إن الحمد لله نحمده، ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له ، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله . أما بعد:
والدین کے ساتھ حسن سلوک
قال الله تعالى: ﴿وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا ۖ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا ۖ وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا ۚ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً قَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَىٰ وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي ۖ إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ﴾
(الأحقاف: 15)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے کی تاکید کی۔ اس کی ماں نے اسے ناگواری کی حالت میں اٹھائے رکھا اور اسے ناگواری کی حالت میں جنا۔ اور اس کے حمل اور اس کے دودھ چھڑانے کی مدت تیس مہینے ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ اپنی پوری قوت کو پہنچا اور چالیس برس کو پہنچ گیا تو اس نے کہا: اے میرے رب! مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر انعام کی ہے اور یہ کہ میں وہ نیک عمل کروں جسے تو پسند کرتا ہے۔ اور میرے لیے میری اولاد میں اصلاح فرما دے۔ بے شک میں نے تیری طرف توبہ کی اور بے شک میں حکم ماننے والوں سے ہوں۔“
حدیث: 1
«حدثنا سعيد بن أبى مريم قال أخبرنا محمد بن جعفر بن أبى كثير قال أخبرني زيد بن أسلم عن عطاء بن يسار عن ابن عباس أنه أتاه رجل فقال إني خطبت امرأة فأبت أن تنكحني وخطبها غيري فأحبت أن تنكحه فغرت عليها فقتلتها فهل لي من توبة قال أمك حية قال لا قال تب إلى الله عز وجل وتقرب إليه ما استطعت فذهبت فسألت ابن عباس لم سألته عن حياة أمه فقال إني لا أعلم عملا أقرب إلى الله عز وجل من بر الوالدة»
(الأدب المفرد، رقم: 4، سلسلة الصحيحة، رقم: 2799)
”حضرت عطاء بن یسار رضی اللہ عنہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ان کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے کہا کہ میں نے ایک عورت کو پیغام نکاح بھیجا تو اس نے مجھ سے نکاح کرنے سے انکار کر دیا۔ پھر میرے علاوہ کسی اور نے نکاح کا پیغام بھیجا تو اس نے رضامندی کا اظہار کر دیا۔ مجھے اس پر غیرت آئی اور میں نے اسے قتل کر دیا۔ کیا میرے لیے توبہ کی کوئی صورت ہے؟ (حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما) نے فرمایا: کیا تمہاری والدہ زندہ ہے؟ اس نے کہا: نہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اللہ سے توبہ کر اور جتنا ہو سکتا ہے (اعمال صالحہ وغیرہ سے) اللہ کا قرب حاصل کر (راوی حدیث حضرت عطاء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں) ۔ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس گیا اور عرض کی: آپ نے اس سے اس کی ماں کے زندہ ہونے کا سوال کیوں کیا؟ تو انہوں نے فرمایا: میرے علم میں والدہ کے ساتھ حسن سلوک سے بڑھ کر کوئی عمل اللہ کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں ہے۔ “
باپ کے ساتھ بھی حسن سلوک کرنا ہے
حدیث: 2
«وعن أسماء بنت أبى بكر قالت أتتني أمي راغبة فى عهد النبى صلى الله عليه وسلم فسألت النبى صلى الله عليه وسلم أصلها قال نعم وفي رواية قدمت أمي وهى مشركة»
(صحیح بخاری، کتاب الأدب، باب صلة الوالد المشرك، رقم: 5978)
”سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ فرماتی ہیں کہ میرے پاس میری ماں آئی اور وہ مشرکہ تھی۔ تو میں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے پوچھا: کیا میں اس سے حسن سلوک کروں؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ہاں، اس سے صلہ رحمی اور اچھا سلوک کرو۔ “
سب سے زیادہ حسن سلوک کا حقدار
حدیث: 3
«وعن أبى هريرة رضي الله عنه قال جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله من أحق الناس بحسن صحبتي قال أمك قال ثم من قال أمك قال ثم من قال أمك قال ثم من قال ثم أبوك»
(صحیح بخاری، کتاب الأدب، باب من أحق بحسن الصحبة، رقم: 5971، صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، رقم: 6501)
”سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے پاس آیا اور پوچھنے لگا: اے اللہ کے رسول! سب سے زیادہ کس کا حق ہے کہ میں اس کے ساتھ حسن سلوک کروں؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: تیری ماں کا۔ پوچھا: پھر کس کا؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: تیری ماں کا۔ پوچھا: پھر کس کا؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: تیری ماں کا۔ پوچھا: پھر کس کا؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: پھر تیرے باپ کا۔ “
سب سے پسندیدہ عمل
قال الله تعالى: ﴿وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا﴾
(الإسراء: 23)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اور تیرے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ اگر کبھی تیرے پاس دونوں میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان دونوں کو ’اف‘ مت کہہ اور نہ انہیں جھڑک اور ان سے بہت کرم والی بات کہہ۔“
حدیث: 4
«وعن عبد الله قال سألت النبى صلى الله عليه وسلم أى العمل أحب إلى الله قال الصلاة على وقتها قال ثم أى قال بر الوالدين قال ثم أى قال الجهاد فى سبيل الله»
(صحیح بخاری، کتاب الأدب، باب قوله ووصينا الإنسان بوالديه، رقم: 5070)
”سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے نبی کریم صلى الله عليه وسلم سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کو کون سا عمل زیادہ پسند ہے؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: وقت پر نماز پڑھنا۔ پھر انہوں نے پوچھا: پھر کون سا؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ماں باپ سے اچھا سلوک کرنا۔ پھر انہوں نے پوچھا: پھر کون سا؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ “
اللہ کی رضا والدین کی رضا میں ہے
قال الله تعالى: ﴿وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللَّهِ أَكْبَرُ﴾
(التوبة: 72)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اور اللہ کی رضا سب سے بڑی ہے۔“
حدیث: 5
«وعن عبد الله بن عمر عن النبى صلى الله عليه وسلم قال رضى الرب فى رضي الوالد وسخط الرب فى سخط الوالد»
(سنن الترمذی، ابواب البر والصلة، باب ما جاء في الفضل في رضا الوالدين، رقم: 1899، صحیح ابن حبان، رقم: 328، مستدرک حاکم، رقم: 7331)
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”رب تعالیٰ کی رضا والدین کی رضا میں ہے اور رب تعالیٰ کی ناراضگی والدین کی ناراضگی میں ہے۔“
حدیث: 6
«وعن عبد الرحمن بن عوف قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول قال الله تعالى أنا الرحمن وهى الرحم شققت لها اسما من اسمي من وصلها وصلته ومن قطعها بتته»
(سنن ابوداؤد، کتاب الزکوٰة، باب في صلة الرحم، رقم: 1694)
”سیدنا عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے سنا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں مہربان ہوں اور یہ قرابت داری ہے۔ میں نے اپنے نام سے اس کا نام کاٹا ہے جو اسے ملائے گا، میں اسے ملاؤں گا اور جو اسے کاٹے گا، میں اسے کاٹوں گا۔ “
جنت والدین کے قدموں کے نیچے ہے
حدیث: 7
«وعن معاوية بن جاهمة أن جاهمة جاء إلى النبى صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله أردت أن أغزو وقد جئت أستشيرك فقال هل لك من أم قال نعم قال فالزمها فإن الجنة عند رجليها»
(سنن النسائی، کتاب الجهاد، باب الرخصة في التخلف لمن له والدة، رقم: 3104، محدث البانی نے اسے حسن صحیح کہا ہے)
”سیدنا معاویہ بن جاہمہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ان کے والد جاہمہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے پاس آئے اور سوال کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں جہاد میں جانے کا ارادہ رکھتا ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورہ لینے آیا ہوں۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: کیا تیری ماں (زندہ) ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: پس اس کو لازم پکڑو (یعنی اس کی خدمت کرو)، بے شک جنت اس کے پاؤں کے پاس ہے۔ “
والدین کا اولاد کے حق میں دعا کرنا
قال الله تعالى: ﴿رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَاةِ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۚ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ ۔ رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ۔﴾
(إبراهيم: 40، 41)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اے میرے رب! مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری اولاد میں سے بھی، اور اے ہمارے رب! ہماری دعا قبول فرما۔ اے ہمارے رب! مجھے معاف فرما، میرے والدین کو اور تمام مومنین کو جس دن حساب قائم ہوگا۔“
حدیث: 8
«وعن أبى هريرة رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاث دعوات مستجابات لا شك فيهن دعوة المظلوم ودعوة المسافر ودعوة الوالد على ولده»
(سنن الترمذی، ابواب البر والصلة، باب ما جاء في دعا الوالدين، رقم: 1905، سنن ابن ماجه، ابواب الدعاء، باب دعوة الوالد ودعوة المظلوم، رقم: 3862، محدث البانی نے اسے حسن کہا ہے)
”سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: تین دعائیں مستجاب ہیں، ان کے قبول ہونے میں کوئی شک نہیں: 1۔ مظلوم کی دعا، 2۔ مسافر کی دعا اور 3۔ والدین کی اولاد کے حق میں دعا۔ “
والدین کی اطاعت دنیاوی مشکلات کا مداوا ہے
حدیث: 9
«وعن ابن عمر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال بينما ثلاثة نفر يتماشون أخذهم المطر فمالوا إلى غار فى الجبل فانحطت على فم غارهم صخرة من الجبل فأطبقت عليهم فقال بعضهم لبعض انظروا أعمالا عملتموها لله صالحة فادعوا الله بها لعله يفرجها فقال أحدهم اللهم إنه كان لي والدان شيخان كبيران ولي صبية صغار كنت أرعى عليهم فإذا رحت عليهم فحلبت بدأت بوالدي أسقيهما قبل ولدي وإنه ناء بي الشجر فما أتيت حتى أمسيت فوجدتهما قد ناما فحلبت كما كنت أحلب فجئت بالحلاب فقمت عند رؤوسهما أكره أن أوقظهما من نومهما وأكره أن أبدأ بالصبية قبلهما والصبية يتضاغون عند قدمي فلم يزل ذلك دأبي ودأبهم حتى طلع الفجر فإن كنت تعلم أني فعلت ذلك ابتغاء وجهك فاخرج لنا فرجة نرى منها السماء ففرج الله لهم فرجة حتى يرون منها السماء وقال الثاني اللهم إنه كانت لي ابنة عم أحبها كأشد ما يحب الرجال النساء فطلب إليها نفسها فأبت حتى آتيها بمائة دينار فسعيت حتى جمعت مائة دينار فلقيتها بها فلما فعدت بين رجليها قالت يا عبد الله اتق الله ولا تفتح الخاتم فقمت عنها اللهم فإن كنت تعلم أني قد فعلت ذلك ابتغاء وجهك فاخرج لنا منها ففرج لهم فرجة وقال الآخر اللهم إني كنت استأجرت أجيرا بفرق أرز فلما قضى عمله قال أعطني حقي فعرضت عليه حقه فتركه ورغب عنه فلم أزل أزرعه حتى جمعت منه بقرا وراعيها فجاءني فقال اتق الله ولا تظلمني وأعطني حقي فقلت اذهب إلى ذلك البقر وراعيها فقال اتق الله ولا تهزأ بي فقلت إني لا أهزأ بك فخذ ذلك البقر وراعيها فأخذه فانطلق بها فإن كنت تعلم أني فعلت ذلك ابتغاء وجهك فاخرج ما بقي ففرج الله عنهم»
(صحیح بخاری، کتاب الأدب، باب إجابة دعاء من بر والديه، رقم: 5974)
”حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلى الله عليه وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: اس دوران کہ تین آدمی سفر کر رہے تھے، بارش آ گئی۔ انہوں نے پہاڑ میں ایک غار میں پناہ لی۔ اتنے میں پہاڑ سے ایک چٹان گری اور اس نے ان کی غار کا منہ بند کر دیا۔ چنانچہ انہوں نے ایک دوسرے سے کہا: اپنے اعمال کا جائزہ لو جو تم نے خالص اللہ کی رضا کی خاطر کیے تھے، پھر ان کے ذریعے اللہ سے دعا کرو، شاید کہ وہ اس تکلیف کو دور کر دے۔ ان میں سے ایک نے کہا: اے اللہ! میرے بوڑھے والدین تھے اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے تھے۔ میں ان کے نان و نفقہ کا ذمہ دار تھا۔ جب میں شام کے وقت مویشی لے کر واپس آتا تو میں دودھ دھو کر اپنی اولاد سے پہلے اپنے والدین کی خدمت میں پیش کیا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ میں جنگل میں دور نکل گیا جس کی وجہ سے میں شام کے وقت (دیر سے) گھر پہنچا تو میں نے ان دونوں کو سویا ہوا پایا۔ میں نے حسب معمول دودھ دھویا پھر میں دودھ کا برتن لے کر آیا اور ان کے سرہانے کھڑا ہو گیا ، میں نے انہیں جگانا مناسب نا سمجھا اور ان سے پہلے بچوں کو پلانا بھی مناسب نہ جانا جبکہ میرے بچے میرے قدموں کے پاس بھوکے بلکتے رہے ، میری اور ان کی یہی صورتحال رہی حتی کہ صبح ہو گئی ، (اے اللہ) اگر تو جانتا ہے کہ میں نے تیری رضا کی خاطر ایسا کیا تھا تو پھر ہمارے لیے اس قدر راستہ بنا دے کہ ہم وہاں سے آسمان دیکھ لیں۔ اللہ نے ان کے لیے راستہ کھول دیا حتیٰ کہ وہ آسمان دیکھنے لگے۔ دوسرے نے عرض کیا: اے اللہ! میری ایک چچا زاد بہن تھی میں اسے اتنا چاہتا تھا جتنا کہ زیادہ سے زیادہ مرد خواتین کو چاہتے ہیں میں نے اس سے برائی کرنے کا ارادہ ظاہر کیا لیکن اس نے انکار کر دیا حتی کہ میں اس سے سو دینار دوں ، میں نے کوشش کر کے سو دینار جمع کیے اور وہ لے کر اس کے پاس گیا اور جب میں (اس سے برا فیل کرنے کے لیے) اس کی دونوں ٹانگوں کے درمیان بیٹھ گیا تو اس نے کہا اللہ کے بندے ! اللہ سے ڈر جا اس مہر کو نہ توڑ ، یہ سنتے ہی میں اس سے اٹھ کھڑا ہوا۔ اے اللہ ! اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ تیری رضا کی خاطر کیا تھا تو ہمارے لیے راستہ کھول دے! اللہ نے ان کے لیے کچھ راستہ کھول دیا۔ تیسرے شخص نے کہا: اے اللہ میں نے ایک فرق (16 رطل) چاولوں کی اجرت پر ایک مزدور کام پر لگا رکھا تھا پس جب اس نے اپنا کام مکمل کر لیا تو اس نے کہا: میرا حق مجھے ادا کرو، میں نے اس کا حق اس پر پیش کیا تو وہ اسے کمتر سمجھتے ہوئے چھوڑ کر چلا گیا میں اس سے زراعت کرتا رہا حتی کہ میں نے اس سے گائے اور چرواہے جمع کر لیے، وہ میرے پاس ایا اور اس نے کہا: اللہ سے ڈر جا اور مجھ پر ظلم نہ کر اور میرا حق مجھے ادا کر ، میں نے کہا یہ گائے اور اس کے چرانے والوں کو لے جا ، اس نے کہا: اللہ سے ڈر ! مجھ سے مذاق نہ کر ، میں نے کہا: تم سے مذاق نہیں کر رہا، تم یہ گائے اور اس کے چرواہے کو لے جاؤ، وہ اسے لے کر چلا گیا۔ اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ کام تیری رضا حاصل کرنے کے لیے کیا تھا تو باقی راستہ بھی کھول دے۔ چنانچہ اللہ نے ان کے لیے راستہ کھول دیا (اور وہ تکلیف دور کر دی)۔ “
والدین کی اطاعت گناہوں کا کفارہ ہے
حدیث: 10
«وعن ابن عمر أن رجلا أتى النبى صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله إني أصبت ذنبا عظيما فهل لي توبة قال هل لك من أم قال لا قال هل لك من خالة قال نعم قال فبرها»
(سنن الترمذی، ابواب البر والصلة، باب ما جاء في بر الخالة، رقم: 1904، محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے)
”سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلى الله عليه وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے ایک بڑا گناہ کیا ہے، کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: کیا تیری ماں ہے؟ ایک روایت میں ہے: کیا تیرے والدین ہیں؟ اس نے کہا: نہیں۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: کیا تیری خالہ ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: اس کے ساتھ نیک سلوک کر۔ “
والدین کی اجازت سے جہاد کرے
حدیث: 11
«وعن عبد الله بن عمرو قال جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فاستأذنه فى الجهاد فقال أحي والداك قال نعم قال ففيهما فجاهد»
(صحیح بخاری، کتاب الجهاد، باب الجهاد بإذن الأبوين، رقم: 3004)
”سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر جہاد میں جانے کی اجازت مانگی۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: تیرے ماں باپ زندہ ہیں؟ اس نے کہا: جی ہاں۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ان دونوں میں جہاد کر ۔ (یعنی ان کی خدمت کر) ایک روایت میں ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے اس سے فرمایا: اپنے ماں باپ کے پاس جاؤ اور ان کی اچھی طرح خدمت کر۔ “
جائز حد تک والدین کی ہر ممکن اطاعت کرنا
قال الله تعالى: ﴿وَإِن جَاهَدَاكَ عَلَىٰ أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۖ وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا﴾
(لقمان: 15)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اور اگر وہ دونوں تجھ پر زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ اس کو شریک بنائے جس کا تجھے علم نہیں، تو ان کی اطاعت نہ کرنا اور دنیا میں معروف طریقے سے ان دونوں سے اچھا سلوک کر۔“
حدیث: 12
«وعن أبيه سعد بن أبى وقاص قال نزلت فى أربع آيات من كتاب الله تعالى كانت أمي حلفة أن لا تأكل ولا تشرب حتى أفارق محمدا صلى الله عليه وسلم فأنزل الله عز وجل ﴿وَإِن جَاهَدَاكَ عَلَىٰ أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۖ وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا﴾ (والثانية) إني كنت أخذت سيفا أعجبني فقلت يا رسول الله هب لي هذا فنزلت ﴿يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَنفَالِ﴾ (والثالثة) إني مرضت فأتاني رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت يا رسول الله إني أريد أن أقسم مالي أفأوصي بالنصف فقال لا فقلت الثلث فسكت فكان الثلث بعده جائزا (الرابعة) إني شربت الخمر مع قوم من الأنصار فضرب رجل منهم أنفي بلحي جمل فأتيت النبى صلى الله عليه وسلم فأنزل الله عز وجل تحريم الخمر»
(الأدب المفرد، رقم: 24، صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، رقم: 1748)
”سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: قرآن مجید کی چار آیات میرے بارے میں نازل ہوئیں: (1) میری والدہ (جس نے اسلام قبول نہیں کیا تھا) نے قسم اٹھائی کہ میں اس وقت تک نہ کھاؤں گی نہ پیوں گی جب تک میں (سعد) محمد صلى الله عليه وسلم کا ساتھ نہ چھوڑتا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی: ﴿وَإِن جَاهَدَاكَ عَلَىٰ أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۖ وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا﴾ (لقمان: 15) اگر وہ دونوں تجھ پر زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ اس کو شریک بنائے جس کا تجھے علم نہیں، تو ان کی اطاعت نہ کرنا اور دنیا میں معروف طریقے سے ان دونوں سے اچھا سلوک کر۔ (2) (مال غنیمت سے) مجھے ایک تلوار پسند آئی تو میں نے پکڑ لی اور نبی کریم صلى الله عليه وسلم سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! یہ مجھے عنایت فرما دیں۔ تو یہ آیت نازل ہوئی: ﴿يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَنفَالِ﴾ (الأنفال: 1) وہ آپ سے غنیمتوں کی بابت سوال کرتے ہیں۔ (3) میں بیمار پڑ گیا تو رسول اللہ صلى الله عليه وسلم میرے پاس (تیماداری کے لیے) تشریف لائے۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اپنا مال تقسیم کرنا چاہتا ہوں، کیا نصف مال کی وصیت کر دوں؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: نہیں۔ میں نے کہا: تیسرے حصے کی وصیت کر دوں؟ آپ صلى الله عليه وسلم خاموش رہے اور اس کے بعد تیسرے حصے کی وصیت جائز ہو گئی۔ (4) میں نے انصار کے ایک گروہ کے ساتھ شراب پی تو ان میں سے ایک شخص نے اونٹ کے جبڑے کی ہڈی لے کر میری ناک پر دے ماری۔ میں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے پاس آیا تو اللہ تعالیٰ نے شراب کی حرمت نازل فرما دی۔ “
حدیث: 13
«وعن عبد الله بن عمر قال كانت تحتي امرأة وكنت أحبها وكان عمر يكرهها فقال لي طلقها فأبيت فأتى عمر النبى صلى الله عليه وسلم فذكر ذلك له فقال النبى صلى الله عليه وسلم طلقها»
(سنن ابوداؤد، کتاب الأدب، باب في بر الوالدين، رقم: 5138، محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے)
”سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میرے نکاح میں ایک عورت تھی، میں اسے چاہتا تھا لیکن عمر رضی اللہ عنہ (میرے باپ) اس کو برا جانتے تھے۔ انہوں نے مجھے کہا: اسے طلاق دے دے۔ میں نے انکار کیا۔ (عمر رضی اللہ عنہ) رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے پاس گئے اور آپ صلى الله عليه وسلم خاموش رہے اور کے سامنے یہ بات عرض کی۔ تو آپ صلى الله عليه وسلم نے (مجھے) فرمایا: اس عورت کو طلاق دے دو۔“
والدین کا حق کیسے ادا ہو سکتا ہے؟
حدیث: 14
«وعن أبى هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يجزي ولد والدا إلا أن يجده مملوكا فيشتريه فيعتقه»
(صحیح مسلم، کتاب العتق، باب فضل عتق الوالد، رقم: 1510، سنن الترمذی، کتاب البر والصلة، باب ما جاء في حق الوالدين، رقم: 1906)
”سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: کوئی بیٹا اپنے باپ کا حق پورا نہیں کر سکتا مگر یہ کہ وہ اپنے باپ کو غلام پائے تو اسے خرید کر آزاد کر دے۔“
والدین کے دوستوں سے حسن سلوک
حدیث: 15
«وعن ابن عمر قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن أبر البر صلة المرء أهل ود أبيه بعد أن يولى»
(سنن ابوداؤد، کتاب الأدب، باب في بر الوالدين، رقم: 5143)
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”نیکیوں میں سے بڑی نیکی، آدمی کا اپنے باپ کی وفات کے بعد اس کے دوستوں سے حسن سلوک کرنا ہے۔“
والدین کی نافرمانی اور جہنم
حدیث: 16
«وعن عبد الله بن عمرو عن النبى صلى الله عليه وسلم قال لا يدخل الجنة منان ولا عاق ولا مدمن خمر»
(سنن النسائی، کتاب الاشربة، باب الرواية في المدمنين في الخمر، رقم: 5672، سلسلة الصحيحة، رقم: 670)
”سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: بہت زیادہ احسان جتلانے والا، ماں باپ کا نافرمان اور ہمیشہ شراب پینے والا جنت میں نہیں داخل ہوگا۔ “
شریعت کے خلاف والدین کی اطاعت نہیں کی جائے گی
قال الله تعالى: ﴿وَإِن جَاهَدَاكَ عَلَىٰ أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۖ وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا﴾
(لقمان: 15)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اگر والدین کوشش کریں کہ تو میرے ساتھ شرک کرے جس کا تجھے کچھ علم نہیں تو ان کی اطاعت نہ کرنا لیکن دنیا کے معاملات میں ان کا اچھی طرح ساتھ دینا۔“
حدیث: 17
«وعن على قال بعث النبى صلى الله عليه وسلم سرية فاستعمل رجلا من الأنصار وأمرهم أن يطيعوه فغضب فقال أليس أمركم النبى صلى الله عليه وسلم أن تطيعوني قالوا بلى قال فاجمعوا لي حطبا فجمعوا فقال أوقدوا نارا فأوقدوها فقال ادخلوها فهموا وجعل بعضهم يمسك بعضا ويقولون فررنا إلى النبى صلى الله عليه وسلم من النار فما زالوا حتى خمدت النار فسكن غضبه فبلغ النبى صلى الله عليه وسلم فقال لو دخلوها ما خرجوا منها إلى يوم القيامة الطاعة فى المعروف»
(صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب سرية عبد الله بن حذافة، رقم: 4340)
”سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ایک دستہ روانہ فرمایا اور اس کا امیر ایک انصاری کو مقرر فرمایا اور لوگوں کو حکم دیا کہ اس کی اطاعت کرنا۔ یہ شخص ان سے ناراض ہو گیا اور کہنے لگا: کیا یہ واقعہ نہیں کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے تم کو حکم دیا تھا کہ میری اطاعت کرنا؟ سب نے کہا: درست ہے۔ اس نے کہا: تو پھر تم لوگ لکڑیاں جمع کرو۔ ان لوگوں نے لکڑیاں جمع کیں۔ پھر اس نے کہا: آگ جلاؤ۔ لوگوں نے آگ جلائی۔ اس نے کہا: اس میں کود پڑو۔ لوگ سوچ میں پڑ گئے اور کچھ ایک دوسرے کو یہ کہتے ہوئے روکنے لگے: ہم نے نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی اطاعت آگ سے بچنے کے لیے قبول کی تھی، تو کیا اب ہم پھر آگ ہی میں کود جائیں؟ جب وہ لوگ سوچ کر یہ باتیں کر رہے تھے، آگ بجھ گئی اور اس شخص کا غصہ بھی ٹھنڈا ہو گیا۔ بعدازاں اس بات کا نبی کریم صلى الله عليه وسلم سے ذکر کیا گیا تو آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: اگر یہ لوگ آگ میں داخل ہو جاتے تو پھر کبھی آگ سے نہ نکلتے اور ہمیشہ جہنم کی آگ میں جلتے۔ اطاعت صرف جائز احکام میں ہے۔ “
قیامت کے دن باپ کے نام سے پکارا جائے گا
حدیث: 18
«وعن ابن عمر عن النبى صلى الله عليه وسلم قال إن الغادر يرفع له لواء يوم القيامة يقال هذه غدرة فلان بن فلان»
(صحیح البخاری، کتاب الأدب، باب ما يدعى الناس بآبائهم، رقم: 6177)
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلى الله عليه وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن دھوکہ باز کے لیے ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا، کہا جائے گا: یہ فلاں بن فلاں کی دھوکہ بازی کا نشان ہے۔“
ولادت کے بعد بچے کو گھٹی دینا
حدیث: 19
«وعن عائشة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يؤتى بالصبيان فيبرك عليهم ويحنكهم»
صحیح مسلم، کتاب الآداب، باب استحباب تحنیک المولود عند ولادتہ، رقم: 5619
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے پاس بچوں کو لایا جاتا تھا، آپ صلى الله علئے وسلم ان کے لیے برکت کی دعا کرتے اور انہیں گھٹی دیتے تھے۔“
حدیث: 20
«وعن أبى موسى قال ولد لي غلام فأتيت به النبى صلى الله عليه وسلم فسماه إبراهيم فحنكه بتمرة ودعا له بالبركة»
صحیح بخاری، کتاب العقیقة، باب تسمیة المولود غداة یولد، رقم: 5467 صحیح مسلم، کتاب الآداب، باب استحباب تحنیک المولود عند ولادتہ، رقم: 5615
”سیدنا ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میرے ہاں لڑکا پیدا ہوا تو میں اسے نبی کریم صلى الله عليه وسلم کے پاس لایا۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے اس کا نام ابراہیم رکھا اور اسے کھجور کے ساتھ گھٹی دی اور اس کے لیے برکت کی دعا کی۔ “
عقیقہ کرنا
حدیث: 21
«وعن عائشة قالت أمرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم أن نعق عن الغلام شاتين وعن الجارية شاة»
سنن ابن ماجہ، ابواب الذبائح، باب العقیقة، رقم: 3163محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک شاۃ (بکری) کا عقیقہ کریں۔ “
بچے کے بال منڈوانا
حدیث: 22
«وعن أبى بريدة قال كنا فى الجاهلية إذا ولد لأحدنا غلام ذبح شاة ولطخ رأسه بدمها فلما جاء الله بالإسلام كنا نذبح شاة ونحلق رأسه ونلطخه بزعفران»
سنن ابوداؤد، کتاب الضحایا، باب فی العقیقة، رقم: 2843السنن الکبری، رقم: 19288 محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جاہلیت کے دور میں ہمارے کسی کے ہاں لڑکا پیدا ہوتا تو وہ اس کی طرف سے ایک بکری ذبح کرتا اور اس کے سر پر اس بکری کا خون لگا دیتا۔ جب اللہ تعالی نے اسلام کی نعمت دی تو ہم ایک بکری ذبح کرتے اور اس کے سر کو مونڈتے اور اس کے سر پر زعفران لگاتے۔ “
حدیث: 23
«وعن هاني بن يزيد أنه سمع النبى صلى الله عليه وسلم يسمون رجلا منهم عبد الحجر فقال النبى صلى الله عليه وسلم ما اسمك قال عبد الحجر قال لا أنت عبد الله»
صحیح الادب المفرد، رقم: 811
”اور حضرت ہانی بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں سے سنا کہ وہ ایک شخص کو عبد الحجر کہہ کر بلاتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیرا نام کیا ہے؟ اس نے کہا: عبد الحجر (پتھر کا بندہ) ۔ آپ نے فرمایا: نہیں، تو عبد اللہ ہے (یعنی تیرا نام عبداللہ ہے) ۔ “
بچے کا ختنہ کروانا
حدیث: 24
«وعن أبى هريرة قال سمعت النبى صلى الله عليه وسلم يقول الفطرة خمس الختان والاستحداد وقص الشارب وتقلم الأظفار ونتف الآباط»
صحیح بخاری، کتاب اللباس، باب تقلم الأظفار، رقم: 5891
”اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: پانچ چیزیں فطرت سے ہیں: 1۔ ختنہ، 2۔ زیر ناف (بال اتارنے کے لیے) استرہ استعمال کرنا، 3۔ مونچھیں کاٹنا، 4۔ ناخن کاٹنا اور 5۔ بغل کے بال اکھیڑنا۔“
اولاد کے اخراجات اٹھانا
قال الله تعالي: ﴿وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ﴾
(البقرة: 233)
اللہ تعالی نے فرمایا: ”اور بچے کے باپ پر ان (بچوں) کا کھانا اور لباس ہے۔“
حدیث: 25
«وعن أبى هريرة قال أمر النبى صلى الله عليه وسلم بالصدقة فقال رجل يا رسول الله عندي دينار فقال تصدق به على نفسك قال عندي آخر قال تصدق به على ولدك قال عندي آخر قال تصدق به على زوجتك أو قال زوجك قال عندي آخر قال تصدق به على خادمك قال عندي آخر قال أنت أبصر»
سنن ابوداؤد، کتاب الزکوة، باب فی صلة الرحم، رقم: 1691 محدث البانی نے اسے حسن کہا ہے۔
”اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ کا حکم دیا۔ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے پاس ایک دینار ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے اپنے آپ پر خرچ کر۔ اس نے کہا: میرے پاس ایک اور دینار ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی اولاد پر خرچ کر۔ اس نے کہا: میرے پاس ایک اور دینار ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی بیوی پر خرچ کر۔ اس نے کہا: میرے پاس ایک اور دینار ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے خادم پر خرچ کر۔ اس نے کہا: میرے پاس اور ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اب تو زیادہ جانتا ہے (کہ کہاں ضرورت ہے) ۔ “
بچوں کی تعلیم و تربیت
قال الله تعالي: ﴿رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا﴾
(الإسراء: 24)
اللہ تعالی نے فرمایا: ”میرے رب! ان دونوں پر رحم فرما جیسے انہوں نے بچپن میں میری پرورش کی۔“
حدیث: 26
وعن أبى هريرة رضى الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ما من مولود إلا يولد على الفطرة فأبواه يهودانه أو ينصرانه أو يمجسانه كما تنتج البهيمة بهيمة حماء هل تحسون فيها جدعاء ثم يقول ﴿فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ وَ لٰـكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ﴾
صحیح بخاری، کتاب الجنائز، باب إذا أسلم الصبی فمات هل یصلی علیه، رقم: 1358
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انسان کا ہر بچہ فطرت پرپیدا ہوتا ہے۔ اس کے والدین اسے یہودی بناتے ہیں یا نصرانی یا مجوسی، جیسا کہ چار پائے اپنے بچے کو تام الخلقت پیدا کرتے ہیں۔ کیا تم ان میں سے کسی بچے کو کٹے ہوئے کان والا پاتے ہو؟ پھر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے آیت تلاوت کی (جس کا ترجمہ ہے) اللہ کی فطرت ہے جس پر اللہ تعالی نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ اللہ کی مخلوق میں تبدیلی نہیں ہے۔ یہ دین (اسلام بالکل ) سیدھا ہے، اس میں ٹیڑھا پن نہیں ہے۔ “
اولاد کو نماز کا حکم دینا
قال الله تعالي: ﴿وَكَانَ يَأْمُرُ أَهْلَهُ بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ وَكَانَ عِندَ رَبِّهِ مَرْضِيًّا﴾
(مريم: 55)
اللہ تعالی نے فرمایا: ”اور (اسماعیل علیہ السلام) اپنے اہل کو نماز اور زکوٰة ادا کرنے کا حکم دیتے تھے اور وہ اللہ تعالی کے برگزیدہ بندہ تھے۔“
حدیث: 27
«وعن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم مروا أولادكم بالصلاة وهم أبناء سبع سنين واضربوهم عليها وهم أبناء عشر سنين وفروقا بينهم فى المضاجع»
سنن ابوداؤد، کتاب الصلاة، باب متی یؤمر الغلام بالصلاة، رقم: 495مستدرک حاکم: 734۔ محدث البانی نے اسے حسن صحیح کہا ہے۔
”اور عمرو بن شعیب اپنے والد سے، وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی اولاد کو نماز کا حکم دو جب وہ سات سال کی ہو جائیں اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو انہیں نماز چھوڑنے پر مار پیٹ کرو اور خواب گاہ میں ان کے بستر الگ الگ کر دو۔ “
بچوں سے پیار کرنا
حدیث: 28
«وعن عائشة قالت جاء أعرابي إلى النبى صلى الله عليه وسلم فقال تقبلون الصببان فما نقبلهم فقال النبى صلى الله عليه وسلم أوأملك لك أن نزع الله من قبك الرحمة»
صحیح بخاری، کتاب الادب، باب رحمة الولد وتقبیلہ، رقم: 5998
”اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک بدوی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: کیا آپ بچوں کو بوسہ دیتے ہیں؟ ہم ان کو بوسہ نہیں دیتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر اللہ تعالی نے تیرے دل سے شفقت اور رحمت نکال لی ہے تو اس کا میں مالک نہیں ہوں۔ “
بیٹیوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا
حدیث: 29
«وعن عائشة قالت جاءتني امرأة معها ابنتان لها تسأل فلم تجد عندي شيئا غير تمرة فأعطيتها إياها فأخذتها فقسمتها بين ابنتيها ولم تأكل منها ثم قامت فخرجت وابنتاها فدخل على النبى صلى الله عليه وسلم فحدثته حديثها فقال النبى صلى الله عليه وسلم من ابتلى من البنات بشيء فأحسن إليهن كن له سترا من النار»
صحیح بخاری، کتاب الزکوة، باب اتقوا النار ولو بشق تمرة، رقم: 1418 صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، باب فضل الإحسان إلی البنات، رقم: 6693
”اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ ایک عورت میرے پاس مانگنے کے لیے آئی اور اس کے ساتھ اس کی دو بیٹیاں تھیں۔ میرے پاس ایک کھجور کے سوا کچھ نہ تھا۔ میں نے اس کو وہی دے دی۔ اس نے اپنی دونوں بیٹیوں کو آدھی آدھی دے دی اور خود کچھ نہ کھایا۔ پھر کھڑی ہوئی اور وہ بیٹیوں سمیت چلی گئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی خبر دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس آدمی کو بیٹیاں دے کر آزمایا گیا پھر اس نے ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا تو یہ بیٹیاں آگ اور اس آدمی کے درمیان رکاوٹ بن جائیں گی۔ “
اولاد کے درمیان برابری کا برتاؤ کرنا
قال الله تعالي: ﴿اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ﴾
(المائدة: 8)
اللہ تعالی نے فرمایا: ”عدل کرو وہ تقوی کے بہت قریب ہے۔“
حدیث: 30
«وعن النعمان بن بشير أنه قال إن أباه أتي به رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال إني نحلت ابني هذا غلاما كان لي فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم أكل ولدك نحلته مثل هذا فقال لا فقال رسول الله فارجعه
وفي رواية أنه قال أعطاني أبى عطية فقالت عمرة بنت رواحة لا أرضى حتي تشهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فأتي رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال إني أعطيت ابني من عمرة بنت رواحة عطية فأمرني أن أشهدك يا رسول الله قال أعطيت سائر ولدك مثل هذا قال لا قال فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم قال فرجع فرد عطيته
وفي رواية أنه قال لا أشهد على جور»
صحیح مسلم، کتاب الهبات، باب کراهیة تفضیل بعض الأولاد فی الهبة، رقم: 4177 صحیح بخاری، کتاب الهبات، باب الهبة للولد، رقم: 2586
”اور حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد ان کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور بیان کیا کہ میں نے اپنے اس بیٹے کو ایک غلام کا عطیہ دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: کیا تم نے اپنی تمام اولاد کو اس کی مثل عطیہ دیا ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ عطیہ اس لڑکے سے واپس لے۔
اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تجھے پسند ہے کہ تمہاری ساری اولاد تمہاری ایک جیسی فرمانبردار ہو؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر یہ عطیہ درست نہیں۔
ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے میری والدہ عمرہ بنت رواحہ رضی اللہ عنہا نے عطیہ دیا۔ (میری ماں) نے کہا: میں خوش نہیں جب تک کہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ نہ بنائے۔ چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور بیان کیا: میں نے عمرہ بنت رواحہ کے بطن سے اپنے لڑکے (نعمان) کو عطیہ دیا ہے اور اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اس نے مجھے کہا کہ میں آپ کو گواہ بناؤں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: بھلا تو نے اپنی تمام اولاد کو اس طرح کا عطیہ دیا ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد میں برابری کا برتاؤ کرو۔ اس نے بیان کیا کہ وہ (یہ سن کر) واپس چلے گئے اور عطیہ واپس لے لیا۔
ایک اور روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں ظلم پر گواہ نہیں بنتا۔ “
اولاد کے فوت ہو جانے پر صبر کرنا
حدیث: 31
«وعن أبى هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لنسوة من الأنصار لا يموت إحداكان ثلاثة من الولد فتحتسبه إلا دخلت الجنة فقالت امرأة منهن أو اثنين يا رسول الله قال أو اثنين»
صحیح مسلم، کتاب البر والصلة والآداب، باب فضل من یموت له ولد فیتحسبہ، رقم: 6698
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کی عورتوں سے فرمایا: تم میں سے جس عورت کے تین بچے فوت ہو گئے اور اس نے صبر سے کام لیا تو وہ عورت جنت میں داخل ہو گی۔ ان میں سے ایک عورت نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول! کیا دو بچوں کا بھی یہی حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، دو بچوں کا بھی یہی حکم ہے۔ “
حدیث: 32
«وعن أبى هريرة رضي الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال لا يموت لمسلم ثلاثة من الولد فيلج النار إلا تحلة القسم»
صحیح بخاری، کتاب الجنائز، باب فضل من مات له ولد، رقم: 1251
”اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی مسلمان کے جب تین بچے فوت ہو جائیں تو وہ صرف قسم پورا کرنے کے لیے دوزخ میں داخل ہو گا۔ “
حدیث: 33
«وعن أبى هريرة رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم اثنان فى الناس هما بهم كفر الطعن فى النسب والنياحة على الميت»
صحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب إطلاق اسم الکفر علی الطعن، رقم: 227
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں میں دو کفریہ باتیں پائی جاتی ہیں: نسب کا طعن اور میت پر نوحہ کرنا۔ “
حدیث: 34
«وعن أنس بن مالك رضي الله عنه قال دخلنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم على أبى سيف القين وكان ظئرا لإبراهيم فأخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم إبراهيم فقبله وشمه ثم دخلنا عليه بعد ذلك وإبراهيم يجود بنفسه فجعلت عينا رسول الله صلى الله عليه وسلم تدرفان فقال له عبد الرحمن بن عوف وأنت يا رسول الله فقال يا ابن عوف إنها رحمة ثم أتبعها بأخري فقال إن العين تدمع والقلب يحزن ولا نقول إلا ما يرضى ربنا وإنا بفراقك يا إبراهيم لمحزونون»
صحیح بخاری، کتاب الجنائز، باب البکاء عند المریض، رقم: 1303
”اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ابو سیف لوہار کے ہاں گئے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ابراہیم کا رضاعی باپ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابراہیم کو اٹھایا، اسے بوسہ دیا اور اس کے ساتھ پیار کیا۔ بعد ازاں ہم پھر وہاں گئے تو ابراہیم عالم نزع میں تھے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ چنانچہ عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہوئے اور پوچھا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ بھی؟ (آنسو بہا رہے ہیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابن عوف! آنسو بہانا رحمت ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آنسو بہانا شروع کر دیے اور فرمایا: آنکھیں آنسو بہا رہی ہیں، دل غمگین ہے اور ہم وہی کلمات کہتے ہیں جو ہمارا رب پسند کرتا ہے اور اے ابراہیم! بلاشبہ ہم تیری جدائی میں بہت غم زدہ ہیں۔ “
والدین اور اولاد کا ایک دوسرے کی نماز جنازہ پڑھنا
حدیث: 35
«وعن أبى هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال من اتبع جنازة مسلم إيمانا واحتسابا وكان معه حتي يصلي عليها ويفرغ من دفنها فإنه يرجع من الأجر بقيراطين كل قيراط مثل أحد ومن صلى عليها ثم رجع قبل أن تدفن فإنه يرجع بقيراط»
صحیح بخاری، باب اتباع الجنائز من الإیمان، رقم: 1323
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کسی مسلمان کے جنازے کے ساتھ ایمان کے ساتھ اور ثواب طلب کرنے کے لیے گیا اور نماز جنازہ ادا کرنے اور دفن سے فارغ ہونے تک ساتھ رہا تو اس کو دو قیراط کے برابر ثواب ملے گا۔ ہر قیراط احد پہاڑ کے برابر ہے۔ اور جس شخص نے نماز جنازہ ادا کی لیکن دفن سے پہلے واپس لوٹ گیا تو اس کو ایک قیراط ثواب ملے گا۔ “
مردہ پیدا ہونے والے بچے کی نماز جنازہ
حدیث: 36
«وعن المغيرة بن شعبة أن النبى صلى الله عليه وسلم قال الراكب يسير خلف الجنازة والماشي يمشي خلفها وأمامها وعن يمينها وعن يسارها قريبا منها والسقط يصلي عليه ويدعي لوالديه بالمغفرة والرحمة»
سنن ابوداؤد، کتاب الجنائز، باب المشی أمام الجنازة، رقم: 3180 ۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سوار جنازہ کے پیچھے چلے اور پیدل آگے اور پیچھے اور دائیں اور بائیں اس سے قریب رہ کر چلیں۔ اور ناتمام بچے پر نماز جنازہ پڑھی جائے اور اس کے ماں باپ کے لیے بخشش اور رحمت کی دعا کی جائے۔ “
نابالغ بچے کا نماز جنازہ نہ پڑھنا
حدیث: 37
«وعن عائشة قالت مات إبراهيم بن النبى صلى الله عليه وسلم وهو ابن ثمانية عشر شهرا فلم يصل عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم»
سنن ابوداؤد، کتاب الجنائز، باب فی الصلاة علی الطفل، رقم: 3187 ۔ محدث البانی نے اسے حسن الإسناد قرار دیا ہے۔
”اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ابراہیم نے اٹھارہ ماہ کی عمر میں وفات پائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ ادا نہیں کی۔ “
بیٹیوں کو غیر محرم کے ساتھ خلوت سے منع کرنا
حدیث: 38
«وعن ابن عباس قال سمعت النبى صلى الله عليه وسلم يقول لا يخلون رجل بامرأة إلا ومعها ذو محرم»
صحیح مسلم، کتاب الحج، باب سفر المرأة مع محرم إلی حج وغیرہ، رقم: 3274
”اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی مرد کسی غیر محرم عورت کے ساتھ خلوت اختیار نہ کرے۔ “
اولاد کے لیے اچھے رشتے کا انتخاب
قال الله تعالي: ﴿الْخَبِيثَاتُ لِلْخَبِيثِينَ وَالْخَبِيثُونَ لِلْخَبِيثَاتِ ۖ وَالطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَاتِ﴾
(النور: 26)
اللہ تعالی نے فرمایا: ”ناپاک عورتیں ناپاک مردوں کے لیے اور ناپاک مرد ناپاک عورتوں کے لیے ہیں۔ اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لیے اور پاک مرد پاک عورتوں کے لیے ہیں۔“
حدیث: 39
«عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أن مرثد بن أبى مرثد الغنوي كان يحمل الأساري بمكة وكان بمكة بغي يقال لها عناق وكانت صديقته قال جئت إلى النبى صلى الله عليه وسلم فقلت يا رسول الله أنكه عناق قال فسكت عني فنزلت ﴿وَّ الزَّانِيَةُ لَا يَنْكِحُهَاۤ اِلَّا زَانٍ اَوْ مُشْرِكٌ﴾ فدعاني فقرأها على وقال لا تنكهها»
سنن ابوداؤد، کتاب النکاح، باب فی قولہ الزانی لا ینکھ إلا زانیة، رقم: 2051 ۔ محدث البانی نے اسے حسن صحیح کہا ہے۔
”اور جناب عمرو بن شعیب اپنے باپ سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت مرثد بن ابی مرثد رضی اللہ عنہ قیدیوں کو مکہ سے اٹھا کر مدینہ لے جایا کرتے تھے۔ اور مکہ میں ایک بدکار عورت رہتی تھی جس کا نام عناق تھا اور وہ اس (اسلام لانے سے پہلے ) کی دوست تھی۔ تو مرثد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا میں عناق سے نکاح کر لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ پھر یہ آیت اتری: ﴿وَّ الزَّانِيَةُ لَا يَنْكِحُهَاۤ اِلَّا زَانٍ اَوْ مُشْرِكٌ﴾ یعنی زانیہ (بدکار) عورت سے وہی نکاح کرتا ہے جو خود زانی ہو یا مشرک ہو۔ حضرت مرثد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ نے یہ آیت مجھ پر تلاوت فرمائی اور فرمایا: اس سے نکاح نہ کر۔ “
لڑکی کی شادی سے پہلے اس سے اجازت لینا
حدیث: 40
«وعن ابن عباس أن جارية بكرا أتت النبى صلى الله عليه وسلم فذكرت أن أباها زوجها وهى كارهة فخيرها النبى صلى الله عليه وسلم»
سنن ابوداؤد، کتاب النکاح، باب فی البکر یزوجها أبوها ولا یستأمرها، رقم: 2096 ۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک کنواری لڑکی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی کہ اس کے باپ نے اس کا نکاح کر دیا ہے اور وہ اس نکاح سے ناخوش ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو (نکاح باقی رکھنے یا توڑنے کا ) اختیار دے دیا۔ “
لڑکی ولی کے بغیر نکاح نہیں کرے
حدیث: 41
«وعن عائشة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال أيما امرأة نكحت بغير إذن وليها فنكاحها باطل فنكاحها باطل فنكاحها باطل»
سنن ابوداؤد، کتاب النکاح، باب فی الولی، رقم: 2083 سنن الترمذی، کتاب النکاح، باب ما جاء لا نکاح إلا بولی، رقم: 1102 ۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو عورت اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے۔ “
وصلي الله تعالي على خير خلقه محمد وآله وصحبه أجمعين