سوال:
شیخ صاحب! کیا محدثین کے نزدیک حسن لغیرہ حجت ہے؟ اور شیخ البانی رحمہ اللہ کے علاوہ کن کن محدثین نے اسے حجت تسلیم کیا ہے؟
جواب از فضیلۃ الشیخ خضر حیات حفظہ اللہ
حسن لغیرہ کی حجیت: جمہور محدثین کا موقف
تمام محدثین (چند معاصرین کے سوا) کے نزدیک حسن لغیرہ قابل حجت ہے۔
ہمارے علم کے مطابق کسی ایک محدث سے بھی حسن لغیرہ کی عدم حجیت یا انکار پر مبنی کوئی واضح قول ثابت نہیں۔
اہم وضاحت:
چونکہ حسن لغیرہ وہ حدیث ہوتی ہے جو ضعیف ہو، مگر شواہد و متابعات کی بنیاد پر حسن کے درجے میں آتی ہے، لہٰذا:
◈ یہ جاننا ضروری ہے کہ کون سا ضعف قابل انجبار ہوتا ہے، اور کون سا نہیں۔
◈ ہر ضعیف حدیث، حسن لغیرہ نہیں ہوتی۔
◈ اسی طرح جیسے احادیث کی تصحیح و تضعیف میں اختلاف ہوتا ہے، ویسے ہی تحسین میں بھی اختلاف ممکن ہے۔
◈ لیکن اختلاف کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی محدث حسن لغیرہ کی حجیت کا قائل نہیں۔
◈ جیسے اگر کوئی کسی حدیث کو صحیح نہ مانے تو یہ نہیں کہا جاتا کہ وہ صحیح حدیث کی حجیت کا منکر ہے۔
محدثین کا عملی تعامل اور تصریحات
➊ امام ابن خزیمہ (ت 311ھ)
فرماتے ہیں:
“ابن لهيعة ليس ممن أخرج حديثه في هذا الكتاب إذا تفرد برواية، وإنما أخرجت هذا الخبر؛ لأن جابر بن إسماعيل معه في الإسناد”.
(صحيح ابن خزيمة (1/ 75)( 146)
جابر بن إسماعيل کے متعلق حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:
"مقبول حیث یتابع وإلا فلین الحدیث”
دونوں راوی انفرادی طور پر ضعیف، مگر باہم تقویت کی بنیاد پر حدیث کو صحیح ابن خزیمہ میں درج کیا گیا۔
➋ امام بیہقی
جمع بین الصلاتین کی احادیث کے بعد لکھتے ہیں:
“… فإن كان شهده كتب فهو موصول، وإلا فهو إذا انضم إلى الأول صار قويا …”.
(السنن الكبرى (3/ 240)( 5560)
دوسری جگہ:
“إلا أن شواهده تقويه”
(السنن الکبری(6/ 361)( 12243)
تیسری جگہ:
“… ولكنها إذا انضمت إلى رواية أبي قتادة أخذت بعض القوة.”
(معرفة السنن والآثار (3/ 438)
➌ ابن عبد البر (ت 463ھ)
فرماتے ہیں:
“والحكم هذا ضعيف عنده مناكير لا يحتج به ولكن فيما تقدم ما يعضد هذا.”
(التمهيد (23/ 410)
متقدمین و متاخرین کی صراحتیں
➊ امام سفیان ثوری (ت 161ھ)
“إني لأكتب الحديث على ثلاثة وجوه: فمنه ما أتدين به، ومنه ما أعتبر به ومنه ما أكتبه لأعرفه “
(الجامع لأخلاق الراوي (2/ 193)
دوسری قسم سے حسن لغیرہ مراد ہے۔
➋ سفیان بن عیینہ (ت 198ھ)
“ولم نجد شيئا يشد هذا الحديث ولم يجئ إلا من هذا الوجه”
اپنے شیخ اسماعیل بن امیہ سے نقل کرتے ہیں:
"عندكم شيء تشدونه به؟”
(السنن الكبرى للبيهقي (2/ 384)
➌ امام احمد بن حنبل (ت 241ھ)
“الحديث عن الضعفاء قد يحتاج إليه في وقت والمنكر أبدا منكر”.
(العلل رواية المروذي وغيره ت صبحي السامرائي (ص: 120)
مزید فرماتے ہیں:
“ما حديث ابن لهيعة بحجة وإني لأكتب كثيرا مما أكتب أعتبر به ويقوي بعضه بعضا”.
(الجامع للخطیب(2/ 193)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ (ت 728ھ) کی تصریحات
“… وفي مثل هذا ينتفع برواية المجهول والسيئ الحفظ، وبالحديث المرسل ونحو ذلك…”
(مقدمة في أصول التفسير (ص: 29)
“الحديثان إذا كان فيهما ضعف قليل… عضد أحدهما الآخر…”
(الفتاوى الكبرى لابن تيمية (6/ 241)
یہ طریقہ ہی حسن لغیرہ کا منہج ہے۔
دیگر علماء کی آراء
➊ ابن قیم (ت 751ھ)
“وليس الضعيف في اصطلاحه هو الضعيف في اصطلاح المتأخرين…”
(الفروسية المحمدية ط عالم الفوائد (1/ 203)
➋ حافظ ذہبی (ت 748ھ)
“… لمجيئه من وجهين لينين فصاعدا، يعضد كل إسناد منهما الآخر”.
(سير أعلام النبلاء ط الرسالة (13/ 214)
➌ سخاوی
“… فقل: هو ضعيف أي: بهذا السند بخصوصه…”
(فتح المغيث (1/ 347)
حسن لغیرہ کی واضح تعریفات
➊ امام ترمذی (ت 279ھ)
“كل حَدِيث يرْوى… فَهُوَ عندنَا حَدِيث حسن”.
(العلل الصغير للترمذي (ص: 758)
ابن الصلاح نے اس کو حسن لغیرہ کی تعریف قرار دیا۔
(علوم الحديث (ص: 30)
➋ امام نووی (ت 676ھ)
“فهو كالصحيح في أنه يحتج به…”
(إرشاد طلاب الحقائق (1/ 141)
اعتراض کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
“… فإن صرحت به فأولى (ولا تضعف) ذلك المتن (مطلقا…)”
(إرشاد الطلاب(1/ 146۔148)
➌ بقاعی، ابن حجر، ابن الحنبلی، صنعانی
ان سب نے بھی واضح طور پر حسن لغیرہ کی تعریف بیان کی۔
بقاعی: (النكت الوفية بما في شرح الألفية (1/ 76))
ابن حجر: (نزهة النظر ، ت الرحيلي (ص: 130،129))
ابن الحنبلی: (قفو الأثر في صفوة علوم الأثر (ص: 50))
امام صنعانی: (توضيح الأفكار لمعاني تنقيح الأنظار (1/ 155))
نتیجہ:
محدثین کے یہاں حسن لغیرہ کی حجیت ایک معروف اصول ہے۔
بہت سے متقدمین و متاخرین نے یا تو اس کا صراحتاً اقرار کیا ہے یا عملی طور پر اس پر عمل کیا ہے۔
مزید تفصیل اور اعتراضات کے جوابات کے لیے مقالہ بعنوان:
"حسن لغیرہ حجت ہے” ملاحظہ کریں۔