حسن اخلاق کا بیان

مؤلف : ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی رحمہ اللہ

« باب ماجاء فى حسن الخلق »
حسن اخلاق کا بیان
❀ «عن أبى هرير رضى الله عنه قال رسول صلى الله عليه وسلم : إنما بعثت لأتمم مكارم الأخلاق.» [حسن: رواه أحمد 8952، والبخاري فى الأدب المفرد 273]
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں مکارم اخلاق کی تکمیل ہی کے لیے بھیجا گیا ہوں۔“

❀ «عن أبى هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إن الله لا ينظر إلى صوركم و أموالكم ولكن ينظر إلى قلوبكم و أعمالكم. » [صحيح: رواه مسلم 2564 : 34]
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : ”یقیناً اللہ تمہاری صورتوں اور مالوں کو نہیں دیکھتا، لیکن وہ تمھارے دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے۔“

❀ «عن ابي امامة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: انا زعيم ببيت فى ربض الجنة لمن ترك المراء، وإن كان محقا، وببيت فى وسط الجنة لمن ترك الكذب، وإن كان مازحا، وببيت فى اعلى الجنة لمن حسن خلقه» [حسن: رواه أبو داود 4800]
حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اس شخص کے لیے جنت کے کنارے ایک گھر کی ضمانت دیتا ہوں جو جھگڑے کو چھوڑ دیتا ہے چاہے وہ حق پر ہی کیوں نہ ہو، اور اس شخص کے لیے جنت کے ایک گھر کی ضمانت دیتا ہوں جو مذاق میں بھی جھوٹ نہ بولے، اور جو حسن اخلاق کا حامل ہو، اس کے لیے جنت کے سب سے اونچے مقام پر ایک گھر کا ضامن ہوں۔“

❀ «عن عبدالله بن عمرو بن العاص قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول إن المسلم المسدد ليدرك درجة الصوام القوام بآيات الله عزوجل لكرم ضربيته وحسن خلقه» [حسن: رواه أحمد 7052]
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہونے سنا: ”یقیناً درست زبان رکھنے والا مسلمان اپنی کریمانہ خصلت اور حسن اخلاق کی وجہ سے خوب روزہ رکھنے والوں، بکثرت آیات الہٰی کے ساتھ تہجد کا اہتمام کرنے والوں کے مرتبہ کو پالے گا۔“

❀ «عن أبى هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إن الرجل ليدرك خلقه درجة القائم بالليل» [حسن: رواه البخاري فى الأدب المفرد 284]
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یقیناً آدمی اپنے حسن اخلاق کی وجہ سے قیام اللیل (یعنی تہجد کا اہتمام) کرنے والے کے درجے کو پا لیتا ہے۔“

❀ «عن أبى الدرداء عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: مامن شيء اثقل فى الميزان من حسن الخلق . » [صحيح رواه أبوداود 4799، وأحمد 27517، وصححه ابن حبان 481]
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(قیامت کے دن) ترازو میں حسن اخلاق سے بھاری کوئی چیز نہیں ہو گی۔“

❀ «عن أبى هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم . إنكم لا تسعون الناس بأموالكم ولكن ليسعهم منكم بسط الوجه و حسن الخلق» [
حسن : رواه البزار 9651، وابن أبى الدنيا فى التواضع والخمول 190]

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یقیناً تم لوگ اپنا مال خرچ کر کے لوگوں (کا دل نہیں جیت سکتے اور ان) کو خوش نہیں کر سکتے، لیکن تم ان کا دل خندہ پیشانی اور حسن اخلاق سے جیت سکتے ہو۔“

——————

«باب خيار الناس أحاسنهم أخلاقا »
لوگوں میں سب سے بہتر حسن اخلاق کے حاملین ہیں
❀ «عن مسروق، قال: دخلنا على عبد الله بن عمرو حين قدم مع معاوية إلى الكوفة، فذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: لم يكن فاحشا ولا متفحشا وقال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:” إن من اخيركم احسنكم خلقا» [متفق عليه: رواه البخاري 6029، ومسلم 2321]
حضرت مسروق رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جب عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ کوفہ تشریف لائے، تو ہم لوگ ان کے پاس گئے۔ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر چھیٹرا، فرمایا : رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نہ عمومی طور پر فحش گوئی کرنے والے تھے اور نہ بہ تکلف فحش گوئی فرمایا کرتے۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تم میں سے سب بہتر وہ ہے جو سب سے زیادہ حسن اخلاق کا مالک ہے۔“

❀ «عن عبد الله بن عمرو قال قالي رسول الله صلى الله عليه وسلم : ألا أخبركم بأحبكم إلى وأقربكم مني مجلسا يوم القيامة ؟ فسكت القوم فأعادها مرتين، أو ثلاثا، قال القوم: نعم يا رسول الله، قال أحسنكم خلقا » [حسن: رواه أحمد 6735، والبخاري فى الأدب المفرد 272]
حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تمھیں نہ بتاؤں کہ قیامت کے دن تم میں میرے نزدیک سب سے پسندیدہ اور مجھ سے سب سے زیادہ قریب کون ہوگا؟“ سب لوگ خاموش رہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو دو یا تین مرتبہ دہرایا۔ لوگوں نے کہا : جی ہاں اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم میں سب سے زیادہ اچھے اخلاق والا۔“

❀ «عن جابر بن سمرة، رضى الله عنه قال: كنت فى مجلس فيه النبى صلى الله عليه وسلم ؛ قال : وأبي سمرة جالس أمامي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إن الفحش والتفحش ليسا من الإسلام، وإن أحسن الناس إسلاما أحسنهم خلقا.» [حسن: رواه أحمد 20831، وأبو يعلى 7468]
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ایک ایسی مجلس میں شریک تھا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے، اور میرے والد سمرہ میرے سامنے بیٹھے ہوئے تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”بدگوئی عموی ہو یا تکلف کے ساتھ، اسلام سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے، اور بے شک لوگوں میں سب سے بہتر اسلام اس شخص کا ہے جو ان میں سب سے اچھے اخلاق کا مالک ہے۔“

❀ «عن اسامة بن شريك قال: كنا عند النبى صلى الله عليه وسلم كان على رؤوسنا الرخم، ما يتكلم منا متكلم، إذ جاءه ناس من الأعراب، فقالوا : يارسول الله صلى الله عليه وسلم، أفتنا فى كذا، أفتنا فى كذا، فقال : أيها الناس، إن الله قد وضع عنكم الحرج إلا امرأ اقترض من عرض أخيه ذاك الذى خرج وهلك قالوا : افنتداوي يا رسول الله؟ قال: نعم فإن الله ينزل داء إلا أنزل له دواء غير داء واحد قالوا : ما هو يارسول الله قال: الهرم قالوا : فأي الناس إلى الله يا رسول الله ؛ قال : أحب الناس إلى الله أحسنهم خلقا» [صحيح: رواه ابن ماجه 3436، وأحمد 18454، وصححه ابن حبان 486]
حضرت اسامہ بن شریک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، (خاموشی ایسی چھائی تھی) گویا ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں، ہم میں سے کوئی بات کرنے والا نہیں تھا۔ اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ بدّو حاضر ہوئے تو انھوں نے کہا : اے الله کے رسول! ہمیں یہ مسئلہ بتائیے ہمیں، اس کے بارے میں بتائیے، (یعنی انھوں نے مختلف قسم کے سوالات کیے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے لوگو ! یقیناً الله تعالیٰ نے تم پر سے حرج (گناہ) کو اٹھا لیا ہے، اگر کوئی شخص اپنے بھائی کی عزت اور آبرو میں سے کوئی چیز لے لے تو وہی شخص گناہ گار ہے، ہلاک ہونے والا ہے۔“ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا دوا (علاج معالجہ) کر سکتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، بے شک اللہ نے کوئی بیماری نہیں اتاری، مگر اس کے ساتھ اس کی دوا بھی اتار دی ہے، سوائے ایک بیاری کے۔“ انھوں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول !وہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”موت۔“ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول ! لوگوں میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب کون ہیں؟ فرمایا: ”لوگوں میں اللہ کے نزدیک سب سے محبوب وہ ہیں جو سب سے اچھے اخلاق والے ہیں۔“

❀ «عن عبد الله بن مسعود قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ألا أنبئكم بخياركم ؟ قالوا : بلى، قال : خياركم أحسنگه أخلاقا أحسبه قال: الموطئون أكنافا» [حسن: رواه البزار فى مسنده 1723]
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تم میں سب سے بہتر آدمی کی خبر تمھیں نہ دوں؟“ صحابہ نے عرض کیا: کیوں نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم میں بہترین لوگ وہ ہیں جو سب سے اچھے اخلاق والے ہیں“، میں سمجھتاہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا : ”خاک ساری کرنے والے۔“

❀ «عن جابر رضى الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إن من احبكم إلى واقربكم مني مجلسا يوم القيامة احاسنكم اخلاقا، وإن ابغضكم إلى وابعدكم مني مجلسا يوم القيامة الثرثارون والمتشدقون، قالوا: يا رسول الله قد علمنا الثرثارون، والمتشدقون، فما المتفيهقون؟ قال: المتكبرون» [حسن: رواه الترمذي 2018]
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میرے نزدیک تم میں سب سے محبوب اور قیامت کے دن مجلس کے اعتبار سے مجھ سے سب سے زیادہ قریب وہ لوگ ہوں گے جو تم میں سب سے اچھے اخلاق والے ہوں گے۔ قیامت کے دن مجھ سے سب سے زیادہ دور وہ لوگ ہوں گے جو منہ پھاڑ کر کثرت سے گفتگو کرنے والے اور تکبر کرنے والے ہوں گے۔“ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول الله ! زیادہ بولنے والوں کو ہم جانتے ہیں۔ البته «متفيهقون » سے مراد کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”«المتكبرون » تکبر کرنے والے۔“

❀ «عن أبى هريرة قال سمعت أبا القاسم صلى الله عليه وسلم يقول: خياركم أحاسنكم أخلاقا إذا فقهوا » [صحيح :رواه أحمد 10022، والبخاري فى الأدب المفرد 285]
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں نے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”تم میں سب سے بہتر وہ ہیں جو اچھے اخلاق والے ہیں۔ اگر وہ دین کی بھی سجھ حاصل کر لیں (تو پھر کیا کہنے!)۔“

——————

« باب فضل الصدق وذم الكذب»
سچائی کی فضیلت اور جھوٹ کی مذمت
❀ «عن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه، عن النبى صلى الله عليه وسلم، قال: إن الصدق يهدي إلى البر وإن البر يهدي إلى الجنة، وإن الرجل ليصدق حتى يكتب صديقا، وإن الكذب يهدي إلى الفجور وإن الفجور يهدي إلى النار، وإن الرجل ليكذب حتى يكتب كذابا »
«وفي لفظ : عليكم بالصدق فإن الصدق يهدي إلى البر وان البر يهدى إلى الجنة وما يزال الرجل يصدق ويتحري الصدق حتي يكتب عند الله صديقا وإياكم والكذب فإن الكذب يهدي إلى الفجور وإن الفجور يهديى إلى النار وما يزال الرجل يكذب ويتحرى الكذب حتي يكتب عند الله كذابا » [متفق عليه: رواه البخاري 6094، ومسلم 2607: 103 باللفظ الأول. ورواه مسلم 2607: 105 باللفظ الثاني.]
حضرت عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یقیناً سچائی نیکی کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور نیکی جنت کا راستہ دکھاتی ہے۔ آدمی سچ بولتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ سچ لکھا جاتا ہے۔ اور یقیناً جھوٹ بدی کا راستہ دکھاتا ہے اور بدی جہنم کا راستہ دکھاتی ہے اور آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے، یہاں تک کہ بڑا جھوٹا لکھاجاتا ہے۔“
اور دوسرے الفاظ میں اس طرح مروی ہے: ”تم لوگ سچائی کو لازم پکڑو۔ یقیناً سچائی نیکی کی طرف رہنمائی کرتی ہے، اور یقیناً نیکی جنت کا راستہ دکھاتی ہے۔ آدمی برابر سچ بولتا رہتا ہے اور سچائی کی تلاش میں رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ کے نزدیک بڑا سچا لکھا جاتا ہے۔ (اور اے لوگو!) جھوٹ سے بچو، یقیناً جھوٹ بدی کا راستہ بتاتا ہے، اور بدی انسان کو جہنم کی راہ دکھاتی ہے۔ آدمی برابر جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ کی تلاش میں رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالی کے نزدیک بڑا جھوٹا لکھاجاتا ہے۔“

❀ «عن اوسط بن إسماعيل البجلي , انه سمع ابا بكر , حين قبض النبى صلى الله عليه وسلم , يقول: قام رسول الله صلى الله عليه وسلم فى مقامي هذا عام الاول , ثم بكى ابو بكر , ثم قال: عليكم بالصدق فإنه مع البر , وهما فى الجنة , وإياكم والكذب فإنه مع الفجور , وهما فى النار , وسلوا الله المعافاة , فإنه لم يؤت احد بعد اليقين خيرا من المعافاة , ولا تحاسدوا , ولا تباغضوا , ولا تقاطعوا , ولا تدابروا , وكونوا عباد الله إخوانا » [صحيح : رواه ابن ماجه 3849، وأحمد 17.5]
حضرت اوسط بن اسماعیل بَجَلی سے روایت ہے، انھوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد فرماتے ہوئے سنا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزشتہ سال میری اس جگہ کھڑے ہوئے، پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ رو پڑے۔ پھر فرمایا : تم لوگ سچائی کو لازم پکڑو، کیونکہ وہ نیکی کے ساتھ ہے۔ سچائی اور نیکی دونوں جنت میں ہیں، اور تم لوگ جھوٹ سے بچو، کیوں کہ وہ بدی کے ساتھ ہے۔ جھوٹ اور بدی دونوں جہنم میں ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ سے عافیت کے طلب گار بنو کیونکہ کسی انسان کو ایمان کے بعد عافیت سے بہتر کوئی چیز نہیں دی گئی۔ اور آپس میں حسد نہ کرو، دشمنی نہ رکھو اور رشتے ناطوں کو نہ توڑو۔ اور ایک دوسرے کو بے یار و مددگار نہ چھوڑو، اور اللہ کے بندے، بھائی بھائی بن کر رہو۔

——————

«باب فضل الرفق»
نری کی فضیلت کا بیان
❀ «عن جرير بن عبدالله رضى الله عنه قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : من يحرم الرفق، يحرم الخير » [صحيح: رواه مسلم 2592: 7475]
حضرت جریر بن عبد اللہ بجلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جو نرمی سے محروم کیا جاتا ہے وہ خیر سے محروم کر دیا جاتا ہے۔“

❀ « عن عائشة رضي الله عنها عن النبى صلى الله عليه وسلم : قال : إن الرفق لايكون شيء الا زانه. ولا ينزع من شيء إلا شانه. » [صحيح: رواه مسلم 2594: 78]
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یقیناً نرمی جس چیز میں ہوتی ہے وہ اس کو
خوش نما بنا دیتا ہے اور جس سے نکالی جاتی ہے، اس کو بد نما بنا دیتا ہے۔“

❀ «عن عائشة رضي الله عنها زوج النبى صلى الله عليه وسلم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ياعائشة إن الله الرفيق يحب الرفق ويعطي على الرفق مالايعطي على العنف وما يعطى على ما سواه» [صحيح : رواه مسلم 2593]
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”اے عائشہ ! بے شک اللہ تعالی نرم خو ہے اور نرم خوئی کو پسند فرماتا ہے اور نرمی اختیار کرنے پر وہ کچھ نوازتا ہے جو سختی پر نہیں نوازتا، اور نرمی کے سوا کسی اور چیز پر نہیں دیتا۔“

❀ «عن عائشة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لها: ياعائشة ارفقي فإن الله إذا أراد باهل بيت خيرا دلهم على باب الرفق. » [حسن: رواه أحمد 24734]
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”اے عائشہ ! نرمی اختیار کرو۔ جب اللہ تعالیٰ کسی گھر والوں کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو انھیں نرمی کی توفیق دے دیتا ہے، ان پر نرمی کے دروازے کو کھول دیتا ہے۔“

❀ «عن جابر بن عبد الله ان النبى صلى الله عليه وسلم : قال : إذا أراد الله بقوم خيرا أدخل عليهم الرفق. » [حسن: رواه البزار كشف الأستار 1965.]
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کے ساتھ بھلائی
کا ارادہ فرماتا ہے تو ان میں نرمی داخل فرما دیتا ہے۔“

❀ «عن عائشة عن النبى صلى الله عليه وسلم قال إن الله رفيق يحب الرفق فى الأمر كله» [صحيح: رواه ابن ماجه 368، وأحمد 24553]
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک الله نرم مزاج ہے، تمام معاملات میں نرمی کو پسند فرماتا ہے۔“
❀ «عن أنس بن مالك قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إن الله رفيق يحب الرفق ويعطي عليه مالا يعطى على العنف. » [حسن: رواه البزار 7114، والطبراني فى الصغير 221، والبيهقي فى الشعب 10554]
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک الله نرم خو ہے، نرم خوئی کو پسند فرماتا ہے اور نرمی پر جو دیتا ہے وہ سختی پر نہیں دیتا۔“

❀ « عن أبى هريرة رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال : إن الرفق يحب الرفق ويعطي عليه ما لا يعطى على العنف.» [حسن: رواه ابن ماجه 3688، والبزار فى مسنده 9253، وصححه ابن حبان 549]
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک اللہ نرم خو ہے، نرم خوئی کو پسند فرماتا ہے
اور نرمی پر وہ کچھ دیتا ہے جو سختی پر نہیں دیتا۔“

❀ «عن على بن أبى طالب قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إن الله رفيق يجب الرفق ويعطي على الرفق مالا يعطي على العنف.» [حسن: رواه أحمد 902، وأبو يعلى 490]
حضرت علی بن ابو طالب سے روایت ہے۔ انھوں نے کہا کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”بے شک اللہ نرم خو ہے، نرم خوئی کو پسند فرماتا ہے اور نرمی پر جو دیتا ہے وہ سختی پر نہیں دیتا۔“

❀ «عن خالد بن معدان عن أبيه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إن الله رفيق يجب الرفق، ويعين عليه مالا يعين على العنف.» [حسن: رواه عبد الرزاق فى مصنفه 9251]
حضرت خالد بن معدان اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک اللہ نرم خو ہے اور نرم خوئی کو پسند فرماتا ہے اور نرمی پر وہ کچھ مدد فرماتا ہے جو سختی پر نہیں عطا فرماتا۔“

——————

«باب استحباب العفو»
درگزر کے استحباب کا بیان
✿ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:
«وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا ۗ أَلَا تُحِبُّونَ أَن يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ » [سورة النور:22]
”اور معانی اور درگزر سے کام لو۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمھارے قصور بخش دے؟ اللہ تو بڑا ہی بخشے والارحمت والا ہے۔

❀ «عن أبى هريرة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ما نقصت صدقه من مال وما زاد الله بعفو إلا عزا،وما تواضع أحد لله الا رفعه.» [صحيح: رواه مسلم 2588]
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صدقہ سے مال میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی، اور درگزر کرنے سے اللہ بندے کی عزت میں اضافہ ہی کرتا ہے، اور جس کسی نے اللہ کی خاطر خاک ساری اختیار کی اللہ نے اس کے رتبہ کو بلند فرمایا ہے۔“

❀ «عن عقبة بن عامر قال لقيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال لي يا عقبة بن عامر صل من قطعك و أعط من حرمك واعف عمن ظلمك قال ثم اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال لي يا عقبة بن عامر أملاك لسانك وابك على خطيئتك وليسعك بيتك. » [حسن: رواه أحمد 17452.]
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عقبہ بن عامر ! تم اس شخص کے ساتھ صلہ رحمی کرو جو تمھارے ساتھ قطع رحمی کرتا ہے۔ اور اس کو دو جو تم کو محروم کرتا ہے اور اس سے درگزر کر جو تم پر ظلم کرتا ہے۔“ عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دوبارہ حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: اے عقبہ بن عامر ! اپنی زبان پر قابور کو اپنی خطاؤوں پر آنسو بہاؤ، اور گھر ہی تک محدود ہو۔ (یعنی اپنا وقت زیادہ تر گھر میں گزارو)۔

——————

«باب إن الإسلام دين حنيفية سمحة »
بے شک اسلام یکسوی والا آسان مذہب ہے
✿ «وَقَالُوا كُونُوا هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ تَهْتَدُوا ۗ قُلْ بَلْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۖ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ‎» [البقره:135]
”یہودیوں نے کہا یہودی ہو جاؤ، ہدایت پاؤ گے، نصاری نے کہا نصرانی ہو جاؤ، ہدایت پاؤ گے، لیکن تم کہو : نہیں۔ اس کی راہ ہی حنیفی راہ ہے جو ابراہیم کی راہ تھی، اور یقیناً وہ شرک کرنے والوں میں سے نہ تھا۔“

❀ «عن عائشة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يؤمئذ: لتعلم يهود أن فى ديننا فسحة إني أرسلت بحينفة سمحة» [حسن: رواه الإمام أحمد 24855]
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن فرمایا: ”یہود بخوبی یہ بات جان لیں کہ ہمارے دین میں کشادگی ہے اور مجھے دین حنیف کے ساتھ بھیجا گیا ہے جو نہایت آسان ہے۔“
——————

اس تحریر کو اب تک 11 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply