حفاظت حدیث کا وعدہ الہی
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اتَّبِعْ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ۖ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ
(6/الأنعام:106)
”آپ کے رب کی جانب سے جو آپ کی طرف وحی کی جاتی ہے آپ اس کی پیروی کریں، اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور مشرکوں سے اعراض کریں ۔“
دوسری جگہ فرمایا:
وَاتَّبِعْ مَا يُوحَىٰ إِلَيْكَ وَاصْبِرْ حَتَّىٰ يَحْكُمَ اللَّهُ ۚ وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ
(10-يونس:109)
” اور آپ کی طرف جو وحی کی جاتی ہے اس کی پیروی کریں اور صبر کریں، یہاں تک کہ اللہ فیصلہ فرمادے اور وہ سب سے بہتر فیصلہ فرمانے والا ہے۔“
اسی طرح ایک اور جگہ ہے:
وَاتَّبِعْ مَا يُوحَىٰ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا
(33/ الاحزاب : 2)
”اور آپ کے رب کی جانب سے جو آپ کی طرف وحی کی جاتی ہے، آپ اس کی پیروی کریں۔ بے شک جو بھی تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔“ قرآن مجید کی ان تینوں آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی طرف نازل ہونے والی وحی کی پیروی کرنے کا حکم دیا ہے اور یہی حکم اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو بھی دیا ہے، چنانچہ فرمایا:
اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ۗ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ
(7-الأعراف:3)
”جو تمہارے رب کی جانب سے تمہاری طرف نازل کیا گیا ہے اس کی پیروی کرو اور اسے چھوڑ کر دوستوں کی پیروی مت کرو تم بہت کم نصیحت پکڑتے ہو۔“
اس آیت میں امت محمدیہ کو وحی الہی کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے۔ الغرض ان جملہ آیات سے یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ پیغمبر علیہ السلام کو اور آپ کی امت کو اللہ تعالیٰ نے وحی کی پیروی کا حکم دیا ہے۔
وحی کیا ہے؟
شرعی اصطلاح میں وحی سے مراد اللہ تعالیٰ کا اپنے منتخب انبیاء کرام علیہم السلام کو اخبار و احکام سے خفیہ طور پر مطلع کرنا ہے جس سے انہیں قطعی اور یقینی علم ہو جائے۔ انبیاء کرام علیہم السلام کی طرف دو طرح کی وحی بھیجی گئی ہے ایک وہ جو کتاب کی صورت میں تھی اور دوسری وہ جو کتاب کے علاوہ تھی جسے حکمت اور حدیث کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَقَدْ آتَيْنَا آلَ إِبْرَاهِيمَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَآتَيْنَاهُم مُّلْكًا عَظِيمًا
(4 / النساء : 54)
”پس بے شک ہم نے ابراہیم کو کتاب اور حکمت عطا کی اور انہیں عظیم بادشاہت سے نوازا۔“
جدالانبیاء سید نا ابراہیم علیہ السلام کے بعد اللہ تعالیٰ نے نبوت ورسالت کا سلسلہ آپ کی نسل میں رکھ دیا، آپ کے بعد جتنے بھی نبی اور رسول دنیا میں تشریف لائے وہ آپ ہی کی آل میں سے تھے، اللہ تعالیٰ نے انہیں کتاب اور حکمت عطا فرمائی اور بعض کے حصے میں یہ دونوں چیزیں (کتاب و حکمت) آئیں جیسے داؤد، موسیٰ ، عیسی اور محمد علیہم السلام ہیں اور بعض کو صرف حکمت ملی جیسے اسحاق ، یعقوب وغیرہ ہیں ۔
سورہ النساء (آیت: 163) میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا گیا:
إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَىٰ نُوحٍ وَالنَّبِيِّينَ مِن بَعْدِهِ ۚ وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَعِيسَىٰ وَأَيُّوبَ وَيُونُسَ وَهَارُونَ وَسُلَيْمَانَ ۚ وَآتَيْنَا دَاوُودَ زَبُورًا
(4 / النساء : 163)
”بے شک ہم نے آپ کی طرف وحی بھیجی جس طرح ہم نے نوح اور ان کے بعد آنے والے نبیوں کی طرف وحی بھیجی تھی اور ہم نے ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب اور ان کی اولا د اور عیسی، ایوب، یونس، ہارون اور سلیمان کی طرف بھی وحی بھیجی اور داؤد کو ہم نے زبور عطا فرمائی۔“
ایک عام مسلمان بھی اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے کہ سیدنا نوح، اسماعیل، اسحاق، یعقوب، ایوب، یونس، ہارون اور سلیمان علیہم السلام کی طرف جو وحی بھیجی گئی تھی وہ کتاب کی صورت میں نہ تھی بلکہ کتاب کے علاوہ ایک دوسری وحی تھی جسے ہم حکمت اور حدیث کہہ سکتے ہیں، بلکہ پیغمبر موسیٰ علیہ السلام نے فرعون سے جو فکری جنگ لڑی تھی وہ بھی وحی کی اسی دوسری حدیث کے ذریعے سے لڑی تھی کیونکہ کتاب تورات فرعون کی غرقابی کے بعد نازل ہوئی۔ فرعون نے جس وحی کا انکار کیا تھا اور جس کے انکار پر اسے پانی میں غرق کیا گیا، وہ وحی کی یہی دوسری قسم تھی جسے حدیث کہا جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَهَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ مُوسَىٰ
(20 / طه : 9)
”اور کیا آپ کے پاس حدیث موسیٰ پہنچی ہے۔“
سوچنے کی بات ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کی حدیث کا منکر عذاب الہی میں گرفتار ہو جائے اور محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا منکر عذاب سے بچ جائے؟ ہر گز نہیں۔
بہر حال پتا چلا کہ جس طرح انبیاء سابقین کی طرف وحی آئی ہے اسی طرح آخری نبی سیدنا ومولانا جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھی وحی آئی ، چنانچہ آپ کی طرف نازل ہونے والی وحی دوطرح کی تھی ۔ ایک کا نام کتاب ہے، یعنی قرآن مجید اور دوسری کا نام حکمت ہے جو اسی کتاب کا بیان، شرح اور تفسیر ہے یعنی حدیث شریف، یہ دونوں چیزیں کتاب اور حکمت منزل من اللہ ہیں ، وحی الہی ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَأَنزَلَ اللَّهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُن تَعْلَمُ ۚ وَكَانَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا
(4-النساء:113)
” اور اللہ نے آپ پر کتاب اور حکمت اتاری اور آپ کو وہ کچھ سکھایا جو آپ نہیں جانتے تھے اور آپ پر اللہ کا بہت بڑا فضل ہے ۔“
اس آیت مبارکہ میں بہت واضح بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر دو چیزیں نازل فرمائی ہیں، ایک کتاب ہے اور دوسری حکمت ہے، کتاب سے مراد قرآن مجید اور حکمت سے مراد آپ کی سنت اور حدیث ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”فذكر الله الكتاب وهو القرآن وذكر الحكمة فسمعت من ارضى من أهل العلم بالقرآن يقول: الحكمة سنة رسول الله ، وهذا يشبه ما قال والله أعلم . لأن القرآن ذكر واتبعته الحكمة، وذكر اللـه مـنـه على خلقه بتعليمهم الكتاب والحكمة فلم يجز – والله أعلم أن يقال: الحكمة هاهنا إلا سنة رسول الله“
(الرسالة، ص: 111)
”پس اللہ نے کتاب کا ذکر کیا اور وہ قرآن ہے اور اس نے حکمت کا ذکر کیا، میں نے قرآن کے ان اہل علم سے جنہیں میں پسند کرتا ہوں یہ سنا کہ حکمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور یہ تفسیر (فرمان الہی) سے زیادہ مشابہ ہے، واللہ اعلم، کیونکہ قرآن مجید کے ذکر کے بعد حکمت کا ذکر کیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ کتاب و حکمت کی تعلیم کے ذریعے سے اپنی مخلوق پر احسان بیان فرمارہا ہے، لہذا یہاں سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی چیز کو حکمت کہنا جائز نہیں، واللہ اعلم۔‘‘“
امام طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”واذكــرن ما يقرا فى بيوتكن من آيات كتاب الله والحكمة ويعنى بالحكمة ما أوحى إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم من أحكام دين الله ولم ينزل به قرآن وذلك السنة“
(جامع البيان : 236/9)
” اور حکمت اور کتاب الہی کی آیات میں سے جو تمہارے گھروں میں پڑھا جاتا ہے اسے یاد کرو۔ اور حکمت سے مراد وہ چیز ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اللہ کے دین کے احکام کی وحی فرمائی گئی اور جن کے متعلق قرآن نہیں اترا اور یہ سنت ہی ہے۔“
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”ويعلمهم الكتاب والحكمة، يعنى القرآن والسنة“
(تفسير القرآن العظيم : 2/ 241)
”اور وہ انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے، یعنی قرآن اور سنت کی ۔ “
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”إن الله سبحانه تعالى أنزل على رسوله وحيين واوجب على عباده الايمان بهما والعمل بما فيهما وهما الكتاب والحكمة وقال تعالى: ﴿وانزل الله عليك الكتب والحكمة﴾ وقال تعالى: ﴿هو الذى بعث فى الأمين رسولا منهم يتلوا عليهم أيته و يزكيهم ويعلمهم الكتب والحكمة﴾ ، وقال تعالى: ﴿واذكرن ما يتلى فى بيوتكن من أيت الله والحكمة﴾ والكتاب هو القرآن والحكمة هي السنة باتفاق السلف“
(كتاب الروح ، ص : 96)
”بے شک اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے رسول پر دو طرح کی وحی اتاری اور اس نے اپنے بندوں پر ان دونوں (وحیوں ) پر ایمان لانا اور ان پر عمل کرنا واجب کر دیا اور وہ کتاب اور حکمت ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ” اور اللہ نے آپ پر کتاب اور حکمت اتاری۔“ اور اللہ تعالیٰ کا یہ بھی فرمان ہے : ” وہی ہے جس نے ان پڑھوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان پر اس کی آیات پڑھتا ہے اور ان کا تذکیہ کرتا ہے اور انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے۔“ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ” اور کتاب اور حکمت میں سے جو کچھ تمہارے گھروں میں پڑھا جاتا ہے، اسے یاد کرو “ کتاب قرآن مجید ہے اور حکمت باتفاق سلف سنت ہے۔“
معلوم ہوا کہ کتاب سے مراد قرآن مجید اور حکمت سے مراد سنت اور حدیث ہے، ہمارا ایمان ہے کہ یہ دونوں وحی ہیں، دونوں منزل من اللہ ہیں اور دونوں کی اتباع ضروری ہے۔ ان دونوں میں سے کسی ایک کے انکار سے دوسری وحی کا انکار لازم آتا ہے، مثلاً اگر کوئی شخص کتاب یعنی قرآن پر تو ایمان کا دعوی کرے لیکن حکمت یعنی حدیث کا انکار کرے تو حقیقت میں وہ دونوں کا منکر ہے، اس کا ان میں سے کسی پر بھی ایمان نہیں، وہ قرآن کا بھی منکر ہے اور حدیث کا بھی منکر ہے، اور اسی طرح اگر کوئی حدیث پر ایمان کا دعوی کرے مگر قرآن کا انکار کرے تو وہ بھی دونوں کا منکر ہے، اصل میں نہ وہ حدیث کو مان رہا ہے اور نہ قرآن کو مان رہا ہے ، پس یہ دونوں چیزیں لازم و ملزوم ہیں۔“
اعتراض :
منکرین حدیث کہتے ہیں کہ حکمت سے مراد بھی قرآن مجید ہی ہے کیونکہ قرآن خود اپنے آپ کو حکیم کہتا ہے، لہذا حکمت سے مراد قرآن حکیم ہے اور کتاب و حکمت کے درمیان آنے والی واو عاطفہ نہیں بلکہ تفسیری ہے۔
جواب :
منکرین حدیث کا یہ اعتراض درست نہیں کیونکہ حق بات یہی ہے کہ واو عاطفہ ہے، قرآن مجید میں کتاب اور حکمت کے درمیان بار بار یہ واو آئی ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ عاطفہ ہے کیونکہ اگر واو تفسیری ہوتی تو اس کے بار بار آنے کی کیا ضرورت تھی؟ ایک بار ہی وضاحت کر دینا کافی تھا، علاوہ ازیں علماء کی ایک جماعت اسے عاطفہ ہی قرار دیتی ہے، مزید برآں تفسیر کی ضرورت تو انسانوں کو ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ کو تفسیر کی کیا ضرورت ہے؟ وہ تو خود متکلم کے ہر لفظ کے مفہوم و منشاء کو بخوبی جانتا ہے ۔ سورۃ البقرۃ (آیت:129) پرغور کریں سید نا ابراہیم علیہ السلام دعا کرتے ہیں:
