إن الحمد لله نحمده، ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له ، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله . أما بعد:
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں
قَالَ اللهُ تَعَالَى: مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَٰكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا ﴿٤٠﴾
(33-الأحزاب:40)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”محمد تمھارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں اور لیکن وہ اللہ کے رسول اور تمام نبیوں کے ختم کرنے والے ہیں اور اللہ ہمیشہ سے ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔
حدیث :1
عن أبى هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: فضلت على الأنبياء بسي أعطيت جوامع الكلم ، ونصرت بالرعب ، وأحلت لى الغنائم ، وجعلت لى الأرض طهورا ومسجدا ، وأرسلت إلى الخلق كافة ، وختم بي النبيون
صحیح مسلم، کتاب الصلاة، رقم : 1167 .
”سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مجھے چھ خوبیوں کی بنا پر دوسرے انبیاء پر برتری حاصل ہے۔ [1] مجھے جامع گفتگو کا ملکہ دیا گیا ہے۔ [2] خاص رعب و دبدبے کے ذریعے میری مدد کی گئی ہے۔ [3] میرے لیے مال غنیمت حلال کیا گیا ہے۔ [4] میرے لیے تمام زمین مسجد اور پاکیزگی عطا کرنے والی بنائی گئی ہے۔ [5] مجھے تمام مخلوق کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہے۔ اور [6] مجھ پر انبیاء کا سلسلہ نبوت ختم کیا گیا ہے۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت
قَالَ اللهُ تَعَالَى: قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمَاتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ﴿١٥٨﴾
(7-الأعراف:158)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” کہہ دیجیے : اے لوگو! بے شک میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں، جس کے پاس آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے، اس کے سوا کوئی معبود (برحق ) نہیں، وہ زندہ کرتا اور مارتا ہے، لہذا تم اللہ پر اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاؤ، جو (خود بھی) اللہ اور اس کے (تمام) کلمات پر ایمان لاتا ہے، اور تم اس کی پیروی کرو، تاکہ تم ہدایت پاؤ۔“
حدیث : 2
وعن سعد بن أبى وقاص، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لعلي أنت منى بمنزلة هارون من موسى، إلا أنه لا نبي بعدي
صحیح بخارى كتاب فضائل أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم ، رقم : 3706، :3706، صحیح مسلم، رقم : 6221 ، مسند أحمد : 177/1 ، المشكاة ، رقم : 6087 ، صحيح الجامع الصغير رقم 1484 .
”اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ سید نا علی رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا تھا: تیری مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون علیہ السلام کی موسیٰ علیہ السلام سے تھی ، مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ “
بنی اسرائیل میں انبیاء کرام علیہم حکومت کرتے تھے
حدیث : 3
وعن أبى هريرة ، عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: كانت بنو إسرائيل سهم الأنبياء، كلما هلك نبي خلفه نبي ، وإنه لا نبي بعدى، وسيكون خلفاء ، فيكثرون
صحيح بخارى، كتاب الانبياء رقم : 3455 ، صحیح مسلم، رقم : 4773، مسند احمد : 297/2.
”اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بنی اسرائیل پر نبی حکومت کیا کرتے تھے، جب ایک نبی فوت ہو جاتا تو اس کی جگہ دوسرا نبی ہوتا۔ مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔ البتہ بعد میں کثرت سے خلفاء پیدا ہوں گے۔“
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں، آپ کے بعد دعوی نبوت کرنے والا جھوٹا ہے
حدیث : 4
وعن ثوبان رضی اللہ عنہ قال: قال رسول الله : إنه سيكون فى أمتي كذابون ثلاثون كلهم يزعم أنه نبي ، وأنا خاتم النبيين لا نبي بعدي
سنن ابی داؤد ، کتاب الفتن والسلام، رقم : 4252 – علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے.
”اور سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عنقریب میری امت میں تھیں کذاب ہوں گے، ان میں سے ہر ایک یہ گمان کرے گا کہ وہ نبی ہے حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ “
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بندے اور رسول ہیں
قَالَ اللهُ تَعَالَى:قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ إِن نَّحْنُ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَمُنُّ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۖ وَمَا كَانَ لَنَا أَن نَّأْتِيَكُم بِسُلْطَانٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ ﴿١١﴾
(14-إبراهيم:11)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”ان کے رسولوں نے ان سے کہا: واقعی ہم تمھارے جیسے بشر ہی ہیں اور لیکن اللہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس پر احسان کرتا ہے۔ اور ہمیں یہ اختیار نہیں کہ اللہ کے حکم کے بغیر ہم تمھارے پاس کوئی نشانی (یا دلیل ) لاسکیں ، اور مومنوں کو اللہ ہی پر توکل کرنا چاہیے۔“
حدیث : 5
وعن عائشة ، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : أشهد أن الله على كل شيء قدير ، وأنى عبد الله ورسوله
سنن ابی داؤد، كتاب الصلاة، رقم : 1173 ۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن کہا ہے۔
”اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر (پوری طرح) قادر ہے، اور میں اللہ کا بندہ اور رسول ہوں ۔ “
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر انبیاء کرام کی تکمیل ایک مثال سے سمجھیں
حدیث : 6
وعن أبى هريرة رضي الله عنه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: مثلي ومثل الأنبياء ، كمثل قصر أحسن بنيانه ترك منه موضع لبنة فطاف النظار يتعجبون من حسن بنيانه إلا موضع تلك اللبنة فكنت أنا سددت موضع اللبنة ختم بى البنيان وختم بى الرسل و فى رواية : فأنا اللبنة ، وأنا خاتم النبيين
صحیح بخاری ، کتاب المناقب، رقم : 3534 ، 3535، صحیح مسلم، کتاب الفضائل، رقم : 5959
” اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری مثال اور دوسرے نبیوں کی مثال نہایت ہی اعلی تعمیر شدہ محل کی سی ہے، جس میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی گئی تھی۔ اس کو دیکھنے والے اس کے ارد گرد گھومتے رہے۔ اس عمارت کے حسن کو دیکھ کر عش عش کر اٹھتے ۔سوائے اس اینٹ کی خالی جگہ کے۔ چنانچہ میں نے اس اینٹ کے خلا کو پُر کر دیا۔ مجھ پر اس عمارت کی تکمیل ہوئی اور رسولوں کا سلسلہ بھی مجھ پر ہی ختم ہوا۔ دوسری روایت میں ہے کہ میں ہی وہ اینٹ ہوں اور میں ہی خاتم النبیین ہوں۔“
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام
حدیث : 7
وعن أنس بن مالك أن رجلا قال: يا محمد ، يا سيدنا وابن سيدنا ، وخيرنا وابن خيرنا . فقال: رسول الله : يأيها الناس عليكم بتقواكم ، لا يستهو ينكم الشيطان ، أنا محمد بن عبد الله، عبد الله ورسوله، والله ما أحب ان ترفعوني فوق منزلتي التى انزلنى الله
مسند احمد 153/3 رقم ، رقم : 12551۔ شیخ شعیب نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے، عمل اليوم والليلة للنسائي، ص : 249۔
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک بار کسی صحابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان الفاظ میں مخاطب کیا: يَا مُحَمَّدُ يَا سَيِّدَنَا وَابْنَ سَيِّدَنَا ، وَخَيْرَنَا وابْنَ خَيْرِنَا “ یعنی اے محمد ! اے ہمارے سردار، اور ہمارے سردار کے بیٹے ! اے ہم میں سب سے افضل اور سب سے افضل کے بیٹے “ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے لوگو! تقویٰ کو لازم پکڑو! دیکھو کہیں شیطان تمہیں میری محبت میں صحیح راستے سے بھٹکا نہ دے۔ میں محمد بن عبد اللہ ہوں، اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ مجھے یہ قطعا پسند نہیں کہ تم مجھے میرے اُس مقام سے اونچا اٹھاؤ جس مقام پر اللہ تعالیٰ نے مجھے رکھا ہے۔“
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام و مرتبہ مت بڑھاؤ
حدیث : 8
وعن عمر رضی اللہ عنہ : يقول على المنبر: سمعت النبى صلى الله عليه وسلم يقول: لا تطروني كما أطرت النصارى ابن مريم فإنما أنا عبده فقولوا: عبد الله ورسوله
صحیح بخاری کتاب احادیث الانبياء ، رقم : 3445.
” اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری تعریف میں حد سے تجاوز نہ کرو۔ جیسا کہ نصاری نے عیسی بن مریم کے بارے میں کیا تھا، میں تو صرف اللہ کا بندہ ہوں۔ پس تم بھی مجھے اللہ کا بندہ اور رسول ہی کہو“
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کا قیصر روم ہرقل کی طرف خط
حدیث : 9
وعن عبد الله بن عباس أخبره: أن أبا سفيان بن حرب أخبره: أن هرقل أرسل إليه فى نفر من قريش – وكانوا تجارا بالشام فأتوه فذكر الحديث – قال: ثم دعا بكتاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فقرى فإذا فيه: بسم الله الرحمن الرحيم، من محمد عبد الله ورسوله إلى هرقل عظيم الروم ، السلام على من اتبع الهدى ، أما بعد
صحیح بخاری ، کتاب الاستئذان، رقم : 6260.
” اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے خبر دی اور انہیں ابوسفیان بن حرب رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ ہر قل نے قریش کے چند افراد کے ساتھ انہیں بھی بلا بھیجا۔ یہ لوگ شام تجارت کی غرض سے گئے تھے۔ سب لوگ ہر قل کے پاس آئے۔ پھر انہوں نے واقعہ بیان کیا کہ پھر ہر قل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط منگوایا اور وہ پڑھا گیا۔ خط میں یہ لکھا ہوا تھا: بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ محمد کی طرف سے جو اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہے ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہرقل عظیم روم کی طرف سلام ہو ان پر جنہوں نے ہدایت کی اتباع کی۔ اما بعد ! “
انبیاء کرام علیہم السلام کو سخت آزمائش کا آنا
حدیث : 10
وعن فاطمة بنت اليمان ، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إن أشد الناس بلاء الأنبياء، ثم الذين يلونهم ، ثم الذين يلونهم
صحيح الجامع الصغير، رقم : 1562 ، سلسلة الصحيحة، رقم : 1165
”اور حضرت فاطمہ بنت قیس بنت یمان رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بلاشبہ لوگوں میں سب سے سخت آزمائش انبیاء کو آتی ہے، پھر ان کو جوان کے قریب ہیں اور پھر ان کو جو ان کے قریب ہیں۔ “
حبشہ کے بادشاہ نجاشی کی گواہی
قَالَ اللهُ تَعَالَى:وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُم مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ ۖ فَلَمَّا جَاءَهُم بِالْبَيِّنَاتِ قَالُوا هَٰذَا سِحْرٌ مُّبِينٌ ﴿٦﴾
(61-الصف:6)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اور جب عیسی ابن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل! بلاشبہ میں تمھاری طرف اللہ کا رسول ہوں، اس کی تصدیق کرنے والا ہوں جو مجھ سے پہلے تو رات کی صورت میں ہے اور ایک رسول کی بشارت دینے والا ہوں، جو میرے بعد آئے گا، اس کا نام احمد ہے۔ پھر جب وہ ان کے پاس واضح نشانیاں لے کر آیا تو انھوں نے کہا یہ کھلا جادو ہے۔“
حدیث : 11
وعن ابن مسعود، قال: بعث إليهم ، فقال جعفر: أنا خطيبكم اليوم قال: مرحبا بكم ، وبمن جئتم من عنده، أشهد أنه رسول الله، فإنه الذى نجد فى الإنجيل، وإنه الرسول الذى بشر به عيسى ابن مريم
مسند احمد: 461/1 ، فتح البارى 189/7 ، البداية والنهاية : 69/3- حافظ ابن حجر اور ابن کثیر نے اس کی سند کو حسن اور جید قرار دیا ہے۔
”اور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : جب نجاشی نے مہاجرین حبشہ کو اپنے دربار میں بلایا، اور جعفر رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سنیں تو پکار اٹھا کہ تم کو مرحبا ہو، اور اس ہستی کو جس کے پاس سے تم آئے ہو۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے رسول ہیں اور وہی ہیں جن کا ذکر ہم انجیل میں پاتے ہیں جن کی بشارت عیسیٰ علیہ السلام نے دی تھی۔ “
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی دعا اور عیسی علیہ السلام کی بشارت
حدیث : 12
وعن أبى أمامة قال: قلت: يا نبي الله ما كان أول بدء أمرك؟ قال: دعوة أبى إبراهيم، وبشرى عيسى، ورأت أمي أنه يخرج منها نور أضاءت منه قصور الشام
مسند احمد : 262/5 رقم: 22261 ، طبرانی کبیر، رقم: 4769، مجمع الزوائد: 289/8۔ علامہ بیثمی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو حسن کہا ہے۔
”اور حضرت ابوامامہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ مجھے اپنے پس منظر سے آگاہ فرما ئیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کی دعا، عیسی علیہ السلام کی بشارت ہوں۔ اور اپنی والدہ ماجدہ کا خواب ہوں انہوں نے دیکھا تھا کہ ان کے جسم سے نور نکلا ہے جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے ۔ “
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تورات میں صفات
قَالَ اللهُ تَعَالَى: مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا ۖ سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ۚ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ
(48-الفتح:29)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” محمد اللہ کا رسول ہے اور وہ لوگ جو اس کے ساتھ ہیں کافروں پر بہت سخت ہیں، آپس میں نہایت رحم دل ہیں، تو انھیں اس حال میں دیکھے گا کہ رکوع کرنے والے ہیں، سجدے کرنے والے ہیں، اپنے رب کا فضل اور (اس کی) رضا ڈھونڈتے ہیں، ان کی شناخت ان کے چہروں میں (موجود) ہے، سجدے کرنے کے اثر سے۔ یہ ان کا وصف تورات میں ہے اور انجیل میں ۔“
حدیث : 13
وعن عطاء بن يسار قال: لقيت عبد الله بن عمرو بن العاص رضي الله عنها ، قلت: أخبرني عن صفة رسول الله صلى الله عليه وسلم فى التوراة؟ قال: أجل، والله إنه لموصوف فى التوراة ببعض صفته فى القرآن يأيها النبى إنا ارسلنك شاهدا و مبشرا و نذيرا وحرزا للأميين أنت عبدى ورسولى سميتك المتوكل، ليس بفظ ولا غليظ، ولا سخاب فى الأسواق، ولا يدفع بالسيئة السيئة، ولكن يعفو ويغفر، ولن يقبضه الله حتى يقيم به الملة العوجاء بأن يقولوا: لا إله إلا الله ويفتح بها أعينا عميا ، وآذانا صما وقلوبا غلفا
صحیح بخاری، کتاب البيوع، رقم : 2125
”اور سیدنا عطاء بن یسار رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں۔ میں سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے ملا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تورات میں منقول وصف کے متعلق دریافت فرمایا سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے جواب میں فرمایا کیوں نہیں ، اللہ کی قسم ! تورات میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض صفات تو وہ مذکور ہیں جو قرآن مجید میں بھی آئی ہیں۔ اے نبی ! ہم نے تجھے گواہ، خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا۔ مزید برآں آپ ان پڑھوں کے ماوی ، میرے بندے اور میرے رسول ہیں۔ میں نے آپ کا نام متوکل رکھا ہے۔ آپ نہ بد خو وسخت مزاج ہیں، نہ بازاروں میں شور و غوغا کرنے والے اور نہ ہی برائی کا برائی سے جواب دینے والے، بلکہ معاف کر دیتے ہیں اور بخش دیتے ہیں، اور آپ کی روح اللہ تعالیٰ اس وقت تک قبض نہ کرے گا جب تک راہ سے بھٹکی ہوئی قوم کو سیدھا نہ کر دیں یہاں تک کہ لوگ اس کلمہ لا الہ الا اللہ کو نہ مان لیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ اس کلمہ کی برکت سے ان کی اندھی آنکھیں، بہرے کان اور بند دل کھول دے گا۔ “
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا سلیمان علیہ السلام کو بھائی قرار دیا
حدیث : 14
وعن أبى هريرة عن النبى صلى الله عليه وسلم : إن عفريتا من الجن تفلت البارحة ليقطع على صلاتي فأمكنني الله منه فأخذته فأردت أن أربطه على سارية من سوارى المسجد حتى تنظروا إليه كلكم فذكرت دعوة أخي سليمان رب اغفر لي وهب لي ملكا لا ينبغى لاحد من بعدى فرددته خاسئا . عفريت متمرد من إنس أو جان مثل زبنية جماعتها الزبانية
صحیح بخاری ، کتاب أحاديث الأنبياء، رقم، 3423 .
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : آج رات ایک سرکش جن مجھ پر حملہ آور ہوا تا کہ میری نماز قطع کرے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس پر قدرت دے دی تو میں نے اسے پکڑ لیا۔ میں نے اسے مسجد کے ستونوں میں سے کسی ستون کے ساتھ باندھ دینے کا ارادہ کیا تا کہ تم سب کے سب اسے دیکھ لو۔ پھر مجھے اپنے بھائی سلیمان کی دعا یاد آ گئی۔ اے میرے رب! مجھے ایسی حکومت عطا فرما جو میرے بعد کسی کو نہ ملے تو میں نے اسے ذلیل وخوار کر کے چھوڑ دیا۔ عفریت کے معنی سرکش ہیں، خواہ وہ انسان ہو یا جن ۔ یہ زبنية کی طرح ہے جس کی جمع زبانیہ ہے۔ “
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا جناب ورقہ بن نوفل نے بھی اقرار کیا
حدیث: 15
وعن عائشة رضي الله عنها : فرجع النبى صلى الله عليه وسلم إلى خديجة يرجف فؤاده ، فانطلقت به إلى ورقة بن نوفل – وكان رجلا تنصر يقرأ الإنجيل بالعربية – فقال ورقة: ماذا ترى؟ فأخبره فقال ورقة: هذا الناموس الذى أنزل الله على موسى، وإن أدركني يومك أنصرك نصرا مؤزرا . الناموس : صاحب السر الذى يطلعه بما يستره عن غيره
صحيح بخارى، كتاب أحاديث الأنبياء، رقم : 3392 .
” اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ، انہوں نے فرمایا: پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( وحی آنے کے بعد ) حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی طرف لوٹے تو آپ کا دل کانپ رہا تھا، چنانچہ وہ آپ کو حضرت ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں۔ وہ شخص نصرانی ہو گیا تھا۔ انجیل کا عربی زبان میں ترجمہ کرتا تھا، ورقہ نے آپ سے پوچھا: آپ نے کیا دیکھا؟ تو آپ نے اس سے سارا واقعہ بیان کر دیا ۔ ورقہ نے کہا: یہ تو وہی راز دان ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر اتارا تھا۔ اگر مجھے آپ کا زمانہ (ظہور نبوت) مل گیا تو میں آپ کی بھر پور مدد کروں گا۔ ناموس، اس راز دان کو کہتے ہیں جو دوسروں سے راز میں رکھتے ہوئے کسی چیز کی اطلاع دے۔“
انبیاء علیہم السلام اکرم الناس ہیں
حدیث : 16
وعن أبى هريرة رضي الله عنه ، قيل : يا رسول الله من أكرم الناس؟ قال: أتقاهم . فقالوا: ليس عن هذا نسألك. قال: فيوسف نبي الله ابن نبي الله ابن نبي الله ابن خليل الله قالوا: ليس عن هذا نسألك ، قال: فعن معادن العرب تسألون؟ خيارهم فى الجاهلية خيارهم فى الإسلام إذا فقهوا
صحيح بخاري، كتاب أحاديث الأنبياء، رقم :3353.
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا: اللہ کے رسول ! لوگوں میں سے سب زیادہ مکرم کون ہے؟ آپ نے فرمایا: جو ان میں اللہ تعالیٰ سے زیادہ ڈرنے والا ہو۔ لوگوں نے عرض کیا: ہم نے یہ سوال نہیں کیا۔ تو آپ نے ارشاد فرمایا: سب سے زیادہ بزرگ اللہ کے نبی حضرت یوسف علیہ السلام ہیں جو خود نبی تھے، باپ نبی، دادا نبی اور پردادا بھی نبی جو اللہ کے خلیل ہیں۔ لوگوں نے عرض کیا: ہم نے آپ سے یہ نہیں پوچھا۔ آپ نے فرمایا: تم خاندان عرب کے متعلق پوچھتے ہو؟ ان سب سے جو زمانہ جاہلیت میں بہتر تھے وہی اسلام میں بھی بہتر ہیں۔ بشرطیکہ وہ دین میں فقاہت حاصل کرلیں۔ “
روز قیامت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم گواہی دیں گے
قال الله تعالى: وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا ۗ وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ ۚ وَإِن كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلَّا عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ ۗ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ ﴿١٤٣﴾
(2-البقرة:143)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور ( جسے تمھیں ہدایت دی ) اسی طرح ہم نے تمھیں افضل امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہوں ۔ اور (اے نبی!) جس قبلے (بیت المقدس) پر آپ پہلے تھے، اسے تو ہم نے صرف یہ جاننے کے لیے مقرر کیا تھا کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاتا ہے اور بے شک یہ ( قبلہ کی تبدیلی) بہت بھاری ہے ( کافروں پر ) مگر اُن لوگوں پر (نہیں) جنھیں اللہ نے ہدایت دی اور اللہ ایسا نہیں کہ تمھارا ایمان ضائع کر دے۔ بے شک اللہ لوگوں پر بہت نرمی کرنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔“
حدیث: 17
وعن أبى سعيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : يجيء نوح وأمته فيقول الله تعالى: هل بلغت؟ فيقول نعم أى رب. فيقول لأمته: هل بلغكم؟ فيقولون: لا ، ما جائنا من نبي ، فيقول لنوح: من يشهد لك؟ فيقول: محمد وأمته، فنشهد أنه قد بلغ ، وهو قوله جل ذكره: وكذلك جعلنكم أمة وسطا لتكونوا شهداء على الناس
صحيح البخارى، كتاب أحاديث الأنبياء، رقم : 3339.
”اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی امت آئے گی تو اللہ تعالی دریافت فرمائے گا: کیا تم نے انہیں میرا پیغام پہنچا دیا تھا ؟ حضرت نوح علیہ السلام عرض کریں گے، میں نے ان کو تیرا پیغام پہنچا دیا تھا اے رب العزت ! اب اللہ تعالیٰ ان کی امت سے دریافت فرمائے گا: کیا انہوں نے تمہیں میرا پیغام دیا تھا؟ وہ جواب دیں گے: نہیں ! ہمارے پاس تیرا کوئی نبی نہیں آیا۔ اللہ تعالیٰ حضرت نوح علیہ السلام سے دریافت فرمائے گا: تمہارا کوئی گواہ ہے؟ وہ کہیں گے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت کے لوگ میرے گواہ ہیں، چنانچہ وہ (میری امت ) اس امر کی گواہی دے گی کہ نوح علیہ السلام نے لوگوں کو اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: اور اسی طرح ہم نے تمہیں امت وسط بنایا ہے تا کہ تم لوگوں پر گواہی دو۔“
رسالت کی وحی جبریل علیہ السلام لے کے آتے ہیں
قَالَ اللهُ تَعَالَى: قُلْ مَن كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَىٰ قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُدًى وَبُشْرَىٰ لِلْمُؤْمِنِينَ ﴿٩٧﴾ مَن كَانَ عَدُوًّا لِّلَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَرُسُلِهِ وَجِبْرِيلَ وَمِيكَالَ فَإِنَّ اللَّهَ عَدُوٌّ لِّلْكَافِرِينَ ﴿٩٨﴾
(2-البقرة:97، 98)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”کہہ دیجیے جو کوئی جبریل کا دشمن ہو تو بے شک اس نے اسے تیرے دل پر اللہ کے حکم سے اتارا ہے، اس کی تصدیق کرنے والا ہے جو اس سے پہلے ہے اور مومنوں کے لیے سرا سر ہدایت اور خوش خبری ہے۔ جو کوئی اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں اور جبرائیل اور میکائیل کا دشمن ہو تو بے شک اللہ سب کافروں کا دشمن ہے۔“
حدیث : 18
وعن أنس رضي الله عنه قال: بلغ عبد الله بن سلام مقدم النبى صلى الله عليه وسلم المدينة فأتاه فقال: إنى سائلك عن ثلاث لا يعلمهن إلا نبي قال: ما أول أشراط الساعة؟ وما أول طعام يأكله أهل الجنة؟ ومن أى شيء ينزع الولد إلى أبيه، ومن أى شيء ينزع إلى أخواله؟ فقال رسول الله : خبرنى بهن آنفا جبريل، قال: فقال عبد الله : ذاك عدو اليهود من الملائكة ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : أما أول أشراط الساعة فنار تحشر الناس من المشرق إلى المغرب ، وأما أول طعام يأكله أهل الجنة فزيادة كبد حوت، وأما الشبه فى الولد فإن الرجل إذا غشي المرأة فسبقها ماؤه كان الشبه له ، وإذا سبق ماؤها كان الشبه لها . قال: أشهد أنك رسول الله . ثم قال: يا رسول الله إن اليهود قوم بهت ، إن علموا بإسلامي قبل أن تسألهم بهتوني عندك ، فجانت اليهود ودخل عبد الله البيت، فقال رسول الله له أى رجل فيكم عبد الله بن سلام؟ قالوا: أعلمنا وابن أعلمنا ، وأخبرنا وابن أخيرنا ، فقال رسول الله : أفرأيتم إن أسلم عبد الله؟ قالوا: أعاذه الله من ذلك ، فخرج عبد الله إليهم فقال: أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا رسول الله فقالوا: شرنا ، وابن شرنا ، ووقعوا فيه
صحیح بخاری، کتاب احادیث الانبياء ، رقم : 3329.
”اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا: جب حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ طیبہ تشریف لانے کی خبر ہوئی تو وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: میں آپ سے تین سوال کرنا چاہتا ہوں، انہیں نبی کے علاوہ اور کوئی نہیں جانتا: قیامت کی سب سے پہلی نشانی کیا ہے؟ وہ کون سا کھانا ہے جو اہل جنت کو سب سے پہلے پیش کیا جائے گا؟ کس وجہ سے بچہ اپنے باپ کے مشابہ ہوتا ہے اور کس لیے اپنے ماموؤں کے مشابہ ہوتا ہے؟ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مجھے ابھی ابھی حضرت جبریل علیہ السلام نے ان کے متعلق بتایا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: وہ فرشتہ تو قوم یہود کا دشمن ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قیامت کی پہلی نشانی آگ ہے۔ جو لوگوں کو مشرق سے مغرب کی طرف ہانک لے جائے گی۔سب سے پہلا کھانا جو اہل جنت تناول کریں گے وہ مچھلی کے جگر کے ساتھ کا بڑھا ہوا ٹکڑا ہو گا، اور بچے میں مشابہت اس طرح ہوتی ہے کہ مرد، جب بیوی سے جماع کرتا ہے تو اگر اس کا نطفہ عورت کے نطفے سے پہلے رحم میں چلا جائے تو بچہ مرد کے مشابہ ہوتا ہے اور اگر عورت کا نطفہ سبقت لے جائے تو بچہ عورت کے مشابہ ہوتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے ( تسلی کرنے کے بعد ) کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ پھر انہوں نے کہا: اللہ کے رسول ! یہودی بہت بہتان طراز ہیں۔ اگر انہیں میرے مسلمان ہونے کا علم ہوگیا تو آپ کے دریافت کرنے سے پہلے ہی آپ کے سامنے مجھ پر ہر طرح کی تہمت لگائیں گے۔ اس دوران میں یہودی آگئے اور عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کمرے میں روپوش ہو کر بیٹھ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا: بتاؤ تم میں عبداللہ بن سلام کیسا شخص ہے؟ انہوں نے کہا: وہ ہم میں سب سے بڑے عالم اور سب سے بڑے عالم کے صاحبزادے ہیں، نیز وہ ہم سب سے زیادہ بہتر اور سب سے زیادہ بہتر کے بیٹے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مجھے بتاؤ اگر عبداللہ بن سلام مسلمان ہو جائے۔ ( تو تمہارا کیا خیال ہو گا ؟ ) انہوں نے کہا، اللہ تعالیٰ انہیں محفوظ رکھے۔ اتنے میں حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ باہر تشریف لائے اور کہا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں تو انہوں نے کہا وہ تو ہم سب سے بدترین اور سب سے بدترین کا بیٹا ہے، وہیں ان کی برائی کرنے لگے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر نبوت کا بیان
حدیث: 19
وعن السائب بن يزيد قال: ذهبت بي خالتي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت: يا رسول الله! إن ابن أختى وقع فمسح رأسى ودعا لي بالبركة، وتوضأ فشربت من وضوئه ثم قمت خلف ظهره فنظرت إلى خاتم بين كتفيه . قال ابن عبيد الله الحجلة مِنْ حجل الفرس الذى بين عينيه . وقال: إبراهيم بن حمزة: مثل رز الحجلة
صحيح البخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النبوة، رقم : 3541
