سوال
کیا عورت کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ اپنے شوہر کے لیے زینت کے طور پر اپنے کچھ بال کاٹ دے؟
الجواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عورت کا اپنے بالوں کو کاٹنا بعض شرائط کے ساتھ جائز ہے۔ تاہم، مکمل طور پر سر منڈوانا جائز نہیں۔ اگر عورت شوہر کے لیے زینت کے طور پر بال کاٹتی ہے تو اس کے لیے چند شرائط کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے:
شرائط:
◈ مردوں سے مشابہت نہ ہو:
کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"لعن النبي ﷺ المتشبهات من النساء بالرجال”
(یعنی نبی ﷺ نے ان عورتوں پر لعنت فرمائی جو مردوں کی مشابہت اختیار کریں)
◈ کافروں خصوصاً نصاریٰ کی مشابہت سے اجتناب:
کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا:
"من تشبه بقوم فهو منهم”
(جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انہی میں شمار ہوگا)
◈ علاقائی عادات و اطوار کے خلاف نہ ہو:
اس کی دلیل وہ حدیث ہے:
"من لبس ثوب شهرة في الدنيا ألبسه الله ثوب مذلة يوم القيامة”
(احمد، ابو داؤد)
اسی طرح مشکاۃ (2؍375) میں بھی موجود ہے۔
مطلب یہ ہے کہ ایسا انداز اختیار نہ کیا جائے جو شہرت طلب ہو اور عمومی معاشرتی انداز سے ہٹ کر ہو۔
◈ شوہر کو یہ عمل پسند ہو:
یعنی عورت بال اس نیت سے کاٹے کہ یہ اس کے شوہر کو خوشی دے اور وہ اس کو پسند کرے۔
دلائل جواز:
◈ احرام کی حالت میں بال کاٹنے کی اجازت:
حج اور عمرہ کے موقع پر محرم عورت کے لیے بال کاٹنا جائز ہے، جو کہ اس بات کی دلیل ہے کہ عورت کچھ مقدار میں بال کاٹ سکتی ہے۔
◈ صحیح مسلم کی روایت:
صحیح مسلم (1؍148) میں روایت ہے کہ:
"باب تقدير الماء الذي يغتسل به الجنب”
ابو سلمہ فرماتے ہیں:
"كانت نساء النبي ﷺ يأخذن من رؤوسهن حتى يكن كالوفرة”
(نبی ﷺ کی بیویاں اپنے بال کاٹ کر انہیں وفرة یعنی چھتے کی شکل دے دیتی تھیں)
شرح مسلم میں امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"فيه دليل على جواز تخفيف الشعر للنساء”
(اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ عورتوں کے لیے بالوں میں تخفیف کرنا جائز ہے)
◈ عمومی اباحت بھی جواز کی دلیل ہے:
عورت کے بال کاٹنے کی ممانعت مردوں کی داڑھی کی طرح نہیں ہے۔
لیکن بہتر یہی ہے کہ عورت اپنے بالوں کو اسی حالت میں چھوڑ دے تاکہ شبہات سے بچا جا سکے۔
مزید وضاحت:
الشنقیطی رحمہ اللہ اپنی تفسیر أضواء البيان (5؍595، 600) میں فرماتے ہیں:
"عورت کے لیے اپنے بال منڈوانا اس کے حسن کے لیے نقصان دہ ہے اور بدصورتی کا باعث ہے۔
اور یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ بعض ممالک میں عورتوں کے بال جڑوں کے قریب سے کاٹنے کا جو رواج ہے، یہ انگریزوں کی رسم ہے۔
یہ عمل نہ صرف مسلم خواتین کی عادات کے خلاف ہے بلکہ قبل از اسلام عرب عورتوں کی روایات سے بھی متصادم ہے۔
پس یہ ان بدعتوں میں سے ہے جن میں دینی، اخلاقی اور تمدنی لحاظ سے بہت سے لوگ مبتلا ہیں۔”
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب