ختنہ شدہ پیدا ہونے والے بچوں سے متعلق 7 شرعی احکام
ماخوذ: فتاویٰ الدین الخالص، جلد 1، صفحہ 437

اگر بچہ ختنہ شدہ پیدا ہو تو استرا پھیرنا واجب ہے یا نہیں؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ختنہ کے وجوب کو ساقط کرنے والے امور

بارہویں فصل: ختنہ کے وجوب کو ختم کر دینے والے بعض مخصوص امور درج ذیل ہیں:

 پیدائشی طور پر ختنہ شدہ ہونا

  • اگر کسی شخص کی پیدائش اس طرح ہو کہ اس کے عضوِ تناسل پر پردہ (یعنی قلفہ) ہی موجود نہ ہو، تو اس پر ختنہ لازم نہیں ہے۔
  • کیونکہ جس چیز کا ختنہ کیا جاتا ہے، اگر وہ پیدائشی طور پر موجود ہی نہ ہو، تو ختنہ غیر ضروری ہے۔
  • یہ بات علماء کا متفقہ قول ہے۔

متاخرین علماء کی رائے

  • بعض متاخرین علماء کا کہنا ہے کہ:
    • ختنہ کی جگہ پر استرا پھیرنا مستحب ہے، کیونکہ اس پر انسان قدرت رکھتا ہے۔
    • اس کی دلیل نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد ہے:
      اذا امرتكم بأمر فأتوا منه ما استطعتم
      "جب میں تمہیں کسی چیز کا حکم دوں، تو اپنی استطاعت کے مطابق اس پر عمل کرو۔”
      (صحیح بخاری، 2؍1082، صحیح مسلم فی الفضائل، 2؍262)

استرا پھیرنے کی شرعی حیثیت

  • ختنہ میں دو واجب افعال ہوتے ہیں:
    1. استرا پھیرنا
    2. جلد کاٹنا
  • اگر جلد ہی موجود نہ ہو تو:
    • کاٹنے کا عمل ساقط ہو جاتا ہے۔
    • استرا پھیرنے کا عمل باقی رہ جاتا ہے، لیکن اس کا بھی کوئی شرعی فائدہ نہیں۔
  • پس، استرا پھیرنے کا استحباب درست نہیں کیونکہ:
    • یہ ایک بے مقصد عمل بن جاتا ہے۔
    • ایسی چیز اللہ کی عبادت یا اس کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں بن سکتی۔
    • شریعت بے فائدہ کاموں سے پاک ہے۔

اس کی نظیر اور دیگر مثالیں

  • بعض علماء نے کہا:
    • جس کے سر پر بال ہی نہ ہوں، وہ بھی حج یا عمرے میں سر پر استرا پھیرے۔
  • بعض کا یہ بھی کہنا ہے:
    • اگر کوئی شخص تلاوتِ قرآن نہ کر سکتا ہو، نہ کوئی ذکر یاد ہو، اور وہ گوگا ہو، تو وہ زبان کو ہلائے۔
  • شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کا فرمان:
    • اگر کہا جائے کہ زبان ہلانا نماز کو باطل کر دیتا ہے تو یہ بات زیادہ درست کے قریب ہے۔
    • کیونکہ یہ بے فائدہ عمل ہے اور خشوع کے خلاف ہے۔

ختنہ کی ضرورت کن صورتوں میں باقی رہتی ہے؟

  • اگر پردہ (قلفہ) مکمل غائب ہو تو ختنہ نہیں کیا جاتا۔
  • لیکن اگر ذکر (عضوِ تناسل) کا سر صرف جزوی طور پر ظاہر ہو:
    • یعنی پیشاب کا سوراخ ظاہر ہے، مگر مکمل حشفہ (سر) نظر نہیں آتا۔
    • تو ختنہ کرانا ضروری ہے تاکہ سارا حشفہ ظاہر ہو جائے۔

مرد اور عورت کے ختنہ کی شرعی تفصیل

  • مرد کے لیے:
    • وہ ساری جلد کاٹنا واجب ہے جو حشفہ کو ڈھانپتی ہے، تاکہ مکمل حشفہ ظاہر ہو جائے۔
  • عورت کے لیے:
    • فرج کے اوپر والی جلد کا معمولی حصہ کاٹنا واجب ہے، جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے۔

تفصیل کتبِ فقہ میں

تحفۃ الاحوذی (4؍8) میں الماوردی کا قول:

  • مرد کا ختنہ یہ ہے:
    • وہ جلد کاٹ دی جائے جو حشفہ کو چھپائے ہوئے ہو، تاکہ حشفہ کی جلد مکمل طور پر ختم ہو جائے۔
    • اول حشفہ کی جڑ سے مکمل جلد ہٹانا افضل ہے۔
    • کم از کم اتنی جلد تو ہونی چاہیے کہ حشفہ پر کچھ نہ رہے۔
  • امام الحرمین کا قول:
    • مرد کے لیے قلفے کو مکمل کاٹنا ضروری ہے تاکہ کوئی حصہ باقی نہ رہے۔

ابن الصباغ کا قول:

  • ختنہ کا مقصد یہ ہے کہ پورا حشفہ ظاہر ہو جائے۔

عورت کے ختنہ کے بارے میں:

  • امام کا قول:
    • عورت کے ختنہ میں اتنا حصہ کاٹا جائے کہ اس پر ختنہ کا نام لیا جا سکے۔
  • الماوردی کا بیان:
    • عورت کے ختنہ میں وہ جلد کاٹی جائے جو فرج کے اوپر، مدخلِ ذکر سے اوپر ہوتی ہے۔
    • یہ جلد مرغ کی کلغی کی طرح گھنی ہوتی ہے۔
    • اس جلد کو جڑ سے کاٹنا واجب نہیں، بلکہ اوپر سے کاٹنا کافی ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1