” اور حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ میری خالہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئیں اور عرض کیا: اللہ کے رسول ! یہ میرا بھانجا بیمار ہے۔ آپ نے میرے سر پر اپنا دست مبارک پھیرا اور میرے لیے برکت کی دعا فرمائی۔ پھر آپ نے وضو کیا تو میں نے آپ کے وضو سے بچا ہوا پانی نوش کیا۔ پھر میں آپ کی پشت کی جانب کھڑا ہوا تو میں نے آپ کے دونوں کندھوں کے درمیان مہر نبوت کو دیکھا۔ محمد بن عبید اللہ نے کہا کہ حجلہ حجل الفرس سے مشتق ہے جو گھوڑے کی اس سفیدی کو کہتے ہیں جو اس کی دونوں آنکھوں کے بیچ میں ہوتی ہے۔ ابراہیم بن حمزہ نے کہا مثل رز الحجلة یعنی رائے مہملہ پہلے زائے معجمہ ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ صحیح یہ ہے کہ رائے مہملہ پہلے ہے۔“
علی الاعلان آپ سچے نبی ہیں
حدیث : 20
وعن البراء بن عازب رضي الله عنه : أفررتم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم حنين؟ قال: لكن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يفر ، إن هوازن كانوا قوما رماة وإنا لما لقيناهم حملنا عليهم فانهزموا، فأقبل المسلمون على الغنائم، فاستقبلونا بالسهام، فأما رسول الله صلى الله عليه وسلم فلم يفر ، فلقد رأيته وإنه لعلى بغلته البيضاء ، وإن أبا سفيان آخذ بلجامها والنبي صلى الله عليه وسلم يقول: أنا النبى لا كذب، أنا ابن عبد المطلب
صحيح البخارى، كتاب الجهاد والسير ، رقم 3864
” اور حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ان سے پوچھا: کیا تم غزوہ حنین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر بھاگ گئے تھے؟ انہوں نے کہا لیکن رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے پشت نہیں دکھائی۔ قصہ یوں ہوا کہ قبیلہ ہوازن کے لوگ بڑے تیر انداز تھے۔ پہلے جو ہم نے ان پر حملہ کیا تو وہ بھاگ نکلے، لیکن جب مسلمان مالِ غنیمت پر ٹوٹ پڑے تو انہوں نے سامنے سے تیر برسانا شروع کر دیئے۔ ہم تو بھاگ گئے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں بھاگے۔ یقیناً میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ اپنے سفید خچر پر تھے اور حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ اس کی لگام تھامے ہوئے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم علی الاعلان فرما رہے تھے: میں (اللہ کا سچا نبی ہوں)، (اس میں ) کوئی جھوٹ نہیں، (اور اس کے ساتھ ساتھ ) میں عبدالمطلب کا بیٹا ( بھی ) ہوں۔“
انبیاء علیہم السلام سے دلائل معجزات طلب کرنا
قَالَ اللهُ تَعَالَى: كَذَّبَتْ ثَمُودُ بِطَغْوَاهَا ﴿١١﴾ إِذِ انبَعَثَ أَشْقَاهَا ﴿١٢﴾ فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ نَاقَةَ اللَّهِ وَسُقْيَاهَا ﴿١٣﴾ فَكَذَّبُوهُ فَعَقَرُوهَا فَدَمْدَمَ عَلَيْهِمْ رَبُّهُم بِذَنبِهِمْ فَسَوَّاهَا ﴿١٤﴾ وَلَا يَخَافُ عُقْبَاهَا ﴿١٥﴾
(91-الشمس:11تا15)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” ( قوم) ثمود نے اپنی سرکشی کی وجہ سے جھٹلا دیا۔ جب اس کا سب سے بڑا بد بخت اٹھا۔ تو ان سے اللہ کے رسول نے کہا اللہ کی اونٹنی اور اس کے پینے کی باری ( کا خیال رکھو ) ۔ تو انھوں نے اسے جھٹلا دیا، پس اس (اونٹنی) کی کونچیں کاٹ دیں، تو ان کے رب نے انھیں ان کے گناہ کی وجہ سے پیس کر ہلاک کر دیا، پھر اس ( بستی) کو برابر کر دیا۔ اور وہ اس (سزا) کے انجام سے نہیں ڈرتا۔“
حدیث: 21
وعن جابر قال: لما مر النبى صلى الله عليه وسلم بالحجر، قال: لا تسألوا با الآيات ، وقد سألها قوم صالح فكانت ترد من هذا الفح، وتصدر من هذا الفج ، فعتوا عن أمر ربهم فعقروها ، وكانت تشرب ماءهم يوما ، ويشربون لبنها يوما ، فعقروها ، فأخذتهم صيحة أهمد الله من تحت آديم السماء منهم، إلا رجلا واحدا كان فى حرم الله قيل: من هو يا رسول الله؟ قال: هو ابو رغال فلما خرج من الحرم ، أصابه ما أصاب قومه
مسند احمد: 296/3، رقم : 14160۔ شیخ شعیب نے اسے ”صحیح علی شرط مسلم“ قرار دیا ہے۔
” اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مقام حجر سے گزرے تو ارشاد فرمایا: معجزات کا مطالبہ نہ کرو، صالح علیہ السلام کی قوم نے یہ مطالبہ کیا تھا تو وہ (اونٹنی کی صورت میں) ظاہر ہو گیا۔ وہ اس راہ سے پانی پینے آتی تھی اور اُس راستے سے واپس جاتی تھی۔ انہوں نے اپنے رب کا حکم نہ مانتے ہوئے سرکشی کی اور اس کی کونچیں کاٹ دیں۔ ایک دن وہ پانی پیتی تھی اور دوسرے دن وہ اس کا دودھ پیتے تھے۔ جب انہوں نے اسے مار ڈالا تو ان پر ایسی سخت چیخ کا عذاب آیا جس سے تمام لوگ ہلاک ہو گئے صرف ایک آدمی بچا جو (اس وقت) حرم کی سرزمین میں تھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی : ”اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون تھا ؟ فرمایا: وہ ابو ر غال تھا۔ جب وہ حرم کی حدود سے نکلا تو وہ بھی اسی عذاب کی لپیٹ میں آ گیا جو اس کی قوم پر آیا تھا۔ “
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام بھی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں
حدیث : 22
وعن عبادة رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: من شهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله، وأن عيسى عبد الله ورسوله، وكلمته ألقاها إلى مريم وروح منه، والجنة حق، والنار حق ، أدخله الله الجنة على ما كان من العمل
صحیح بخاری، کتاب احادیث الانبياء، باب قوله تعالى يا اهل الكتاب رقم : 3435 ، صحیح مسلم، کتاب الايمان، باب الدليل على أن من مات على التوحيد دخل الجنة قطعاً، رقم : 28
”اور حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص یہ گواہی دے کہ اللہ وحدہ لاشریک کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں، اور عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اور اس کا کلمہ ہیں جو اللہ نے مریم کی طرف بھیجا اور اللہ کی طرف سے ( آنے والی) ایک روح ہیں، اور جنت حق ہے، اور جہنم بھی حق ہے، یعنی واقعی موجود ہے، اللہ تعالیٰ اس شخص کو جنت میں داخل کر دے گا خواہ اس کے عمل کیسے (معمولی) ہی کیوں نہ ہوں۔“
محمد صلى الله عليه وسلم اللہ کے سچے رسول بعد میں مدعی نبوت سب جھوٹے
حدیث : 23
وعن ابن عباس ، قال : سألت عن قول رسول الله صلى الله عليه وسلم : إنك أرى الذى أريت فيه ما أريت ، فأخبرني أبو هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: بينا أنا نائم رأيت فى يدي سوارين من ذهب فأهمني شأنهما ، فأوحي إلى فى المنام أن أنفخهما ، فنفختهما فطارا ، فأولتهما كذابين يخرجان بعدي ، أحدهما العنسي ، والآخر مسيلمة
صحیح بخاری، کتاب المغازي، رقم : 4374
”اورحضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک دفعہ میں سویا ہوا تھا میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے ہاتھ میں سونے کے دو کنگن ہیں تو میں بہت پریشان ہوا۔ خواب میں ہی مجھے حکم دیا گیا کہ ان پر پھونک مارو، میں نے ان پر پھونک ماری تو وہ دونوں اڑ گئے۔ میں نے اس کی تعبیر سمجھی کہ میرے بعد دو جھوٹے شخص پیغمبری کا دعویٰ کریں گے، ان میں سے ایک اسود عنسی ہے اور دوسرا مسلیمہ کذاب ہے۔ “
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے دیگر اسماء مبارکہ اور اسم خاتم النبیین
قَالَ اللهُ تَعَالَى:يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا ﴿٤٥﴾ وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُّنِيرًا ﴿٤٦﴾
(33-الأحزاب:45، 46)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اے نبی ! بے شک ہم نے تجھے گواہی دینے والا اور خوش خبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے ۔ اور اللہ کی طرف بلانے والا اس کے اذن سے اور روشنی کرنے والا چراغ ۔“
حدیث : 24
وعن جبير بن مطعم عن أبيه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إن لي أسماء أنا محمد، وأنا أحمد، وأنا الماحي الذى يمحو الله بي الكفر، وأنا الحاشر الذى يحشر الناس على بي قدمي، وأنا العاقب الذى ليس بعده أحد، وقد سماه الله روفا رحيما
صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب في اسمائه ، رقم : 6106
او”ر حضرت جبیر بن معظم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میرے چند نام ہیں: میں محمد ہوں، میں احمد ہوں ، میں ماحی (مٹانے والا) ہوں کہ میرے ذریعہ اللہ تعالیٰ کفر کو مٹائیں گے، میں حاشر (جمع کرنے والا ) ہوں کہ لوگ میرے قدموں پر اٹھائے جائیں گے اور میں عاقب ( سب نبیوں کے بعد آنے والا) ہوں کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ “
حدیث : 25
وعن جابر بن عبد الله رضی اللہ عنہ أن النبى صلى الله عليه وسلم قال: أنا قائد المرسلين ولا فخر، وانا خاتم النبيين ولا فخر، وأنا أول شافع واول مشفع ولا فخر
سنن دارمی، باب مأعطى النبى من الفضل ، رقم : 50 ، المعجم الاوسط للطبراني : 142/1، رقم : 172۔ محقق نے اس کی سند کو جید قرار دیا ہے۔
”اور حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں رسولوں کا سردار ہوں، میں آخری نبی ہوں، میں سب سے پہلے سفارش کرنے والا ہوں اور سب سے پہلے میری سفارش قبول کی جائے گی ، میری یہ تمام خصوصیات بطور فخر کے نہیں بلکہ اظہارِ حقیقت کے لئے ہیں ۔ “
حدیث : 26
وعن إبراهيم بن محمد من ولد على بن أبى طالب، قال: كان على رضي الله عنه إذا وصف رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكر الحديث بطوله وقال: بين كتفيه خاتم النبوة ، وهو خاتم النبيين
سنن الترمذى، باب ما جاء فى خاتم النبوة، رقم : 3638، شمائل ترمذی، رقم : 7 ، المشكاة، رقم : 5791.
”اور حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے خاندان کے فرد حضرت ابراہیم بن محمد کا بیان ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شمائل وصفات کا تذکرہ کرتے تو ضرور یہ بھی فرماتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو مونڈھوں کے درمیان نبوت کی مہر تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ “
حدیث : 27
وعن حذيفة أن النبى الله صلى الله عليه وسلم قال: فى أمتي كذابون ودجالون سبعة وعشرون ، منهم أربع نسوة ، وإنى خاتم النبيين لا نبي بعدي
مسند احمد: 396/5، رقم : 23358۔ شیخ شعیب نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔
”اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری امت میں ستائیس جھوٹے اور دجال ہوں گے، ان میں چار عورتیں بھی ہوں گی، میں آخری نبی ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ “
حدیث : 28
وعن أبى أمامة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم فى خطبته يوم حجة الوداع: أيها الناس إنه لا نبي بعدي ولا أمة بعدكم فاعبدوا ربكم وصلوا خمسكم، وصوموا شهركم، وادوا زكوة أموالكم طيبة بها أنفسكم، واطيعوا ولاة أموركم ، تدخلوا جنة ربكم
المعجم الكبير للطبراني، رقم : 7617 ، مجمع الزوائد : 471/8، رقم : 13967- ہیثمی نے کہا: اسے طبرانی نے روایت کیا ہے، ایک سند کے راوی ثقہ ہیں اور دوسری میں کچھ ضعیف ہے۔
”اور حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر اپنے خطاب میں ارشاد فرمایا: اے لوگو! میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی امت نہیں، پس اپنے رب کی عبادت کرتے رہو، پانچ نمازیں پڑھتے رہو، رمضان کے روزے رکھتے رہو، خوش دلی کے ساتھ اپنے مالوں کی زکوۃ دیتے رہو اور اپنے خلفاء و حکمرانوں کی اطاعت کرتے رہو، تو تم اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔ “
حدیث: 29
وعن أبى هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : كيف أنتم إذا نزل ابن مريم فيكم وإمامكم منكم
صحيح البخاری، کتاب الانبیاء، باب نزول عيسى بن مريم ، رقم :3449 .
” اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس وقت تمہاری خوشی کا کیا حال ہوگا کہ جب تمہارے درمیان (عیسی علیہ السلام ) ابن مریم اتریں گے ، اور تمہارے امام (امام مہدی بھی) تم ہی میں سے ہوں گے۔“
حدیث : 30
وعن جابر أن عمر بن الخطاب أتى رسول الله صلى الله عليه وسلم بنسخة من التوراة فقال يا رسول الله هذه نسخة من التوراة فسكت فجعل يقرأ ووجه رسول الله يتغير فقال أبو بكر : ثكلتك الثواكل ما ترى ما بوجه رسول الله صلى الله عليه وسلم ؟ فنظر عمر إلى وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: أعوذ بالله من غضب الله وغضب رسوله ، رضينا بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد فقال رسول الله : والذي نفس محمد بيده لو بدا لكم موسى فاتبعتموه وتركتمونى لضللتم عن سواء السبيل، ولو كان حيا وأدرك نبوتي لا تبعني
سنن دارمی، المقدمة، رقم : 449 ، مصنف ابن أبي شيبة : 47/9، محقق نے کہا: اسناده صحيح.
”اور سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے روایت کرتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تورات لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ ! یہ تو رات ہے، آپ خاموش رہے، سید نا عمر رضی اللہ عنہ تو رات پڑھنے لگے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک (غصے ) سے بدلنے لگا۔ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے یہ صورتحال دیکھی تو کہا: اے عمر ! گم کرنے والیاں تجھے گم پائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ انور کی طرف نہیں دیکھتے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھا تو کہا: میں اللہ اور اس کے رسول کے غصے سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ ہم اللہ کے رب ہونے پر ، اسلام کے دین ہونے پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر راضی ہیں۔ اس کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے! اگر آج موسی علیہ السلام تشریف لے آئیں اور تم لوگ میری اتباع کرنے کے بجائے ان کی اتباع شروع کر دو، تو سیدھی راہ سے گمراہ ہو جاؤ گے۔ اور اگر موسیٰ علیہ السلام کا زندہ ہوتے اور میری نبوت کا زمانہ پاتے ، تو وہ بھی میری ہی اتباع کرتے ۔“
حدیث: 31
وعن أبى هريرة رضي الله عنه قال: قال النبى صلی اللہ علیہ وسلم : ما من الأنبياء نبي إلا أعطى ما مثله آمن عليه البشر ، وإنما كان الذى أوتيت وحيا أوحاه الله إلى فأرجو أن أكون أكثرهم تابعا يوم القيامة
صحيح البخاری ، کتاب فضائل القرآن باب كيف نزل الوحى وأول ما نزل ، رقم .4696
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہر نبی کو ایسی نشانیاں عطا کی گئیں جنہیں دیکھ کر لوگ ان کی نبوت پر ایمان لاتے اور مجھے جو نشانی دی گئی ہے وہ وحی الہی ہے، پس مجھے امید ہے کہ روز محشر میرے پیروکاروں کی تعداد تمام انبیاء سے زیادہ ہوگی ۔ “
حدیث : 32
وعن ابن عباس قال: قال النبى صلى الله عليه وسلم : عرضت على الأمم معه الأمة والنبي معه النفر والنبى والنبي معه العشرة فأخذ النبى والنبي معه الخمسة والنبي يمر وحده ونظرت فإذا سواد كبير قلت: يا جبريل هؤلاء أمتي قال: لا ولكن انظر إلى الأفق فنظرت فإذا سواد كبير هؤلاء أمتك وهؤلاء سبعون ألفا قدامهم لا حساب عليهم ولا عذاب قلت: ولم قال: كانوا لا يكترون ولا يسترقون ولا يتطيرون وعلى ربهم يتوكلون فقام إليه عكاشة ابن محصن فقال: ادع الله أن يجعلني منهم :قال أللهم اجعله منهم ثم قام إليه رجل آخر فقال: ادع الله أن يجعلني منهم فقال: سبقك بها عكاشة
صحیح بخاری، کتاب الرقاق، باب يدخل الجنة سبعون ألفا بغير حساب، رقم، 6541
”اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مجھ پر (تمام ) امتیں پیش کی گئیں پس ایک نبی گزرنے لگا اور اس کے ساتھ اس کی امت تھی ایک نبی ایسا بھی گزرا کہ اس کے ساتھ چند افراد تھے، ایک نبی کے ساتھ دس آدمی، اک نبی کے ساتھ پانچ آدمی ، اک نبی صرف تنہا، میں نے نظر دوڑائی تو ایک بڑی جماعت نظر آئی۔ میں نے پوچھا: اے جبرائیل! کیا یہ میری امت ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں، بلکہ آپ افق کی جانب توجہ فرمائیں، میں نے دیکھا تو وہ بہت ہی بڑی جماعت تھی۔ انہوں نے کہا: یہ آپ کی امت ہے اور یہ جو ستر ہزار ان کے آگے ہیں ان کے لیے نہ حساب ہے نہ عذاب، میں نے پوچھا: کس وجہ سے؟ انہوں نے کہا: یہ لوگ داغ نہیں لگواتے تھے، غیر شرعی جھاڑ پھونک نہیں کرتے تھے، شگون نہیں لیتے تھے، اور اپنے رب پر بھروسہ رکھتے تھے۔ حضرت عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر عرض گزار ہوئے۔ (یا رسول اللہ ) اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ مجھے بھی ان میں شامل فرما لے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی: اے اللہ ! اسے بھی ان لوگوں میں شامل فرما۔ پھر دوسرا آدمی کھڑا ہو کر عرض گزار ہوا۔ ( یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ) اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ مجھے بھی ان لوگوں میں شامل فرما لے۔ آپ صلی الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: عکاشہ تم سے سبقت لے گیا۔“
حدیث: 33
وعن ابن عباس قال: كنت فى حلقة فى المسجد نتذاكر فضائل الأنبياء أيهم أفضل؟ فذكرنا نوحا وطول عبادته ربه ، وذكرنا إبراهيم خليل الرحمن ، وذكرنا موسى مكلم الله ، وذكرنا عيسى ابن مريم ، وذكرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فبينا نحن كذلك إذ خرج علينا رسول الله: فقال: ما تذكرون بينكم؟ قلنا: يارسول الله ذكرنا فضائل الأنبياء أيهم أفضل؟ وذكرنا نوحا وطول عبادته ربه ، وذكرنا إبراهيم خليل الرحمن ، وذكرنا موسى مكلم الله ، وذكرنا عيسى ابن مريم ، وذكرناك يارسول الله، قال: فمن فضلتم؟ فقلنا فضلناك يا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ، بعثك الله تعالى إلى الناس كافة، وغفر لك ما تقدم من ذنبك وما تأخر ، وانت خاتم الأنبياء ، فقال رسول الله : ما ينبغي أن يكون أحد خيرا من يحيى بن زكريا . قلنا: يا ـول الله وكيف ذاك؟ قال: ألم تسمعوا كيف نعته فى القرآن يا يحيي خذ الكتاب بقوة وآتيناه الحكم صبيا إلى قوله تعالى: حيا مصدقا بكلمة من الله وسيدا و حصورا و نبيا من الصلحين يعمل سيئة ولم يهم بها
المعجم الكبير للطبراني 8: 218 ، رقم: 12938 ، مجمع الزوائد للهيثمي : 382/2، رقم : 13801 ، حسن لغيره .
”اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم مسجد میں ایک مجلس میں انبیاء علیہ السلام کے فضائل پر گفتگو کر رہے تھے کہ ان میں سے کون زیادہ فضیلت والا ہے؟ پس ہم نے حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی اپنے رب کی طویل عبادت گزاری کا ذکر کیا اور ہم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام خلیل الرحمن کا ذکر کیا اور حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام کا ذکر کیا اور حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام کا ذکر کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا۔ ابھی ہم اسی حال میں تھے کہ اچانک ہمارے پاس رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور ارشاد فرمایا: تم آپس میں کس چیز کا ذکر کر رہے ہو؟ ہم نے عرض کی: یا رسول اللہ ! ہم فضائل انبیاء کا ذکر کر رہے تھے کہ ان میں سے کون زیادہ افضل ہے؟ پس ہم نے حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی اپنے رب کی طویل عبادت گزاری کا ذکر کیا اور ہم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام خلیل الرحمن کا ذکر کیا اور حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام کا ذکر کیا اور حضرت عیسی علی بن مریم کا ذکر کیا اور یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کا ذکر کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم نے کسے افضل قرار دیا ؟ ہم نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم نے آپ کو افضل قرار دیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام لوگوں کی طرف نبی بنا کر مبعوث فرمایا اور آپ کی خاطر اگلوں پچھلوں کی سب خطائیں معاف فرما دیں اور آپ انبیاء کے خاتم ہیں۔“
حدیث : 34
وعن حذيفة قال: بينا أنا أمشي فى طريق المدينة إذا رسول الله صلى الله عليه وسلم فسمعته يقول: أنا محمد وأحمد ونبي الرحمة ونبي التوبة والحاشر والمقفى ونبي الملاحم
مسند أحمد : 405/5، مسند بزار، رقم : 2378، مجمع الزوائد، رقم : 14060۔ شیخ حمزہ زین نے اسے ”صحیح الاسناد“ کہا ہے۔
” اور حذیفہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں محمد ہوں اور احمد ہوں اور میں رسول الرحمہ ہوں میں رسول الملحمہ ہوں، میں مقفی ہوں اور حاشر ہوں۔“
حدیث: 35
وعن سهل بن سعد قال: قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم لعمه العباس : أنا خاتم النبيين ثم رفع يده وقال: اللهم اغفر للعباس وأبناء العباس وأبناء أبناء العباس
المعجم الكبير للطبراني 6: 205، رقم : 6020 ، مجمع الزوائد : 438/9، رقم : .15477
”اور حضرت سہل بن سعد سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا: میں خاتم النبیین ہوں پھر آپ کا اللہ ہم نے ہاتھ اٹھائے اور دعا کی اے اللہ! تو عباس، عباس کے بیٹوں اور عباس کے پوتوں کی مغفرت فرما۔“
حدیث : 36
وعن جابر بن عبد الله أن النبى صلى الله عليه وسلم قال: كان النبى يبعث إلى قومه خاصة وبعثت إلى الناس عامة
صحیح بخاری، کتاب التيمم، باب قول الله تعالى: فلم تجدواماء فتيمموا صعيداً طيبا، رقم :328
”اور حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہر نبی کو خاص اس کی قوم کی طرف مبعوث کیا جاتا تھا جب کہ مجھے تمام انسانوں کی طرف مبعوث کیا گیا ہے۔ “
حدیث : 37
وعن أبى أمامة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إن الله بعثني رحمة للعلمين وهدى للعالمين
مسند أحمد : 228/5، طبرانی کبیر : 232/8 ، المشكاة، رقم : 3654۔ شیخ حمزه زین نے اسے صحیح الإسناد کہا ہے۔
”اور حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھے تمام جہانوں کے لیے رحمت اور تمام جہانوں کے لیے ہدایت بنا کر مبعوث فرمایا ہے۔ “
حدیث : 38
وعن عائشة رضي الله عنها قالت ، قال رسول الله : أنا خاتم الأنبياء ، ومسجدى خاتم مساجد الأنبياء
مسند البزار ، كشف الأستار ، باب في مسجد النبي ، رقم: 1193، تفسیر قرطبی: 78/1، قرطبی نے اسے صحیح شمار کیا ہے۔
”اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: میں آخری نبی ہوں، اور میری مسجد (مسجد نبوی) انبیاء کرام علیہم السلام کے ہاتھوں تعمیر کردہ مساجد میں سے آخری مسجد ہے۔ “
حدیث : 39
وعن عبد الله بن بريدة قال: سمعت أبى بريدة، يقول: جاء سلمان الفارسي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم حين قدم المدينة بمائدة عليها رطب فوضعها بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال : يا سلمان ما هذا؟ فقال: صدقة عليك وعلى أصحابك ، فقال: ارفعها فإنا لا نأكل الصدقة . قال: فرفعها ، فجاء الغد بمثله ، فوضعه بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: ما هذا يا سلمان؟ فقال: هدية لك فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم الأصحابه: ابسطوا ثم نظر إلى الخاتم على ظهر رسول الله صلى الله عليه وسلم فآمن به . وكان لليهود ، فاشتراه رسول الله صلى الله عليه وسلم بكذا وكذا درهما وعلى أن يغرس لهم نخلا فيعمل سلمان فيه حتى تطعم ، فغرس رسول الله صلى الله عليه وسلم النخيل إلا نخلة واحدة غرسها عمر الله ، فحملت النخل من عامها ولم تحمل النخلة فقال رسول الله : ما شأن هذه النخلة؟ فقال عمر: يا رسول الله صلى الله عليه وسلم أنا غرستها فتزعها رسول الله صلى الله عليه وسلم فغرسها فحملت من عامها
شمائل ترمذی، رقم : 2-6 ، مسند أحمد بن حنبل : 354/5 ، ، صحيح ابن حبان : 128/10، المستدرك للحاكم 603/3، 604۔ اس روایت کو ابن حبان اور حاکم نے صحیح ہے۔
” اور حضرت عبداللہ بن بریدہ کہتے ہیں میں نے اپنے والد سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے سنا وہ کہتے تھے کہ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں تشریف فرما ہوئے، تو سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک دستر خوان لے کر آئے ، جس میں کچھ تر و تازہ کھجوریں تھیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اسے رکھ دیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اے سلمان ! یہ کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا: یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اور آپ کے صحابہ (رضی اللہ عنہم) ان کے لیے صدقہ ہے۔ تو آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: اسے اٹھا لو، ہم صدقہ نہیں کھاتے ۔ ( راوی کہتا ہے ) انہوں نے وہ دستر خوان اٹھا دیا۔ پھر دوسرے دن اسی طرح وہ ایک دستر خوان لائے ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے رکھ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: سلمان یہ کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا: حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ آپ کے لیے ہدیہ ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے فرمایا: اس کو بچھا دو۔ پھر سلمان رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت مبارک پر مہر دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے ۔ سلمان رضی اللہ عنہ یہود کے غلام تھے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اتنے اور اتنے درہموں کے بدلے خرید لیا، نیز اس عوض میں کہ سلمان ان یہود کو کچھ کھجوروں کے پودے لگا کر دیں پھر ان کے پھل آور ہو نے اور کھائے جانے کے قابل ہونے تک اس میں کام بھی کریں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بابرکت ہاتھ سے سارے پودے لگائے، صرف ایک پودا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لگایا، تو باقی تمام پودے پہلے سال ہی پھلدار ہو گئے صرف ایک پودا ثمر آور نہیں ہوا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا وجہ ہے؟ یہ ایک پودا کیوں ثمر آور نہیں ہوا؟ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! یہ میں نے لگایا تھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اکھیڑ کر دوبارہ لگا دیا تو وہ اسی سال پھلدار ہو گیا۔“
حدیث : 40
وعن عقبة بن عامر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : لو كان بعدي نبي لكان عمر بن الخطاب
سنن ترمذی باب ما جاء فى مناقب عمر بن الخطاب، رقم 3686، سلسلة الصحيحة، رقم : 327
”اور حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ان کے بارے میں ارشاد فرمایا: میرے بعد اگر کسی کا نبی بننا مقدر ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتے ۔ “
حدیث: 41
وعن إسماعيل ، قلت لابن أبى أوفى رأيت إبراهيم ابن النبى صلی اللہ علیہ وسلم ؟ قال: مات صغيرا ولو قضي أن يكون بعد محمد نبي صلى الله عليه وسلم عاش ابنه ولكن لا نبي بعده
صحیح بخاری ، کتاب الأدب، رقم : 6194.
” اور اسماعیل بن ابی خالد بجلی نے ، کہا میں نے ابن ابی اوفی سے پوچھا۔ تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ابراہیم کو دیکھا تھا؟ بیان کیا کہ ان کی وفات بچپن ہی میں ہوگئی تھی اور اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی نبی کی آمد ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے زندہ رہتے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ “
وصلى الله تعالى على خير خلقه محمد وآله وصحبه أجمعين