حقیقی ولی کی پہچان قرآن کی روشنی میں
یہ تحریر ابو حمزہ عبد الخالق صدیقی کی کتاب اولیاء اللہ کی پہچان سے ماخوذ ہے۔

حقیقی اولیاء اللہ مومن اور متقی ہیں :

اللہ تعالیٰ کے دوست وہ مخلص اہل ایمان ہیں جو اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنے کے سبب اس سے قریب ہو جاتے ہیں، چنانچہ خلاق دو عالم اپنے مقدس کلام میں ارشاد فرماتا ہے:
﴿أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ .‏ الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ ‎.‏ لَهُمُ الْبُشْرَىٰ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۚ لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَاتِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ. وَلَا يَحْزُنكَ قَوْلُهُمْ ۘ إِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا ۚ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ.﴾
[يونس:62 تا 65]
”سن لو بے شک جو اللہ کے دوست ہیں نہ ان پر کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے، یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور (گناہوں سے) بچتے رہے۔ ان کے لیے دنیاوی زندگی میں اور آخرت میں بھی خوشخبری ہے، اللہ کی باتوں کے لیے کوئی تبدیلی نہیں، یہ عظیم کامیابی ہے، آپ کو ان کی باتیں غمگین نہ کریں، بے شک ساری کی ساری عزت اللہ ہی کے لیے ہے۔ وہ ہر بات سننے اور سب کچھ جاننے والا ہے۔“
ڈاکٹر لقمان سلفی رقم طراز ہیں:
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انہیں دنیا اور آخرت دونوں جگہ اپنی رحمت ، رضا مندی اور جنت کی خوش خبری دی ہے۔ امام احمد ، ترمذی اور ابن ماجہ وغیرہم نے ابو الدرداء اور عبادہ بن صامت سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دنیاوی زندگی میں بشارت سے مراد نیک خواب ہے جو مسلمان آدمی دیکھتا ہے“ اور قرآن وسنت سے یہ بھی ثابت ہے کہ فرشتے موت سے پہلے اللہ کے نیک بندوں کو جنت کی خوش خبری دے دیتے ہیں۔ (تیسیر الرحمن : 619/1)

عزت دار اور مومن کون ہوتا ہے؟

ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:
﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ . قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا ۖ قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَٰكِن قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ ۖ وَإِن تُطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَا يَلِتْكُم مِّنْ أَعْمَالِكُمْ شَيْئًا ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ.‏ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ.﴾
[الحجرات:13 تا 15]
”اے لوگو! بے شک ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا، اور ہم نے تمہیں قومیں اور قبیلے بنا دیا، تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، بیشک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے بڑا عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پر ہیزگار ہے، اللہ بیشک سب کچھ جاننے والا پوری خبر رکھنے والا ہے۔ دیہاتی کہتے ہیں: ہم ایمان لائے ، آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) فرما دیں کہ تم ایمان نہیں لائے ہو بلکہ کہو کہ ہم مطیع ہو گئے ہیں، اور ابھی تمہارے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہوا، اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو گے تو اللہ تمہارے اعمال سے کچھ کمی نہ کرے گا، بیشک اللہ بخشنے والا ، نہایت مہربان ہے۔ مومن ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے ،پھر وہ شک میں نہ پڑے، اور انہوں نے اپنے مالوں اور جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا، یہی لوگ سچے ہیں۔ آپ فرما دیں! کیا تم اللہ کو اپنے دین سے آگاہ کر رہے ہو، حالانکہ اللہ جانتا ہے جو آسمانوں میں اور جو زمین میں ہے اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔ “
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اپنی مایہ ناز تفسیر میں رقم طراز ہیں:
”اللہ کے ہاں برتری کا معیار خاندان، قبیلہ اور نسل ونسب نہیں ہے جو کسی انسان کے اختیار میں ہی نہیں ہے بلکہ یہ معیار تقویٰ ہے، جس کا اختیار کرنا انسان کے ارادہ واختیار میں ہے۔ یہی آیت ان علماء کی دلیل ہے جو نکاح میں کفایت (برابری کا جوڑ) نسب کو ضروری نہیں سمجھتے اور صرف دین کی بنیاد پر نکاح کو پسند کرتے ہیں ۔ “( تفسير ابن كثير ، تحت هذه الاية)
کن چیزوں پر ایمان ضروری اور مؤمنین کی دعا :
﴿آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مِن رَّبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ ۚ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّن رُّسُلِهِ ۚ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۖ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ .لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ ۗ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ ۖ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا ۚ أَنتَ مَوْلَانَا فَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ.﴾
[البقرة:285،286]
”رسول اس پر ایمان لایا جو کچھ اس کی طرف اس کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا، اور سب مومن ( بھی ) ایمان لائے ، اور یہ سب اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ، ہم اس کے رسولوں میں سے کسی ایک کے درمیان فرق نہیں کرتے ، اور انہوں نے کہا: ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی ، تیری بخشش مانگتے ہیں، اے ہمارے رب ! اور تیری ہی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ اللہ کسی کو تکلیف نہیں دیتا مگر اس کی گنجائش (کے مطابق ) اس کے لیے (اجر ) ہے اس پر جو اس نے نیکی کی اور اس پر (عذاب) ہے جو اس نے گناہ کمایا، اے ہمارے رب ! ہمیں نہ پکڑ ، اگر ہم بھول جائیں یا کوئی خطا کر جائیں، اے ہمارے رب! ہم پر کوئی بھاری بوجھ نہ ڈال، جیسے تو نے ان لوگوں پر ڈالا جو ہم سے پہلے تھے، اے ہمارے رب ! اور ہم سے وہ چیز نہ اٹھوا جس کے اٹھانے کی ہم میں طاقت نہ ہو، اور ہم سے درگزر کر اور ہمیں بخش دے، اور ہم پر رحم کر، تو ہمارا مالک ہے۔ پس کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد فرما۔“
مذکورہ بالا آیات میں ان ایمانیات کا ذکر ہے جن پر اہل ایمان کو ایمان رکھنے کا حکم دیا گیا ہے، اور اس پر مستزاد یہ کہ ان آیات میں اللہ تعالیٰ کی رحمت و شفقت اور اسکے فضل وکرم کا تذکرہ ہے کہ اس نے انسان کو کسی ایسی بات کا مکلف نہیں کیا ہے جو اسکی طاقت سے بالا ہو۔

مومن متقی اور خرچ کرنے والا ہوتا ہے :

﴿فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوا وَأَطِيعُوا وَأَنفِقُوا خَيْرًا لِّأَنفُسِكُمْ ۗ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ‎. إِن تُقْرِضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا يُضَاعِفْهُ لَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ۚ وَاللَّهُ شَكُورٌ حَلِيمٌ ‎.‏ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ .﴾
[التغابن:16 تا 18]
”پس جہاں تک ہو سکے تم اللہ سے ڈرو، اور سنو اور اطاعت کرو، اور خرچ کرو ( یہ ) تمہارے لیے بہتر ہے، اور جو اپنے نفس سے بچا لیا گیا، یہی لوگ فلاح ( دو جہان میں کامیابی ) پانے والے ہیں۔ اگر تم اللہ کو قرض حسنہ دو گے تو وہ تمہارے لیے اسے کئی گنا کر دے گا، اور وہ تمہیں بخش دے گا، اور اللہ قدردان، بے جد ، بردباد ہے، ہر پوشیدہ اور ظاہر کو جاننے والا سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔ “
عبد الرحمن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں:
”اللہ تبارک و تعالیٰ تقوے کا حکم دیتا ہے جو اس کے اوامر کے سامنے سرتسلیم خم کرنے ، اور اس کے نواہی سے اجتناب کرنے کا نام ہے، اور اللہ تعالیٰ نے اس کو استطاعت اور قدرت سے مقید رکھا ہے۔ یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ ہر وہ واجب جس کو ادا کرنے سے بندہ عاجز ہو اس سے ساقط ہو جاتا ہے، اگر کچھ اُمور پر عمل کرنے کی قدرت رکھتا ہے اور کچھ پر قدرت نہیں رکھتا تو وہ انہی اُمور پر عمل کرے گا جن پر عمل کرنے کی وہ قدرت رکھتا ہے۔ اور جن پر عمل کرنے سے عاجز ہے وہ اس سے ساقط ہو جائیں گے، جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا أمرتكم بأمر فأتوا منه ما استطعتم
صحیح بخاری ، رقم : 7288 – صحیح مسلم، رقم: 337۔ مسند احمد: 428/2، واللفظ له
” جب میں تمہیں کسی کام کا حکم دوں تو جتنی تم میں استطاعت ہے اس کے مطابق اس پر عمل کرو۔ “
اس شرعی قاعدے میں اتنی زیادہ فروع داخل ہیں جن کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔“ (تفسير السعدى : 2786/3)