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ ۚ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
”اے ہمارے رب! اور تو ان میں انہی میں سے ایک رسول بھیج جو ان پر تیری آیات پڑھے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے۔“
یہاں کسی بھی صورت واؤ کو تفسیری نہیں کہا جاسکتا ہے، کیونکہ تفسیر کی ضرورت تو انسانوں کو ہوتی ہے، خالق کا ئنات کو تفسیر کی ضرورت نہیں۔ مولانا عبدالرحمن کیلانی رقمطراز ہیں: ”یہ بات لغت اور عقل دونوں کے خلاف ہے۔ لغت کے خلاف اس لیے کہ واؤ تفسیری ہمیشہ مترادف الفاظ کے درمیان آتی ہے جیسے رنج والم یا مسرت انبساط لیکن کتاب اور حکمت مترادف الفاظ نہیں ہیں، حکمت کا لفظ بولنے سے کسی کا ذہن قرآن کریم یا کتاب کی طرف منتقل نہیں ہوتا ، اسی طرح کتاب کا لفظ بولنے سے بھی حکمت کا مفہوم ذہن میں نہیں آتا، لہذا کتاب و حکمت کے درمیان واو کو تفسیری قرار دینا درست نہیں اور عقل کے خلاف اس لیے ہے کہ اگر قرآن نے اپنے آپ کو حکیم کہا ہے تو اس سے یہ کیسے لازم آ گیا کہ قرآن سے باہر حکمت کا کہیں وجود نہیں پایا جاتا، قرآن تو اپنے آپ کو کریم بھی کہتا ہے تو کیا کرم اور کریم کا قرآن کے علاوہ کہیں وجود نہیں؟ ایک عام فہم مثال سے یوں سمجھیے کہ ایک شخص کہتا ہے کہ چینی میٹھی ہوتی ہے تو اس سے یہ کیونکہ سمجھا جاسکتا ہے کہ مٹھاس کا وجود چینی کے علاوہ اور کسی چیز میں نہیں پایا جاتا یا چینی کے علاوہ اور کوئی چیز میٹھی نہیں ہو سکتی ۔ “
( آئینہ پرویزیت ،ص:550)
وحی چاہے کتاب کی شکل میں ہو یا حکمت یعنی حدیث کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ
(15-الحجر:9)
” بے شک ہم نے ہی ذکر نازل کیا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔“
یہاں اللہ تعالیٰ نے ”نَزَلْنَا الْقُرْآنَ“ نہیں فرمایا بلکہ: إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكرَ وَإِنا لَهُ لَحَافِظُونَ فرمایا ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ذکر کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے، ذکر سے مراد قرآن بھی ہے، جیسا کہ سورۃ النحل میں ہے:
وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ
(16 / النحل : 44)
”ہم نے آپ کی طرف ذکر نازل کیا تا کہ آپ لوگوں کے سامنے اس چیز کو بیان کر دیں جو ان کی طرف اتاری گئی اور تاکہ وہ غور و فکر کریں۔“
یہاں قرآن کو ذکر کیا گیا ہے۔ اسی طرح قرآن کا بیان ، اس کی تفسیر اور توضیح یعنی حدیث مبارکہ بھی ذکر ہے،سورۃ الطلاق میں ہے:
قَدْ أَنزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْرًا ﴿١٠﴾ رَّسُولًا يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِ اللَّهِ مُبَيِّنَاتٍ لِّيُخْرِجَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ
(65 / الطلاق : 10 ، 11 )
”بلاشبہ اللہ نے تمہاری طرف ذکر نازل کیا جو ایسا رسول ہے کہ تمہارے سامنے اللہ کی واضح آیات پڑھتا ہے، تا کہ وہ ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور نیک اعمال کیے اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالے۔“
یہاں لفظ رسول ، ذكرا سے بدل دیا ہے، یعنی اللہ نے تمہاری طرف ذکر نازل کیا ہے جو رسول ہے، اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ذکر کہہ رہے ہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود اطہر سراپا ذکر ہے، آپ کے اقوال و افعال، احوال و تقریرات سب ذکر ہی ہیں۔ بہر حال ثابت ہوا کہ ذکر صرف قرآن ہی نہیں بلکہ صاحب قرآن کی حدیث بھی ذکر ہے، لہذا دونوں کی حفاظت کا اللہ تعالیٰ نے ذمہ لیا اور حفاظت فرمائی، آج چودہ صدیوں سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی یہ دونوں محفوظ ہیں اور آیندہ بھی محفوظ رہیں گے۔ ان شاء اللہ
ارشاد باری تعالی ہے:
لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ
(33/ الاحزاب : 21)
”بلاشبہ یقینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں تمہارے لیے اسوہ حسنہ ہے۔“
یہ آیت بتلا رہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ ہر دور کے مسلمانوں کے لیے اسوہ حسنہ ہے، زندگی کے ہر معاملے میں خواہ وہ دینی ہو یا دنیاوی اسوہ رسول سے راہنمائی لو، یہی تمہارے لیے بہترین نمونہ اور ماڈل ہے۔ قرآن نماز پڑھنے کا حکم دیتا ہے، طریقہ نہیں بتاتا کہ نماز کیسے پڑھنی ہے، اس کی رکعات کتنی ہیں ان میں کیا کچھ پڑھنا ہے کیا نہیں، رکوع و سجود کیسے کرنا ہے، دوران نماز میں کن امور کا خیال رکھنا ہے، کون سے کام منع ہیں کن کی اجازت ہے؟ ان تمام امور کے متعلق قرآن نے صاف کہہ دیا کہ اسوہ رسول سے راہنمائی لے لو۔ حج کیسے کرنا ہے؟ دوران حج میں کیا کرنا ہے کیا نہیں؟ اسوۂ رسول سے راہنمائی لو، الغرض ہر طرح کی عبادات میں قرآن کا یہی فیصلہ ہے کہ اسوہ رسول سے راہنمائی لو۔ اسی طرح دنیاوی امور ہیں۔ خوشی غمی ، رہن سہن، لین دین وغیرہ، ہر معاملے میں اسوہ رسول سے راہنمائی لو۔ تا قیامت آنے والے لوگوں کے لیے یہی حکم ہے کہ اسوہ رسول سے راہنمائی لو۔ اگر حدیث محفوظ نہ ہوتی تو بتائیے کہ آج وہ اسوۂ رسول ہمیں کہاں سے ملتا جس سے ہم راہنمائی لیتے ؟ لہذا ضروری تھا کہ قرآن کے ساتھ ساتھ صاحب قرآن کی حدیث کی بھی حفاظت ہو، تاکہ روز قیامت کوئی یہ عذر پیش نہ کر سکے کہ ہمارے پاس تو اسوہ حسنہ پہنچا ہی نہیں تھا، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صدیوں بعد دنیا میں آئے۔ ہمارے آنے تک آپ کا اسوہ محفوظ ہی نہ رہا، چنانچہ ہم اس کے مطابق قرآنی احکامات کی بجا آوری کیسے کرتے ؟ لوگوں کا یہ عذر ختم کرنے کے لیے اللہ نے حدیث کی حفاظت فرمائی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری رسول ہیں۔ نبوت کا جو سلسلہ سیدنا آدم علیہ السلام سے شروع ہوا تھا وہ آپ پر آ کر ختم ہو گیا ہے۔ اب قیامت تک کوئی نبی یا رسول نہیں آئے گا۔ آپ کا خاتم النبیین ہونا بھی اس بات کا متقاضی ہے کہ آپ کی لائی ہوئی شریعت قیامت تک محفوظ رہے۔ سابقہ نبیوں کی شریعتیں شاید اسی لیے محفوظ نہ رہ سکیں کہ وہ آخری نبی نہ تھے۔ یہ اعزاز صرف آخری نبی کے حصے میں تھا کہ اس کی شریعت محفوظ رہے گی۔ آپ کی شریعت قرآن و حدیث کی صورت میں ہے۔ حدیث کے بغیر شریعت محمدی ناقص ہے، اسلام کی پوری تصویر قرآن اور حدیث دونوں سے مل کر تیار ہوتی ہے، لہذا حدیث کی حفاظت بھی اتنی ہی ضروری تھی جتنی قرآن کی ۔ اگر حدیث کی حفاظت نہ ہوتی تو شریعت محمدی غیر محفوظ اور ناقص قرار پاتی۔ بعد میں آنے والے ناقص شریعت لیے پھرتے اور کسی نئے نبی کی راہ تکتے پھرتے یوں عقیدہ ختم نبوت مٹ جاتا۔ (معاذ اللہ ) لہذا اللہ تعالیٰ نے قرآن کے ساتھ ساتھ حدیث کی بھی حفاظت کا ذمہ لیا اور اس کی حفاظت فرمائی۔
قرآن فہمی کا بھی یہ تقاضا تھا کہ حدیث محفوظ رہے۔ پوری امت مانتی ہے کہ حدیث قرآن کا بیان ہے۔ اس کے مجملات کی تفصیل، مہمات کی توضیح، مشکلات کی تفسیر اور اشارات کی تشریح ہے۔ اگر حدیث محفوظ نہ ہوتی تو قرآن کے مجملات کی تفصیل کا کیسے پتا چلتا ؟ اس کے مہمات کی توضیح کہاں سے ملتی؟ مشکلات کی تفسیر کیسے کرتے؟
اشارات کی تشریح کیسے ہوتی ؟ من مانی کے دروازے کھل جاتے ، ہر کوئی اپنے عقلی گھوڑے دوڑاتا اور جیسے چاہتا قرآن کا معنی ومفہوم بیان کرتا رہتا۔ اللہ تعالیٰ نے تفہیم قرآن کے لیے حدیث کو محفوظ رکھا اور اس کی حفاظت فرمائی۔
حفاظت حدیث کے ذرائع
اللہ تعالیٰ نے جن ذرائع سے قرآن مجید کی حفاظت فرمائی ہے انہی سے حدیث کی بھی حفاظت کی ہے۔ حفاظت قرآن کے دو بڑے ذریعے ہیں: (1) حفظ۔ ۔ (2) کتابت ۔ قرآن مجید کی جونہی کوئی آیت یا سورت نازل ہوتی آپ صحابہ کرام کو بتاتے ، لکھواتے اور حفظ کرنے کی ترغیب دیتے۔ صحابہ کرام قرآن مجید حفظ بھی کیا کرتے تھے اور لکھا بھی کرتے تھے۔ صحابہ کے بعد بھی اور ہر دور میں حفاظت قرآن کے یہ دونوں ذرائع موجود رہے ہیں۔ قرآن حفظ بھی ہوتا رہا ہے اور لکھا بھی جاتا رہا ہے۔ چنانچہ آج ہمارے پاس بھی قرآن مجید انہی ذرائع سے پہنچا ہے اور اپنی اصلی حالت میں محفوظ ہے۔
بعینہ حفاظت حدیث کے بھی یہی دو بڑے ذرائع ہیں: (1) حفظ (2) کتابت ۔
(1) حفاظت حدیث بذریعہ حفظ :
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلَىٰ فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ لَطِيفًا خَبِيرًا
(33-الأحزاب:34)
”اور تمہارے گھروں میں جو اللہ تعالیٰ کی آیات اور حکمت میں سے پڑھا جاتا ہے اسے یاد کرو، بے شک اللہ نہایت باریک بین، پوری طرح باخبر ہے۔“
اس آیت مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرانے کو حفظ قرآن کے ساتھ ساتھ حفظ حدیث کا بھی حکم دیا گیا ہے۔
حدیث حفظ کرنے والے کے لیے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی ہے:
نضر الله امراءا سمع منا حديثا فحفظه حتى يبلغه
”اللہ اس شخص کو خوش و خرم رکھے جس نے ہم سے کوئی حدیث سنی، پھر اسے حفظ کیا یہاں تک کہ اسے آگے پہنچا دیا۔ “
ابوداود، کتاب العلم ، باب فضل نشر العلم، رقم : 3660، وسنده صحيح
ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ عبد القیس کے وفد کو امور دین کی تعلیم فرمائی، ان امور میں ایسے احکام بھی شامل تھے جن کا قرآن مجید میں کوئی ذکر نہیں ، ان امور کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں فرمایا:
احفظوهن واخبروا بهن من وراتكم
”انھیں حفظ کر لو اور جو تمھارے پیچھے ہیں انھیں ان کی خبر دے دو۔“
صحيح البخاری، کتاب الایمان، باب اداء الخمس من الايمان، رقم : 53
سید نا ابن عباس رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں:
إنما كنا نحفظ الحديث والحديث يحفظ عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
”بے شک ہم حدیث کو حفظ کر لیا کرتے تھے اور حدیث تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حفظ کی جاتی تھی ۔“
(مسلم، المقدمة، رقم : 20)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
حفظت عن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم وعاءين ، فأما احدهما فبثثته وأما الآخر فلو بثتته قطع هذا البلعوم
”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (علم کے) دو برتن حفظ کیے ہیں، ان میں سے ایک کو تو میں نے پھیلا دیا ہے اور دوسرے کو اگر پھیلا دوں گا تو میرا حلق کاٹ دیا جائے گا۔“
(صحیح البخاری، کتاب العلم ، باب حفظ العلم، رقم : 120)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرما رہے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے علم کے دو برتن حفظ کیے ہیں، ایک کو میں نے پھیلا دیا ہے، اس سے مراد وہ احادیث ہیں جوسنن و احکام شرعیہ سے متعلق تھیں اور دوسرا جس کے متعلق فرماتے ہیں کہ اگر اسے پھیلاؤں تو میرا حلق (گردن) کاٹ دیا جائے گا، اس سے مراد وہ احادیث ہیں جن میں مستقبل میں واقع ہونے والے فتنوں کی خبریں تھیں۔ تاہم بعد میں انھیں بھی سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ گاہے بگا ہے بیان کر دیا کرتے تھے۔ بہر حال اس حدیث سے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے حفظ حدیث کا پتہ چلتا ہے کہ وہ حدیث پاک کو حفظ کیا کرتے تھے۔
ایک مرتبہ سید نا عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام سے پوچھا: ”أيكم يحفظ حديث رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الفتنة“ ”تم میں سے کس شخص کو فتنہ کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث یاد ہے؟ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ”أنا أحفظه كما قال“ مجھے وہ اسی طرح حفظ ہے جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی، سید نا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”إن عليه لجري فكيف قال ؟“ آپ تو اس پر واقعی بڑے دلیر ہیں ( بتائیے ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیسے فرمایا تھا ؟ پھر سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے وہ حدیث بیان کی۔
صحيح البخارى، كتاب الزكاة، باب الصدقة تكفر الخطيئة، رقم : 1435
ان جملہ روایات سے یہ حقیقت واضح ہورہی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو زبانی یاد کیا کرتے تھے۔
بلکہ سید نا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ تو اپنے شاگردوں سے بھی فرمایا کرتے تھے کہ حدیث کے بارے میں مذاکرہ کیا کرو کیونکہ ایک حدیث دوسری حدیث کو یاد دلاتی ہے۔
سنن دارمی، المقدمه، باب مذاكرة العلم، رقم : 617 ، 618، وسنده صحيح
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرح تابعین، تبع تابعین اور ائمہ محدثین بھی حدیث کو زبانی یاد کیا کرتے تھے۔ ابوحصین کہتے ہیں، میں نے سعید بن جبیر ( تابعی رحمہ اللہ ) سے پوچھا: کیا وہ سب حدیثیں جو میں آپ سے سنتا ہوں، آپ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھی تھیں؟ انھوں نے کہا: نہیں، میں تو ان کی مجلس میں خاموش بیٹھا رہتا تھا وہ خود ہی بیان کرتے تھے تو میں زبانی یاد کر لیتا تھا۔
ابن سعد : 6/ 375، وسندہ حسن
ابو بردہ کہتے ہیں کہ ایک شخص ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا ہمرا ہی تھا، اس نے بغیر سوچے سمجھے ان سے اسلام کے متعلق گفتگو کی، مجھے وہ کہنے لگا: قریب ہے کہ ابوموسیٰ چلے جائیں اور ان کی حدیث محفوظ نہ رہے، لہذا تو ان سے حدیث لکھ لیا کر ۔ کہتے ہیں: میں نے کہا: تیری رائے بڑی اچھی ہے، پھر میں ان کی حدیث لکھنا شروع کر دی۔ انھوں (ابو موسی رضی اللہ عنہ ) نے ایک حدیث بیان کی، میں اسے لکھنے لگا جس طرح کہ لکھا کرتا تھا تو وہ ( ابوموسی رضی اللہ عنہ ) فوراً میرے پیچھے آئے اور فرمایا: شاید تم میری (بیان کردہ) حدیث لکھتے ہو؟ میں نے فرمایا: جی ہاں، انھوں نے کہا: تم نے جو کچھ لکھا ہے میرے پاس لاؤ، میں وہ ان کے پاس لایا تو انھوں نے اسے مٹادیا اور فرمایا: ”احفظ كما حفظت “ اسی طرح یاد کرو جس طرح میں نے یاد کیا ہے۔
ابن سعد : 4 / 105، وسنده صحيح
امام ابوداود سجستانی کے فرزند ارجمند امام ابوبکر عبد اللہ بن ابی داود کے متعلق امام ابن شاہین فرماتے ہیں کہ انھوں نے ہمیں بیسں سال کے قریب حدیثیں لکھا ئیں، میں نے ان کے ہاتھ میں کبھی کوئی کتاب نہیں دیکھی۔ وہ تو صرف حافظے سے (زبانی) حدیثیں لکھوایا کرتے تھے۔
تاریخ دمشق : 29/ 83، وسنده صحیح
ابن شاہین ہی کا بیان ہے کہ جب امام ابن ابی داود (آخر میں ) نابینا ہو گئے تو منبر بیٹھتے اور ان کا بیٹا ابو معمر ان سے ایک سیڑھی نیچے بیٹھ جاتا اور اس کے ہاتھ میں کتاب ہوتی ، وہ کہتا: فلاں حدیث تو آپ وہ پوری حدیث ( زبانی ) پڑھ دیتے تھے۔
ايضاً، وسنده صحيح
احمد بن ابراہیم شاذان کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ امام ابن ابی داود سجستان گئے تو اصحاب حدیث کے پرزور اپیل پر انھیں تیسں ہزار حدیثیں زبانی سنادیں۔
تاریخ بغداد 466/9 وسنده حسن
حفاظت حدیث بذریعہ کتابت
حفاظت حدیث کا دوسرا بڑا اہم ذریعہ کتابت ہے ۔ حفاظت حدیث کا یہ ذریعہ بھی دور نبوی سے مسلسل چلا آ رہا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حدیث لکھوایا کرتے تھے اور لکھنے کا حکم بھی دیا کرتے تھے، لہذا یہ کہنا کہ حدیث اڑھائی سو سال بعد لکھی گئی ہے، اس سے پہلے نہیں لکھی جاتی تھی ، سراسر غلط اور مبنی پر جہالت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مسعود سے لے کر آج تک ہر دور میں حدیث کی کتابت ہوتی رہی ہے۔ کوئی دور بھی کتابت حدیث سے خالی نہیں رہا۔
کتابت حدیث عہد نبوی میں
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مکہ فتح کر دیا تو آپ نے لوگوں میں کھڑے ہو کر اللہ کی حمد وثنا بیان کی، پھر فرمایا : ” بے شک اللہ نے مکہ سے ہاتھیوں کو روک دیا تھا اور مکہ کا اقتدار اپنے رسول اور مومنوں کو سونپ دیا ۔ مجھ سے پہلے کسی کے لیے مکہ ( میں جنگ کرنا ) حلال نہیں تھا اور میرے لیے بھی یہ محض دن کی ایک گھڑی حلال ہوا ہے۔ میرے بعد یہ کسی کے لیے حلال نہ ہو گا۔ پس اس کے شکار کو نہ بھگایا جائے اور نہ اس کے کانٹوں والے درختوں کو کاٹا جائے اور نہ اس کے راستے میں پڑی ہوئی چیز اعلان کرنے والے کے سوا کوئی اٹھائے اور جس کا کوئی مقتول اس میں قتل کیا گیا ہو تو اس کو دو چیزوں میں سے ایک کا اختیار ہے کہ وہ دیت لے لے یا قصاص ۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! اذخر (خشک گھاس) کی اجازت دے دیں کیونکہ ہم اس کو اپنی قبروں اور گھروں میں استعمال کرتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الا الأذخر یعنی اذخر (گھاس) کی اجازت ہے۔
یمن کے ایک شخص ابوشاہ نے کھڑے ہو کر عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! مجھے یہ ( خطبہ) لکھ دیجیے تو آپ نے فرمایا:اكتبوا لابي شاء ”ابوشاہ کے لیے (یہ خطبہ) لکھ دو۔“
صحيح البخاري، كتاب في اللقطة، باب كيف تصرف لقطة اهل مكة، رقم: 2434
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اصحاب نبی میں سے کوئی بھی مجھ سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیثیں بیان کرنے والا نہیں ، سوائے عبد اللہ بن عمرو ( رضی اللہ عنہ ) کے ، کیونکہ وہ لکھا کرتے تھے اور میں نہیں لکھتا تھا۔
صحيح البخاري، كتاب العلم ، باب كتابة العلم، رقم: 113
سید نا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ سنتا اسے لکھ لیا کرتا تھا تا کہ اسے حفظ کرلوں ۔ مجھے قریشیوں نے منع کر دیا کہ تو ہر بات لکھ لیتا ہے، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انسان ہیں غصے اور خوشی ( دونوں حالتوں) میں گفتگو کرتے ہیں۔ چنانچہ میں نے لکھنا موقوف کر دیا۔ جب یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی گئی تو آپ نے اپنے ذہن مبارک کی طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: أكتب فوالذي نفسي بيده ما يخرج منه إلا حق لکھا کرو، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اس سے سوائے حق کے اور کچھ نکلتا ہی نہیں۔“
أبو داود، كتاب العلم ، باب كتابة العلم، رقم: 3646 وسنده صحيح
ابو قبیل تابعی رحمہ اللہ نے فرمایا: ہم عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کے پاس موجود تھے کہ ان سے پوچھا گیا : دو شہروں میں سے کون سا شہر سب سے پہلے فتح ہو گا: قسطنطنیه یا رومیہ؟ تو عبد الله ( رضی اللہ عنہ) نے حلقوں والا صندوق منگوایا، پھر اس سے ایک کتاب نکالی اور فرمایا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لکھ رہے تھے کہ جب آپ سے پوچھا گیا کہ دو شہروں میں سے کون سا شہر پہلے فتح ہوگا : قسطنطنیہ یا رومیہ؟ تو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” پہلے ہر قل کا شہر ، یعنی قسطنطنیہ فتح ہو گا ۔“
مسند أحمد 2/176 وسنده صحيح
یزید بن شریک رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ نہیں لکھا، سوائے قرآن کے اور جو کچھ اس صحیفہ میں ہے ۔
صحيح البخاري، كتاب الجزية ، باب اثم من عاهد ثم عذر ، رقم: 3179
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے اس فرمان کا مطلب ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف یہی دو چیزیں قلمبند کی ہیں۔ ایک قرآن مجید اور دوسرے وہ مسائل جو اس صحیفے میں ہیں۔ آپ سے پوچھا گیا: اس صحیفے میں کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا: دیت اور قیدیوں کی رہائی کا بیان ہے اور یہ حکم کہ مسلمان ، کافر کے بدلے میں قتل نہ کیا جائے۔
صحيح البخاري:111
معبد بن ہلال رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے جب ہم زیادہ اصرار کرتے تو وہ اپنے پاس موجود رجسٹر ہمارے لیے نکال لیتے اور فرماتے: یہ وہ (احادیث) ہیں جو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہیں، انھیں لکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا تھا۔
المستدرك للحاكم 3/573 وسنده حسن
تنبيه:
حافظ ذہبي رحمہ اللہ كا اس روايت كو منكر قرار دينا بغير دليل كے ہے۔ عتبه ابن ابي حكيم صدوق وحسن الحديث هيں اور ايسے راوي كا تفرد قطعا مضر نهيں ، والله اعلم ۔ نديم
امام زہری رحمہ فرماتے ہیں: یہ نسخہ اس کتاب کا ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنی وفات سے پہلے) صدقے کے بارے میں لکھوایا تھا اور یہ آل عمر بن خطاب کے پاس محفوظ تھی۔ نیز فرماتے ہیں: اسے مجھے سالم بن عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے پڑھوایا اور میں نے اسے اسی طرح یاد کر لیا اور یہی وہ تحریر ہے جسے عمر بن عبد العزیز نے عبد اللہ بن عبد اللہ بن عمر اور سالم بن عبد اللہ بن عمر سے نقل کروایا تھا ۔
أبو داود، كتاب الزكاة، باب في زكاة السائمة، رقم: 1570؛ ابن ماجه ، رقم: 1798، وسنده صحيح
ان جملہ روایات سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو رہی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مسعود میں بھی احادیث لکھی جاتی تھیں۔ آپ خود بھی حکم فرمایا کرتے تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی اپنے ذوق و شوق سے احادیث مبارکہ لکھا کرتے تھے۔
کتابت حدیث عہد صحابہ میں
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں بھی یہ سلسلہ جاری و ساری رہا، صحابہ کرام بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد احادیث مبارکہ لکھا اور لکھوایا کرتے تھے، چنانچہ:
سیدنا انس بن مالک سے مروی ہے کہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے لیے یہ کتاب لکھ کر انھیں بحرین کی طرف بھیجا:
بسم الله الرحمن الرحيم: هذه فريضة الصدقة التى فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم على المسلمين و التى أمر الله بها رسوله.
صحيح البخاري، كتاب الزكاة، باب زكاة، رقم : 1454
بسم اللہ الرحمن الرحیم ، یہ زکوۃ کا وہ فریضہ ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں پر فرض کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہے۔
ابو عثمان نہدی کہتے ہیں کہ ہم عقبہ بن فرقد کے ساتھ آذر بائیجان یا شام میں تھے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی کتاب ہمارے پاس پہنچی (جس میں یہ تحریر تھا: ) اما بعد ! بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشم سے (مردوں کو) منع فرمایا ہے، سوائے اتنے (یعنی) دو انگلیوں (کے برابر)
صحیح مسلم، کتاب اللباس ، باب تحرير …. رقم: 2089
سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ کے کاتب وراد کہتے ہیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی طرف لکھا کہ مجھے وہ ( حدیثیں) لکھ کر بھیجیں جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہیں ، تو مغیرہ رضی اللہ عنہ نے ان کی طرف لکھ بھیجا: بے شک اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے بعد یہ پڑھا کرتے تھے : لا اله الا الله وحده لا شريك له له الملك و له الحمد و هو على كل شيء قدير ، اللهم لا مانع لما أعطيت ولا معطي لما منعت ولا ينفع ذا الجد منك الجدد
اور سیدنا مغیر رضی اللہ عنہ نے ان کی طرف یہ بھی لکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قیل و قال ( فضول بحث) اور کثرت سوال اور مال کو ضائع کرنے سے منع فرماتے ، اور آپ ماؤں کی نافرمانی سے ، بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے سے اور دوسروں کا حق نہ دینے اور بغیر کسی ضرورت مانگنے سے بھی منع فرمایا کرتے تھے۔
صحيح البخاري، كتاب الاعتصام باب ما يكره من كثرة السوال رقم: 7292
بشیر بن نہیک کہتے ہیں کہ میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے جو کچھ سنتا لکھ لیتا تھا ، پھر جب میں نے ان سے رخصت ہونے کا ارادہ کیا تو اپنی کتاب لے کر ان کے پاس گیا اور انھیں وہ پڑھ کر سنائی اور کہا: میں نے آپ سے جو سنا ہے وہ یہ ہے؟ انہوں نے فرمایا: جی ہاں۔
مسند الدارمي رقم 500 مصنف ابن أبي شيبة 13/463 وسنده صحيح
معن بن عبد الرحمن کہتے ہیں کہ میرے سامنے عبد الرحمن بن عبد اللہ نے ایک کتاب رکھی اور قسم کھا کر کہا : یہ ان کے والد عبد اللہ بن مسعود ( رضی اللہ عنہ) کے ہاتھ کی لکھی ہوئی کتاب ہے۔
مصنف ابن أبي شيبة 13/462 وسنده صحيح
کتابت حدیث عہد تابعین میں
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد تابعین عظام کا دور آتا اور اس دور میں کتابت و تدوین حدیث پر بڑے وسیع پیمانے پر کام ہوا ہے، احادیث مبارکہ کو اس کثرت سے لکھا گیا ہے کہ اگر اسے بیان کیا جائے تو طوالت کا خوف دامن گیر ہے، لہذا ہم صرف چند حوالے درج کرنے پر ہی اکتفا کریں گے۔
عبد اللہ بن دینار رحمہ اللہ کہتے ہیں : خلیفہ عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے اہل مدینہ کی طرف لکھ کر حکم بھیجا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں تلاش کر کے لکھ لو کیونکہ مجھے علم اور اہل علم کے ختم ہونے کا ڈر ہے۔
مسند الدارمي ، رقم: 494، وسنده صحيح
سلیمان بن موسیٰ سے مروی ہے کہ انھوں نے دیکھا : نافع مولی ابن عمر اپنا علم لکھواتے اور یہ ان کے سامنے لکھا جاتا تھا۔
مسند الدارمي، رقم: 513 وسنده صحيح
امام ایوب سختیانی کہتے ہیں کہ ابو قلابہ ( رحمہ اللہ ) نے میرے لیے اپنی کتابوں کی وصیت کی تو میں یہ کتابیں شام سے لایا ان کے کرائے پر دس سے زیادہ درہم ادا کیے تھے۔
طبقات ابن سعد 9/250 وسنده صحيح
موسیٰ بن عقبہ کا بیان ہے کہ ہمارے پاس کریب نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کی کتابوں میں سے ایک اونٹ کے وزن کے برابر کتابیں رکھیں، پھر جب علی بن عبد اللہ بن عباس کو کسی کتاب کی ضرورت ہوتی تو وہ لکھ کر بھیجے کہ فلاں کتاب میری طرف بھیج دیں تو وہ اس کتاب کو لکھ کر ایک نسخہ ان کی طرف بھیج دیتے تھے۔
أيضًا، 7/289 وسنده صحيح
صالح بن کیسان کہتے ہیں کہ امام زہری نے (حدیث) لکھی اور میں نے نہیں لکھی تو وہ کامیاب ہو گئے اور میں ضائع ہو گیا۔
تقييد العلم للخطيب، ص 107،160 وسنده حسن
اسی طرح صحیفہ ہمام بن منبہ جو آج بھی علمی دنیا میں مشہور ہے ، جس میں ڈیڑھ سو کے قریب احادیث ہیں اور کئی دفعہ اردو ترجمہ کے ساتھ بھی چھپ چکا ہے ، یہ بھی سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے شاگرد امام ہمام بن منبہ تابعی کا جمع کردہ ہے۔
امام محمد بن اسحاق کی کتاب السیرۃ بھی عہد تابعین ہی کی تالیف کردہ ہے اور یہ کتاب بھی کئی بار چھپ چکی ہے اور علمی دنیا میں مشہور ہے۔
دور تابعین کے بعد اگلا دور تبع تابعین کا ہے اس میں پہلے سے بھی زیادہ وسیع پیمانے پر کتابت حدیث پر کام ہوا ہے ۔ موطا امام مالک ، کتاب الزہد از ابن مبارک کتاب الزہد از امام وکیع بن جراح، کتاب المناسک از سعید بن ابی عروبہ، کتاب السیر از محمد بن اسحاق اور کتاب الدعا از محمد بن فضیل وغیرہ اسی دور کی مدون شدہ ہیں۔ پھر اس کے بعد تو کتابت و تدوین حدیث پر اس قدر کام ہوا کہ احاطہ تحریر میں لانا مشکل ہے۔ مصنف عبدالرزاق، مصنف ابن ابی شیبہ اور مسند ابن ابی شیبہ لکھی گئیں ، اسی طرح مسند احمد اور مسند ابی داود الطیالسی اور دیگر بے شمار کتب منصہ شہود پر آئیں۔
خلاصہ یہ کہ حدیث مبارکہ کسی دور میں بھی بغیر کتابت کے نہیں چھوڑی گئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مسعود میں جو اس کی کتابت و تدوین تھی وہ ایک خاص اسلوب میں تھی۔ پھر صحابہ کرام اور تابعین کے ابتدائی دور میں اور زیادہ زور پکڑ گئی اور تابعین کے آخری دور میں تو اتنے عروج پر تھی کہ ہر طرف محدثین ہی نظر آتے تھے، جدھر دیکھو حدیث کا درس ہو رہا ہے۔ بعد ازاں تبع تابعین اور پھر ائمہ محدثین کے دور کے تو کیا ہی کہنے ، ہر طرف قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صدائیں گونج رہی تھیں۔
اب بھی اگر کوئی یہی رٹ لگائے پھرے کہ حدیث تو اڑھائی سو سال بعد لکھی گئی ہے، لہذا یہ حجت شرعیہ نہیں تو اسے بس یہی کہا جا سکتا ہے:
گر آنکھیں ہیں بند تو دن بھی رات ہے
بھلا اس میں قصور کیا ہے سورج کا
اللہ تعالیٰ نے جن ذرائع سے قرآن کی حفاظت کی ہے انہی ذرائع سے قرآن کے بیان، یعنی حدیث مبارک کی حفاظت کی ہے۔ حفاظت قرآن بذریعہ حفظ ہوئی تو حفاظت حدیث بھی بذریعہ حفظ ہوئی اور اگر حفاظت قرآن بذریعہ کتابت ہوئی تو حفاظت حدیث بھی بذریعہ کتابت ہوئی۔ ایسا کیوں؟ اس لیے کہ دونوں وحی ہیں، دونوں منزل من اللہ ہیں، قرآن کلام اللہ ہے تو حدیث کلام رسول اللہ ہے، قرآن کتاب اللہ ہے تو حدیث بیان کتاب اللہ ہے۔ ایک ہی حقیقت کے دو جلوے اور ایک ہی تصویر کے دورخ ہیں۔ قرآن کریم متن ہے اور حدیث اس کی شرح ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کی شرح کے پیش نظر جو کچھ کیا ہے اور جو کچھ فرمایا، اگر چہ وہ اپنے وجود کے اعتبار سے ایک علیحدہ چیز ہے مگر اپنی حقیقت و ماہیت کے اعتبار سے ایک ہی ہے، لہذا دونوں کی اتباع واجب ہے۔ آج دونوں اپنی اصلی حالت میں موجود ہیں اور آئندہ بھی موجود رہیں گے۔ ان شاء اللہ
رکوع جاتے اور سر اٹھاتے ہوئے رفع یدین کرنا اللہ کی تعظیم ہے
امام محمد بن نصر المروزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”اللہ کی توحید کے بعد کوئی عمل اللہ کے لیے نماز پڑھنے سے افضل نہیں کیونکہ اس کی ابتدا توحید اور تکبیر کے ساتھ اللہ کی تعظیم سے ہوتی ہے۔ پھر اللہ کی ثنا اور سورہ فاتحہ کا پڑھنا ہے جو کہ اللہ کی حمد وثنا ہے، اس کی بزرگی اور اس سے دعا کرنا ہے۔ اسی طرح رکوع و سجود کی تسبیحات سر جھکنے اور اٹھنے پر تکبیرات، یہ سب اللہ کی توحید اور اس کی تعظیم ہے، اس کا خاتمہ اللہ کی توحید اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی کے ساتھ ہوتا ہے، نماز کے رکوع وسجود اس کے لیے خشوع اور تواضع ثابت کرنے کے لیے ہے، نماز کے شروع، رکوع جاتے اور سر اٹھاتے ہوئے رفع یدین کرنا اللہ کی تعظیم اور اس کے جلال کا بیان ہے۔ دائیں (ہاتھ) کو بائیں پر رکھ کر اللہ کے لیے کھڑے ہو جانا اس کے لیے عاجزی و انکساری اور عبادت کے ساتھ انقیاد واطاعت کا اقرار ہے۔“
تعظيم قدر الصلاة: 268/1