حضرت خضرؑ کی وفات کے ثبوت میں قرآن و سنت سے دلائل
ماخوذ : فتاویٰ الدین الخالص، جلد 1، صفحہ 252

کیا خضر علیہ السلام زندہ ہیں؟

ایک مشہور روایت کے مطابق کہا جاتا ہے کہ خضر علیہ السلام آج بھی زندہ ہیں، ریگستانوں اور سنسان میدانوں میں گھومتے ہیں جبکہ الیاس علیہ السلام سمندروں میں گردش کرتے ہیں۔ نیز، ان دونوں کی ہر سال ملاقات ہوتی ہے اور وہ حج کے موقع پر اکٹھے سر منڈھواتے ہیں۔ اس عقیدے کی کوئی مضبوط دلیل ہے یا نہیں؟ اگر ہو تو وضاحت فرمائیں۔

الجواب

الحمد للہ، والصلاة والسلام علی رسول اللہ، أما بعد:
یہ جان لینا ضروری ہے کہ خضر علیہ السلام کی وفات کتاب و سنت، جمہور علماء کے اجماع اور عقل و منطق کی روشنی میں ثابت شدہ ہے۔ جو لوگ ان کے زندہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، ان کے پاس صرف ضعیف روایات، کمزور خوابیں اور ناقابل اعتبار اقوال ہیں، کوئی مضبوط اور قطعی دلیل موجود نہیں۔

دلائل کی تفصیل

➊ کتاب اللہ سے دلیل

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿وَإِذ أَخَذَ اللَّـهُ ميثـٰقَ النَّبِيّـۧنَ لَما ءاتَيتُكُم مِن كِتـٰبٍ وَحِكمَةٍ ثُمَّ جاءَكُم رَ‌سولٌ مُصَدِّقٌ لِما مَعَكُم لَتُؤمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُ‌نَّهُ ۚ قالَ ءَأَقرَ‌ر‌تُم وَأَخَذتُم عَلىٰ ذٰلِكُم إِصر‌ى ۖ قالوا أَقرَ‌ر‌نا ۚ قالَ فَاشهَدوا وَأَنا۠ مَعَكُم مِنَ الشّـٰهِدينَ﴾  (سورة آل عمران، آیت 81)
’’جب اللہ تعالیٰ نے نبیوں سے عہد لیا کہ جو کچھ میں تمہیں کتاب وحکمت دوں پھر تمہارے پاس وہ رسول آئے، تمہارے پاس کی چیز کو سچ بتائے تو تمہارے لیے اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا ضروری ہے، فرمایا کہ تم اس کے اقراری ہو اور اس پر میرا ذمہ لے رہے ہو سب نے کہا کہ ہمیں اقرار ہے، فرمایا تو اب گواہ رہو اور خود میں بھی تمہارےساتھ گواہوں میں ہوں۔‘‘

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ہر نبی سے یہ وعدہ لیا کہ اگر حضرت محمد ﷺ ان کے زمانے میں تشریف لائیں تو وہ ان پر ایمان لائیں گے اور ان کی نصرت کریں گے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس میثاق میں ہر نبی اور ولی شامل ہے۔

لہٰذا، اگر خضر علیہ السلام زندہ ہوتے اور وہ نبی یا ولی ہوتے، تو ان پر لازم تھا کہ وہ رسول اللہ ﷺ پر ایمان لاتے، آپ کی نصرت کرتے اور شریعت محمدیہ کے تابع ہوتے۔

➋ قرآن سے دوسری دلیل

﴿وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّن قَبْلِكَ الْخُلْدَ ۖ أَفَإِن مِّتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ﴾ (سورة الأنبياء، آیت 34)
’’آپ سے پہلے کسی انسان کو بھی ہم نے ہمیشگی نہیں دی کیا اگر آپ مر گئے توۃ وہ ہمیشہ کے لیے رہ جائیں گے۔‘‘

یہ آیت خضر علیہ السلام کو بھی شامل کرتی ہے کیونکہ وہ بھی بشر ہیں۔ بغیر کسی صحیح اور قطعی دلیل کے ان کو اس عمومی حکم سے مستثنیٰ نہیں کیا جا سکتا۔

امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے البدایہ والنہایہ
(1؍334)
میں بھی یہی بات ذکر کی ہے۔

➌ سنت سے دلائل

پہلی حدیث:
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

"جو آج زمین پر زندہ ہے، سو سال کے بعد ان میں سے کوئی باقی نہیں رہے گا۔”
(بخاری: 1؍188، 2؍39، 61، مسلم: 1؍16، 89)

دوسری حدیث:
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:

"آج جو نفس زمین پر موجود ہے، سو سال کے اندر اندر ان میں سے کوئی بھی زندہ نہیں رہے گا۔”

ابن کثیر رحمہ اللہ نے البدایہ
(1؍336)
میں ان احادیث کو بیان کرنے کے بعد امام ابن جوزی رحمہ اللہ کا قول نقل کیا کہ یہ احادیث خضر علیہ السلام کے زندہ ہونے کے عقیدے کو مکمل طور پر باطل کرتی ہیں۔

➍ اہل علم کے اقوال اور اجماع

امام ابن قیم رحمہ اللہ نے ابراہیم حربی رحمہ اللہ سے نقل کیا کہ جو شخص غائب چیزوں پر استدلال کرے وہ انصاف نہیں کرتا، یہ سب شیطانی وساوس ہیں۔

امام بخاری رحمہ اللہ نے خضر اور الیاس علیہما السلام کے زندہ ہونے کے سوال پر فرمایا:

"یہ کیسے ممکن ہے جب رسول اللہ ﷺ نے فرما دیا ہے کہ سو سال کے بعد کوئی باقی نہ رہے گا۔”

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا:

"اگر خضر علیہ السلام زندہ ہوتے تو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جہاد کرتے، ان سے سیکھتے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر موسیٰ علیہ السلام بھی زندہ ہوتے تو میرے پیروکار بن کر رہتے۔”

امام علی بن موسیٰ الرضا، امام ابراہیم بن اسحاق الحربی، ابو الحسنین المناوی، قاضی ابو یعلیٰ سب نے خضر علیہ السلام کی وفات کا قول اختیار کیا ہے۔

امام ابو الفرج ابن الجوزی نے فرمایا کہ ان کے زندہ ہونے کو ثابت کرنے والے شریعت سے دور جا چکے ہیں۔

➎ عقلی دلائل

اللہ پر جھوٹ باندھنا: خضر علیہ السلام کے زندہ ہونے کا دعویٰ تقول علی اللہ ہے، جو قرآن کے مطابق حرام ہے۔
عجیب بات کا ذکر ضروری تھا: اگر وہ ہزاروں سال سے زندہ ہیں، تو اللہ تعالیٰ کو ضرور ان کا ذکر کرنا چاہیے تھا۔
نوح علیہ السلام کی کونسل کے بعد: اگر وہ نوح علیہ السلام سے پہلے کے ہیں تو قرآن کے مطابق نوح علیہ السلام کی قوم کے علاوہ کوئی باقی نہ رہا۔
ضعیف حکایات پر اعتماد: ان کے زندہ ہونے کا دعویٰ اکثر ایسی حکایات پر مبنی ہوتا ہے جن میں کوئی شخص کہتا ہے کہ اس نے خضر علیہ السلام کو دیکھا۔
اسلامی فرائض سے دوری: اگر وہ زندہ ہوتے تو بہتر تھا کہ جہاد کرتے، دین سکھاتے، جمعہ و جماعت میں شریک ہوتے۔

➏ علماء کی تصریحات اور تصانیف

امام ابن قیم رحمہ اللہ: المنار المنیف فی الصحیح والضعیف
(تحقیق ابو غدۃ ص: 27)
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ: فتح الباری
(6؍309)
الاصابہ
(1؍428)
ابن کثیر رحمہ اللہ: البدایۃ والنہایۃ
(1؍325–337)
ابن الجوزی رحمہ اللہ: عجالة المنتظر في حال الخضر
ابن تیمیہ رحمہ اللہ: ان کی وفات پر رسالہ
امام علی قاری: کشف الخدر عن امر الخضر
امام ابن المنار: ان کی وفات پر رسالہ

➐ قرآنی تنبیہ

﴿وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا﴾ (سورة الإسراء، آیت 36)
"جس چیز کا تجھے علم نہ ہو اس کے پیچھے مت لگ، کیونکہ کان، آنکھ اور دل، سب سے پوچھا جائے گا۔”

ھذا ما عندی واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1