سوال
صحیح بخاری میں ایک حدیث مذکور ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی موجودگی میں حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا (جو کہ ابوجہل کی بیٹی تھیں) سے نکاح کرنے کا ارادہ کیا۔ جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے شکایت کی۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس نکاح سے منع فرما دیا اور فرمایا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی موجودگی میں دوسری شادی ممکن نہیں۔
اس پر بعض لوگوں کی طرف سے اعتراض کیا جاتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ خود گیارہ یا بارہ بیویاں رکھتے تھے، لیکن اپنی بیٹی کے لیے ایک سوکن بھی برداشت نہ کر سکے۔ حالانکہ قرآن مجید نے ہر مسلمان کو چار شادیوں کی اجازت دی ہے۔ معترضین یہ کہتے ہیں کہ یا تو یہ حدیث جھوٹی ہے یا پھر (نعوذباللہ) رسول اللہ ﷺ منصف نہیں تھے۔ حالانکہ رسول اللہ ﷺ کی صداقت اور امانت داری پر مخالفین بھی قائل تھے۔ لہٰذا ان کے نزدیک حدیث ہی غلط ہو سکتی ہے۔ کیا یہ اعتراض درست ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ حدیث صحیح ہے اور متفق علیہ ہے، اور رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ اقدس نہایت ہی منصف اور عدل و انصاف سے بھرپور تھی۔ اعتراض کرنے والوں کی یہ رائے محض غلط فہمی اور عدم فہم پر مبنی ہے۔ اس معاملے کی بہتر تفہیم کے لیے ایک مثال پیش کی جاتی ہے:
ایک قابل فہم مثال:
فرض کریں کہ ایک شخص کی چار بیویاں ہیں۔ اس کا داماد، جو خود صرف ایک بیوی رکھتا ہے، یہ ارادہ کرتا ہے کہ اپنے سسر کی بہن (یعنی اپنی بیوی کی پھوپھی) سے بھی نکاح کر لے تاکہ اس کی دو بیویاں ہو جائیں۔ اس پر سسر اپنے داماد سے کہتا ہے کہ اگر تمہیں دوسری شادی کرنی ہی ہے تو میری بیٹی کو طلاق دے دو۔
اب داماد اور اس کے ساتھی اعتراض کرتے ہیں کہ:
✿ آپ خود چار بیویاں رکھتے ہیں۔
✿ قرآن نے مردوں کو چار نکاح کی اجازت دی ہے۔
✿ آپ اپنی بیٹی کے لیے ایک سوکن بھی برداشت نہیں کر پا رہے؟
یہ اعتراضات بظاہر سننے میں ٹھیک لگتے ہیں، لیکن حقیقت میں یہ سب باتیں بے بنیاد اور غیر معقول ہیں، کیونکہ سسر کے انکار کی اصل وجہ یہ نہیں کہ وہ اپنی بیٹی کے لیے سوکن کو برداشت نہیں کر سکتا، بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ:
شریعت کے مطابق پھوپھی اور بھتیجی کو ایک ہی نکاح میں جمع کرنا جائز نہیں ہے۔
اصل بات:
اسی اصول پر رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت جویریہ بنت ابی جہل رضی اللہ عنہا سے نکاح کرنے سے منع فرمایا۔ اس ممانعت کی وجہ یہ نہیں تھی کہ رسول اللہ ﷺ اپنی بیٹی کے لیے سوکن برداشت نہیں کر سکتے تھے، بلکہ وجہ یہ تھی:
✿ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ ﷺ کی بیٹی تھیں۔
✿ حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا عدو اللہ (ابوجہل) کی بیٹی تھیں۔
اسلامی شریعت میں رسول اللہ ﷺ کی بیٹی اور دشمنِ خدا کی بیٹی دونوں کو ایک ہی نکاح میں جمع کرنا جائز نہیں۔
واضح حدیث کا متن:
یہ بات خود صحیح بخاری کی اسی حدیث میں موجود ہے، جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«اِنِّیْ لَسْتُ اُحَرِّمُ حَلاَلاً ، وَلاَ اُحِلُّ حَرَامًا ، وَلٰکِنْ وَاﷲِ لاَ تَجْتَمِعُ بِنْتُ رَسُوْلِ اﷲِ وَبِنْتُ عَدُوِّ اﷲِ اَبَدًا»
(صحیح بخاری، جلد اول، كتاب الجهاد، باب ما ذكر من درع النبىﷺ وعصاه و سيفه، ص438)
ترجمہ:
’’بے شک میں حلال کو حرام نہیں کرتا اور نہ ہی حرام کو حلال قرار دیتا ہوں، لیکن خدا کی قسم! رسول اللہ کی بیٹی اور دشمنِ خدا کی بیٹی دونوں کبھی ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتیں۔‘‘
نتیجہ:
لہٰذا اس حدیث میں کوئی جھوٹ یا غیر منصفانہ بات نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے جو فیصلہ فرمایا، وہ شریعت کے عین مطابق تھا۔ اعتراض کرنے والوں کا استدلال درست نہیں اور یہ محض کم علمی اور شریعت کے اصولوں سے ناآشنائی کی علامت ہے۔
ھذا ما عندی، والله أعلم بالصواب