ان چیزوں پر ایمان لانا کامیابی کی ضمانت ہے :

مزید فرمایا:
﴿الم ‎. ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ.الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ .‏ وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ.‏ أُولَٰئِكَ عَلَىٰ هُدًى مِّن رَّبِّهِمْ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ.﴾
[البقرة:1 تا 5]
”الم ۔ یہ کتاب ہے اس میں کوئی شک نہیں، پرہیزگاروں کو راہ دکھانے والی ہے، جو لوگ غیب پر ایمان لاتے ہیں، نماز قائم کرتے ، اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا اس میں سے خرچ کرتے ہیں، اور جو لوگ ایمان لاتے ہیں اس پر جو آپ کی طرف اتارا گیا، اور جو آپ سے پہلے اتارا گیا، اور وہ آخرت پر بھی یقین رکھتے ہیں۔ یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں۔ اور یہی لوگ کامیاب ہیں۔ “
عبد الرحمن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ علیہ ان آیات کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
﴿هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ﴾ ”متقیوں کے لیے ہدایت ہے ۔ “ (الھُدٰی) وہ چیز ہے جس کے ذریعے سے گمراہی اور شبہات کی تاریکی میں راہ نمائی حاصل ہو، اور جو فائدہ مند راستوں پر گامزن ہونے میں راہ نمائی کرے، اور اللہ تعالیٰ نے لفظ (هُدًی) استعمال کیا ہے اور اس میں معمول کو حذف کر دیا گیا ہے، اور یہ نہیں کہا کہ فلاں مصلحت اور فلاں چیز کی طرف راہ نمائی (ہدایت) ہے کیونکہ اس سے عموم مراد ہے، اور اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ کتاب دنیا و آخرت کے تمام مصالح کی طرف راہنمائی ہے، لہذا یہ تمام اُصولی اور فروعی مسائل میں بندوں کی راہنما ہے، باطل میں سے حق کو اور ضعیف میں سے صحیح کو واضح کرتی ہے، نیز بندوں کے سامنے بیان کرتی ہے کہ دنیا و آخرت کے لیے فائدہ مند راستوں پر انہیں کیسے چلنا چاہیے ۔ ایک دوسرے مقام پر ﴿هُدًى لِّلنَّاسِ﴾ [البقرة:185] ”تمام لوگوں کے لیے ہدایت ہے“ فرما کر اس کو عام کر دیا۔
اس مقام پر اور بعض دیگر مقامات پر فرمایا ﴿هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ﴾ کیونکہ فی نفسہ تمام لوگوں کے لیے ہدایت ہے لیکن چونکہ بدبخت لوگ اس کی طرف توجہ نہیں کرتے اور اللہ تعالیٰ کی راہ نمائی قبول نہیں کرتے ، اس لیے اس کے ذریعے سے ان پر حجت قائم ہو گئی ہے کہ انہوں نے اپنی بدبختی کے سبب سے اس ہدایت سے فائدہ نہیں اُٹھایا۔ رہے متقی لوگ تو انہوں نے حصولِ ہدایت کے لیے سب سے بڑا سبب پیش کیا ہے، اور وہ ہے تقویٰ ، اور تقویٰ کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ کے اوامر کی اطاعت، اس کی منہیات سے اجتناب کرتے ہوئے ایسے امور کو اختیار کرنا، جو بندے کو اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور اس کے عذاب سے بچاتے ہیں۔ پس اہل تقوی نے اس کتاب کے ذریعے سے راہ پائی، اور اس سے بے انتہا ( بے حساب ) فائدہ اُٹھایا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَل لَّكُمْ فُرْقَانًا﴾
[الأنفال:29]
”اے ایمان والو! اگر تم اللہ سے ڈرو گے تو وہ تمہارے لیے ایک کسوٹی بہم پہنچا دے گا۔ “
پس اصحاب تقویٰ ہی آیات قرآنیہ (احکام الہیہ) اور آیات کو نیہ (قدرت کی نشانیوں) سے فائدہ اُٹھاتے ہیں ، اس لیے کہ ہدایت کی دو قسمیں ہیں:
1۔ ہدایت بیان
2۔ ہدایت توفیق
”متقی لوگ ہدایت کی دونوں اقسام سے بہرہ مند ہوتے ہیں، ان کے علاوہ دیگر لوگ ہدایت کی توفیق سے محروم رہتے ہیں، اور ہدایت بیان توفیق عمل کی ہدایت کے بغیر حقیقی اور کامل ہدایت نہیں ۔“ (تفسیر السعدی : 1 / 74، 75)

