حضرت آدم علیہ السلام سے قبل نورِ محمد ﷺ؟ 2 مشہور احادیث کی تحقیق
ماخوذ: فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری، جلد 1، صفحہ 102

حضرت محمد ﷺ کا نور حضرت آدم علیہ السلام سے پہلے پیدا ہونے کے بارے میں وضاحت

سوال

ایک حنفی مولوی صاحب نے اپنے وعظ کے دوران بیان کیا کہ:
"حضرت آدم علیہ السلام کا جسم ابھی پانی میں گیلا ہی تھا کہ حضور نبی کریم ﷺ کا نور پہلے ہی پیدا ہو چکا تھا، اور اسی وقت آپ نبی بھی تھے۔”
لیکن مولوی صاحب نے اس بات کے لیے کسی حدیث کا حوالہ پیش نہیں کیا۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ان کا یہ بیان درست ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مولوی صاحب کا مذکورہ بیان دراصل دو معروف احادیث کا مجموعہ ہے جو عوام الناس، خصوصاً بریلوی حنفی حلقوں میں بہت زیادہ مشہور ہیں:

مشہور احادیث:

"اَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰهُ نُورِي”
"كُنتُ نَبِيًّا وَآدَمُ بَيْنَ الْمَاءِ وَالطِّيْنِ”
یا
"كُنتُ نَبِيًّا وَآدَمُ مُنْجَدِلٌ بَيْنَ الْمَاءِ وَالطِّيْنِ”

لیکن یہ دونوں احادیث متعدد وجوہات کی بنا پر مردود (ناقابل قبول) ہیں۔

پہلی حدیث: "اَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰهُ نُورِي”

◈ اس حدیث کو ابن الحاج مالکی نے اپنی کتاب "المدخل” (1/148) میں بلا سند نقل کیا ہے۔
بلا سند روایت متفقہ طور پر مردود ہوتی ہے۔
◈ یہ حدیث کئی معتبر احادیث کے خلاف ہے:

مستند حدیث کے مطابق:

> "اَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰهُ الْقَلَمُ”
> (أخرجه أحمد 5/317، والترمذي كتاب السنّة 2154، 4/458، وصحّحه، عن عبادة بن الصامت مرفوعاً)

نیز دیگر احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ:

◈ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے پانی پیدا فرمایا، پھر عرش، پھر قلم، پھر آسمان و زمین وغیرہ۔
(رواہ السدي في تفسيره بأسانيد متعددة، وقال الحافظ في الفتح 6/289)

ایک اور حدیث:

> "الناس كلهم بنو آدم، وآدم خلق من التراب”
> (ترمذی، ابوداؤد، ابن حبان)
> (ترمذی كتاب المناقب، باب فضل الشام 3955، 5/734؛ ابوداؤد كتاب الأدب، باب في التفاخر بالأنساب 5116، 5/339)

اس سے بھی واضح ہے کہ نبی کریم ﷺ آدم علیہ السلام کی نسل سے ہیں اور آدم علیہ السلام مٹی سے پیدا کیے گئے تھے، نور سے نہیں۔

نیز:

حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق آسمان و زمین کی پیدائش کے بعد ہوئی۔
(صحیح مسلم، كتاب صفات المنافقين، باب ابتداء الخلق وخلق آدم، 4789، 4/2149)

دوسری حدیث: "كُنتُ نَبِيًّا وَآدَمُ بَيْنَ الْمَاءِ وَالطِّيْنِ”

ملا علی قاری حنفی لکھتے ہیں:

> "وأما ما يدور على الألسنة بلفظ: كنت نبيّا وآدم بين الماء والطين، فقال السخاوي: لم أقف عليه بهذا اللفظ، فضلاً عن زيادة: كنت نبيّا ولا ماء ولا طين، قال: وقال الزركشي: لا أصل له بهذا اللفظ”
(السراج المنير 3/94)

نیز:

العلقمی نقل کرتے ہیں:
> "قال ابن تيمية والزركشي وغيرهما من الحفاظ: لا أصل له”
الصغاني نے اسے "موضوع” (من گھڑت) قرار دیا۔
(تذكرة الموضوعات، ص 86)

مستند روایت:

البتہ ایک حدیث:

> "كنت نبيًا وآدم بين الروح والجسد”
یہ حدیث کئی صحابہ کرام سے معتبر اسناد کے ساتھ مروی ہے:

ابن سعد (طبقات ابن سعد 7/60)
ابونعیم (حلية الأولياء 9/53)
احمد (مسند احمد 5/59-379)
البخاري (التاريخ الكبير 7/374)
الحاكم نے اسے صحیح قرار دیا (المستدرك 2/609)
الترمذي (كتاب المناقب، باب في فضل النبي ﷺ، 3609، 5/585) از ابی ہریرہ

نبی کریم ﷺ سے سوال:

> "قالوا: يا رسول الله متى وجبت لك النبوة؟ قال: وآدم بين الروح والجسد”

علامہ مناوی کا وضاحتی بیان:

> مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو نبوت کی عظمت و شان سے مطلع فرما دیا تھا، جب کہ ابھی حضرت آدم علیہ السلام کی روح ان کے جسم سے جڑی نہ تھی۔
> جیسا کہ بنی آدم سے میثاق بھی ان کے اجسام کی پیدائش سے قبل لیا گیا۔
(فيض القدير 5/52؛ صحيح الجامع الصغير 4457، 3/187؛ سلسلة الأحاديث الصحيحة 1856، ص 471)

◈ عالمِ ارواح میں ہی نبی کریم ﷺ کو نبوت، تربیت و اصلاح کے منصب پر فائز کر دیا گیا تھا، اور آپ ﷺ ارواح کی تربیت و تہذیب میں مشغول تھے۔
والله أعلم

مزید وضاحت:

محدث ہند امام ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ نے اس موضوع پر تفصیل سے گفتگو کی ہے:

> "فیوض الحرمین” اور دیگر کتب میں اس کا مفصل بیان موجود ہے۔
جو حضرات روحانی بصیرت اور پاکیزہ نفس رکھتے ہیں، وہ ان معانی کی گہرائی تک پہنچ سکتے ہیں۔

ما عندی واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1