إن الحمد لله نحمده، ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له ، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله . أما بعد:
کثرت کلام سے پر ہیز اور خاموشی اختیار کرنے کا بیان
حدیث 1
عن تميم بن يزيد، مولى بني زمعة ، عن رجل من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ، ذات يوم ، ثم قال: أيها الناس ، ثنتان من وقاه الله شرهما دخل الجنة قال: فقام رجل من الأنصار فقال: يارسول الله! لا تخبرنا ماهما؟ ثم قال: اثنان من وقاه الله شرهما دخل الجنة – حتى إذا كانت الثالثة ، أجلسه أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالوا: ترى رسول الله يريد يبشرنا فتمنعه ، فقال: إني أخاف أن يتكل الناس ، فقال: ثنتان من وقاه الله شرهما دخل الجنة، ما بين لحييه وما بين رجليه
مسند احمد، رقم : 23453۔ شیخ حمزہ زین نے اسے صحیح کہا ہے۔
” ایک صحابی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن ہم سے خطاب کیا اور پھر ارشاد فرمایا: لوگو! دو چیزیں ہیں، اللہ تعالیٰ نے جس کو ان کے شر سے محفوظ کر لیا، وہ جنت میں داخل ہو جائے گا۔ یہ سن کر ایک انصاری آدمی کھڑا ہوا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ ہمیں یہ نہ بتلائیے کہ وہ کون سی چیزیں ہیں، آپ صلى الله عليه وسلم نے پھر ارشاد فرمایا: دو چیزیں ہیں، اللہ تعالیٰ نے جس کو ان کے شر سے بچا لیا، وہ جنت میں داخل ہو جائے گا۔ پھر اسی آدمی نے وہی بات کہی ، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری بار ارشاد فرمایا تو صحابہ نے اس آدمی کو بٹھایا اور اس سے کہا: تجھے نظر نہیں آ رہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں خوشخبری دینا چاہتے ہیں، لیکن تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روک رہا ہے، اس نے کہا: میں ڈرتا ہوں کہ لوگ تو کل کر کے مزید عمل ترک کر دیں گے۔ بالآخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دو چیزیں ہیں، اللہ تعالی نے جس شخص کو ان کے شر سے بچا لیا، وہ جنت میں داخل ہو جائے گا۔ ایک دو جبڑوں کے درمیان والی چیز اور دوسری دو ٹانگوں کے درمیان والی چیز “
حدیث 2
وعن أبى سعيد الخدري رضي الله عنه ، لا أعلمه إلا رفعه قال: إذا أصبح ابن آدم فإن أعضانه تكفر اللسان تقول: اتق الله فينا، فإنك إن استقمت استقمنا ، وإن اعوججت اعوججنا .
مسند احمد، رقم : 11930۔ شیخ حمزہ زین نے اسے صحیح کہا ہے۔
” اور سید نا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب ابن آدم صبح کرتا ہے تو اس کے سارے اعضاء، زبان کے سامنے عاجزی کرتے ہیں اور کہتے ہیں: تو ہمارے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈر جا، پس اگر تو سیدھی رہی تو ہم بھی سیدھے رہیں گے اور اگر تو ٹیڑھی ہو گئی تو ہم بھی ٹیڑھے ہو جائیں گے۔“
حدیث 3
وعن على بن حسين ، عن أبيه رضی اللہ عنہ ، قال: قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : من حسن اسلام المرء تركه ما لا يعنيه
مسند احمد، رقم : 1737۔ احمد شاکر نے اس ”صحیح“ کہا ہے۔
”اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بندے کے اسلام کا حسن یہ ہے کہ وہ لا یعنی چیزوں کو چھوڑ دے۔ “
حدیث 4
وعن سفيان بن عبد الله الثقفي رضي الله عنه ، قال: قلت: يارسول الله حدثنى بأمر اعتصم به (وفى لفظ مرنى فى الإسلام بأمر لا أسأل عنه أحدا بعدك) قال: قل ربي الله وفي لفظ: آمنت بالله ثم استقم – قال: قلت: يارسول الله! ما أخوف (وفي لفظ: ما أكبر) ماتخاف على ( وفي لفظ : ف أى شيء أتقى) قال: فأخذ بلسان نفسه ثم قال: هذا
مسند احمد، رقم : 15497۔ شیخ حمزہ زین نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور سید نا سفیان بن عبد اللہ ثقفی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے اسلام سے متعلقہ ایسے عمل کے بارے میں بتلائیں کہ میں اس کو تھام لوں اور اس کے بارے میں آپ کے بعد کسی سے سوال نہ کروں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تو کہہ کہ میرا رب اللہ ہے اور پھر اس پر ڈٹ جا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ! آپ کو میرے بارے میں سب سے زیادہ ڈر کس چیز پر ہے، ایک روایت میں ہے: پس میں کس چیز سے بچ کر رہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوابا اپنی زبان مبارک کو پکڑا اور فرمایا: یہ ہے۔ “
حدیث 5
وعن عبد الله بن عمرو، أن رجلا قال: يارسول الله! أى الإسلام أفضل؟ قال: من سلم المسلمون من لسانه ويده
مسند احمد، رقم : 6753۔ احمد شاکر نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور سید نا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول ! کون سا اسلام افضل ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ شخص کہ جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ “
حدیث 6
وعن البراء بن عازب رضی اللہ عنہ ، أن النبى صلى الله عليه وسلم أمر أعرابيا بخصال من أنواع البر (فيها) وأمر بالمعروف ، وانه عن المنكر ، فإن لم تطق ذلك فكف لسانك إلا من الخير
مسند احمد، رقم :18850۔ شیخ حمزہ زین نے اسے صحیح کہا ہے۔
” اور سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بدو صحابی کو نیکی کی مختلف انواع کے بارے میں بتلایا، ان میں یہ چیزیں بھی تھیں: اور تو نیکی کا حکم کر اور برائی سے منع کر ، پس اگر تجھ میں ایسا کرنے کی طاقت نہ ہو تو اپنی زبان کو بند کر لے، ماسوائے خیر والی باتوں کے۔ “
حدیث 7
وعن معاذ بن جبل الله رضي الله عنه ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال له: ألا أخبرك برأس الأمر وعموده ، وذروة سنامه؟ قال: فقلت: بلى يارسول الله قال: رأس الامر وعموده الصلاة، وذروة سنامه الجهاد ثم قال: الا أخبرك ، بملاك ذلك كله؟ فقلت: بلى يا نبي الله فأخذ بلسانه فقال: كف عليك هذا فقلت: يارسول الله وإنا لموا خدون بما نتكلم به؟ فقال: تكلتك أمك يا معاذ! وهل يحب الناس على وجوهم فى النار أو قال: على مناخرهم إلا حصائد السنتهم
مسند احمد، رقم :22366۔ شیخ حمزہ زین نے اسے صحیح کہا ہے۔
” اور سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں بتلاؤں کہ دین کی اصل، اس کا ستون اور اس کی کوہان کی چوٹی کیا ہے ؟ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیوں نہیں، آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: دین کی اصل اور اس کا ستون نماز ہے اور اس کی کوہان کی چوٹی نماز ہے۔ پھر آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں اس چیز کے بارے میں بھی بتلا دوں جو ان سب کو کنٹرول کرنے والی ہے؟ میں نے کہا: جی کیوں نہیں، اے اللہ کے نبی! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوابا اپنی زبان مبارک کو پکڑا اور ارشاد فرمایا: اس کو اپنے اوپر روک کر رکھنا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا ہماری باتوں کی وجہ سے بھی ہمارا مواخذہ کیا جائے گا؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: اے معاذ! تمہیں ماں تمہاری گم پائے ، لوگوں کو آگ میں ان کے نتھنوں کے بل گرانے والی ان کی زبانوں کی کئی ہوئی باتیں ہی ہوں گی۔ “
حدیث 8
وعن بلال بن الحارث المزني، قال: قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : إن الرجل ليتكلم بالكلمة من رضوان الله عزوجل ، ما يظن ان تبلغ ما بلغت ، يكتب الله عزوجل له بها رضوانه إلى يوم القيامة ، وإن الرجل ليتكلم بالكلمة من سخط الله عزوجل مايظن ان تبلغ ما بلغت ، يكتب الله عز وجل بها عليه سخطه إلى يوم القيامة – قال: فكان علقمة يقول : كم من كلام قد منعنيه حديث بلال بن الحارث
مسند احمد، رقم : 15946۔ شیخ حمزہ زین نے اسے ”صحیح“ کہا ہے۔
”اور سیدنا بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک آدمی اللہ تعالیٰ کی رضامندی سے متعلقہ ایسی بات کرتا ہے، جبکہ خود اس کو بھی یہ گمان نہیں ہوتا کہ وہ کسی بڑے مرتبے تک پہنچ جائے گی ، اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے اس آدمی کے لیے قیامت کے دن تک اپنی رضامندی لکھ دیتا ہے، اور بے شک ایک آدمی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی والی ایسی بات کرتا ہے، جبکہ خود اس کو بھی اندازہ نہیں ہوتا ہے کہ یہ بات کہاں تک پہنچ جائے گی، اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس آدمی کے لیے قیامت کے دن تک اپنی ناراضی لکھ دیتا ہے۔ علقمہ نے کہا: کتنی ہی باتیں ہیں کہ سیدنا بلال بن حارث رضی اللہ عنہ کی اس حدیث نے مجھے ان سے روک دیا ہے۔“
خاموشی اختیار کرنے کی فضیلت
حدیث 9
وعن عبد الله بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من صمت نجا
مسند احمد، رقم : 6654۔ احمد شاکر نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو خاموش رہا، وہ نجات پا گیا۔ “
حدیث 10
وعن أبى هريرة رضي الله عنه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم ضيفه، ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلا يوذ جاره، ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليقل خيرا أو ليسكت
مسند احمد، رقم : 9971۔ احمد شاکر نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، وہ اپنی مہمان کی قدر کرے، جس کا اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان ہو، پس اس کو چاہیے کہ وہ اپنے ہمسائے کو تکلیف نہ دے اور جو اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو، وہ خیر و بھلائی والی بات کرے یا پھر خاموش رہے۔ “
غیبت اور بہتان کی مذمت
حدیث 11
وعن أبى هريرة رضي الله عنه ، عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: هل تدرون ما الغيابة – قالوا: الله ورسوله أعلم ، قال: ذكرك أخاك بما ليس فيه، قال: أرأيت إن كان فى أخي ما أقول له؟ قال: إن كان فيه ما تقول: فقد اغتبته ، وإن لم يكن فيه فقد بهته
مسند احمد، رقم : 7146۔ احمد شاکر نے اسے ”صحیح“ کہا ہے۔
”اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ غیبت کیا ہے؟ صحابہ نے کہا: اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: تیرا اپنے بھائی کے وہ عیوب بیان کرنا، جو اس میں ہیں۔ ایک آدمی نے کہا: میں اپنے بھائی کے بارے میں جو کچھ کہوں، اگر وہ عیوب اس کے اندر پائے جاتے ہوں تو ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو کچھ تو کہہ رہا ہے، اگر وہ چیزیں اس میں پائی جاتی ہیں تو تو نے اس کی غیبت کی ہے اور اگر وہ نقائص اس میں نہیں ہیں تو تو نے اس پر بہتان لگایا ہے۔“
حدیث 12
وعن جابر بن عبد الله رضي الله عنه ، قال: كنا مع النبى صلى الله عليه وسلم فارتفعت ريح جيفة منتنة ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : أتدرون ما هذه الريح؟ هذه ريح الذين يغتابون المؤمنين
مسند احمد: 14844۔ احمد شاکر نے اسے ”صحیح“ کہا ہے۔
” اور سید نا عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ بد بو دار مرداروں کی بو اٹھنے لگی، آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ یہ بد بو کیسی ہے؟ یہ ان لوگوں کی بد بو ہے، جو مؤمنوں کی غیبت کرتے ہیں۔“
بے مقصد گفتگو اور بخل کی مذمت
حدیث 13
وعن كعب بن عجرة رضى الله عنه أن النبى صلى الله عليه وسلم فقد كعبا فسأل عنه؟ فقالوا: مريض ، فخرج يمشي حتى أتاه فلما دخل عليه ، قال: أبشريا كعب فقالت أمه: هنيئا لك الجنة يا كعب ! فقال: من هذه المتالية على الله؟ قال: هي أمي يا رسول الله! فقال: ما يدريك يا أم كعب لعل كعبا قال مالا يعنيه ، أو منع مالا يغنيه
سلسلة الصحيحة، رقم : 2357.
”اور حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کعب کو گم پایا، تو ان کے بارے میں پوچھا ( کہ وہ کہاں ہے)۔صحابہ نے کہا: وہ بیمار ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیدل نکل پڑے حتی کہ اُس کے پاس پہنچ گئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر داخل ہوئے ، تو فرمایا : اے کعب! خوش ہو جاؤ۔ (یہ سن کر ) اُس کی ماں نے کہا: اے کعب! تجھے جنت مبارک ہو۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ پر قسم اٹھانے والی یہ عورت کون ہے؟ کعب نے کہا: اے اللہ کے رسول ! یہ میری ماں ہے۔ آپ نے ارشاد فرمایا: اے ام کعب! ممکن ہے کہ کعب نے کوئی بے مقصد بات کہی ہو یا ایسی چیز ( کو خرچ کرنے سے ) رک گیا ہو جو اسے غنی نہ کرتی ہو۔“
چغل خوری سے ترہیب کا بیان
حدیث 14
وعن حذيفة رضي الله عنه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : لا يدخل الجنة قتات
مسند احمد، رقم : 23636۔ شیخ حمزہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: چغل خور جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ “
حدیث 15
وعن عبد الله رضی اللہ عنہ ، ان النبى صلى الله عليه وسلم قال: ألا أنبئكم ما العضه؟ قال: هى النميمة القالة بين الناس ۔ وإن محمدا صلى الله عليه وسلم قال: إن الرجل يصدق ، حتى يكتب صديقا، ويكذب حتى يكتب كذابا
مسند احمد، رقم : 4160۔ احمد شاکر نے اسے صحیح کہا ہے۔
” اور سید نا عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا میں تم کو یہ بتلا نہ دو کہ عضہ کیا ہے؟ یہ لوگوں کی آپس میں چغل خوری والی باتیں ہیں۔ نیز محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک آدمی سچ بولتا رہتا ہے، یہاں تک کہ اس کو سچا لکھ لیا جاتا ہے اور اس طرح بھی ہوتا ہے کہ وہ جھوٹ بولتا رہتا ہے، یہاں تک کہ اس کو جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔ “
حدیث 16
وعن أسماء بنت يزيد الأنصارية ، أن النبى صلى الله عليه وسلم قال: ألا أخبركم بخياركم؟ قالوا: بلى يارسول الله ، قال: الذين إذا رووا ذكر الله تعالى ثم قال: ألا أخبركم بشراركم؟ المشاؤون بالنميمة المفسدون بين الاحبة، الباغون البراء العنت
مسند احمد، رقم : 28151۔ حمزہ زین نے اسے صحیح کہا ہے۔
” اور سیدہ اسماء بنت یزید انصاری رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں تمہارے پسندیدہ لوگوں کے بارے میں بتاؤں؟ انھوں نے کہا: جی کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں، جن کو دیکھنے سے اللہ یاد آ جاتا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں تمہارے شریر لوگوں کے بارے میں بتلا دوں؟ یہ وہ لوگ ہیں جو چغل خور ہیں، ایک دوسرے سے محبت کرنے والوں کے درمیان فساد برپا کرتے ہیں اور (عیوب سے ) بری لوگوں کے لیے غلطیاں تلاش کرتے ہیں۔“
حدیث 17
وعن ابن عباس رضي الله عنه ، قال: مر النبى صلى الله عليه وسلم بقبرين ، فقال: إنهما يعذبان فى كبير ، أما احدهما فكان لا يستنزه من البول قال وكيع من بوله ، وأما الآخر فكان يمشي بالنميمة
مسند احمد، رقم : 1980 ۔ احمد شاکر نے اسے صحیح کہا ہے۔
” اور سید نا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے اور ارشاد فرمایا: بے شک ان کو بڑے گناہ کی وجہ سے عذاب دیا جا رہا ہے، ان میں سے ایک پیشاب سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغل خوری کرتا تھا۔ “
جھوٹ کی مذمت
حدیث 18
وعن عبد الله رضي الله عنه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إياكم والكذب ، فإن الكذب يهدي إلى الفجور ، وإن الفجور يهدي إلى النار ، وما يزال الرجل يكذب ويتحرى الكذب حتى يكتب عند الله عزوجل كذابا
مسند احمد، رقم : 3638۔ احمد شاکر نے اسے ”صحیح“ کہا ہے۔
”اور سید نا عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جھوٹ سے بچو، پس بیشک جھوٹ برائیوں کی طرف لے جاتا ہے اور برائیاں جہنم کی طرف لے جاتی ہیں اور آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ کو تلاش کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کذاب ( بہت جھوٹا ) لکھ دیا جاتا ہے۔ “
حدیث 19
وعن عائشة رضي الله عنها ، قالت: ما كان خلق أبغض أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم من الكذب، ولقد كان الرجل يكذب عند رسول الله صلى الله عليه وسلم الكذبة فما يزال فى نفسه عليه حتى يعلم أن قد أحدث منها توبة
مسند احمد، رقم :25698۔ شیخ حمزہ زین نے اسے صحیح کہا ہے۔
” اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ صحابہ کرام کے ہاں سب سے ناپسندیدہ وصف جھوٹ بولنا تھا، جب کوئی آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جھوٹ بول دیتا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں اس وقت تک اس چیز کا احساس رہتا، جب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ علم نہ ہو جاتا کہ اس شخص نے اس گناہ سے توبہ کر لی ہے۔“
حدیث 20
وعن المغيرة بن شعبة رضی اللہ عنہ ، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من حدث بحديث وهو يرى أنه كذب فهو احد الكاذبين – وقال عبد الرحمن: فهو احد الكذابين
مسند احمد، رقم :18429۔ شیخ حمزہ زین نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے کوئی بات بیان کی، جبکہ اس کا خیال یہ ہو کہ وہ جھوٹ ہے تو وہ دو جھوٹوں میں سے ایک ہوگا۔ “
حدیث 21
وعن عائشة رضي الله عنه ، أن امرأة جاءت النبى صلى الله عليه وسلم فقالت: يارسول الله! ان لي زوجا ولي ضرة، وإني أتشبع من زوجي أقول: أعطاني كذا ، وكسانى كذا، وهو كذب؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : المتشبع بما لم يعط كلابس ثوبى زور
مسند احمد :25854۔ شیخ حمزہ زین نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک خاتون نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرا خاوند ہے اور میری ایک سوکن بھی ہے، میں اپنے خاوند کے بارے میں یوں اظہار کرتی ہوں کہ اس نے مجھے فلاں چیز دی ہے، اس نے مجھے اس طرح کا کپڑا لا کر دیا ہے، تو کیا یہ جھوٹ ہو گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس کو جو چیز نہ دی گئی ہو، لیکن پھر بھی وہ اس کے دیئے جانے کا اظہار کرے تو وہ اس شخص کی طرح ہوگا، جس نے جھوٹ کے دو کپڑے پہن رکھے ہوں۔“
وہ امور جن میں جھوٹ بولنا جائز ہے
حدیث 22
وعن أسماء بنت يزيد أنها سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يخطب يقول: يا أيها الذين آمنوا، ما يحملكم على أن تتابعوا فى الكذب كما يتابع الفراس فى النار ، كل الكذب يكتب على ابن آدم إلا ثلاث خصال ، رجل كذب على امرأته ليرضيها ، أو رجل كذب فى خديعة حرب ، أو رجل كذب بين امرأين مسلمين ليصلح بينهما
مسند احمد، رقم : 28122۔ شیخ حمزہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
” اور سیدہ اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اے ایمان والو! تم لوگوں کو کون سی چیز اس طرح لگا تار جھوٹ بولنے پر آمادہ کرتی ہے، جیسے پتنگے لگا تار آگ میں گرنا شروع ہو جاتے ہیں، ابن آدم پر اس کے ہر جھوٹ کو لکھ لیا جاتا ہے، ما سوائے تین امور کے، وہ خاوند جو اپنی بیوی سے جھوٹ بولتا ہے، تا کہ اس کو راضی رکھے، وہ آدمی جو جنگ میں دشمن کو دھوکہ دینے کے لیے جھوٹ بولتا ہے اور وہ آدمی جو دو مسلمانوں کے درمیان صلح کرانے کے لیے جھوٹ بولتا ہے۔“
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولنے کے بارے میں وعید
حدیث 23
وعن عمر بن الخطاب رضي الله عنه ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من كذب على فهو فى النار
مسند احمد، رقم : 326۔ احمد شاکر نے اسے ”صحیح“ کہا ہے۔
”اور سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے مجھ پر جھوٹ بولا، پس وہ آگ میں ہوگا۔ “
حدیث 24
وعن قيس بن سعد بن عبادة الأنصاري رضی اللہ عنہ ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : من كذب على كذبة متعمدا فليتبوا مضجعا من النار ، أو بيتا فى جهنم
مسند احمد، رقم : 15561۔ شیخ حمزہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
” اور سید نا قیس بن سعد بن عبادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے جان بوجھ کر مجھ پر ایک دفعہ جھوٹ بولا ، پس وہ اپنا ٹھکانہ آگ سے یا گھر جہنم میں تیار کر لے۔ “
حدیث 25
وعن عبد الله بن عامر بن ربيعة ، أنه قال: أتانا رسول الله صلى الله عليه وسلم فى بيتنا ، وأنا صبي ، قال: فذهبت أخرج لالعب فقالت أمي: يا عبد الله تعال أعطك ، فقال رسول الله : وما أردت ان تعطيه؟ قالت: أعطيه تمرا ، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : أما إنك لو لم تفعلى كتبت عليك كذبة
مسند احمد، رقم : 15793۔ شیخ حمزہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور سید نا عبد اللہ بن عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس ہمارے گھر میں تشریف لائے، میں اس وقت بچہ تھا، جب میں کھیلنے کے لیے جانے لگا تو میری ماں نے کہا: اے عبد اللہ ! ادھر آ، میں تجھے کچھ دینا چاہتی ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تو نے اس کو کیا دینے کا ارادہ کیا ہے؟ انھوں نے کہا: میں اس کو کھجور دوں گی ، آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر تو نے اس کو کچھ نہ دیا تو یہ تیرا ایک جھوٹ لکھ لیا جائے گا۔“
حدیث 26
عن معاوية بن حيدة رضي الله عنه ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ويل للذى يحدث القوم ثم يكذب ليضحكهم ، ويل له وويل له
مسند احمد، رقم 20270۔ شیخ حمزہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
” اور سیدنا معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس شخص کے لیے ہلاکت ہے، جو لوگوں سے بات کرتا ہے اور ان کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولتا ہے، اس کے لیے ہلاکت ہے، اس کے لیے ہلاکت ہے۔“
حدیث 27
وعن عائشة رضي الله عنها ، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إن ابغض الرجال إلى الله الآلة الخصم
مسند احمد، رقم : 26223۔ شیخ حمزہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
” اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لوگوں میں سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ وہ آدمی ہے جو سخت جھگڑالو ہو۔ “
حدیث 28
وعن عبد الله بن عمر و رضی اللہ عنہ ، عن النبى صلى الله عليه وسلم أنه قال: إن الله عزوجل يبغض البليغ من الرجال، الذى يتخلل بلسانه كما تخلل الباقرة بلسانها
مسند احمد، رقم : 6543۔ احمد شاکر نے اسے صحیح کہا ہے۔
” اور حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بلاشبہ اللہ آدمیوں میں سے اس بلاغت جھاڑنے والے شخص کو سخت ناپسند کرتا ہے جو (منہ پھاڑ پھاڑ کر تکلف و تصنع سے گفتگو کرتے ہوئے) اپنی زبان کو گائے کے جگالی کرنے کی طرح بار بار پھیرتا ہے۔“
حدیث 29
وعن أبى هريرة رضي الله عنه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ألا أنبئكم بشراركم؟ فقال: هم الثرثارون، المتشدقون ، ألا أنبئكم بخياركم؟ أحاسنكم أخلاقا
مسند احمد، رقم : 8808 ۔ احمد شاکر نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں تمہارے بدترین لوگوں کے بارے میں بتاؤں؟ وہ ہیں جو فضول بولنے والے اور گفتگو کے لیے باچھوں کو موڑنے والے ہوں۔ نیز کیا تمہیں تمہارے بہترین افراد کے بارے میں بتاؤں؟ وہ ہیں جو تم میں اخلاق کے لحاظ سے سب سے اچھے ہوں۔ “
حدیث 30
وعن سعد بن أبى وقاص رضي الله عنه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : لا تقوم الساعة حتى يخرج قوم يأكلون بألسنتهم ، كما تأكل البقر بالسنتها
مسند احمد، رقم : 1597 ۔ احمد شاکر نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قیامت اس وقت تک بپا نہیں ہوگی ، جب تک ایسے لوگ نہ نکل آئیں، جو اپنی زبانوں سے اس طرح کھائیں گے، جیسے گائے اپنی زبان سے کھاتی ہے۔““
شرعی مصلحت کی خاطر شعر کہنے کا جواز
حدیث 31
وعن عبد الرحمن بن عبد الله بن كعب، عن كعب بن مالك رضي الله عنه ، قال: قال رسول الله : اهجوا المشركين بالشعر، إن المؤمن يجاهد بنفسه وماله ، والذي نفس محمد بيده كأنما ينضحوهم بالنبل
مسند احمد، رقم : 15889 ۔ احمد شاکر نے اسے صحیح کہا ہے۔
” اور سید نا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: شعروں کے ذریعے مشرکوں کی ہجو کرو، بے شک مؤمن اپنے نفس اور مال سے جہاد کرتا ہے، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (صلى الله عليه وسلم) کی جان ہے ! گویا کہ یہ شاعران پر تیر پھینک رہے ہیں۔“
حدیث 32
وعن عائشة رضي الله عنها ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم وضع لحسان بن ثابت رضي الله عنه ، منبرا فى المسجد ، ينافح عنه بالشعر ، ثم يقول رسول الله صلى الله عليه وسلم : إن الله عزوجل ليؤيد حسان بروح القدس ينافع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
مسند احمد، رقم :24941۔ حمزہ زین نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے لیے مسجد میں منبر رکھوایا، وہ اس پر بیٹھ کر شعری کلام کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کرتے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ روح القدس کے ذریعے حسان کی تائید کرتا ہے، جب تک وہ اس کے رسول کا دفاع کرتا رہتا ہے۔ “
کچھ نا جائز امور کا بیان
حدیث 33
وعن أبى هريرة رضي الله عنه ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ثنتان هما بالناس كفر، نياحة على الميت ، وطعن فى النسب
مسند احمد، رقم : 9688۔ احمد شاکر نے اسے صحیح کہا ہے۔
” اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دو چیزیں لوگوں میں پائی جاتی ہیں، جبکہ وہ کفر ہیں، میت پر نوحہ کرنا اور نسب میں طعن کرنا ۔ “
حدیث 34
وعن أبى هريرة رضي الله عنه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من تقول على مالم أقل فليتبوأ مقعده من النار، ومن استشاره أخوه المسلم فأشار عليه بغير رشد فقد خانه، ومن افتى بفتيا غير ثبت ، فإنما إثمه على من افتاه
مسند احمد، رقم : 8249۔ احمد شاکر نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے میری طرف وہ بات منسوب کی، جو میں نے نہیں کہی، وہ آگ سے اپنا ٹھکانہ تیار کر لے، جس سے اس کے مسلمان بھائی نے مشورہ طلب کیا، لیکن اس نے عقل اور راست روی کے بغیر اس کو مشورہ دے دیا، پس اس نے اس سے خیانت کی اور جس نے تحقیق کے بغیر فتوی دیا، پس اس کا گناہ فتوی دینے والے پر ہوگا۔ “
حدیث 35
وعن عبد الله بن عمرو رضي الله عنه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ثلاث إذا كن فى الرجال ، فهو المنافق الخالص ، إن حدث كذب ، وإن وعد أخلف ، وإن اثتمن خان، ومن كانت فيه خصلة منهن لم يزل يعني فيه خصلة من النفاق حتى يدعها
مسند احمد، رقم : 6879۔ احمد شاکر نے اسے صحیح کہا ہے۔
” اور سید نا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تین خصلتیں ہیں، جب وہ کسی آدمی میں پائی جائیں گی تو وہ خالص منافق ہوگا۔ جب وہ بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو اس کی مخالفت کرے اور جب اس کو امین بنایا جائے تو وہ خیانت کرے، اور جس فرد میں ان میں ایک خصلت ہوگی تو اس میں وہ دراصل نفاق کی خصلت ہوگی، یہاں تک کہ وہ اس کو ترک کر دے۔“
حدیث 36
وعن أبى هريرة رضی اللہ عنہ ، أن نبي الله صلى الله عليه وسلم كان يقول : ثلاث دعوات مستجابات لا شك فيهن، دعوة المظلوم، ودعوة المسافر، ودعوة الوالد على ولده
مسند احمد، رقم : 8564۔ احمد شاکر نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: تین دعائیں قبول کی جاتی ہیں، ان کی قبولیت میں کوئی شک نہیں ہے، مظلوم کی دعاء مسافر کی دعا اور والدین کی اپنی اولاد کے حق میں دعا۔“
حدیث 37
وعن المغيرة بن شعبة رضي الله عنه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إن الله كره لكم ثلاثا ، قيل وقال، وكثرة السوال، وإضاعة المال ، وحرم عليكم رسول الله وأد البنات ، وعقوق الأمهات، ومنع وهات
مسند احمد، رقم : 18328۔ حمزہ زین نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے تین امور کو ناپسند کیا ہے، قیل وقال، کثرت سے سوال کرنا اور مال ضائع کرنا اور اس کے رسول نے تم پر تین چیزوں کو حرام قرار دیا ہے، بیٹیوں کو زندہ درگور کرنا، ماؤں کی نافرمانی کرنا اور روک لینا اور مانگنا۔ “
حدیث 38
وعن ابن عباس رضي الله عنه يرفعه إلى النبى صلى الله عليه وسلم قال: ليس منا من لم يوفر الكبير ، ويرحم الصغير ، ويأمر بالمعروف وينه عن المنكر
مسند احمد، رقم : 2329۔ احمد شاکر نے اسے صحیح کہا ہے۔
” اور سید نا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: ہ ہم میں سے نہیں ہے، جو بڑے کی عزت نہ کرے، چھوٹے پر شفقت نہ کرے، نیکی کا حکم نہ دے اور برائی سے منع نہ کرے۔“
ذکر الہی کی فضیلت کا بیان
قالَ اللهُ تَعَالَى: الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُم بِذِكْرِ اللَّهِ ۗ أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ ﴿٢٨﴾
(13-الرعد:28)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”جو لوگ ایمان لائے اور ان کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان پاتے ہیں، آگاہ رہو! اللہ کے ذکر ہی سے دل اطمینان پاتے ہیں۔“
حدیث 39
وعن عبد الله بن بسر رضي الله عنه أن رجلا قال: يا رسول الله! إن شرائع الإسلام قد كثرت علي، فأخبرني بشيء أتشبت به، قال: لا يزال لسانك رطبا من ذكر الله
سنن الترمذی، کتاب الدعوات، رقم :3375۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت عبد اللہ بن بسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کہا: اللہ کے رسول ! اسلام کے احکام و قوانین تو میرے لیے بہت ہیں، کچھ تھوڑی سی چیزیں مجھے بتادیجیے جن پر میں (مضبوطی) سے جما رہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمہاری زبان ہر وقت اللہ کی یاد اور ذکر سے تر رہے۔ “
حدیث 40
وعن عائشة قالت: كان النبى صلى الله عليه وسلم يذكر الله على كل أحيانه
صحیح مسلم، کتاب الحيض، رقم : 826 .
” اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تمام اوقات میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے تھے۔“
وصلى الله تعالى على خير خلقه محمد وآله وصحبه أجمعين