مومن متقی ، سیدھی بات کہنے والا اور توبہ کرنے والا ہوتا ہے:

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا ‎.‏ يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا . إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَن يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنسَانُ ۖ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا ‎. لِّيُعَذِّبَ اللَّهُ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْمُشْرِكِينَ وَالْمُشْرِكَاتِ وَيَتُوبَ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا.﴾
[الأحزاب:70 تا 73]
”اے ایمان والو ! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سیدھی (سچی) بات کہو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے کام سنوار دے، اور تمہارے گناہ معاف فرما دے۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول کی تابعداری کرے، اس نے بہت بڑی کامیابی حاصل کر لی۔ ہم نے (اپنی) امانت کو آسمانوں، زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا لیکن سب نے اس کے اٹھانے سے انکار کر دیا، اور اس سے ڈر گئے (مگر) انسان نے اسے اٹھا لیا۔ وہ بڑا ہی ظالم، جاہل ہے۔ ( یہ اس لیے ) کہ اللہ تعالیٰ منافق مردوں، عورتوں اور مشرک مردوں اور عورتوں کو سزا دے اور مومن مردوں اور عورتوں کی توبہ قبول فرمائے اور اللہ ہمیشہ سے بے حد بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ “

ایمان روشنی ہے :

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَآمِنُوا بِرَسُولِهِ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِن رَّحْمَتِهِ وَيَجْعَل لَّكُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِهِ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ﴾
[الحديد:28]
”اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرتے رہا کرو، اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ، اللہ تمہیں اپنی رحمت کا دوہرا حصہ دے گا، اور تمہیں نور دے گا جس کی روشنی میں تم چلو پھرو گے، اور تمھارے گناہ بھی معاف فرما دے گا ، اللہ بے حد بخشنے والا ، نہایت رحم والا ہے۔ “
اور فرمایا:
﴿فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَوَهَبْنَا لَهُ يَحْيَىٰ وَأَصْلَحْنَا لَهُ زَوْجَهُ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا ۖ وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِينَ﴾
[الأنبياء:90]
”تو ہم نے اس کی دعا کو قبول فرما کر اسے یحیی عطا فرمایا، اور ان کی بیوی کو ان کے لیے درست کر دیا۔ یہ بزرگ لوگ نیک کاموں کی طرف جلدی کرتے تھے، اور ہمیں لالچ، طمع اور ڈر و خوف سے پکارتے تھے، اور ہمارے لیے ہی عاجزی کرنے والے تھے ۔ “
عبدالرحمن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ علیہ رقم طراز ہیں:
”اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان تمام انبیاء ومرسلین کا فرداً فرداً ذکر کرنے کے بعد ان سب کو عمومی مدح و ثنا سے نوازا ہے، چنانچہ فرمایا ﴿إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ﴾ ”یعنی وہ نیکیوں میں سبقت کرتے تھے“، اوقات فاضلہ میں نیکیاں کرتے تھے، اور ان کی تکمیل اس طریقے سے کرتے تھے جو ان کے لائق اور ان کے لیے مناسب ہو۔ وہ مقدور بھر کسی فضیلت کو نہ چھوڑتے تھے، اور فرصت کو غنیمت جانتے تھے ﴿وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا﴾ ”یعنی ہم سے دنیا و آخرت کے مرغوب امور کا سوال کرتے تھے“ اور دنیا و آخرت کے ضرر رساں، خوف ناک امور سے ہماری پناہ طلب کرتے تھے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رغبت رکھتے تھے، وہ غافل اور کھیل کود میں ڈوبے ہوئے تھے، نہ اللہ تعالیٰ کے حضور گستاخی اور جرات کرتے تھے ﴿وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِينَ﴾ ”یعنی ہمارے سامنے خشوع ، تذلل اور انکساری کا اظہار کرتے تھے“ اور اس کا سبب یہ تھا کہ وہ اپنے رب کی کامل معرفت رکھتے تھے ۔(تفسیر السعدی : 1996/2)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے