليه كلمات خفيفات طيبات مباركات . . .» [سنن ابي داؤد كتاب الصلاة باب الرجل يخطب على قوس حدیث حسن ہے ۔ ]
”پھر ہم مدینہ منورہ میں کئی دن ٹھہرے ۔ اس دران ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ جمعہ پڑھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لاٹھی یا کمان کا سہارا لے کر کھڑے ہوئے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہلکے پھلکے ، عمدہ اور بابرکت کلمات کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی حمد ثنا بیان فرمائی ۔ ۔ ۔ ۔“

خطبہ جمعہ کا انداز سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ڈرانے والا اور خبردار کرنے والا ہو ، نہ کہ خبریں پڑھنے ، کہانیاں سنانے یا راگ الاپنے والا ہو ۔

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
كان رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم إذا خطب احمرت عيناه وعلا صوته واشتد غضبه حتى كأنه منذر جيش . . . . . . .» [صحيح مسلم كتاب الجُمُعَة باب تخفيف الصلاة والخطبة 867 سنن النسائى كتاب العيدين باب كيف الخطبة ح 1577 بنحوه]
”رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ ارشاد فرماتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں سرخ ہو جاتیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز بلند ہو جاتی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ بڑھ جاتا گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی لشکر کو (برے حالات) سے ڈرا رہے ہوں ۔“

خطبہ کی ابتداء ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا سے ہونی چاہئیے ، شہادتِ توحید کا اعلان ہونا چاہئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی پر درود شریف بھی خطبہ کا ضروری جزو ہونا چاہئے ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم ماثور و منقول خطبات سے یہ بات اچھی طرح سمجھ آتی ہے ۔
حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ الحاجۃ ان الفاظ میں سکھایا:
الحمد لله نستعيته ونستغفره ، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا وسيئات أعمالنا ، من يهده الله فلا مضل له ، ومن يضلل فلا هادي له ، وأشهد أن لا إله إلا الله ، وأشهد أن محمدا عبده ورسوله . ثم يقرأ ثلاث آيات: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ﴾ [عمران: 102] ﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًاا﴾ [النساء: ١] ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا﴾ [الأحزاب: 70] » [سنن ابي داؤد كتاب النكاح باب فى خطبة النكاح ح 2118 و سنن النسائى كتاب العيدين باب كيف الخطبة ح 1577 حدیث صحیح ہے ۔ ]
تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں ، اس سے ہم مدد مانگتے ہیں اور اسی سے استغفار کرتے ہیں ، اپنے نفسوں اور اپنے برے اعمال کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آتے ہیں ۔ جسے اللہ تعالیٰ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور جسے وہ گمراہ کرے اُسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا ۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اُس کے رسول ہیں ۔ ۔ ۔ اس ابتدائیہ کے بعد آپ تین آیتوں کی تلاوت کیا کرتے تھے ۔ (1) ”اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو ! جس طرح اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کا حق ہے اسی طرح اللہ سے ڈرو اور تم کو حالتِ فرمانبرداری پر ہی موت آئے ۔“ [آل عمران: 102] (2) ”اے لوگو ! اپنے اس رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اسی سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سارے مرد و عورت دنیا میں پھیلا دئیے ۔ اُس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پر ہیز کرو ، یقین جانو اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے ۔“ [النساء: 1] (3) ”اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو ، اللہ سے ڈرتے رہو اور بات کرو سیدھی سیدھی ۔ “

آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ماثور خطبات کو سامنے رکھا جائے تو یہ بات بلا خوف تردید کی جا سکتی ہے کہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے خطبات انتہائی مختصر ہوتے تھے لیکن جامع اور مغز ۔ قصے کہانیاں سنانے کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عادت نہ تھی ۔

حضرت جابر بن سمرۃ السوائی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
كان رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم لا يطيل الموعظة يوم الجمعة ، إنما هن كلمات يسيرات» [سنن ابي داؤد كتاب الصلاة باب اقصار الخطب ح 107] سند حسن ہے ۔
”رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے روز وعظ کو لمبا نہیں کرتے تھے ، بس وہ ہلکے پھلکے چند کلمات ہوتے تھے ۔“
دوسری روایت میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
كنت أصلي مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فكانت صلاته قصدا وخطبته قصدا» [صحيح مسلم كتاب الجُمُعَة باب تخفيف الصلاة والخطبة ح 866]
میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نماز ادا کیا کرتا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز اور خطبہ دونوں ہی درمیانے ہوتے تھے ۔“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ ہمیشہ آیات قرآنی پر مشتمل ہوتا تھا ۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
كانت للنبي صلى الله عليه وسلم خطبتان ، يجلس بينهما ، يقرأ القرآن ويذكر الناس» [صحيح مسلم كتاب الجُمُعَة باب ذكر الخطبتين قبل الصلاة وما فيها من الجلسة ح 864 و سنن ابي داود كتاب الصلاة باب الخطبة قائما ح 1094]
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دو خطبے ارشاد فرماتے تھے ، ان دونوں کے درمیان میں بیٹھتے تھے اور قرآن پڑھ پڑھ کر لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتے تھے ۔ “
حضرت عمرہ بنت عبد الرحمن رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ:
أخذت ﴿ق ۚ وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ﴾ من فى رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الجمعة وهو يقرأ بها على المنبر فى كل جمعة» [صحيح مسلم كتاب الجُمُعَة باب تخفيف الصلاة والخطبة 872 و سنن ابي داود كتاب الصلاة باب الرجل يخطب على قوس ح 1100 تا 1103]
”میں نے سورت ﴿ق ۚ وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ﴾ جمعہ کے روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے سن سن کر یاد کی ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر جمعہ کو منبر پر اس سورت کی تلاوت کیا کرتے تھے ۔ “

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جمعہ لمبی اور خطبہ مختصر ہوا کرتا تھا اور اسی بات کا امت کو حکم دیا ہے ۔

حضرت ابو وائل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
خطبنا عمار فأوجز وأبلغ فلما نزل قلنا: يا أبا اليقظان لقد أبلغت وأوجزت ، فلو كنت تنفست؟ فقال: إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إن طول صلاة الرجل وقصر خطبته مئنة من فقهه ، فأطيلوا الصلاة واقصروا الخطبة ، وإن من البيان سحرا» [صحيح مسلم كتاب الجُمُعَة باب تخفيف الصلاة والخطبة ح 869]
حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے ہمیں خطبہ دیا بہت مختصر مگر بہت بلیغ ۔ جب وہ نیچے اتر آئے تو ہم نے کہا: یا ابا الیقطان ! آپ نے بہت مختصر اور بہت بلیغ خطبہ دیا ہے اگر آپ تھوڑا لمبا کر لیتے تو کیا حرج تھا؟ آپ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”انسان کی لمبی نماز اور مختصر خطبہ اُس کے سمجھ دار ہونے کی نشانی ہے ، چنانچہ نماز لمبی پڑھا کرو اور خطبہ مختصر کیا کرو یقیناًً اچھی گفتگو جادو کا اثر رکھتی ہے ۔“
اس صحیح اور مستند حدیث کی روشنی میں ہمارے وہ علماء و خطباء غور فرمالیں جو دو گھنٹے کا خطبہ دیتے ہیں اور تین منٹ میں نماز پڑھا دیتے ہیں ۔ شاید عوام کی خطبہ جمعہ سے بے رغبتی کی ایک یہ بھی وجہ ہے ۔ سوچئے غور کیجئے ۔

اگر دورانِ خطبہ کسی قسم کا مسئلہ پیش آجاتا یا کوئی سوال کر دیتا یا کسی کام کے حکم کی ضرورت ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم حسب حال اُس کا حل کر دیتے ۔ مختلف واقعات ان امور کی نشاندہی کرتے ہیں ۔

◈ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
دخل رجل المسجد ورسول الله صلی اللہ علیہ وسلم لا يخطب يوم الجمعة ، فقال: أصليت؟ قال: لا ، قال: قم ، فصل الركعتين» [صحيح مسلم كتاب الجُمُعَة باب التحية والامام يخطب ح 875]
ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا اور ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے ۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: ”کیا تحیۃ المسجد پڑھی ہے؟ “ اس نے کہا: نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کھڑے ہو کر دو رکعت پڑھو ۔“

◈ بامر مجبوری یا قرین مصلحت منبر سے اترنے اور کسی سے بات کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ۔
حضرت ابو رفاعۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
انتهيت إلى النبى صلى الله عليه وسلم وهو يخطب ، قال فقلت: يا رسول الله رجل غريب ، جاء يسأل عن دينه ، لا يدري ما دينه . قال فأقبل على رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم وترك خطبته حتى انتهى إلى ، فأتي بكرسي ، حسبت قوائمه حديدا ، قال فقعد عليه رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ، وجعل يعلمني مما علمه الله ، ثم اتى خطبته فألم آخرها» [صحيح مسلم كتاب الجُمُعَة باب حديث التعليم فى الخطبة ح 876]
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب جا کر بیٹھ گیا ، میں نے عرض کیا: ”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ایک پردیسی آدمی دین کی معلومات لینے حاضر ہوا ہے اسے دینی احکام کی کوئی خبر نہیں ہے ۔“ حضرت ابو رفاعہ بیان کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ چھوڑ کر میرے پاس تشریف لائے اور میرے بالکل قریب ہو گئے ۔ ایک کرسی لائی گئی ، میرا خیال ہے کہ اُس کے پائے لوہے کے بنے ہوئے تھے ، آپ اس پر بیٹھ گئے اور اللہ تعالیٰ نے جن باتوں کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم عطا فرمایا ہے وہ مجھے سکھانے لگے ۔ فارغ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ کے لئے تشریف لے گئے اور اُسے آخر تک مکمل کیا ۔
مذکورہ بالا واقعہ کے علاوہ بھی ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے نیچے تشریف لائے ۔ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم فأقبل الحسن والحسين رضي الله عنهما عليهما قميصان أحمران ، يعثران ويقومان فنزل فأخذهما فصعد بهما المنبر ، ثم قال: صدق الله ﴿اِنَّمَا اَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ﴾ [التغابن: 15] رأيت هذين فلم أصبر ثم أخذ فی الخطبة» [سنن ابي داود كتاب الصلاة باب الامام يقطع الخطبة للأمر يحدث ج 1109]
علامہ الالبانی نے حدیث کو صحیح کہا ہے ۔
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں خطبہ دے رہے تھے ، اتنے میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ آگئے انہوں نے سرخ قمیضیں پہن رکھی تھیں ، گرتے پڑتے ہوئے آرہے تھے ۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے منبر سے اتر کر اُن کو اٹھا لیا ، پھر انہیں لے کر دوبارہ منبر پر چڑھ گئے ، اس موقع پر فرمایا: اللہ تعالیٰ نے سچ ہی کہا ہے ﴿اِنَّمَا اَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ﴾ [التغابن: 15] ”تمہارے مال اور تمہاری اولاد ایک آزمائش ہے ۔“ میں نے انہیں دیکھا تو صبر نہ کر سکا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ خطبہ شروع کر دیا ۔“

◈ حضرت عبد اللہ بن بسر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
جاء رجل يتخطى رقاب الناس يوم الجمعة والنبي صلی اللہ علیہ وسلم يخطب ، فقال له النبى صلی اللہ علیہ وسلم: اجلس ، فقد آذيت» [سنن ابي دواد كتاب الجُمُعَة باب الهيئة و تخطى الرقاب ح 1118 و سنن النسائى كتاب الجُمُعَة باب النهي عن تخطى رقاب الناس والامام على المنبر يوم الجُمُعَة ح 1398 سند حسن ہے ۔ ]
”جمعہ کے روز ایک آدمی لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا آیا اور ادھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے ۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس سے کہا: بیٹھ جاؤ تم نے لوگوں کو پریشان کر دیا ہے ۔“

◈ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
أن رجلا دخل المسجد يوم جمعة من باب كان نحو دار القضاء و رسول الله صلى الله عليه وسلم قائم يخطب ، فاستقبل رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ، قائما ، ثم قال: يا رسول الله ! هلكت الأموال وانقطعت السبل ، فادع الله يغثنا . قال: فرفع رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم يديه ، ثم قال: اللهم أغثنا ، اللهم أغثنا ، اللهم أغثنا ! قال أنس ولا والله ! مانرى فى السماء من سحاب ولا قزعة ، وما بيننا وبين سلع من بيت ولا دار ، قال: فطلعت من ورائه سحابة مثل الترس ، فلما توسطت السماء انتشرت ثم أمطرت قال: فلا والله ! ما رأينا الشمس سبتا . قال: ثم دخل رجل من ذلك الباب فى الجمعة المقبلة و رسول الله صلى الله عليه وسلم قائم يحطب ، فاستقبله قائما ، فقال: يا رسول الله ! هلكت الأموال وانقطعت السبل ، فادع الله يمسكها عنا قال: فرفع رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم يديه ، ثم قال: اللهم حولنا ولا علينا اللهم على الآكام والظراب ، وبطون الأودية ، ومنابت الشجر فانقلعت ، وخرجنا تمشي فى الشمس قال شريك فسألت أنس بن مالك: أهو الرجل الأول؟ قال ، لا أدري» [صحيح مسلم كتاب صلاة الاستسقاء باب الدعاء فى الاستسقاء 897]
یہ الفاظ صحیح مسلم کے ہیں البتہ حدیث اکثر کتب حدیث میں موجود ہے ۔
ایک آدمی جمعہ کے روز دار القضاء والے دروازے سے مسجد میں داخل ہوا اُس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے خطبہ دے رہے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالکل سامنے کھڑا ہو کر عرض کرنے لگا: ”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مال مویشی ہلاک ہو گئے ، راستے بند ہو گئے ، اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ ہم پر رحمت کرے یعنی بارش نازل فرمائے ۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت دُعا کے لئے ہاتھ اٹھا دئیے اور اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کیا: ”اے اللہ ہم پر بارش نازل فرما اے اللہ ہم پر بارش نازل فرما اے اللہ ہم پر بارش نازل فرما ۔ “
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: قسم بخدا آسمان پر نہ بادل تھے اور نہ کوئی بادل کی ٹکڑی ، ہمارے اور سلع نامی پہاڑ کے درمیان گھر نہیں تھے ۔ یکایک سلع پہاڑ کے پیچھے سے ڈھال کی طرح کا سیاہ بادل نمودار ہوا جب درمیان آسمان میں پہنچا تو پھیل گیا ، پھر بارش شروع ہو گئی ۔ پھر کہا: قسم بخدا ! ہفتہ بھر ہم نے سورج نہیں دیکھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگلے جمعہ اسی دروازے سے ایک آدمی داخل ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے ، وہ آپ کے سامنے کھڑا ہو کر کہنے لگا: ”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مال مویشی ہلاک ہو گئے راستے بند ہو گئے ، آپ اللہ تعالیٰ سے دُعا کریں کہ بارش کو ہم سے روک دے ۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت دُعا کے لئے ہاتھ اٹھا دئیے اور عرض کیا: ”اے اللہ ! ہم پر نہیں بلکہ ہمارے ارد گرد برسا دیں ، پہاڑوں پر ندیوں پر وادیوں اور درختوں کے اُگنے کی جگہ پر یعنی جنگلات پر یہ بارش برسا دیں ۔ “ دعا کے ساتھ ہی بارش تھم گئی اور ہم دھوپ میں چلتے ہوئے پہنچے ۔ جناب شریک بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا: کیا یہ پہلے والا آدمی تھا؟ انہوں نے کہا: مجھے خبر نہیں ۔“

◈ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
لما استوى رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الجمعة قال: اجلسوا فسمع ذلك ابن مسعود ، فجلس على باب المسجد ، فرآه رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ، فقال: تعال يا عبد الله بن مسعود» [سنن ابي داود كتاب الصلاة باب الامام يكلم الرجل فى خطبته ح 1091]
علامہ الالبانی نے حدیث کو صحیح کہا ہے ۔
”جمعہ کے روز جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہنچے تو فرمایا: بیٹھ جاؤ ! یہ حکم حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بھی سنا تو مسجد کے دروازے پر ہی بیٹھ گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھ لیا تو فرمایا: عبد اللہ آگے آجاؤ ۔ “

دوران خطبہ لوگوں کو سمجھانے یا متوجہ کرنے کے لئے انگلی کا اشارہ کرنا صحیح ہے البتہ دونوں ہاتھوں کو استعمال کرنا سنت سے ثابت نہیں بلکہ ناپسندیدہ ہے ۔

حضرت عمارہ بن رویبہ رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ بشر بن مروان منبر پر دونوں ہاتھوں کو اٹھائے اشارہ کر رہا ہے ۔ اس موقع پر انہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ ان دونوں ہاتھوں کا ستیا ناس کرے ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ صرف شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا کرتے تھے ، اس سے زیادہ نہیں ۔ “ [صحيح مسلم كتاب الجمعة ح 874]

خطبہ مکمل کرنے کے بعد منبر سے اتر کر نماز سے پہلے حسب ضرورت کسی سے گفتگو کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ خود بیان کرتے ہیں کہ:
لقد رأيت النبى صلى الله عليه وسلم بعد ما تقام الصلاة يكلمه الرجل يقوم بينه وبين القبلة ، فما يزال يكلمه ، فلقد رأيت بعضنا ينعس من طول قيام النبى صلی اللہ علیہ وسلم له» [سنن الترمذي ابواب الصلاة باب ما جاء فى الكلام بعد نزول الامام من المنبر ح 518]
امام ترمذی نے کہا ہے حدیث حسن صحیح ہے ۔
”نماز کھڑی ہونے کے بعد میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ایک آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات شروع کرتا ہے اور وہ قبلہ کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑا ہے ، وہ مسلسل بات کئے جا رہا ہے ۔ اس بات کرنے والے آدمی کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لمبے قیام کی وجہ سے میں نے بعض ساتھیوں کو دیکھا کہ انہیں اُونگھ آنی شروع ہو گئی ۔ “

خطیب کو اہل ایمان کے حق میں دورانِ خطبہ دُعا کرنی چاہئے ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر اوقات دورانِ خطبہ اہل ایمان (مرد ، عورت) کے لئے دعا فرمایا کرتے تھے ۔ حضرت عقبہ بن عامر الجھنی رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ بیان کیا ۔ آخری الفاظ یوں ہیں:
ومن يعص الله يعذبه اللهم اغفرلي ولامتي اللهم اغفرلي ولامتى استغفر الله لي ولكم» [دلائل النبوة البيهقي و تاريخ ابن عساكر بحواله عقبه بن عامر كتاب الابانة تاليف ابو النصر الشجرى بحواله ابو الدرداء مصنف ابن ابي شيبه والحلية لابى نعيم بحواله عبد الله بن مسعود رضي الله عنهم ، سند حسن ہے ۔ نقلا خطب مختاره ص 29 طبع 1407ھ]
اور جو اللہ کی نافرمانی کرے گا وہ خود ہی اُسے سزا دے گا اے اللہ میری اور میری اُمت کی مغفرت فرما ۔ اے اللہ ! میری اور میری امت کی مغفرت فرما ۔ پھر فرمایا: ”میں اپنے لئے اور تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور مغفرت کی درخواست کرتا ہوں ۔“

اگر کبھی ضرورت پڑے تو صدقہ خیرات کی اپیل کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ۔

حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
جاء رجل يوم الجمعة والنبی صلی اللہ علیہ وسلم يخطب بهيئة بذة ، فقال له رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم: أصليت؟ قال: لا . قال: صل ركعتين وحث الناس على الصدقة ، فألقوا ثيابا فأعطاه منها ثوبين . فلما كانت الجمعة الثانية جاء ورسول الله صلی اللہ علیہ وسلم يخطب ، فحث الناس على الصدقة ، قال: فألقى أحد ثوبيه . فقال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم: جاء هذا يوم الجمعة بهيئة بذة . فأمرت الناس بالصدقة ، فألقوا ثيابا ، فأمرت له منها بثوبين ، ثم جاء الآن ، فأمرت الناس بالصدقة ، فألقى أحدهما فانتهره وقال: خذ ثوبك» [سنن النسائى كتاب الجُمُعَة باب حث الامام على الصدقة يوم الجُمُعَة فى خطبته ج 1407 والمستدرك للحاكم 285/1 حدیث حسن ہے ۔ ]
ایک آدمی جمعہ کے روز آیا جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے ، اُس کی حالت بہت دگرگوں تھی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: ”نماز پڑھی ہے؟ “ اس نے کہا: نہیں ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو رکعتیں پڑھ لو ۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو صدقہ کی تلقین کی ، لوگوں نے کپڑے پیش کئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے دو کپڑے دے دئیے ۔ پھر جب دوسرا جمعہ آیا تو بھی وہ اس وقت پہنچا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو صدقہ کی تلقین کی تو اُس نے بھی اپنا ایک کپڑا پیش کر دیا ۔ اس موقع پر آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ آدمی پچھلے جمعہ پر اگندہ حالت میں آیا تھا تو میں نے لوگوں کو صدقہ کرنے کو کہا: ، انہوں نے کپڑے پیش کئے ۔ میں نے اس کے لئے دو کپڑوں کا حکم دیا ۔ اب پھر آیا ہے تو میں نے لوگوں کو صدقہ کا حکم دیا تو اس نے ان دو کپڑوں میں سے ایک کپڑا واپس دے دیا ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کو سمجھایا اور فرمایا: ”اپنا کپڑا لے لو ۔“

خطبہ جمعہ کے فورا بعد امام منبر سے نیچے آجائے اور مؤزن تکبیر کہہ دے ۔

حضرت السائب بن یزید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
كان بلال يؤذه إذا جلس رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم على المنبر يوم الجمعة ، فإذا نزل أقام ، ثم كان كذلك فى زمن أبى بكر وعمر رضي الله عنهما» [سنن النسائى كتاب الجُمُعَة باب الاذان للجُمعة ح 1393]
علامہ ناصر الدین الالبانی نے حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ۔ ملاحظہ ہو [صحيح سنن النسائي ح 1321]
جمعہ کے روز جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لے آتے تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان کہتے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اترتے تو اقامت کہتے اور پھر یہی سلسلہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر بن رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بھی چلتا رہا ۔“

امام کو ہر نماز میں صفوں کو سیدھا کرنے کی تاکید کرنی چائے اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تعلیم کا معمول تھا ۔

حضرت النعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
أقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم على الناس بوجهه ، فقال: أقيموا صفوفكم ثلاثا والله لتقيمن صفوفكم أو ليخالفن الله بين قلو بكم . قال فرأيت الرجل يلزق منكبه بمنكب صاحبه وركبته بركبة صاحبه وكعبه بكعبه» [سنن ابي داود كتاب الصلاة باب تسوية الصفوف ح 262 663 اس معنى کی حدیث صحيح البخاري 685 و صحيح مسلم 436 میں بہی موجود ہے۔ ]
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی طرف رخ انور پھیرتے ہوئے فرمایا: ”اپنی صفیں سیدھی کر لو ۔“ یہ بات آپ نے تین مرتبہ دہرائی ، پھر فرمایا: ”قسم بخدا تم اپنی صفیں سیدھی رکھو ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے دل بھی ٹیڑھے کر دے گا ۔“ راوی بیان کرتا ہے کہ میں نے دیکھا ہر آدمی اپنے ساتھی کے کندھے سے کندھا جوڑ رہا تھا اور گھٹنے سے گھٹنا اور ٹخنے سے ٹخنا؟ “
اس موضوع پر متعدد روایات صحاح ستہ اور مسند احمد میں دیکھی جا سکتی ہیں ۔

امام جمعہ کی دو رکعت نماز پڑھائے گا اور یہی شریعت محمدی ہے ۔

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
صلاة الأصحى ركعتان ، وصلاة الفطر ركعتان ، وصلاة المسافر ركعتان ، وصلاة الجمعة ركعتان ، تمام غير قصر على لسان النبى صلى الله عليه وسلم» [سنن النسائى كتاب الجُمُعَة باب عدد صلاة الجمعة ح 1419 و سنن ابن ماجة كتاب اقامة الصلاة باب تقصير الصلاة فى السفر ح 1063 و 1064]
علامہ الالبانی نے حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ۔
”چاشت کی نماز دو رکعت ہے ۔ عید الفطر کی نماز دو رکعت ہے ۔ مسافر کی نماز دو رکعت ہے اور جمعہ کی نماز دو رکعت ہے ۔ یہ مکمل نماز ہے ، اس میں کوئی کمی نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یونہی فرمایا ہے ۔“

امام جمعہ کی نماز میں پہلی رکعت میں سورت الجمعہ اور دوسری رکعت میں سورت المنافقون کی تلاوت کرے ۔

حضرت عبید اللہ بن ابی رافع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
استخلف مروات أبا هريرة على المدينة ، وخرج إلى مكة ، فصلى لنا أبو هريرة الجمعة ، فقرأ بعد سورة الجمعة فى الركعة الآخرة إذا جاءك المنافقون ، قال: فأدركت أبا هريرة حين انصرف ، فقلت له: إنك قرأت بسورتين كان على بن أبى طالب يقرأ بهما بالكوفة . فقال أبو هريرة: إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرأ بهما يوم الجمعة» [صحيح مسلم كتاب الجُمُعَة باب ما يقرء فى صلاة الجُمُعَة ح 877]
جناب مروان نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو مدینہ منورہ کا گورنر مقرر کیا اور خود مکہ مکرمہ چلا گیا ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے ہمیں نماز جمعہ پڑھائی ۔ آپ نے سورت الجمعہ کے بعد دوسری رکعت میں سورت المنافقون کی تلاوت کی ۔
راوی بیان کرتا ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ جب نماز پڑھا کر پلٹے تو میں پیچھے سے پہنچ گیا ، میں نے عرض کیا: جو دو سورتیں آج آپ نے پڑھی ہیں یہی دو سورتیں حضرت علی بن ابی طالب بھی کوفہ میں پڑھا کرتے تھے ۔ تب حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جمعہ کے روز ان سورتوں کو پڑھتے سنا ہے ۔
نماز جمعہ کی پہلی رکعت میں سورت الاعلیٰ اور دوسری رکعت میں سورت الغاشیہ کی تلاوت بھی سنت سے ثابت ہے ۔ حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
أن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم كان يقرأ فى صلاة الجمعة ﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى ، هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ﴾» [سنن ابي داود كتاب الصلاة باب ما يقرء فى الجُمُعَة ح 1125 و سنن النسائى كتاب الجمعة باب القرائة فى صلاة الجمعة ۔ ۔ ۔ الخ حدیث صحیح ہے۔ ]
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز جمعہ میں ﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى ، هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ﴾ کی قرأت فرمایا کرتے تھے ۔“
سورت الجمعہ کے بعد دوسری رکعت میں سورت المنافقون کے بجائے سورت الغاشیہ کی قراءت بھی ثابت ہے ۔ الضحاک بن قیس نے حضرت النعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کو خط لکھ کر دریافت کیا:
أي شيء قرأ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم يوم الجمعة سوى سورة الجمعة فقال: كان يقرأ ﴿هَلْ أَتَاكَ﴾» [صحيح مسلم كتاب الجُمُعَة باب ما يقرء فى صلاة الجُمُعَة ح 878 و سنن ابي داود كتاب الصلاة باب ما يقرء فى الجُمُعَة ح 1123 ملتے جلتے الفاظ
کے ساتھ ۔]

”جمعہ کے روز سورت الجمعہ کے علاوہ کیا چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرأت کیا کرتے تھے؟ حضرت النعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے جواب میں بتایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم سورت الغاشیہ کی قرأت فرمایا کرتے تھے ۔“

آخری منزل:

ممنوعات یوم الجمعہ

شریعت نے اہلِ ایمان کو جمعہ کے روز متعدد کاموں سے روکا ہے جن کی تفصیل کچھ یوں ہے:

صرف جمعہ کے دن کا روزہ رکھنا منع ہے ۔

اس کی دلیل مند دجہ ذیل حدیث ہے:
عن محمد ابن عباد قال: سألت جابر بن عبد الله رضي الله عنهما وهو يطوف بالبيت ، أنهى رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم عن صيام يوم الجمعة؟ فقال: نعم ورب هذا البيت» [صحيح مسلم كتاب الصيام باب كراهية صيام الجُمُعَة منفردا ح 1143]
”حضرت محمد بن عباد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیت اللہ شریف کا طواف کر رہے تھے ۔ اس موقع پر میں نے پوچھا کیا واقعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن روزہ رکھنے سے منع کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا: اس گھر کے رب کی قسم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واقعی منع فرمایا ہے ۔“
ہاں ! البتہ اگر کوئی جمعہ کے ساتھ جمعرات یا ہفتہ کے دن کا روزہ رکھے تو کوئی حرج نہیں ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا يصم أحدكم يوم الجمعة إلا أن يصوم قبله أو يصوم بعده» [صحيح البخارى كتاب الصوم باب صوم يوم الجُمُعَة ح 1884 و صحيح مسلم كتاب الصيام باب كراهية صيام يوم الجمعة منفردا 1144]
”تم میں سے کوئی صرف جمعہ کے دن کا روزہ نہ رکھے ، الا یہ کہ اُس سے پہلے (جمعرات) یا اُس کے بعد (ہفتہ) کا روزہ رکھے ۔“
اگر کسی کا روزہ کسی مقررہ تاریخ کا تھا اور اُس دن جمعہ ہو تو کوئی حرج نہیں ۔ مثلاًً یوم عرفہ یعنی 9 ذی الحجہ کا روزہ جمعہ کے دن ہو ۔ اس ضمن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
. . . . . . ولا تخصوا يوم الجمعة بصيام من بين الأيام ، إلا أن يكون فى صوم يصومه أحدكم» [صحيح مسلم كتاب الصوم باب كراهية صيام يوم الجُمُعَة منفردا ح 1144]
”عام دنوں میں سے جمعہ کے دن کو روزے کے لئے مخصوص نہ کرو الا یہ کہ تمہارے کسی مخصوص روزے کے دن جمعہ آ جائے ۔“
اگر صرف جمعہ کے دن ہی روزہ رکھنے کا خیال ہو تو روزہ رکھنے کے بعد بھی توڑ دینا چاہئے ۔
عن جويرية رضي الله عنها أن النبى صلی اللہ علیہ وسلم دخل عليها يوم الجمعة وهى صائمة ، فقال: أصمت أمس؟ قالت: لا . قال: تريدين أن تصومي غدا؟ قالت: لا . قال: فأفطري» [صحيح البخاري كتاب الصوم باب صوم يوم الجُمُعَة ح 1885 و مسند 324/6]
”ام المؤمنین حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے روز ان کے پاس تشریف لائے اور وہ روزے سے تھیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: کیا کل روزہ رکھا تھا؟ انہوں نے کہا: نہیں ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: آنے والے کل کو روزہ رکھو گی؟ انہوں نے کہا: نہیں ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تب تم روزہ کھول دو ۔“

صرف جمعہ کی رات (جمعہ سے پہلے آنے والی رات) نوافل وغیرہ کا اہتمام کرنا بھی شرعاًً منع ہے ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لا تختصوا ليلة الجمعة بقيام من بين الليالي . . .» [صحيح مسلم كتاب الصيام باب كراهة صيام يوم الجُمُعَة منفردة ح 1144]
”عام راتوں میں سے جمعہ کی رات کو نوافل وغیرہ کے اہتمام کے لئے خاص نہ کرو ۔“

جمعہ کی دوسری اذان کے ساتھ ہی لین دین اور خرید و فروخت ہر اُس آدمی کے لئے حرام ہو جاتا ہے جس پر جمعہ فرض ہو ۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ . . .﴾» [الجمعه: 9]
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! جب پکارا جائے نماز کے لئے جمعہ کے دن توا للہ کے ذکر کی طرف لپکو اور خرید و فروخت چھوڑ دو ۔ ۔ ۔“
اور اگر دنیوی معاملات کی مصروفیات انسان کو بالکل ہی نماز جمعہ سے غافل کر دیں تو معاملہ ممنوعات و مکروہات سے آگے بڑھ کر و بالِ ایمان بن جاتا ہے اور دنیا کے یہ چار دھیلے نفاق کے بیچ بن کر انسان کو نعمت ایمان سے محروم کر دیتے ہیں ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ألا ! هل عسى أحدكم أن يتخذ الصبة من الغنم على رأس ميل أو ميلين ، فيتعذر عليه الكللأ فيرتفع ، ثم تجيء الجمعة فلا يجيء ولا يشهدها ، وتجيء الجمعة فلا يشهدها ، وتجيء الجمعة فلا يشهدها ، حتى يطبع على قلبه» [سنن ابن ماجة كتاب اقامة الصلاة باب فيمن ترك الجُمْعَة من غير عذر ح 1127]
اس سے ملتے جلتے الفاظ کے ساتھ مسند احمد 434/5 اور مسند ابی یعلی 140/4 ح 2198 میں حدیث موجود ہے ۔
تینوں حدیثیں کسی نہ کسی درجے میں ضعیف ہیں لیکن مل کر حسن کے درجے تک پہنچ جاتی ہیں اس لئے علامہ ناصر الدین الالبانی نے اسے تحقیق ابن ماجہ میں حسن کہا ہے ۔
”توجہ سے سن لو ! کہیں ایسا نہ ہو کہ تم میں سے کوئی شہر سے ایک یا دو میل کے فاصلے پر بکریوں کا ریوڑ پال لے ، پھر اُسے چرانے کے لئے گھاس کی مجبوری بنے تو وہ اور دور نکل جائے ۔ جب جمعہ آئے تو وہ شہر ہی نہ آ سکے اور نہ ہی جمعہ پر پہنچے پھر دوسرا جمعہ آجائے تب بھی جمعہ پر حاضر نہ ہو ، اور تیسرا جمعہ آجائے تو بھی جمعہ پر نہ پہنچ پائے ۔ بالآخر اس کے دل پر نفاق کی مہر لگا دی جائے گی ۔“
ہم ایسے دن سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں اور صراط مستقیم پر استقامت اور توفیق کے درخواست گزار ہیں ۔

نمازیوں کی گردنیں پھلانگ کر آگے جانا منع ہے ۔

خطبہ شروع ہونے سے پہلے بھی اس طرح کرنا دوسروں کے لئے ایذا رسانی کا موجب ہے اور اُن کے ذکر و عبادت میں مداخلت کے مترادف ہے اور خطبہ شروع ہو جانے کے بعد تو یہ انتہائی تکلیف دہ کام ہے ۔ اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بڑی شدت اور سختی سے منع فرمایا تھا ۔ حضرت عبد اللہ بن بسر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے روز خطبہ ارشاد فرما رہے تھے اور ایک آدمی لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا آرہا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو مخاطب کر کے فرمایا:
اجلس فقد آذيت» [مسند احمد 190/4 و سنن ابي داود كتاب الصلاة باب تخطى رقاب الناس يوم الجُمُعَة ح 1118]
علامہ الالبانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
”بیٹھ جاؤ تم نے دوسروں کو پریشان کر دیا ہے ۔ “
ایک دوسرے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اُس کے حصے کا اجر ضائع ہو گیا بس اُسے نماز ظہر کا ثواب ملے گا ۔ فرمایا:
من لغا وتخطى رقاب الناس كانت له ظهرا» [سنن ابي داود كتاب الطهارة باب فى الغسل يوم الجُمُعَة ح 347]
علامہ الالبانی نے حسن قرار دیا ہے ۔
”جس نے فضول بات کی اور لوگوں کی گردنیں پھلانگیں اُس کا جمعہ ظہر ہو گیا ۔“ (یعنی اسے صرف نماز ظہر کا ثواب ملے گا ۔ )

مسجد میں پہنچ کر جہاں جگہ ملے بیٹھ جاؤ خواہ مخواہ دو آدمیوں کے درمیان پھنس جانا اور ان دونوں کو اپنی جگہ چھوڑ دینے یا سرک جانے پر مجبور کرنا بھی منع ہے ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
من اغتسل يوم الجمعة وتطهر بما استطاع من طهر ، ثم ادهن ، أو مس من طيب ، ثم راح ، فلم يفرق بين اثنين ، فصلى ما كتب له ، ثم إذا خرج الإمام أنصت غفر له ما بينه وبين الجمعة الأخرى» [صحيح البخارى كتاب الجُمُعَة باب لا يفرق بين اثنين يوم الجمعة ح 90]
”جس نے جمعہ کے دن غسل کیا اور جس قدر ممکن ہو پاک صاف ہوا ، پھر تیل لگایا یا خوشبو استعمال کی ، پھر نماز جمعہ کے لئے نکلا دو آدمیوں کے درمیان زبردستی نہیں گھسا جو ممکن ہو نماز ادا کی ، جب امام آیا تو خاموشی اختیار کی تو آج کے دن سے لے کر اگلے جمعہ تک کے لئے اس کی مغفرت ہو گئی ۔ “

کسی کو اُس کی جگہ سے اُٹھا کر خود بیٹھنا سخت منع ہے کیونکہ مسجد اللہ کا گھر اللہ کی عبادت کے لئے ہوتا ہے ، جو پہلے آئے گا اپنی جگہ پائے گا کسی کی اجارہ داری نہیں چل سکتی ۔

حضرت عبد اللہ بن عمر ا رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
لا يقيم الرجل الرجل من مقعده ثم يجلس فيه ، ولكن تفسحوا وتوسعوا » [صحيح مسلم كتاب السلام باب تحريم اقامة الانسان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الخ ح 2177 ]
”کوئی آدمی دوسرے کو اُس کی جگہ سے اُٹھا کر خود نہ بیٹھ جائے ، البتہ دوسروں کے لئے جگہ بناؤ اور کھلے ہو کر بیٹھو ۔“
دوسری حدیث میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لا يقيمن أحدكم أخاه يوم الجمعة ثم ليخالف إلى مقعده فيقعد فيه ، ولكن يقول : افسحوا » [صحيح مسلم حواله سابقه ح 2178 ]
”تم میں سے کوئی ہرگز اپنے بھائی کو جمعہ کے روز نہ اُٹھائے تاکہ وہ خود جا کر اُس کی جگہ پر بیٹھ جائے ، البتہ کہے جگہ کھلی کرو ۔“
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا معمول تھا کہ اگر کوئی ان کے لئے جگہ خالی کرتا تو وہ اُس جگہ قطعا نہ بیٹھتے ۔ [صحيح مسلم ، حواله سابقه ]

نماز جمعہ سے پہلے تعلیم یا ذکر کے لئے علیحدہ علیحدہ حلقے بنا کر بیٹھنا بھی منع ہے

کیونکہ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا :
◈ مسجد میں خرید و فروخت کرنے سے ۔
◈ مسجد میں گم شدہ چیزوں کا اعلان کرنے سے ۔
◈ مسجد میں شعر گوئی سے ۔
◈ جمعہ کے دن نماز سے پہلے حلقے بنا کر بیٹھنے سے ۔ [سنن ابي داود كتاب الصلاة باب التحلق يوم الجمعة قبل الصلاة ح 1079 سند حسن ہے ۔ وسنن النسائى كتاب المساجد باب نمبر 22 النهى عن البيع والشراء فى المسجد و عن التحلق قبل صلاة الجمعة ]

جب خطیب جمعہ کے روز منبر پر چڑھ جائے تو ہر طرح کا کام گفتگو اور ہاتھوں یا کپڑوں سے کھیلنا منع ہے ، بلکہ یہ سارے کے سارے اجر کو ضائع کر دیتا ہے ۔

حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
يحضر الجمعة ثلاثة نفر : رجل حضرها يلغو ، وهو حظه منها ، ورجل حضرها يدعو ، فهو رجل دعا الله عز وجل ، إن شاء أعطاه وإن شاء منعه ، ورجل حضرها بانصات وسكوت ، ولم يتخط رقبة مسلم ، ولم يوذ أحدا ، فهي كفارة إلى الجمعة التى تليها وزيادة ثلاثة أيام ، وذلك بأن الله عز وجل يقول :
﴿مَن جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا﴾ »
[الأنعام : 160 ]
[سنن ابي داود كتاب الصلاة باب الكلام و الامام يخطب ح 1113 و صحيح ابن خزيمة كتاب الجُمُعَة باب طبقات من يحضر الجمعة ح 18 13]
علامہ الالبانی نے حدیث کو حسن قرار دیا ہے ۔
”نماز جمعہ پر تین قسم کے آدمی آتے ہیں : ایک آدمی آکر فضول حرکت کرتا ہے ، بس یہی اُس کا نصیب تھا ۔ ایک آدمی آکر دعا کرتا ہے ، اس آدمی نے اللہ
تعالیٰ سے دعا کی ، اگر وہ چاہے گا تو اسے دے دے گا اور اگر چاہے گا تو محروم رکھے گا ۔ اور تیسرا آدمی سکون و خاموشی کے ساتھ آیا کسی مسلمان کی گردن بھی نہیں پھلانگی اور نہ ہی کسی کو تکلیف دی ۔ اس کا یہ عمل اس جمعہ سے لے کر اگلے جمعہ تک اور تین دن زیادہ اس کے لئے کفارہ بن جائے گا یہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : جو آدمی نیکی لے کر آیا اُس کو دس گنا اجر ملے گا ۔ [الانعام : 160 ]
خود بولنا تو غلط بات ہے ہی ، اگر کوئی غلطی سے بول رہا ہو تو اُسے خاموشی کا کہنا بھی غلط ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
إذا قلت لصاحبك يوم الجمعة أنصت والإمام يخطب فقد لغوت » [صحيح البخارى كتاب الجمعة باب الانصات والامام يخطب ح 892 و صحيح مسلم كتاب الجمعة باب فى الانصات يوم الجُمُعَة فى الخطبة ح 851 ]
”جمعہ کے دن دورانِ خطبہ اگر تم نے ساتھ والے سے اتنا بھی کہا کہ خاموش رہو تب بھی تم نے فضول بات کی ۔“
عہد رسالت کا ایک خوبصورت واقعہ اس حقیقت کی صحیح ترجمانی کرتا ہے ۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جمعہ کے روز میں مسجد میں داخل ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے ۔ میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے قریب بیٹھ گیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورت براءۃ کی تلاوت کی ۔ میں نے حضرت ابی سے دریافت کرنا چاہا کہ یہ سورت کب نازل ہوئی تھی تو انہوں نے مجھے گھور کے دیکھا اور کوئی جواب نہیں دیا ۔ تھوڑی دیر بعد میں نے اپنا سوال پھر دہرایا ، انہوں نے مجھے گھور کے دیکھا اور کوئی جواب نہ دیا ۔ میں نے تھوڑی دیر انتظار کیا پھر تیسری مرتبہ اپنا سوال دہرایا انہوں نے مجھے پھر گھور کے دیکھا اور کوئی جواب نہ دیا ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہو گئے تو میں نے حضرت ابی سے کہا : میں نے تم سے ایک بات دریافت کی تھی ، تم نے جواب بھی نہیں دیا اور مجھے گھورتے بھی رہے ۔ حضرت ابی نے فرمایا : تجھے نماز میں سے فضول حرکت کے علاوہ کچھ نہیں ملا ۔ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں حضرت ابی کے پاس بیٹھا ہوا تھا اور آپ نے سورت براءۃ کی تلاوت فرمائی ، میں نے اُس سے پوچھا کہ یہ سورت کب نازل ہوئی تو اُس نے مجھے گھور کے دیکھنا شروع کیا اور کوئی جواب بھی نہ دیا ۔ بعد میں حضرت ابی نے کہا : تجھے تیری نماز سے فضول حرکت کے علاوہ کچھ نہیں ملا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واقعہ سننے کے بعد فرمایا : ”ابی نے سچ کہا ہے ۔“ [صحيح ابن خزيمه كتاب الجُمُعَة ح 1807 ]
علامہ الالبانی نے حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ۔
جسم ، لباس یا مسجد میں بچھی ہوئی صف یا قالین سے کھیلنا بھی منع ہے کیونکہ مقصود یہ ہے کہ انسان پوری توجہ کے ساتھ خطبہ سنے نہ کہ وقت گزاری کرے ۔
ہاں ! البتہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام خطبہ میں آ جائے تو درود شریف ضرور پڑھنا چاہئے ۔ اسی طرح سلام کا جواب دینا یا چھینک کا جواب دینا بھی صحیح ہے ۔

خطبہ جمعہ سنتے وقت ٹانگوں کو کھڑا کر کے ان کے گرد کپڑا لپیٹ کر بیٹھنا بھی منع ہے ،

اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر کسی نے لنگی ، دھوتی یا چادر باندھی ہوئی ہے تو گرنے کی صورت میں وہ نگا ہو جائے گا ورنہ کم سے کم نیند تو ضرور آجائے گی عین ممکن ہے وضو بھی خطا ہو جائے ۔ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کپڑا لپیٹ کر بیٹھنے سے منع فرمایا تھا ۔ حضرت سہل بن معاذ رضی اللہ عنہ اپنے والد کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ :
أن النبى صلى الله عليه وسلم نهى عن الحبوة يوم الجمعة والإمام يخطب » [سنن الترمذى ابواب الصلاة باب ماجاء فى كراهية الاحتباء والامام يخطب ح 514 امام ترمذی رحمہ اللہ نے حدیث کو حسن قرار دیا ہے ، اسی معنى کی حدیث حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت سے ابو داؤد نے ذکر کی ہے ملاحظہ ہو كتاب الصلاة ح 1110 ]
”جمعہ کے روز جب امام خطبہ دے رہا ہو تو گھٹنے کھڑے کر کے پنڈلیوں اور کمر پر کپڑا باندھ کر بیٹھنے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے ۔“

کوئی ایسی چیز کھا کے یا استعمال کر کے آنا جس کی وجہ سے عام آدمیوں کو تکلیف ہوتی ہو ، منع ہے ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
من أكل من هذه البقلة : الثوم والبصل والكراث فلا يقربن فى مساجدنا ، فإن الملائكة تتأذى مما يتأذى منه بنو آدم» [ صحيح مسلم كتاب المساجد و مواضع الصلاة باب نهى من اكل ثوما او بصلا او كراثا او نحوها ۔ ۔ ۔ ۔ سنن الترمذى ، كتاب الاطعمه باب ما جاء فى كراهه اكل الثوم والبصل – سنن النسائي كتاب المساجد باب من يمنع من المسجد ]
”جس کسی نے ثوم» (تھوم) پیاز یا کرات قسم کی سبزی استعمال کی وہ ہماری مسجدوں میں نہ آئے کیونکہ جن چیزوں سے انسانوں کو تکلیف ہوتی ہے ان سے فرشتوں کو بھی تکلیف ہوتی ہے ۔“
ذرا غور فرمائیں کہ جب ان حلال اور پاکیزہ چیزوں کے استعمال کے بعد مسجد میں آنا منع ہے تو سگریٹ، کالی نسوار (جس کا استعمال ناک میں ہوتا ہے) سبز نسوار (جس کا استعمال مسوڑوں کے پاس ہوتا ہے) یا اسی قسم کی دوسری بدبو دار غلط اور ناجائز چیزیں استعمال کر کے مسجد میں آنا کیسا ہے ؟ واضح رہے کہ علماء کے ایک بہت بڑے طبقے نے سگریٹ کو حرام قرار دیا ہے اور طبی نقطہ نظر سے بھی یہ خبیث اور مضر چیز ہے ہے ۔
اگر منہ سے بدبو اُٹھ رہی ہو تو بہتر ہے اسے منجن ، مسواک یا ٹوتھ پیسٹ سے صاف کر لے یا پھر مسجد کے بجائے گھر میں ہی معذور افراد یا عورتوں ، بچوں کی طرح نماز پڑھ لے ۔

اس تحریر کو اب تک 155 بار پڑھا جا چکا ہے، جبکہ صرف آج 3 بار یہ تحریر پڑھی گئی ہے۔

Leave a Reply