جنازے کے ساتھ گڑ، چینی یا صابن لے جانے کا حکم
سوال
بعض لوگ جب میت کو جنازہ گاہ لے جاتے ہیں تو ساتھ میں گڑ، چینی، صابن یا دیگر اشیاء اور کچھ رقم بھی لے جاتے ہیں۔
جنازہ گاہ میں، جنازے سے پہلے یا بعد میں بعض افراد (خصوصاً مولوی حضرات وغیرہ) ایک دائرہ بنا کر ان اشیاء کے ارد گرد بیٹھ جاتے ہیں۔
وہ قرآن مجید کو ان اشیاء پر رکھ کر باری باری اسے ہاتھ لگاتے ہیں اور ایک دوسرے کو "بخشتے” رہتے ہیں۔
اس عمل کو "حیلہ اسقاط” کہا جاتا ہے۔
اس کے بعد یہ لوگ یہ رقم اور سامان آپس میں یا دیگر افراد میں تقسیم کر دیتے ہیں اور یہ گمان رکھتے ہیں کہ میت کی مغفرت ہو گئی یا اسے بہت زیادہ ثواب حاصل ہو گیا۔
سوال یہ ہے کہ اس عمل "حیلہ اسقاط” کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حیلہ اسقاط کا قرآن و حدیث میں عدمِ ثبوت
مذکورہ عمل یعنی "حیلہ اسقاط” کا کوئی ثبوت قرآن کریم یا احادیث نبویہ میں موجود نہیں ہے۔
اسی طرح سلف صالحین یعنی ابتدائی مسلمانوں کے آثار سے بھی یہ طریقہ ثابت نہیں ہے۔
لہٰذا یہ عمل بالکل بدعت شمار ہوتا ہے، جسے بعض متاخر تقلیدی علماء نے خود گھڑ لیا ہے۔
ائمہ اربعہ اور ان کے شاگردوں کا موقف
ائمہ اربعہ (امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ) اور ان کے شاگردوں سے بھی اس "حیلہ” کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔
یہ عقیدہ کہ اس حیلے کے ذریعہ میت کے ذمے واجب نمازیں یا دیگر عبادات ساقط ہو جاتی ہیں، سراسر بلا دلیل ہے۔
میت کے ذمہ روزے کا حکم
اگر کسی میت کے ذمے رمضان کے روزے باقی ہوں، تو ان کی طرف سے فقراء و مساکین کو کھانا کھلانا واجب ہے۔
جیسا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
لا يصلي احد ولا يصوم احد عن احد ولكن يطعم عنه مكان كل يوم مدا من حنطة
(السنن الكبرى للنسائي 2/175، حديث 2918، وسندہ صحیح)
ترجمہ:
"کوئی شخص کسی دوسرے کی طرف سے نہ نماز پڑھے اور نہ روزہ رکھے بلکہ ہر دن کے بدلے اس کی طرف سے ایک مد (تقریباً دو رطل) گندم کا کھانا کھلایا جائے۔”
نذر کے روزے کا حکم
اگر مرنے والے کے ذمہ نذر کے روزے واجب ہوں تو صحیح حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
من مات وعليه صيام صام عنه وليه
(صحیح بخاری: 1952، صحیح مسلم: 1147)
ترجمہ:
"جو شخص مر جائے اور اس پر (نذر کے) روزے واجب ہوں تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھے۔”
حیلہ اسقاط میں دھوکہ دہی کی کوشش
بعض لوگ اس مروجہ طریقے "حیلہ اسقاط” کے ذریعے اللہ تعالیٰ کو (نعوذباللہ) دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
مثلاً کسی سامان کی حقیقی مالیت ایک ہزار روپے ہوتی ہے، مگر اس سامان کو ایک دوسرے کو بخشوانے اور واپس دلوانے کے عمل کے ذریعہ ہزاروں روپے کے ثواب تک پہنچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
متاخر تقلیدی فقہاء کی تائید اور اس کی حیثیت
سرفراز خان دیوبندی نے اپنی کتاب "المنہاج الواضح/راہ سنت” میں بعض متاخر تقلیدی فقہاء سے اس حیلہ کا جواز نقل کیا ہے۔
(دیکھیے: ص 278 تا 283)
لیکن حقیقت یہ ہے کہ:
◈ نہ تو اس حیلہ کا کوئی شرعی ثبوت ہے۔
◈ نہ ہی متاخرین تقلیدی فقہاء کی رائے، ائمہ اربعہ اور سلف صالحین کے مقابلے میں کوئی حیثیت رکھتی ہے۔
(ماخذ: الحدیث: 45)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب