خصائل النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق چالیس صحیح احادیث
تحریر: ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی، کتاب کا پی ڈی ایف لنک

إن الحمد لله نحمده، ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له ، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله . أما بعد:

اعلی نسل انسان میں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا چناؤ

قَالَ اللهُ تَعَالَى:﴿تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۘ مِّنْهُم مَّن كَلَّمَ اللَّهُ ۖ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَاتٍ ۚ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ﴾
(2-البقرة:253)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” یہ سب رسول ہیں، ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی، ان مین سے کچھ ایسے ہیں جن سے اللہ نے کلام کیا اور ان میں سے بعض کے درجے بلند کیے اور ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو واضح نشانیاں عطا کیں اور روح القدس (جبریل) کے ساتھ اس کی مدد کی ۔“

حدیث 1

عن وائلة بن الاسقع يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إن الله اصطفى كنانة من ولد اسمعيل، واصطفى قريشا من كنانة ، واصطفى من قريش بني هاشم ، واصطفاني من بني هاشم.
صحیح مسلم، کتاب الفضائل ، رقم : 2276۔
”سید نا داثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ نے بنی اسماعیل میں سے کنانہ ( قبیلے ) کو چنا اور کنانہ سے قریش کو اور قریش سے بنی ہاشم کو اور بنی ہاشم سے مجھے چنا۔“

حدیث 2

وعن أبى هريرة رضی اللہ عنہ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال بعثت من خير قرون بني آدم قرنا فقرنا حتى كنت من القرن الذى كنت فيه
صحيح البخارى، كتاب المناقب، رقم : 3557 ۔
”اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مجھے بنی آدم کے بہترین زمانے میں (نبی اور رسول بنا کر) مبعوث کیا گیا ہے۔ زمانے پر زمانہ گزرتا رہا حتی کہ وہ زمانہ آ گیا جس میں مجھے مبعوث کیا گیا۔ “

حدیث 3

وعن أبى هريرة رضی اللہ عنہ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إن مثلي ومثل الأنبياء من قبلى كمثل رجل بنى بيتا فأحسنه وأجمله إلا موضع لبنة من زاوية فجعل الناس يطوفون به ويعجبون له ويقولون: هلا وضعت هذه اللبنة؟ قال: فأنا اللبنة، وأنا خاتم النبيين
صحيح البخاري، المناقب، رقم : 3535 ، صحیح مسلم، الفضائل، رقم : 5961 ۔
” اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری اور دوسرے انبیاء کی مثال اس (بہترین) محل کی سی ہے جس کی عمارت بڑے اچھے طریقے پر بنائی گئی (مگر) اس میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی گئی۔ دیکھنے والوں نے اس کے اردگرد چکر لگائے انہیں اس (محل) کی خوبصورت عمارت سے (بہت) تعجب ہوتا تھا سوائے اس اینٹ والی جگہ کے (جسے خالی چھوڑ دیا گیا تھا) وہ کسی چیز میں عیب نہیں نکالتے تھے۔ میں وہ ہوں جس نے اس اینٹ والی جگہ کو بھر دیا میرے ساتھ اس عمارت ( کی تعمیر ) کا خاتمہ ہوا اور میرے ساتھ (ہی ) رسولوں کا (سلسلہ ) ختم ہوا۔“

مخصوص معجزات نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم

قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَلَقَدْ أَنزَلْنَا إِلَيْكُمْ آيَاتٍ مُّبَيِّنَاتٍ وَمَثَلًا مِّنَ الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلِكُمْ وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِينَ ‎﴿٣٤﴾
(24-النور:34)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اور بلاشبہ ہم نے تمھاری طرف کھول کر بیان کرنے والی آیات ، اور ان لوگوں کے کچھ حالات و واقعات بھی جو تم سے پہلے گزر چکے، اور متقین کے لیے نصیحت کی۔“

حدیث 4

وعن أبى هريرة رضي الله عنه قال: قال النبى صلى الله عليه وسلم : ما من الأنبياء نبي إلا أعطى ما مثله آمن عليه البشر، وإنما كان الذى أوتيت وحيا أوحاه الله إلى ، فأرجو أن أكون أكثرهم تابعا يوم القيامة
صحيح البخارى، فضائل القرآن، رقم : 4981 ، صحیح مسلم، الایمان ، رقم : 385.
” اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: انبیاء میں سے جتنے بھی (اولو العزم ) نبی ہوئے، اللہ نے انہیں (ان کے دور کے مطابق ) ایسے ( خاص ) معجزے عطا فرمائے جن پر ( عام ) لوگ ایمان لے آئے اور مجھے (خاص معجزہ ) وحی دی گئی ہے (قرآن مجید ) جو اللہ نے میری طرف بطور وحی نازل فرمایا ہے اور مجھے یہ امید ہے کہ میری اتباع کرنے والے قیامت کے دن ان (انبیاء) کے متبعین سے زیاد ہوں گے۔“

حدیث 5

وعن جابر بن عبد الله أن النبى صلى الله عليه وسلم قال: أعطيت خمسا لم يعطهن أحد قبلى نصرت بالرعب مسيرة شهر ، وجعلت لي الأرض مسجدا وطهورا ، فأيما رجل من أمتي أدركته الصلاة فليصل، وأحلت لى المغانم ولم تحل لأحد قبلي ، وأعطيت الشفاعة، وكان النبى يبعث إلى قومه خاصة وبعثت إلى الناس عامة
صحيح البخارى، التييم، رقم 335 ، صحیح مسلم ، المساجد ، رقم : 1163.
”اور سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مجھے پانچ چیزیں (ایسی ) دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئیں۔ (دشمنوں پر ) میری مدد ایک مہینے کی مسافت کے رعب سے کی گئی ہے اور میرے لیے (ساری) زمین کو مسجد اور طہور (پاک اور پاک کرنے والی ) بنایا گیا ہے پس میری امت میں سے جس آدمی کی نماز کا وقت ہو جائے وہ نماز پڑھ لے اور میرے لیے (جہاد کی) قیمتیں حلال کر دی گئی ہیں مجھ سے پہلے یہ کسی کے لیے حلال نہیں کی گئیں اور مجھے شفاعت بخشی گئی ( میں اپنی امت کی شفاعت کروں گا) اور ( مجھ سے پہلے ہر ) نبی اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا جب کہ مجھے تمام لوگوں کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہے۔“

حدیث 6

وعن أبى هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: فضلت على والله الأنبياء بسي: أعطيت جوامع الكلم، ونصرت بالرعب، وأحلت لي الغنائم، وجعلت لي الأرض طهورا ومسجدا، وأرسلت إلى الخلق كافة ، وختم بي النبيون
صحیح مسلم، كتاب المساجد ومواضع الصلاة، رقم : 1167 . مسند أحمد : 501/2.
” اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مجھے (دوسرے) انبیاء پر چھ چیزوں میں فضیلت حاصل ہے: مجھے جامع کلام دیا گیا۔ رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی۔ مال غنیمت میرے لیے حلال کیا گیا۔ زمین کو میرے لیے مسجد اور طہور بنایا گیا۔ مجھے تمام لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا اور میرے ساتھ نبیوں کا سلسلہ ختم ہوا۔“

حدیث 7

وعن أبى هريرة رضی اللہ عنہ قال: قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : نصرت بالرغب، وأوتيت جوامع الكلم، وجعلت لي الأرض مسجدا وطهورا، وبينا أنا نائم أوتيت بمفاتيح خزائن الأرض فتلت فى يدي
صحيح مسلم، كتاب الإيمان، رقم : 1168 .
” اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی۔ مجھے جامع کلام دیا گیا اور زمین کو میرے لیے مسجد اور طہور بنا دیا گیا۔ میں سو رہا تھا کہ (نیند میں) مجھے خزانوں کی چابیاں دی گئیں (جو) میرے ہاتھ میں رکھی گئیں۔“

حدیث 8

وعن ثوبان رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إن الله زوى لى الأرض ، فرأيت مشارقها ومغاربها ، وإن أمتي سيبلغ ملكها ما زوي لى منها ، وأعطيت الكنزين الاحمر والابيض ، وإني سألت ربي لأمتي أن لا يهلكها بسنة عامة ، وأن لا يسلط عليهم عدوا – من سوى أنفسهم – فيستبيح بيضتهم، وإن ربي قال : يا محمد إني إذا قضيت قضاء فإنه لا يرد، وإني أعطيتك لأمتك ان لا أهلكهم بسنة عامة ، وأن لا أسلط عليهم عدوا من سوى أنفسهم يستبيح بيضتهم ولو اجتمع عليهم من بأقطارها أو قال من بين أقطارها حتى يكون بعضهم يهلك بعضا ويسبى بعضهم بعضا
صحیح مسلم ،الفتن رقم : 7258.
” اور سید نا ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ نے میرے لیے زمین کو اکٹھا کیا تو میں نے اس کا مشرق اور مغرب دیکھ لیا یقیناً میری امت کی حکومت وہیں تک پہنچے گی جہاں تک مجھے اکٹھا کر کے دکھایا گیا اور مجھے دو خزانے ، سرخ و سفید دیئے گئے اور میں نے اپنے رب سے سوال کیا کہ میری (ساری) امت کو عام قحط کے ساتھ ہلاک نہ کرنا اور ان کے دشمنوں کو سوائے خود ان کے ان پر مسلط نہ کرنا جو ان کی (ساری) نسل کو ہی ختم کر دے اور بے شک میرے رب نے فرمایا: اے محمد ( ال ایی ) ! جب میں کوئی فیصلہ کر دیتا ہوں تو وہ رد نہیں کیا جا سکتا۔ میں نے آپ کو آپ کی امت کے لیے ( یہ فیصلہ ) بخش دیا ہے کہ میں اسے عام قحط سے ہلاک نہیں کروں گا اور نہ اس پر ایسا دشمن سوائے خود ان کے مسلط کروں گا جو ان کی (ساری) نسل کو ہی ختم کر دے اگر چہ وہ (دشمن) زمین کے (سارے) کونوں سے جمع ہو جائیں۔ یا راوی نے یہ الفاظ فرمائے : سارئے کونوں سے جمع ہو جائیں حتی کہ ایسا (ضرور) ہوگا کہ وہ ( آپ کے امتی ) ایک دوسرے کو ہلاک کریں گے اور قیدی ( بھی ) بنائیں گے۔“

ابتدائے وحی اور کیفیت نزول

حدیث 9

وعن عائشة رضي الله عنها أنها قالت: أول ما بدء به رسول الله صلى الله عليه وسلم من الوحي الرؤيا الصادقة فى النوم، فكان لا يرى رؤيا إلا جانت مثل فلق الصبح ثم حبب إلى الخلاء ، وكان يخلوا بغار حراء فكان يأتى حراء فيتحنث فيه، وهو التعبد الليالي ذوات العدد، ويتزود لذلك ثم يرجع إلى خديجة فتزوده لمثلها حتى فجنه الحق وهو فى غار حراء ، فجاءه الملك فيه فقال: اقرأ فقال له النبى صلى الله عليه وسلم : ما أنا بقارء، فأخذني فغطني حتى بلغ مني الجهد ، ثم أرسلني فقال: اقرأ، فقلت: ما أنا بقارء، فأخذني فغطني الثانية حتى بلغ مني الجهد، أرسلني فقال: اقرأ ، فقلت: ما أنا بقارء، فأخذني فغطني الثالثة حتى بلغ مني الجهد ، ثم أرسلني فقال: اقرأ باسم ربك الذى خلق حتى بلغ علم الإنسان ما لم يعلم فرجع بها ترجف بوادره حتى دخل على خديجة فقال: زملوني زملوني ، فزملوه حتى ذهب عنه الروع فقال: يا خديجة ، مالي؟ وأخبرها الخبر وقال: قد خشيت على نفسى فقالت له كلا أبشر، فوالله لا يخزيك الله أبدا ، إنك لتصل الرحم وتصدق الحديث ، وتحمل الكل وتقرى الضيف ، وتعين على نوائب الحق ، ثم انطلقت به خديجة حتى أتت به ورقة بن نوفل بن أسد بن عبد العزى بن قصى – وهو ابن عم خديجة أخو أبيها وكان امرأ تنصر فى الجاهلية وكان يكتب الكتاب العربي، فيكتب بالعربية من الإنجيل ما شاء الله أن يكتب ، وكان شيخا كبيرا قد عمي فقالت له خديجة: أى ابن عم، اسمع من ابن أخيك ، فقال ورقة: ابن أخي ، ماذا ترى؟ فأخبره النبى صلى الله عليه وسلم ما رأى ، فقال ورقة: هذا الناموس الذى أنزل على موسى، يا ليتني فيها جذعا أكون حيا حين يخرجك قومك فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم أومخرجي هم؟ فقال ورقه؟ نعم ، لم يأت رجل قط بمثل ما جئت به إلا عودي، وإن يدركني يومك أنصرك نصرا مؤزرا ، ثم لم ينشب ورقه أن توفي وفتر الوحي
صحيح البخارى، بدء الوحي رقم : 3 و كتاب التعبير، رقم : 6982، صحيح مسلم، رقم : 403 .
” اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سب سے پہلے وحی کی ابتداء، نیند میں سچے خوابوں سے ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو بھی خواب دیکھتے وہ صبح صادق کی طرح ( عام ظہور میں ) آجاتا۔ پھر آپ کو تنہائی پسند آ گئی۔ آپ غار حرا میں تنہائی اختیار کرتے اور چند معدود را تیں عبادت کرتے اس سے پہلے کہ آپ گھر جاتے آپ ان ایام کے لیے ضروری سامان اپنے لیے رکھ لیتے پھر آپ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس جاتے اور اس طرح ضروری سامان لے آتے ۔ جب آپ کے پاس حق آیا تو آپ غار حرا میں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فرشتہ آیا تو کہا: پڑھ ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ) میں نے کہا: میں پڑھنے ( لکھنے ) والا نہیں ہوں، پس اس نے مجھے پکڑا پھر دبایا حتی کہ مجھے تکلیف محسوس ہونے لگی۔ پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا: پڑھ، میں نے کہا: میں پڑھنے ( لکھنے ) والا نہیں ہوں۔ پھر اس نے دوبارہ مجھے پکڑ کر دبایا حتی کہ مجھے تکلیف محسوس ہوئی پھر اس نے کہا: پڑھ، میں نے کہا: میں پڑھنے ( لکھنے) والا نہیں ہوں۔ پھر اس نے مجھے تیسری بار پکڑ کر دبایا پھر چھوڑ دیا اور کہا:” پڑھ اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا انسان کو خون کے لوتھڑے سے۔ پڑھ اور تیرا رب سب سے زیادہ بزرگ (اور غالب) ہے۔ “(العلق: 1-5) پس اس (وحی کے علم) کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( اپنے گھر واپس آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت یہ تھی کہ آپ سلام کا دل (خوف سے) دھڑک رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (اپنی بیوی ) خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور فرمایا: ” مجھے چادر اوڑھا دو، مجھے (چادر) اوڑھا دو۔“ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چادر اوڑھا دی گئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خوف دور ہو گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدیجہ کے سامنے ساری خبر بیان کر دی (اور فرمایا ): ” مجھے اپنی جان کا ڈر ہے۔ تو خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ”ہر گز نہیں اللہ کی قسم ! اللہ آپ کو کبھی رسوا نہی کرے گا۔ بے شک آپ تو صلہ رحمی کرتے ہیں۔ مجبور کا بوجھ اٹھاتے ہیں، لا چار کی (مالی) مدد کرتے ہیں، مہمانوں کی خدمت کرتے ہیں اور جائز کاموں میں (لوگوں کی ) مدد کرتے ہیں۔ پھر خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبدالعزیٰ کے پاس لے گئیں وہ (ورقہ ) جاہلیت کے زمانے میں ( صحیح العقیدہ) عیسائی ہو چکے تھے۔ وہ عربی خط لکھتے تھے اور اللہ کی مشیت سے انجیل کا عربی ترجمہ کرتے اور انتہائی بوڑھے شخص تھے نابینا ہو چکے تھے۔ خدیجہ نے ان سے کہا: ”اے چچا زاد بھائی! اپنے بھتیجے کی بات سنو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دیکھا تھا ، ساری خبر بیان کر دی۔ (ساری خبر سننے کے بعد ) ورقہ نے کہا: ”یہ وہی ناموس ہے جو اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام ) پر نازل فرمایا تھا۔ کاش کہ میں طاقت ور جوان ہوتا ، کاش میں اس وقت زندہ ہوتا جب آپ کو آپ کی قوم ( مکہ سے) نکال دے گی ۔ “تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعجب سے فرمایا: ” کیا یہ لوگ مجھے نکال دیں گے؟“ ورقہ نے کہا: ”جی ہاں، جو آدمی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسی دعوت لے کر آیا ہے اس سے (ضرور بالضرور ) دشمنی کی گئی ہے اور اگر میں نے آپ کا (وہ) دن پایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبردست مدد کروں گا۔“ پھر ورقہ جلد ہی فوت ہو گئے اور وحی منقطع ہو گئی ۔“

دعوت اسلام پر بے مثال صبر

قَالَ اللهُ تَعَالَى: فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ بِالْعَشِيِّ وَالْإِبْكَارِ ‎﴿٥٥﴾
(40-غافر:55)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” پس صبر کیجیے، یقینا اللہ کا وعدہ سچا ہے اور اپنے گناہ کے لیے بخشش مانگ اور دن کے پیچھلے اور پہلے پہر اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کیجیے۔ “

حدیث 10

وعن عبد الله قال: بينما رسول الله صلى الله عليه وسلم قائم يصلى عند الكعبة وجمع قريش فى مجالسهم: إذ قال قائل منهم: ألا تنظرون إلى هذا المرائي؟ أيكم يقوم إلى جزور آل فلان فيعمد إلى فرثها ودمها وسلاها فيجيء به ثم يمهله سجد وضعه بين كتفيه؟ فانبعث أشقاهم ، فلما سجد رسول الله صلى الله عليه وسلم وضعه بين كتفيه وثبت النبى صلى الله عليه وسلم ساجدا فضحكوا حتى مال بعضهم إلى بعض من الضحك ، فانطلق منطلق إلى فاطمة عليها السلام وهى جويرية فأقبلت تسعى وثبت النبى ساجدا حتى ألقته عنه ، وأقبلت عليهم تسبهم ، فلما قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم الصلاة قال: اللهم عليك بقريش اللهم عليك بقريش . ثم سمى: اللهم عليك بعمرو بن هشام، وعتبة بن ربيعة ، وشيبة بن ربيعة ، والوليد بن عتبة، وأمية بن خلف ، وعقبة بن أبى معيط وعمارة بن الوليد . قال عبد الله: فوالله لقد رأيتهم صرعى يوم بدر ، ثم سحبوا إلى القليب قليب بدر ، ثم قال رسول الله : وأتبع أصحاب قليب القليب لعنة
صحيح البخاري، الصلوة، رقم : 520 ، صحیح مسلم، رقم : 4649.
” اور سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے نزدیک کھڑے نما ز پڑھ رہے تھے اور سب قریشی اپنی اپنی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے اتنے میں ان میں سے ایک آدمی نے کہا: تم اس ( ریا کار) آدمی کو نہیں دیکھتے ؟ تم میں سے کون ہے جو فلاں قوم کے اونٹ کا خون اور گو بر آلود اوجھڑی لائے پھر جب آپ ( محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) سجدہ کریں تو آپ کے کندھوں پر رکھ دے؟ پھر سب سے بد قسمت آدمی (عقبہ بن ابی معیط ) گیا (اور اوجھڑی لے آیا ) پھر جب آپ نے سجدہ کیا، تو اس نے اسے آپ کے کندھوں کے درمیان رکھ دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سجدے ہی میں پڑے رہے۔ وہ (مشرکین قریش) ہنسنے لگے حتی کہ ہنسی کی وجہ سے ایک دوسرے پر گرنے لگے پھر ایک شخص فاطمہ کے پاس گیا جو ( آپ کی ) چھوٹی صاحبزادی تھیں ۔ وہ دوڑتی ہوئی آئیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سجدے ہی میں تھے کہ انہوں نے اس اوجھڑی کو آپ سے اتار پھینکا اور مشرکین کو بددعا دینے لگیں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: اے اللہ ! قریش (کے ان سرداروں) کو ہلاک و تباہ کر دے، اے اللہ ! قریش کو ہلاک و تباہ کر دے، اے اللہ ! قریش کو ہلاک و تباہ کر دے پھر آپ نے ان کے نام لیے ”اے اللہ ! عمرو بن ہشام، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، امیه بن خلف، عقبہ بن ابی معیط اور عمارہ بن الولید کو ہلاک و تباہ کر دے۔“ سیدنا عبداللہ (بن مسعود رضی اللہ عنہ )فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم! میں نے انہیں بدر کے دن( مردہ حالت میں ) گرتے ہوئے دیکھا ہے۔ پھر انہیں گھسیٹ کر بدر کے خشک کنوئیں میں پھینک دیا گیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” خشک کنویں والوں پر لعنت پڑ چکی ہے۔“

حدیث 11

وعن عروة بن الزبير قال: قلت لعبد الله بن عمرو بن العاص : أخبرني بأشد ما صنع المشركون برسول الله ، قال: بينا رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلى بفناء الكعبة إذ أقبل عقبة بن أبى معيط فأخذ بمنكب رسول الله صلى الله عليه وسلم ولوى ثوبه فى عنقه فخنقه به خنقا شديدا ، فأقبل أبو بكر ، فأخذ بمنكبه ، ودفع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ، وقال أتقتلون رجلا أن يقول ربى الله وقد جائكم بالبينات من ربكم
صحيح البخارى، التفسير، رقم : 4815.
” اور سیدنا عروہ بن الزبیر (ایک جلیل القدر تابعی ) سے روایت ہے کہ میں نے عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے کہا: مجھے بتاؤ کہ مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سب سے زیادہ سختی کیا کی تھی؟ تو انہوں نے فرمایا: ایک دن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے صحن میں نماز پڑھ رہے تھے اتنے میں عقبہ بن ابی معیط آیا تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھے کو پکڑا اور گردن (مبارک) کے ارد گرد کپڑا لپیٹ کر شدت کے ساتھ گلا گھونٹا۔ پھر ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ آئے تو انہوں نے اس کا کندھا پکڑا کر اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دور ہٹایا اور فرمایا: کیا تم اس آدمی کو اس لیے قتل کرنا چاہتے ہو تو وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور وہ تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس واضح نشانیاں لے کر آیا ہے۔“

حدیث 12

وعن أبى هريرة رضی اللہ عنہ قال: قال أبو جهل هل يعفر محمد وجهه بين أظهركم؟ قال: فقيل: نعم، فقال: واللات والعزى! لئن رأيته يفعل ذلك لاطان على رقبته ، أو لا عفرن وجهه فى التراب، قال: فأتى رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يصلى، زعم ليطا على رقبته ، قال : فما فجتهم منه إلا وهو ينكص على عقبيه ويتقى بيديه قال: فقيل له ما لك؟ فقال: إن بيني وبينه لخندقا من نار وهولا وأجنحة ، فقال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : لو دنا مني لاختطفته الملائكة عضوا عضوا
صحيح مسلم صفات المنافقين، رقم : 7065.
” سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابوجہل (لعین) نے کہا: کیا تمہارے سامنے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنا چہرہ مٹی پر رکھ دیتے ہیں؟ کہا کیا: جی ہاں، تو وہ (ابوجہل) کہنے لگا: ”لات اور عزیٰ کی قسم ہے اگر میں نے اسے ایسا کرتے دیکھا تو اس (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کی گردن کو کچل دوں گا اور آپ کا چہرہ (مبارک) مٹی میں گھسیٹ دوں گا اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ابو جہل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ نماز پڑھ رہے تھے اس نے آپ کی گردن پر پاؤں رکھنے کا ارادہ کیا تو اس بات نے انہیں (ابو جہل، کے مشرک دوستوں کو) حیرت میں ڈال دیا کہ وہ پیچھے بھاگ رہا ہے اور اپنے ہاتھوں کے ساتھ (کسی چیز سے ) اپنے آپ کو بچا رہا ہے۔ اس سے کہا گیا کہ تجھے کیا ہو گیا ہے؟ تو کہنے لگا: میرے اور آپ کے درمیان آگ کی خندق، خوفناک اور (ہیبت ناک) پر ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر وہ میرے قریب ہوتا تو فرشتے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتے۔“

حدیث 13

وعن عائشة رضي الله عنها زوج النبى صلى الله عليه وسلم حدثته: أنها قالت لرسول الله صلى الله عليه وسلم يارسول الله هل أتى عليك يوم كان أشد من يوم أحد فقال: لقد لقيت من قومك وكان أشد ما لقيت منهم يوم العقبة، إذ عرضت نفسى على ابن عبد ياليل بن عبد كلال . فلم يجبني إلى ما أردت ، فانطلقت وأنا مهموم على وجهي فلم أستفق إلا بقرن الشعالب، فرفعت رأسي فإذا أنا بسحابة قد أظلتني فنظرت فإذا فيها جبريل فناداني فقال: إن الله عزوجل قد سمع قول قومك لك وما ردوا عليك، وقد بعث إليك ملك الجبال لتأمره بما شئت فيهم، قال: فناداني ملك الجبال وسلم على ثم قال: يا محمد! إن الله قد سمع قول قومك لك وأنا ملك الجبال ، وقد بعثني ربك إليك لتأمرني بأمرك فما شئت؟ إن شئت أن أطبق عليهم الأحشبين فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم : بل ارجو ان يخرج الله من أصلابهم من يعبد الله وحده لا يشرك به شيئا
صحیح مسلم ،الجهاد، رقم : 4653 ، صحيح البخاري رقم : 3231 .
” اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یا رسول اللہ ! کیا آپ پر احد کے دن سے بھی کوئی سخت دن آیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا: مجھے تیری قوم سے بڑی تکلیفیں پہنچی ہیں اور سخت ترین تکلیف العقبہ (طائف) کے دن پہنچی تھی جب میں نے ابن عبدیالیل بن عبد کلال پر اپنے آپ کو ( بحیثیت ایک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ) پیش کیا۔ اس نے میرے ارادے کے مطابق جواب نہیں دیا۔ میں اس حالت میں چلا کہ سخت پریشان تھا۔ مجھے قرن الثعالب تک افاقہ نہیں ہوا۔ پھر میں نے اپنا سر اٹھایا تو ایک بادل دیکھا جس نے مجھ پر سایہ کر رکھا تھا۔ میں نے دیکھا اس (بادل) میں جبریل ہیں جو مجھے آواز دے رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں : ” آپ کے بارے میں اللہ نے آپ کی قوم کی باتیں اور جواب سنا ہے اور اس نے آپ کے لیے پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا ہے آپ جو چاہیں اسے حکم دے سکتے ہیں۔“ پھر مجھے پہاڑوں کے فرشتے نے آواز دی اور سلام کیا پھر کہا: ”اے محمد ! بے شک اللہ نے آپ کی قوم کی باتیں سنی ہیں اور میں پہاڑوں کا فرشتہ ہوں۔ اللہ نے مجھے آپ کی طرف بھیجا ہے۔ آپ جو چاہیں حکم دے سکتے ہیں۔ اگر آپ چاہیں تو میں مکہ کے دونوں پہاڑ ملا کر انہیں کچل دوں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: ”بلکہ میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی اولاد سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو ایک اللہ کی عبادت کریں گے اس کے ساتھ کس کو شریک نہیں کریں گے۔“

علامات نبوت

حدیث 14

وعن جابر بن سمرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إني لأعرف حجرا بمكة كان يسلم على قبل أن أبعث إني لاعرفه الآن
صحيح مسلم ، الفضائل، رقم : 5939
” اور سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں یقیناً مکہ میں اس پتھر کو جانتا ہوں جو میری بعثت سے پہلے مجھ کو سلام کہتا تھا۔ میں اسے اب بھی جانتا ہوں۔“

حدیث 15

وعن أبى هريرة رضي الله عنه قال: جاء ذتب إلى راعي غنم فأخذ منها شاة ، فطلبه الراعي حتى انتزعا منه قال: قصعدا الذتب على تل ، واستقر وقال: عمدت إلى رزق رزقنيه الله أخذته ثم انتزعته منى ، فقال الرجل: بالله إن رأيت كاليوم، ذئب يتكلم فقال الذنب : أعجب من هذا رجل فى النخلات بين الحرتين – جبلين – يخبركم بما مضى وما هو كائن بعدكم . قال: فكان الرجل يهوديا ، فجاء إلى النبى صلى الله عليه وسلم فأخبره وأسلم فصدقه النبى ثم قال النبى صلی اللہ علیہ وسلم : إنها أمارات بين يدي الساعة ، قد أوشك الرجل أن يخرج فلا يرجع حتى يحدثه نعلاه وسوطه بما أحدث أهله بعده
مصنف عبد الرزاق، رقم :20808 ، مسند أحمد : 2/ 36۔ احمد شاکر نے اسے صحیح کہا ہے۔
” اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک چرواہے (اہبان نامی) کے پاس بھیڑیا آیا تو بھیڑیئے نے اس سے ایک بکری چھین لی۔ چرواہا اس کے پیچھے دوڑا حتی کہ اپنی بکری کو اس سے چھڑا لیا۔ بھیڑ یا ایک ٹیلے پر چڑھ کر رکا اور کہا: اللہ نے مجھے جو رزق دیا تھا میں نے کوشش کر کے اسے لے لیا پھر تم نے چھین لیا تو وہ آدمی بولا: ”اللہ کی قسم ! اگر میں نے آج جیسا دن دیکھا ہو۔ بھیڑیا باتیں کر رہا ہے۔ تو بھیڑیئے نے کہا: ”اس سے زیادہ عجیب یہ ہے کہ ایک آدمی دو پہاڑوں کے درمیان کھجوروں ( والی زمین ) میں تمہیں ماضی اور مستقبل کی خبریں دے گا۔“ وہ شخص یہودی تھا، اس نے آکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا اور نبی مسلمان ہو گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تصدیق کی پھر فرمایا یہ قیامت سے پہلے کی نشانیاں ہیں آدمی ( گھر سے) نکلے گا تو اس کے لوٹنے سے پہلے ہی اس کے جوتے اور کوڑا یہ بتا دیں گے کہ اس کے گھر والوں نے اس کے بعد کیا کام کیے تھے۔“

حدیث 16

وعن معن بن عبد الرحمن قال: سمعت أبى قال: سألت مسروقا: من آذن النبى صلى الله عليه وسلم بالجن ليلة استمعوا القرآن؟ فقال: حدثني أبوك يعني عبد الله أنه آذنت بهم شجرة
صحيح البخارى، فضائل الصحابه، رقم : 3859 ، صحیح مسلم، رقم : 1011 .
” اور سید نا عبد الرحمن بن عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے مسروق (ایک تابعی) سے پوچھا: جس رات جنوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن سنا تھا، آپ کو کس چیز نے جنوں کے بارے میں خبر دی تھی؟ تو مسروق نے کہا: مجھے آپ کے والد یعنی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک درخت نے خبر دی تھی۔“

حدیث 17

وعن أنس بن مالك رضي الله عنه أن أهل مكة سألوا رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يريهم آية فأراهم القمر شفتين حتى رأوا حراء بينهما
صحيح البخاري، مناقب الأنصار ، رقم : 3868 ، صحیح مسلم، رقم : 7076.
”اور سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مکہ والوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ انہیں (اپنے صدق کی ) کوئی نشانی دکھا ئیں تو آپ نے انہیں چاند دکھایا جس کے دوٹکڑے ہو گئے تھے حتی کہ انہوں نے ان کے درمیان حرا (کے پہاڑ ) کو دیکھ لیا۔“

معراج مصطفى صلی اللہ علیہ وسلم

قَالَ اللهُ تَعَالَى: سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ ‎﴿١﴾‏
(17-الإسراء:1)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”پاک ہے وہ (اللہ ) جو اپنے بندے کو رات کے ایک حصے میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا جس کے ماحول کو ہم نے برکت دی ہے، تاکہ ہم اسے اپنی کچھ نشانیاں دکھا ئیں۔ بے شک وہی خوب سننے والا ، خوب دیکھنے والا ہے۔“
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَىٰ ‎﴿١﴾‏ مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَىٰ ‎﴿٢﴾‏ وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ‎﴿٣﴾‏ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ ‎﴿٤﴾‏ عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَىٰ ‎﴿٥﴾‏ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوَىٰ ‎﴿٦﴾‏ وَهُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلَىٰ ‎﴿٧﴾‏ ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىٰ ‎﴿٨﴾‏ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىٰ ‎﴿٩﴾‏ فَأَوْحَىٰ إِلَىٰ عَبْدِهِ مَا أَوْحَىٰ ‎﴿١٠﴾‏ مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَىٰ ‎﴿١١﴾‏ أَفَتُمَارُونَهُ عَلَىٰ مَا يَرَىٰ ‎﴿١٢﴾‏ وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَىٰ ‎﴿١٣﴾‏ عِندَ سِدْرَةِ الْمُنتَهَىٰ ‎﴿١٤﴾‏ عِندَهَا جَنَّةُ الْمَأْوَىٰ ‎﴿١٥﴾‏ إِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشَىٰ ‎﴿١٦﴾‏ مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَىٰ ‎﴿١٧﴾‏ لَقَدْ رَأَىٰ مِنْ آيَاتِ رَبِّهِ الْكُبْرَىٰ ‎﴿١٨﴾‏
(53-النجم:1تا18)
❀ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” قسم ہے ستارے کی جب وہ گرے! کہ تمھارا ساتھی (رسول) نہ راہ بھولا ہے اور نہ غلط راستے پر چلا ہے۔ اور نہ وہ اپنی خواہش سے بولتا ہے۔ وہ تو صرف وحی ہے جو نازل کی جاتی ہے۔اسے نہایت مضبوط قوتوں والے (فرشتے) نے سکھایا۔ جو بڑی طاقت والا ہے، سو وہ بلند ہوا۔ اس حال میں کہ وہ آسمان کے مشرقی کنارے پر تھا۔ پھر وہ نزدیک ہوا، پس اتر آیا۔ پھر وہ دو کمانوں کے فاصلے پر ہو گیا، بلکہ زیادہ قریب۔ پھر اس نے وحی کی اس (اللہ ) کے بندے کی طرف جو وحی کی۔ دل نے جھوٹ نہیں بولا جو اس نے دیکھا۔ پھر کیا تم اس سے جھگڑتے ہو اس پر جو وہ دیکھتا ہے۔ حالانکہ بلاشبہ یقیناً اس نے اسے ایک اور بار اترتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ آخری حد کی بیری کے پاس۔ اسی کے پاس ہمیشہ رہنے کی جنت ہے۔ جب اس بیری کو ڈھانپ رہا تھا جو ڈھانپ رہا تھا۔ نہ نگاہ ادھر ادھر ہوئی اور نہ حد سے آگے بڑھی۔ بلاشبہ یقینا اس نے اپنے رب کی بعض بہت بڑی نشانیاں دیکھیں۔“

حدیث 18

وعن مالك بن صعصعة: أن نبي الله صلى الله عليه وسلم حدثهم عن ليلة أسري به . بينما أنا فى الحظيم وربما قال: فى الحجر – مضطجعا ، إذا أتاني آت فقد – قال: وسمعته يقول: فشق – ما بين هذه إلى هذه فقلت للجارود وهو إلى جنبي ما يعني به؟ قال: من تغرة نحره إلى شعرته، وسمعته يقول: من قصه إلى شعرته – فاستخرج قلبي ، ثم أتيت بطست من ذهب مملوءة إيمانا ، فغسل قلبي ثم حشي ، ثم أعيد ثم أتيت بدابة دون البغل وفوق الحمار أبيض فقال له الجارود: هو البراق يا أبا حمزة ۚ قال أنس : نعم: يضع خطوه عند أقصى طرفه فحملت عليه ، فانطلق بي جبريل حتى أتى السماء الدنيا فاستفتح ، فقيل: من هذا؟ قال: جبريل قيل : ومن معك؟ قال: محمد صلى الله عليه وسلم . قيل: وقد أرسل إليه؟ قال: نعم . قيل مرحبا به ، فنعم المجيء جاء ففتح ، فلما خلصت ، فإذا فيها آدم ، فقال: هذا أبوك آدم فسلم عليه . فسلمت عليه فرد السلام ثم قال: مرحبا بالاين الصالح والنبي الصالح . ثم صعد حتى أتى السماء الثانية فاستفتح، قيل: من هذا؟ قال: جبريل قيل: ومن معك قال: محمد . قيل: وقد أرسل إليه؟ قال: نعم . قيل: مرحبا به فنعم المجيء جاء ففتح ، فلما خلصت، إذا يحيى وعيسى، وهما ابنا الخالة قال: هذا يحيى وعيسى فسلم عليهما فسلمت فردا ، ثم قالا: مرحبا بالأخ الصالح والنبي الصالح . ثم صعد بي إلى السماء الثالثة ، فاستفتح قيل: من هذا؟ قال: جبريل قيل: ومن معك ؟ قال: محمد . قيل وقد أرسل إليه؟ قال: نعم . قيل: مرحبابه ، فنعم المجيء جاء . ففتح ، فلما خلصت إذا يوسف . قال: هذا يوسف فسلم عليه . فسلمت عليه فرد ، ثم قال: مرحبا بالآخ الصالح والنبي الصالح ، ثم صعد بي حتى أتى السماء الرابعة، فاستفتح، قيل: من هذا؟ قال: جبريل قيل: ومن معك؟ قال: محمد . قيل: أوقد أرسل . إليه؟ قال: نعم . قيل: مرحبا به ، فنعم المجيء جاء . ففتح، فلما خلصت إلى إدريس قال: هذا إدريس فسلم عليه . فسلمت عليه فرد ثم قال: مرحبا بالأخ الصالح والنبي الصالح . ثم صعد بي حتى أتى السماء الخامسة ، فاستفتح ، قيل: من هذا؟ قال: جبريل قيل: ومن معك قال: محمد صلى الله عليه وسلم قيل: وقد أرسل إليه؟ قال: نعم . قيل: مرحبا به ، فنعم المجيء جاء . فلما خلصت فإذا هارون قال: هذا هارون فسلم عليه. فسلمت عليه فرد ثم قال: مرحبا بالأخ الصالح والنبي الصالح . ثم صعد بي حتى أتى السماء السادسة، فاستفتح، قيل: من هذا؟ قال: جبريل قيل: ومن معك؟ قال: محمد . قيل: وقد أرسل إليه؟ قال: نعم . قال: مرحبا به ، فنعم المجيء جاء، فلما خلصت، فإذا موسى قال: هذا موسى فسلم عليه ، فسلمت عليه فرد ثم قال: مرحبا بالأخ الصالح والنبي الصالح . فلما تجاوزت بكى ، قيل له: ما يبكيك؟ قال: أبكي لأن غلاما بعث بعدي ، يدخل الجنة من أمته أكثر من يدخل من أمتي. ثم صعد بي إلى السماء السابعة ، فاستفتح جبريل، قيل: من هذا؟ قال: جبريل قيل : ومن معك؟ قال: محمد قيل: . وقد بعث إليه؟ قال: نعم . قال: مرحبا به ، فنعم المجيء جاء فلما خلصت ، فإذا إبراهيم قال: هذا أبوك فسلم عليه . قال: فسلمت عليه ، فرد السلام قال: مرحبا بالابن الصالح والنبي الصالح . ثم رفعت لي سدرة المنتهى ، فإذا نبقها مثل قلال هجر ، وإذا ورقها مثل آذان الفيلة قال: هذه سدرة المنتهى، وإذا أربعة أنهار نهران باطنان ، ونهران ظاهران فقلت: ما هذان؟ يا جبريل : قال : أما الباطنان، فنهران فى الجنة، وأما الظاهران فالنيل والفرات . ثم رفع لي البيت المعمور، ثم أتيت بإناء من خمر، وإناء من لبن وإناء من عسل، فأخذت اللبن ، فقال: هي الفطرة أنت عليها وأمتك . ثم فرضت على الصلوات خمسين صلاة كل يوم . فرجعت فمررت على موسى، فقال: بما أمرت؟ قال: أمرت بخمسين صلاة كل يوم . قال: إن أمتك لا تستطيع خمسين صلاة كل يوم ، وإني والله قد جربت الناس قبلك، وعالجت بني إسرائيل أشد المعالجة، فارجع إلى ربك فسله التخفيف لأمتك . فرجعت، فوضع عني عشرا، فرجعت إلى موسى فقال مثله ، فرجعت فوضع عني عشرا ، فرجعت إلى موسى فقال: مثله ، فرجعت فوضع عني عشرا، فرجعت إلى موسى فقال مثله، فرجعت فأمرت بعشر صلوات كل يوم ، فرجعت فقال مثله، فرجعت فأمرت بخمس صلوات كل يوم ، فرجعت إلى موسى، فقال: بما أمرت؟ قلت: أمرت بخمس صلوات كل يوم . قال : إن أمتك لا تستطيع خمس صلوات كل يوم ، وإني قد جربت الناس قبلك ، وعالجت بني إسرائيل أشد المعالجة ، فارجع إلى ربك فسله التخفيف لأمتك. قال: سألت ربي حتى استحييت ، ولكني أرضى وأسلم – قال : فلما جاوزت نادى مناد: أمضيت فريضتي وخففت عن عبادي
صحيح البخاری، مناقب الأنصار ، رقم : 3887 ، صحیح مسلم، رقم : 416.
” اور سیدنا مالک بن صعصہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں معراج کی رات کے بارے میں حدیث بیان کی: میں حطیم یا الحجر ( کعبہ کے نزدیک ) سو رہا تھا۔ اتنے میں ایک آنے والا آیا اس نے یہاں سے یہاں تک چیرا۔ میں نے اپنے ساتھی جارود سے پوچھا: اس کا کیا مطلب ہے؟ اس نے کہا: گردن کے گڑھے سے زیر ناف تک چیرا۔ پھر اس نے میرا دل نکالا۔ پھر میرے لیے سونے کی ایک طشتری لائی گئی جو ایمان سے بھری ہوئی تھی۔ پھر اس نے میرے دل کو دھویا۔ پھر اسے (ایمان کی حکمت سے) بھر دیا گیا پھر اسے (اپنی جگہ) لوٹا دیا گیا۔ پھر میرے پاس ایک جانور لایا گیا جو خچر سے چھوٹا اور گدھے سے بڑا تھا۔ (سیدنا انس بن مالک سے ) جارود نے کہا: اے ابو حمزہ! وہ براق ہے، انس نے کہا: جی ہاں۔ وہ حد نگاہ تک اپنا قدم رکھتا تھا۔ پس مجھے اس پر سوار کرایا گیا۔ پھر مجھے جبریل لے گئے حتی کہ میں آسمان دنیا پر پہنچا۔ دروازہ کھلوایا گیا، کہا گیا: یہ کون ہے؟ کہا: جبریل، کہا گیا: تیرے ساتھ کون ہے؟ کہا: محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ، کہا گیا: انہیں بلوایا گیا ہے؟ کہا: جی ہاں! کہا گیا: انہیں خوش آمدید ہو۔ان کا آنا (اور آنے کا مقام) بہت اچھا ہے پھر دروازہ کھول دیا گیا۔ پھر جب میں گیا تو دیکھا کہ آدم علیہ السلام ہیں۔ (جبریل علیہ السلام نے ) کہا: یہ آپ کے باپ آدم علیہ السلام ہیں آپ انہیں سلام کہیں۔ پس میں نے انہیں سلام کہا تو انہوں نے جواب دیا پھر کہا: نیک بیٹے اور نیک نبی کو خوش آمدید ہو۔ پھر مجھے دوسرے آسمان پر لے جایا گیا۔ دروازہ کھلوایا تو کہا گیا: کون ہے؟ کہا: جبریل، کہا گیا: تیرے ساتھ کون ہے؟ کہا: محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کہا گیا: ان کو بلوایا گیا ہے؟ کہا: جی ہاں، کہا گیا: انہیں خوش آمدید ہو، ان کا آنا (اور آنے کا مقام ) بہت اچھا ہے۔ پھر دروازہ کھولا گیا۔ میں جب چلا تو یحییٰ اور عیسی (علیہ السلام ) کو پایا۔ وہ دونوں (ایک دوسرے کی ) خالہ کے بیٹے ہیں۔ (جبریل نے مجھے ) کہا : یہ یحیی اور عیسی ( علیہ السلام ) ہیں، انہیں سلام کہو۔ پس میں نے انہیں سلام کیا۔ دونوں نے جواب دیا پھر کہا: نیک بھائی اور نیک نبی کو خوش آمدید ہو ۔ پھر وہ مجھے تیسرے آسمان پر لے گئے۔ پھر دروازہ کھولنے کا کہا گیا۔ پوچھا گیا: کون ہے؟ کہا: جبریل، کہا گیا: تیرے ساتھ کون ہے؟ کہا: محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کہا گیا انہیں بلایا گیا ہے؟ کہا: جی ہاں، کہا گیا انہیں خوش آمدید ہو، ان کا آنا (اور آنے کا مقام ) بہت اچھا ہے۔ پھر دروازہ کھول دیا گیا۔ میں جب ( داخل ہو کر ) چلا تو یوسف علیہ السلام کو پایا۔ (جبریل نے ) کہا: یہ یوسف علیہ السلام ہیں انہیں سلام کہیں۔ میں نے انہیں سلام کہا تو انہوں نے جواب دیا پھر کہا: ”نیک بھائی اور نیک نبی کو خوش آمدید ہو۔“ پھر وہ (جبریل) مجھے چوتھے آسمان پر لے گئے ۔ دروازہ کھلوایا گیا، کہا گیا: کون ہے؟ کہا: جبریل کہا گیا: تیرے ساتھ کون ہے؟ کہا : محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، کہا گیا: کیا وہ بلائے گئے ہیں؟ کہا: جی ہاں، کہا گیا: انہیں خوش آمدید ہو، ان کا آنا ( اور آنے کا مقام ) بہت اچھا ہے۔ پھر دروازہ کھول دیا گیا۔ جب میں چلا تو ادریس علیہ السلام کو پایا۔ کہا: یہ ادریس ہیں انہیں سلام کہو۔ میں نے سلام کہا تو انہوں نے جواب دیا پھر کہا: نیک بھائی اور نیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش آمدید ہو۔ پھر مجھے پانچویں آسمان پر لے جایا گیا۔ دروازہ کھلوایا گیا۔ کہا گیا: یہ کون ہے؟ کہا: جبریل، کہا گیا: اور تیرے ساتھ کون ہے؟ کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہا گیا: انہیں بلوایا گیا ہے؟ کہا: جی ہاں، کہا گیا: انہیں خوش آمدید ہو، ان کا آنا ( اور آنے کا مقام ) بہت اچھا ہے۔ پھر جب میں چلا تو ہارون علیہ السلام کو دیکھا ، کہا: یہ ہارون ہیں، انہیں سلام کریں، میں نے سلام کیا تو انہوں نے جواب دیا پھر کہا: نیک بھائی اور نیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش آمدید ہو۔ پھر مجھے چھٹے آسمان پر چڑھایا گیا۔ جب دروازہ کھلوایا گیا تو کہا گیا: یہ کون ہے؟ کہا: جبریل، کہا گیا: تیرے ساتھ کون ہے؟ کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، کہا گیا: انہیں بلوایا گیا ہے؟ کہا: جی ہاں، کہا گیا: انہیں خوش آمدید ہو۔ ان کا آنا (اور آنے کا مقام) بہت اچھا ہے۔ جب میں چلا تو موسی علیہ السلام کو دیکھا، کہا: یہ موسیٰ ہیں۔ انہیں سلام کہیں ۔ میں نے سلام کیا تو انہوں نے جواب دیا پھر فرمایا: نیک بھائی اور نیک نبی کو خوش آمدید ہو ۔ جب میں وہاں سے آگے بڑھا تو وہ موسیٰ علیہ السلام روئے ، پوچھا گیا: آپ کیوں رو رہے ہیں؟ کہا: میں اس پر رو رہا ہوں کہ ایک لڑکا جو میرے بعد نبی بنا۔ میری امت سے زیادہ اس کی امت جنت میں داخل ہوگی۔ پھر مجھے ساتویں آسمان پر لے جایا گیا۔ دروازہ کھلوایا گیا، کہا گیا: کون ہے؟ کہا جبریل، کہا گیا تیرے ساتھ کون ہے؟ کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہا گیا: انہیں بلوایا گا ہے؟ کہا: جی ہاں کہا گیا: انہیں خوش آمدید ہو ان کا آنا (اور آنے کا مقام ) بہت اچھا ہے۔ جب میں چلا تو ابراہیم علیہ السلام کو پایا۔ کہا گیا: یہ آپ کے باپ ابراہیم ہیں۔ انہیں سلام کہیں۔ میں نے سلام کیا تو انہوں نے جواب دیا: پھر کہا: نیک بیٹے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش آمدید ہو۔ پھر مجھے سدرہ المنتہیٰ کی طرف اٹھایا گیا۔ اس کے بیر (بحرین کے علاقے ) ہجر کے مٹکوں جتنے تھے اور اس کے پتے ہاتھی کے کانوں جیسے تھے۔ کہا: یہ سدرۃ المنتہی (انتہاء والی بیری کا درخت ہے ) اور چار نہریں دیکھیں، دو باہر اور دو اندر بہہ رہی تھیں۔ میں نے کہا: اے جبریل یہ کیا ہیں؟ انہوں نے کہا: اندر والی نہریں جنت میں بہہ رہی ہیں اور باہر والی نہریں نیل اور فرات ہیں۔ پھر میرے لیے بیت المعمور (ایک عظیم الشان محل ) بلند کیا گیا۔ پھر میرے پاس شراب، دودھ اور شہد کے برتن لائے گئے۔ میں نے دودھ لے لیا تو کہا: یہ (اسلام کی ) فطرت ہے جس پر آپ اور آپ کی (اطاعت کرنے والی) امت ہوگی۔ پھر مجھ پر ہر دن میں پچاس نمازیں فرض کی گئیں۔ میں جب واپس ہوا تو موسی علیہ السلام کے پاس سے گزا، انہوں نے کہا: آپ کو کس چیز کا حکم دیا گیا ہے؟ میں نے کہا: مجھے روزانہ پچاس نمازیں پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا: یقیناً آپ کے پہلے لوگوں کو آزمایا ہے مجھے بنی اسرائیل کی سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ اپنے رب کے پاس لوٹ جائیے اور اپنی امت کے لیے تخفیف کا سوال کیجئے۔ میں واپس لوٹا تو دس نمازیں کم کر دی گئیں میں پھر موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو انہوں نے پہلے جیسا کلام کیا پھر میں لوٹا تو دس (اور ) کم کر دی گئیں۔ پھر جب موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو انہوں نے ویسا ہی کلام کیا۔ میں لوٹ گیا تو دس (اور) کم کر دی گئیں۔ پھر جب موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو انہوں نے ویسا ہی کلام کیا (جیسا کہ پہلے کیا تھا) میں جب لوٹا تو ہر روز دس نمازیں پڑھنے کا حکم دیا گیا۔ پھر جب میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو انہوں نے ویسا ہی کہا، پھر جب میں لوٹا تو ہر روز پانچ نمازیں پڑھنے کا حکم دیا گیا۔ جب میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو انہوں نے کہا: آپ کو کیا حکم دیا گیا ہے؟ میں نے کہا: مجھے روزانہ پانچ نمازوں کا حکم دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا: بے شک آپ کی امت روزانہ پانچ نمازوں کی استطاعت نہیں رکھتی اور (دلیل یہ ہے کہ) میں نے آپ سے پہلے لوگوں کا تجربہ کیا ہے۔ مجھے بنی اسرائیل سے بہت تکلیف پہنچی ہے۔ آپ اپنے رب کے پاس جا کر اپنی امت کے لیے تخفیف کا سوال کریں۔ میں نے کہا: میں نے اپنے رب سے اتنا ( زیادہ ) سوال کیا ہے کہ مجھے اب شرم آنے لگی ہے، لیکن میں اس پر راضی ہوں اور سرتسلیم خم کرتا ہوں۔ فرمایا: جب میں وہاں سے گزرا تو ایک پکارنے والے نے آواز دی، میں نے اپنا فرض نافذ کیا اور اپنے بندوں سے تخفیف کردی۔“

حدیث 19

وعن جابر بن عبد الله رضي الله عنه أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: لما كذبتني قريس قمت فى الحجر فجلا الله لى بيت المقدس ، فطفقت أخبرهم عن آياته وأنا أنظر إليه
صحيح البخارى، التفسير، رقم : 4815 ، وصحیح مسلم، رقم : 428 .
”اور سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: جب مجھے قریشیوں نے جھوٹا کہا تو میں حجر ( بیت اللہ کے ساتھ والی جگہ) پر کھڑا ہو گیا تو اللہ نے بیت المقدس میرے سامنے کر دیا۔ میں انہیں اس کی نشانیاں بتاتا رہا اور میں بیت المقدس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ “

حدیث 20

وعن أنس عن أبى بكر رضي الله عنه قال: قلت للنبي صلى الله عليه وسلم ، وأنا فى الغار لو أن أحدهم نظر تحت قدميه لأبصرنا فقال: ما ظنك يا أبا بكر باثنين الله ثالتهما
صحيح البخاری، رقم : 4663 ، سنن ،ترمذی، رقم : 3096 ۔
”اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب ہم غار میں تھے تو میں نے اپنے سروں کے اوپر مشرکین کے قدموں کو دیکھا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگر ان میں سے کسی نے اپنے قدموں کی طرف دیکھا تو ہمیں دیکھ لے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوبکر! تمہارا ان دو آدمیوں کے بارے میں کیا خیال ہے جن کا تیسرا ( دوست ) اللہ ہے؟“

روز قیامت اور خصوصیات پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم

حدیث 21

وعن أنس بن مالك رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : أتي باب الجنة يوم القيامة ، فأستفتح ، فيقول الخازن: من أنت؟ فأقول: محمد فيقول بك أمرت لا أفتح لأحد قبلك
صحیح مسلم، کتاب الإيمان، رقم : 486 .
” اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں قیامت کے دن جنت کے دروازے کے پاس آؤں گا اور دروازہ کھلواؤں گا تو دربان کہے گا آپ کون ہیں؟ میں کہوں گا: محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پس وہ کہے گا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہی مجھے (دروازہ کھولنے) کا حکم دیا گیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کسی کے لیے دروازہ نہ کھولوں۔“

حدیث 22

وعن أبى سعيد الخدري رضی اللہ عنہ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ما بين بيتى ومنبرى روضة من رياض الجنة، ومنبرى على حوضي
صحيح البخارى، كتاب الإعتصام بالكتاب والسنة ، رقم : 7335، صحیح مسلم، 142 رقم : 3370 .
”اور سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: میرے گھر اور منبر کے درمیان جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر میرے حوض پر ہے۔“

پیش گوئی کا ظہور

حدیث 23

وعن أبى هريرة رضي الله عنه قال: شهدنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم خيبر، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لرجل ممن معه يدعى الإسلام: هذا من أهل النار ، فلما حضر القتال قاتل الرجل من أشد القتال ، وكثرت به الجراح فأثبتته، فجاء رجل من أصحاب النبى : فقال: يا رسول الله ، أرأيت الرجل الذى تحدثت أنه من أهل النار؟ قد قاتل فى سبيل الله من أشد القتال فكثرت به الجراح ، فقال النبى صلى الله عليه وسلم أما إنه من أهل النار، فكاد بعض المسلمين يرتاب، فبينما هو على ذلك إذ وجد الرجل ألم الجراح فأهوى بيده إلى كنانته فانتزع منها سهما فانتحر بها ، فاشتد رجال من المسلمين إلى رسول الله ، فقالوا: يا رسول الله صدق الله حديثك ، قد انتحر فلان فقتل نفسه ، فقال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : يا بلال: قم فأذن لا يدخل الجنة إلا مؤمن، وإن الله ليؤيد هذا الدين بالرجل الفاجر
صحيح البخاري، القدر، رقم : 6606 ، وصحیح مسلم، رقم : 305 .
” اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر میں موجود تھے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کے بارے میں فرمایا جو آپ کے ساتھ مدعی اسلام تھا کہ ”یہ جہنمی ہے۔“ پھر جب وہ میدان قتال میں آیا تو بڑی بہادری سے لڑا اور زخمی ہو گیا۔ اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ایک آدمی آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! آپ جس آدمی کے بارے میں فرما رہے تھے کہ وہ جہنمی ہے۔ وہ تو اللہ کے راستے میں بڑی بہادری سے لڑا ہے اور شدید زخمی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ اہل دوزخ میں سے ہے۔ (آپ کی یہ بات سن کر ) قریب تھا کہ بعض مسلمان شک میں مبتلا ہو جائیں۔ وہ شخص اسی طرح زخمی حالت میں پڑا تھا کہ اسے زخموں کی بہت تکلیف محسوس ہوئی، اس نے جھک کر اپنے ترکش سے ایک تیر نکالا اور اپنی گردن کاٹ دی۔ مسلمانوں میں سے کئی لوگ دوڑتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: اے اللہ کے رسول ! اللہ نے آپ کی حدیث کو سچا کر دکھایا، فلاں آدمی نے اپنی گردن کاٹ کر خود کو قتل کر دیا ہے تو رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: اے بلال! اٹھو اور اعلان کر دو، جنت میں صرف مومن ہی داخل ہوگا اور یقیناً اللہ اس دین کی مدد فاجر آدمی کے ذریعے سے (بھی) کرے گا۔“

علامات و معجزات

حدیث 24

وعن جابر رضي الله عنه قال عطش الناس يوم الحديبية ورسول الله صلى الله عليه وسلم بين يديه ركوة فتوضأ منها ، ثم أقبل الناس نحوه فقال رسول الله : ما لكم؟ قالوا: يا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ، ليس عندنا ماء نتوضأ به ولا نشرب إلا ما فى ركوتك، قال: فوضع النبى يده فى الركوة فجعل الماء يفور من بين أصابعه كأمثال العيون، قال: فشربنا وتوضأنا فقلت لجابر: كم كنتم يومئذ : :قال: لو كنا مائة ألف لكفانا كنا خمس عشرة مائة
صحيح البخاري، المغازي، رقم : 4152.
” اور سید نا جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: صلح حدیبیہ والے دن صحابہ لوگ پیاسے ہو گئے ۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے سامنے چمڑے کی ایک چھاگل پڑی تھی۔ آپ نے اس سے وضو کیا پھر لوگ وہاں آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ لوگوں نے کہا: آپ کی چھاگل کے علاوہ ہمارے پاس نہ وضو کے لیے پانی ہے اور نہ پینے کے لیے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ چھا گل میں رکھا تو آپ کی انگلیوں سے چشموں کی طرح پانی پھوٹنے لگا۔ (جابر رضی اللہ عنہ نے ) کہا: ہم نے پانی پیا اور وضو ( بھی ) کیا، سالم بن ابی الجعد نے کہا میں نے جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: آپ اس دن کتنے لوگ تھے؟ فرمایا: اگر ہم ایک لاکھ ہوتے تو بھی یہ پانی ہمیں کافی ہوتا۔ ہم پندرہ سو تھے۔“

حدیث 25

وعن أبى هريرة أو عن أبى سعيد شك الأعمس قال لما كان يوم غزوة تبوك أصاب الناس مجاعة ، قالوا: يا رسول الله لو أذنت لنا فنحرنا نواضحنا، فأكلنا وادهنا ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: افعلوا، قال: فجاء عمر، فقال: يا رسول الله! إن فعلت قل الظهر ، ولكن ادعهم بفضل أزوادهم ، ثم ادع الله لهم عليها بالبركة ، لعل الله أن يجعل فى ذلك ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : نعم – قال – فدعا بنطع فبسطه ، ثم دعا بفضل : أزوادهم – قال – فجعل الرجل يجيء بكف ذرة – قال – ويجيء الآخر بكف تمر – قال – ويجيء الآخر بكسرة حتى اجتمع على النطع من ذلك شيء يسير – قال – فدعا رسول الله صلى الله عليه وسلم عليه بالبركة ثم قال: خذوا فى أوعيتكم، قال فأخذوا فى أوعيتهم حتى ما تركوا فى العسكر وعاء إلا ملتوه، قال: فأكلوا حتى شبعوا، وفضلت فضلة فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : أشهد أن لا إله إلا الله وأني رسول الله ، لا يلقى الله بهما عبد غير شاد فيحجب عن الجنة
صحیح مسلم، الايمان، رقم : 139.
” اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ یا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے صحابی کے تعین میں سلیمان بن مہران الاعمش راوی کو شک ہے۔ فرمایا: جب غزوہ تبوک کا دن تھا تو لوگوں کو (شدید) بھوک کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگر آپ ہمیں اجازت دیں تو ہم اپنے پانی لانے والے اونٹوں کو ذبح کر کے کھائیں اور ان سے (چربی کا) تیل بھی حاصل کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” کر لو تو عمر رضی اللہ عنہ آگئے اور کہا: اے اللہ کے رسول ! اگر آپ نے ایسا کر دیا تو سورایاں (بہت) کم ہو جائیں گی ، لیکن آپ ان سے کہیں کہ وہ اپنے بچے کھچے کھانے لے آئیں پھر آپ ان کے لیے اللہ سے برکت کی دعا کریں۔ شاید اللہ اس میں برکت ڈال دے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جی ہاں، پھر آپ نے ایک چٹائی منگوائی اور اسے بچھا دیا۔ ان کے بچے کھچے کھانے منگوائے کوئی آدمی مکئی کی ایک مٹھی لاتا تھا اور کوئی کھجور کی ، کوئی (روٹی) کا ٹکڑا لاتا تھا حتی کہ چٹائی میں تھوڑی سی چیزیں اکٹھی ہو گئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے برکت کی دعا فرمائی۔ پھر فرمایا: اپنے اپنے برتنوں میں ( یہ کھانا) بھر لو۔ انہوں نے اپنے اپنے برتنوں میں بھرنا شروع کیا۔ لشکر میں کوئی خالی برتن نہ رہا جسے انہوں نے بھر نہ دیا ہو۔ پھر انہوں نے خوب سیر ہو کر کھایا اور کچھ حصہ باقی بھی بچ رہا۔ پس رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اس کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک میں اللہ کا رسول ہوں جو آدمی بغیر شک کے اس کلمے کا اقرار کر کے آئے گا تو جنت سے نہیں روکا جائے گا۔“

حدیث 26

وعن أبى هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: هل ترون قبلتي ههنا؟ فوالله ما يخفى على خشوعكم ولا ركوعكم ، إني لا راكم من وراء ظهرى
صحيح البخارى، كتاب الصلاة، رقم : 418 ، صحیح مسلم، رقم : 958 .
” اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا تم میرے قبلے کو دیکھ رہے ہو؟ پس اللہ کی قسم ( حالت نماز میں ) نہ تمہارا خشوع مجھ سے چھپا ہے اور نہ رکوع، میں تمہیں اپنی پیٹھ کے پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں۔ “

حدیث 27

وعن جابر بن عبد الله رضي الله عنه أن امرأة من الأنصار قالت لرسول الله صلى الله عليه وسلم : يا رسول الله ، ألا أجعل لك شيئا تقعد عليه؟ فإن لى غلاما نجارا ، قال: إن شئت ، قال فعملت له المنبر ، فلما كان يوم الجمعة فعد النبى صلى الله عليه وسلم على المنبر الذى صنع فصاحت النخلة التى كان يخطب عندها حتى كادت تنشق ، فنزل النبى صلى الله عليه وسلم حتى أخذها فضمها إليه، فجعلت تين أنين الصبي الذى يسكت حتى استقرت، قال: بكت على ما كانت تسمع من الذكر
صحيح البخارى البيوع، رقم : 2095 ۔
” اور سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انصار کی ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: یا رسول اللہ ! کیا میں آپ کے لیے کوئی چیز نہ بناؤں جس پر آپ بیٹھیں (اور خطبہ دیں) میرا ایک غلام بڑھئی ہے، فرمایا: تیری مرضی ، تو اس نے آپ کے لیے ایک منبر بنوایا۔ جب جمعہ کا دن آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس منبر پر بیٹھے۔ کھجور کا وہ درخت جس کے ساتھ ٹیک لگا کر آپ خطبہ دیتے تھے بآواز بلند رونے لگا حتی کہ قریب تھا کہ وہ پھٹ جائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اتر کر اس کے پاس گئے اور اسے گلے سے لگایا۔ وہ اس طرح کراہ رہا تھا جس طرح ایک رونے والا بچہ چپ کرایا جاتا ہے۔ جب وہ چپ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ درخت ( میرے ساتھ مل کر ) جو ذکر سنتا تھا اس پر رو رہا تھا۔“

حدیث 28

وعن أبى هريرة رضي الله عنه قال: قلت يا رسول الله إني أسمع منك حديثا كثيرا أنساه ، قال: ابسط ردائك فبسطته قال فغرف بيديه ، ثم قال: ضمه فضممته، فما نسيت شيئا بعده
صحيح البخارى، العلم، رقم : 119۔
”اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! میں آپ کی بہت سی باتیں سنتا ہوں (پھر ) بھول جاتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اپنی چادر پھیلاؤ تو میں نے چادر پھیلا دی۔ آپ نے اسے اپنے ہاتھ کے ساتھ جدا کیا (اور پھیلا دیا) پھر فرمایا، اسے (اپنے سینے کے ساتھ ) لپیٹ لو تو میں نے اسے لپیٹ لیا۔ پھر اس کے بعد ( آپ کی بیان کی ہوئی) کوئی
چیز نہ بھولا ۔ “

مہر نبوت

حدیث 29

وعن السائب بن يزيد يقول: ذهبت بي خالتي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت: يا رسول الله ، إن ابن أختي وجع فمسح رأسي ودعا لي بالبركة ثم توضأ فشربت من وضوئه ثم قمت خلف ظهره فنظرت إلى خاتمه بين كتفيه مثل زر الحجلة
صحيح البخارى كتاب الدعوات، رقم : 6352 ، صحیح مسلم، رقم : 6087 .
” اور سید نا سائب بن یزید رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ میری خالہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئیں اور کہا: اے اللہ کے رسول! میرا ( یہ ) بھانجا بیمار ہے۔‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور برکت کی دعا فرمائی پس آپ نے وضو کیا تو میں نے آپ کے وضو کے بچے ہوئے پانی میں سے پیا اور آپ کے پیچھے کھڑا ہو گیا۔ پھر میں نے آپ کے کندھوں کے درمیان ( نبوت کی ) مہر کو دیکھا جو چھپر کٹ کی گھنڈی (یا کبوتری کے انڈے) جیسی تھی ۔“

خوشبودار جسم اطہر

حدیث 30

وعن أنس رضي الله عنه قال: ما شممت رائحة قط مسكة ولا عنبرة أطيب من رائحة رسول الله ، ولا مسست شيئا قط خزة ولا حريرة البن من كف رسول الله
صحيح البخارى، كتاب الصوم، رقم : 1973 ، و صحیح مسلم، رقم : 6053 .
” اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کے جسم مبارک) کی خوشبو سے زیادہ نہ مشک کستوری سنگھی ہے اور نہ مشک عنبر، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلی سے زیادہ ملائم نہ ریشم چھوا نہ اس سے ملائم جلد والا کوئی اور کپڑا۔ ( آپ کی خوشبو سب سے زیادہ اچھی اور آپ کی ہتھیلیاں سب سے زیادہ ملائم تھیں ۔ )“

نرم خوئی و کرم نوازی اور قبول عذر

حدیث 31

وعن أنس بن مالك رضي الله عنه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم قاعدا فى المسجد ومعه أصحابه، إذ جاء أعرابي قبال فى المسجد ، فقال أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم : مه مه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : لا تزرموه. ثم دعاه، فقال: إن هذه المساجد لا : تصلح لشيء من القدر والبول والخلاء، إنما هي لقراءة القرآن وذكر الله والصلاة
صحيح مسلم، کتاب الطهارة رقم : 661 .
” اور سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ اتنے میں ایک اعرابی آیا اور مسجد میں پیشاب کرنے لگا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے اس سے کہا: نہ کرو، نہ کرو، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اسے پیشاب کرنے سے نہ روکو “ پھر (بعد میں ) اسے بلا کر فرمایا: یہ مسجدیں ہیں ان میں گندگی، پیشاب اور قضائے حاجت جائز نہیں ہے۔ یہ تو صرف قرآت قرآن، اللہ کے ذکر اور نمازوں کے لیے بنائی گئی ہیں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کا ایک ڈول منگوایا اور اس کے پیشاب ( والی جگہ) پر بہا دیا۔“

جرات و شجاعت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم

حدیث 32

وعن أنس رضي الله عنه قال كان النبى صلى الله عليه وسلم أحسن الناس، وأجود صلى الله عليه وسلم الناس ، وأشجع الناس، ولقد فزع أهل المدينة ذات ليلة فانطلق الناس قبل الصوت فاستقبلهم النبى صلى الله عليه وسلم قد سبق الناس إلى الصوت ، وهو يقول: لن تراعوا ، لن تراعوا ، وهو على فرس لأبي طلحة عري ما عليه سرج فى عنقه سيف ، فقال: لقد وجدته بحرا ، أو إنه لبحر
صحيح البخاري، الأدب، رقم : 6033 ، صحیح مسلم ،الفضائل، رقم : 6606 ۔
” اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ خوبصورت ، سب سے زیادہ سخی اور سب سے زیادہ دلیر تھے۔ ایک رات (کسی وجہ سے ) مدینہ والے ڈر گئے ۔ پھر لوگ اس ( ڈراؤنی ) آواز کی طرف چلے تو ان کے سامنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آ گئے ۔ آپ لوگوں سے پہلے اس آواز کی طرف تشریف لے گئے ۔ آپ فرما رہے تھے : ڈرو نہیں، ڈرو نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کی (بغیر زین والی) ننگی پیٹھ پر سوار تھے ۔ آپ کی گردن میں تلوار لٹک رہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں نے اس گھوڑے کو سمندر جیسا ( تیز ) پایا ہے۔“

حدیث 33

وعن أبى هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : والذي نفسي بيده لو أن عندي أحدا ذهبا لا حببت أن لا يأتى على ثلاث ليال وعندى منه دينار أجد من يتقبله مني ، ليس شيء أرصده فى دين علي
صحيح البخارى ، التمني، رقم : 7228.
” اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر میرے پاس احد پہاڑ جتنا سونا ہوتا تو میں پسند کرتا کہ تین راتوں میں اس (سونے) میں سے ایک دینار بھی نہ بچے (اگر) اس کے لینے والے مل جائیں ( تو میں انہیں دے دوں ) سوائے اس چیز کے جس سے میں اپنا قرض اتار سکوں۔“

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تواضع

حدیث 34

وعن عروة قال: سأل رجل عائشة ، هل كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعمل فى بيته ؟ قالت: نعم ، كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يخصف نعله، ويخيط ثوبه، ويعمل فى بيته كما يعمل أحدكم فى بيته
مصنف عبد الرزاق، رقم : 20496.
”اور عروہ ( تابعی رحمہ اللہ ) سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر کے کام (بھی) کرتے تھے انہوں نے کہا: جی ہاں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا جوتا گا نٹھتے اور اپنا کپڑا سیتے تھے۔ جس طرح تم اپنے گھر کے کام کرتے ہو وہ بھی اپنے گھر کے کام کرتے تھے۔ “

دنیا سے بے نیازی

حدیث 35

وعن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال: دخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فإذا هو مضطجع على رمال حصير ليس بينه وبينه فراس ، قد أثر الرمال بحنبه ، متكلا على وسادة من آدم حشوها ليف، فرفعت بصري فى بيته فوالله ما رأيت شيئا يرد البصر غير أهبة ثلاثة فقلت: يا رسول الله ادع الله فليوسع على أمتك ، فإن فارسا والروم قد وسع عليهم ، وهم لا يعبدون الله ، فقال: أو فى هذا يا ابن الخطاب أولئك قوم عجلوا طيباتهم فى الحياة الدنيا
صحيح البخاري، النكاح رقم : 5191 ۔
”اور سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا۔ آپ بورے (یا کھجور ) اور شاخوں کی بنی ہوئی تنگی چار پائی پر لیٹے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور اس بورے (چار پائی) کے درمیان بستر نہیں تھا۔ آپ کے جسم پر بورے (یا چار پائی) کی شکنوں کا اثر تھا۔ آپ نے چمڑے کے ایک سرہانے پر تکیہ لگا رکھا تھا جس میں کھجور کی شاخیں وغیرہ بھری ہوئی تھیں۔ میں نے گھر میں دیکھا تو اللہ کی قسم تین کھالوں کے علاوہ کچھ بھی نہ پایا۔“

چند نمایاں صفات پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم

حدیث 36

وعن عطاء بن يسار قال: لقيت عبد الله بن عمرو بن العاص رضي الله عنه قلت: أخبرني عن صفة رسول الله صلى الله عليه وسلم فى التوراة، قال: أجل، والله إنه لموصوف فى التوراة ببعض صفته فى القرآن يا أيها النبى إنا أرسلناك شاهدا ومبشرا ونذيرا﴾ وحرزا لأميين ، أنت عبدى ورسولي ، سميتك المتوكل ، ليس بفظ ولا غليظ ، ولا سخاب فى الأسواق ولا يدفع بالسيئة السيئة ، ولكن يعفو ويغفر ، ولن يقبضه الله حتى يقيم به الملة العوجاء ، بأن يقولوا لا إله إلا الله، ويفتح بها أعينا عميا ، وآذانا صما ، وقلوبا غلفا
صحيح البخاری ، البيوع، رقم : 2125 ۔
” اور عطاء بن یسار (تابعی) نے فرمایا کہ میں نے عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی اور کہا مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت، تورات ( روایات یہود) میں سے بتا ئیں تو انہوں نے فرمایا: جی ہاں، اللہ کی قسم! آپ کی بعض صفتیں تورات میں (بھی) مذکور ہیں جو قرآن میں بیان ہوئی ہیں: اے نبی! بے شک ہم نے آپ کو گواہ ، خوش خبری دینے اور ڈرانے والا بنا کا بھیجا۔“ امین (ان پڑھ لوگوں) کے لیے آپ میرے بندے اور رسول ہیں۔ میں نے آپ کا نام المتوكل ( توکل کرنے والا ) رکھا ہے۔ نہ بدخلق اور نہ کھردرا ۔ نہ تو بازاروں میں شور مچانے والے ہیں اور نہ برائی کا بدلہ برائی سے دینے والے لیکن درگزر اور معاف کرتے ہیں۔ اللہ اس وقت تک ان کی روح قبض نہیں کرے گا جب تک ٹیڑھی امت کو سیدھا نہ کر دے تا کہ وہ لا اله الا الله کہنے لگیں۔ ان کے ذریعے سے اندھوں کی آنکھیں، بہروں کے کان اور پردوں والے دل کھل جائیں گے۔“

وفات کے قریب وصیت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم

حدیث 37

وعن أبى سعيد الخدري رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم جلس على المنبر فقال: إن عبدا خيره الله بين أن يؤتيه من زهرة الدنيا ما شاء وبين ما عنده فاختار ما عنده فبكى أبو بكر وقال: فديناك بآبائنا وأمهاتنا ، فعجبنا له وقال الناس: انظروا إلى هذا الشيخ ، يخبر رسول الله صلى الله عليه وسلم عن عبد خيره الله بين أن يؤتيه من زهرة الدنيا وبين ما عنده، وهو يقول: فديناك بآبائنا وأمهاتنا ، فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم هو المخير ، وكان أبو بكر هو أعلمنا به ، وقال رسول الله : إن من أمن الناس على فى صحبته وماله أبا بكر ، ولو كنت متخذا خليلا من أمتي لاتخذت أبا بكر ، إلا خلة الإسلام ، لا يبقين فى المسجد خوخة إلا خوحة أبى بكر
صحيح البخاری، کتاب مناقب الأنصار ، رقم : 3904 ، صحیح مسلم، رقم: 6170۔
”اور سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر بیٹھے تو فرمایا: بندے کو اللہ نے اختیار دیا ہے کہ وہ دنیا کی لذتوں سے فائدہ اٹھاتا رہے یا جو اللہ کے پاس ہے اسے ترجیح دے تو بندے نے اللہ کے پاس کو ترجیح دے دی ہے۔ یہ سن کر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رونے لگے اور فرمایا: ہمارے ماں باپ آپ کی یہ تم پر قربان ہوں ہم اس بات پر (سخت) حیران ہوئے تو لوگوں نے کہا: اس شخص (بوڑھے) کو دیکھو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بندے کی خبر بتا رہے ہیں جس کو اللہ نے دنیا کی لذتوں کے فائدہ اٹھانے اور اللہ کے ہاں جو ہے اسے لینے کا اختیار دیا ہے اور یہ کہہ رہا ہے: ہمارے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ (بات یہ تھی کہ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ بندے تھے جنہیں اختیار دیا گیا تھا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ ہم میں سب سے زیادہ عالم ( اور فقیہ ) تھے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں میں میرے بارے میں صحابیت اور مال کے لحاظ سے زیادہ احسان کرنے والا ابوبکر ہے۔ اگر میں امت میں سے کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر رضی اللہ کو خلیل بناتا سوائے اسلام کی دوستی کے ( یہ سب کے ساتھ باقی ہے ) ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر کی کھڑکی کے علاوہ دوسری کوئی کھڑ کی مسجد میں کھلی نہ چھوڑی جائے ۔“

حدیث 38

وعن أبى هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من أشد أمتي لى حبا ناس يكونون بعدي يود أحدهم لو رآني بأهله وماله
صحیح مسلم، كتاب صفة الجنة وصفة ونعيمها، رقم : 7145.
”اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت میں مجھ سے وہ لوگ بہت زیادہ محبت رکھنے والے ہیں جو میرے بعد ایمان لائیں گے۔ ان کا ہر آدمی یہ چاہے گا کہ کاش وہ اپنا مال و جان قربان کر کے مجھے ایک نظر دیکھ لیتا۔ “

اتباع پیغمبر اور محبت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم

قَالَ اللهُ تَعَالَى: قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ‎﴿٣١﴾‏
(3-آل عمران:31)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” آپ کہہ دیجیے : اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمھارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا ، نہایت رحم کرنے والا ہے۔“

حدیث 39

وعن أبى هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : والذي نفس محمد فى يده، لا يسمع بي أحد من هذه الأمة يهودي ، ولا نصراني ، ومات ولم يؤمن بالذي أرسلت به ، إلا كان من أصحاب النار
مسند احمد : 317/2۔ احمد شاکر نے اسے ”صحیح“ کہا ہے۔
”سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے، اس امت (دعوت) سے کوئی شخص چاہے یہودی ہو یا نصرانی میرے بارے میں سن کر اپنی موت سے پہلے مجھ پر ایمان نہیں لاتا تو وہ ضرور جہنمی ہے۔“

بے مثال تحمل و شجاعت

حدیث 40

وعن جابر بن عبد الله رضي الله عنه قال: قاتل رسول الله صلى الله عليه وسلم محارب خصفة (قال) فرأوا من المسلمين غرة، فجاء رجل حتى قام على رسول الله صلى الله عليه وسلم بالسيف ، قال: من يمنعك مني؟ قال: الله قال فسقط السيف من يده، فأخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم السيف فقال: من يمنعك مني؟ فقال: لا ، غير أني لا أقاتلك ، ولا أكون معك ، ولا أكون مع قوم يقاتلونك ، فخلى سيله، فجاء أصحابه فقال: جئتكم من عند خير الناس
أبو الشيخ ، ص : 43 ، مستدرك حاكم: 30/3، 29۔ حاکم نے اسے ”صحیح“ کہا ہے۔
”اور سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خصفہ کے محارب سے جنگ کی (غزوہ ذات الرقاع ) تو انہوں نے دیکھا کہ مسلمان (رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے) غافل ہیں تو ایک آدمی آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تلوار لے کر کھڑا ہو گیا (اور) کہا: آپ کو مجھ سے کون بچائے گا؟ آپ نے فرمایا: اللہ ، تو اس کے ہاتھ سے تلوار گر گئی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلوار لے لی اور کہا: تجھے کون مجھ سے بچائے گا؟ تو اس نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تو لا اله الا الله اور میرے رسول اللہ ہونے کی گواہی دیتا ہے؟ اس نے کہا: نہیں، سوائے اس کے کہ میں آپ سے جنگ نہیں کروں گا اور نہ آپ کے ساتھ (آپ کا حامی بن کر) رہوں گا اور نہ ایسی قوم کے ساتھ شامل ہوں گا جو آپ سے جنگ کرتی ہے تو آپ نے اسے (جانے کے لیے ) چھوڑ دیا۔ پھر وہ اپنے ساتھیوں کے پاس آیا تو کہا: میں تمہارے پاس سب سے بہترین آدمی کے پاس سے آیا ہوں۔“
وصلى الله تعالى على خير خلقه محمد وآله وصحبه أجمعين

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے