إن الحمد لله نحمده، ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له ، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله . أما بعد:
ذکر الہی
قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا ﴿٣٥﴾
(33-الأحزاب:35)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اور اللہ کو خوب یاد کرنے والے مردوں اور اللہ کو خوب یاد کرنے والی عورتوں کے لیے اللہ نے مغفرت اور اجر عظیم تیار کر رکھا ہے۔“
حدیث : 1
عن عائشة قالت: كان النبى صلى الله عليه وسلم يذكر الله عز وجل على كل أحيانه
صحيح مسلم، کتاب الحيض ، رقم : 826 .
”سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت اللہ عز وجل کو یاد کرتے تھے ۔“
رات کی آخری گھڑیوں میں دعا کرنا
قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: لَيْسُوا سَوَاءً ۗ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ أُمَّةٌ قَائِمَةٌ يَتْلُونَ آيَاتِ اللَّهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَهُمْ يَسْجُدُونَ ﴿١١٣﴾
(3-آل عمران:113)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”وہ سب برابر نہیں۔ اہل کتاب میں سے ایک جماعت (حق پر) قائم ہے، جو رات کے اوقات میں اللہ کی آیات کی تلاوت کرتے ہیں اور وہ سجدے کرتے ہیں۔“
حدیث :2
وعن جابر رضی اللہ عنہ ، قال : سمعت النبى صلى الله عليه وسلم يقول: إن فى الليل لساعة ، لا يوافقها رجل مسلم ، يسأل الله فيها خيرا من أمر الدنيا والآخرة، إلا أعطاه إياه، وذلك كل ليلة
صحیح مسلم، کتاب صلاة المسافرين، باب في الليل ساعة مستجاب فيها الدعاء ، رقم : 1770 .
” اور سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ رات میں ایک ایسی گھڑی ہے کہ جب وہ کسی مسلمان کو مل جاتی ہے، وہ اس میں دنیا اور آخرت کی بھلائی کی دعا مانگتا ہے تو اللہ اسے وہ بھلائی عطا فرما دیتا ہے، اور یہ گھڑی ہر رات میں ہوتی ہے۔“
صبر کرنا
قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَنُبَوِّئَنَّهُم مِّنَ الْجَنَّةِ غُرَفًا تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ نِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ ﴿٥٨﴾ الَّذِينَ صَبَرُوا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ ﴿٥٩﴾
(29-العنكبوت:58، 59)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور جو لوگ ایمان لائیں گے اور عمل صالح کریں گے، ہم انھیں جنت کے بالا خانوں میں جگہ دیں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، جن میں ہمیشہ کے لیے رہیں گے، یہ بہت ہی اچھا بدلہ ہوگا نیک عمل کرنے والوں کا، جو صبر کرتے ہیں اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔“
حدیث : 3
وعن صهيب ، قال: قال: رسول الله صلى الله عليه وسلم : عجبا لامر المؤمن ، إن أمره كله خير ، وليس ذاك لاحد إلا للمؤمن، إن اصابته سراء شكر ، فكان خيرا له ، وإن أصابته ضراء صبر ، فكان خير ا له
صحیح مسلم، کتاب الزهد، رقم : 7500.
”اور سید نا صہیب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مومن آدمی کا معاملہ نہایت عجیب ہے۔ بلاشبہ اس کے ہر معاملے میں خیر ہی خیر ہے اور یہ بات سوائے مومن آدمی کے کسی کو حاصل نہیں ہے۔ اگر اس کو خوشی حاصل ہوتی ہے اور وہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے تو بھی اسے اجر وثواب ملتا ہے، اور اگر اس کو نقصان، کوئی دکھ، تکلیف پہنچے اور وہ اس پر صبر کرے تو بھی اس کو اجر وثواب ملتا ہے۔“
شکر گزاری
قَالَ اللهُ تَعَالَى: رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَىٰ وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ ﴿١٩﴾
(27-النمل:19)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”میرے رب! مجھے توفیق دے کہ تیری ان نعمتوں کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھے اور میرے باپ ماں کو دی ہیں، اور ایسا نیک کام کروں جسے تو پسند کرتا ہے، اور مجھے اپنی رحمت سے اپنے نیک بندوں میں شامل کر دے۔“
حدیث :4
وعن معاذ بن جبل رضي الله عنه قال: أخذ بيدى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني لأحبك يا معاذ فقلت: وأنا أحبك يا رسول الله! قال: فلا تدع أن تقول فى دبر كل صلاة: أللهم أعنى على ذكرك وشكرك وحسن عبادتك
سنن ابوداؤد ، کتاب الوتر، باب الإستغفار، رقم : 1522۔ محدث البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا ہاتھ پکڑ کر دو مرتبہ ارشاد فرمایا: معاذ! اللہ کی قسم! میں تجھ سے محبت کرتا ہوں۔ پھر ارشاد فرمایا: میں تمھیں وصیت کرتا ہوں کہ ہر نماز کے بعد یہ دعا ترک نہ کرنا، اسے ضرور پڑھنا: اے اللہ! تو اپنا ذکر کرنے اور اپنا شکر ادا کرنے اور اچھے انداز سے عبادت ادا کرنے میں میری مدد فرما۔ (راوی حدیث کا کہنا ہے کہ ) سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے اپنے شاگرد الصنا بحی کو یہی وصیت کی اور انھوں نے اپنے شاگردا بو عبد الرحمن کو اس کی وصیت کی۔“
عاجزی و انکساری
قَالَ اللهُ تَعَالَى: تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا ۚ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ ﴿٨٣﴾
(28-القصص:83)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”وہ آخرت کا گھر (جنت) ہم انھیں دیں گے جو سر زمین پر اپنی بڑائی اور فساد نہیں چاہتے ہیں، اور آخرت میں اچھا انجام اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے ہوگا۔“
حدیث : 5
وعن أبى هريرة رضی اللہ عنہ ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ما نقصت صدقة من مال ، وما زاد الله عبدا بعفو إلا عزا، وما تواضع احد لله إلا رفعه الله
صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، رقم : 2588.
”’اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا، اور اللہ بندے کو عفو و درگزر کرنے پر زیادہ عزت بخشتا ہے، اور جو بھی اللہ کی رضا و خوشنودی کے لیے عجز و نیاز اپناتا ہے، اللہ اس کو رفعت و بلندی بخشتا ہے۔ “
نماز قائم کرنا
قَالَ اللهُ تَعَالَى: كَلَّا لَا تُطِعْهُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِب ﴿١٩﴾
(96-العلق:19)
❀ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:
” ہر گز نہیں، آپ اس کی بات نہیں ماہیے ، اور اپنے رب کے سامنے سجدہ کیجیے اور اس کا قرب حاصل کیجیے۔ “
حدیث : 6
وعن أنس رضي الله عنه ، قال: قال النبى صلى الله عليه وسلم : إن أحدكم إذا قام فى صلاته فإنما يناجي ربه
صحیح بخاری، کتاب الصلاة، رقم : 405 .
”اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یقیناً جب کوئی شخص نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو گویا وہ اپنے رب سے سرگوشی کرتا ہے۔ “
زکوة دینا
قَالَ اللهُ تَعَالَى: الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿٣﴾
(2-البقرة:3)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”جو غیبی امور پر ایمان لاتے ہیں، اور نماز قائم کرتے ہیں ، اور ہم نے ان کو جو روزی دی ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ “
حدیث : 7
وعن أبى هريرة رضي الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: سبعة يظلهم الله فى ظله يوم لا ظل إلا ظله: الإمام العادل، وشاب نشأ بعبادة الله ، ورجل قلبه معلق فى المساجد، ورجلان تحابا فى الله اجتمعا عليه وتفرقا عليه، ورجل دعته امرأة ذات منصب وجمال فقال: إني أخاف الله ، ورجل تصدق بصدقة فأخفاها حتى لا تعلم يمينه ما تنفق شماله ، ورجل ذكر الله خاليا ففاضت عيناه
صحیح بخاری، کتاب الزكاة، رقم : 1422 ، صحیح مسلم، رقم : 1031 .
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سات قسم کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اس دن اپنے سائے میں سایہ مہیا کرے گا جس دن اس کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔ عدل کرنے والا حکمران، اور وہ نوجوان جو اللہ کی عبادت کے ساتھ پروان چڑھا، اور وہ آدمی جس کا دل مسجد میں اٹکا ہوا ہے، اور ایسے دو آدمی جنہوں نے اللہ کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کی ، اسی پر اکٹھے ہوئے اور اسی پر جدا ہوئے ، اور ایسا آدمی جسے مرتبے اور حسن والی عورت نے گناہ کی دعوت دی تو اس (آدمی) نے کہا: میں اللہ سے ڈرتا ہوں، اور وہ آدمی جس نے چھپا کر صدقہ کیا حتی کہ اس کا بایاں ہاتھ جو کچھ خرچ کر رہا ہے، اسے دایاں نہیں جانتا، اور وہ آدمی جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا تو اس کی آنکھیں بہنے لگیں۔ “
روزہ رکھنا
قَالَ اللهُ تَعَالَى: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ﴿١٨٣﴾
(2-البقرة:183)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کر دیے گئے ویسے ہی جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، تا کہ تم تقویٰ کی راہ اختیار کرو۔“
حدیث :8
وعنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : كل عمل ابن آدم له إلا الصيام فإنه لى ، وأنا أجزى به [يدع شهوته وأكله وشربه من أجلي والصيام جنة وإذا كان يوم صوم أحدكم فلا يرفت ولا يصخب، فإن سابه أحد أو قاتله فليقل إني امرؤ صائم . والذي نفس محمد بيده لخلوف فم الصائم أطيب عند الله من ريح المسك ، للصائم فرحتان يفرحهما: إذا أفطر فرح وإذا لقي ربه فرح بصومه
صحيح البخارى، كتاب الصوم، رقم : 1894 ، 1904 وكتاب التوحيد، رقم : 7492 ، صحیح مسلم، کتاب الصوم، باب فضل الصيام رقم : 2706 ۔
” اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: انسان کا ہر نیک عمل خود اسی کے لیے ہے مگر روزہ کہ وہ خاص میرے لیے ہوتا ہے اور میں اس کا صلہ خود دوں گا۔ روزہ دار میری خاطر اپنی خواہشات نفسانیہ، اپنے کھانے اور اپنے پینے کو ترک کرتا ہے۔ اور روزہ گناہوں کے لیے ایک ڈھال ہے۔ اگر کوئی روزے سے ہو تو اسے فحش گوئی نہیں کرنی چاہیے اور نہ ہی وہ شور مچائے۔ اگر کوئی شخص اسے گالی دے یا اُس سے لڑائی جھگڑا کرے تو اُس کا جواب یہ ہونا چاہیے: میں تو روزہ دار آدمی ہوں۔ اُس ذاتِ اقدس کی قسم ! جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے! روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ بہتر ہے۔ روزہ دار کو دو خوشیاں حاصل ہوں گی۔ (ایک تو جب ) وہ افطار کرتا ہے، اس وقت وہ خوش ہوتا ہے۔ اور دوسرے جب وہ اپنے رب سے ملاقات کرے گا تو اپنے روزے کا ثواب پا کر خوش ہوگا۔ “
فحش کاموں سے بچنا
قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَالَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَإِذَا مَا غَضِبُوا هُمْ يَغْفِرُونَ ﴿٣٧﴾
(42-الشورى:37)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اور جو بڑے گناہوں اور بے حیائی سے بچتے ہیں، اور جب انھیں کسی پر غصہ آتا ہے تو معاف کر دیتے ہیں۔ “
حدیث : 9
وعن ابن مسعود، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ليس المؤمن بالطعان ، ولا اللعان ، ولا الفاحش ، ولا البذي
سنن الترمذى، كتاب الأشربة، رقم: 1977 ، سلسلة الصحيحة، رقم : 893 ۔
”اور سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مومن آدمی نہ ہی طعن و تشنیع کرنے والا ہوتا ہے۔ نہ ہی لعنت کرنے والا ، نہ ہی فحش کلامی کرنے والا اور نہ ہی بد زبان گالی گلوچ بکنے والا ہوتا ہے۔ “
بری خواہشات سے بھی اجتناب کرنا
قَالَ اللهُ تَعَالَى: الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ ۚ إِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَةِ ۚ هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنشَأَكُم مِّنَ الْأَرْضِ وَإِذْ أَنتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ ۖ فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ ۖ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَىٰ ﴿٣٢﴾
(53-النجم:32)
❀اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”جو لوگ بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے بچتے ہیں، سوائے کچھ چھوٹے گناہوں کے، بے شک آپ کا رب بڑا مغفرت کرنے والا ہے، وہ تمھیں اُس وقت سے خوب جانتا ہے جب اُس نے تمھیں زمین سے پیدا کیا تھا، اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹوں میں پلتے ہوئے بچے تھے، پس تم لوگ اپنی پاکی نہ بیان کرو، وہ اُس شخص سے خوب واقف ہے جو اُس سے ڈرتا ہے۔ “
حدیث : 10
وعن أنس ، قال: إنكم لتعملون أعمالا هي أدق فى أعينكم من الشعر، إن كنا لنعدها على عهد النبى صلى الله عليه وسلم من الموبقات يعني المهلكات
صحيح البخارى، كتاب الرقاق، رقم : 6492 ۔
”اور سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: آج تم (غیر صحابہ ) لوگ ایسے ایسے کام کرتے ہو جو تمہاری نظر میں بال سے زیادہ باریک ہوتے ہیں، یعنی تم لوگ ان کو حقیر جانتے ہو۔ بڑا گناہ نہیں سمجھتے ۔ جبکہ ہم لوگ نبی معظم، رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک میں ان کاموں کو ہلاک کر دینے والے سمجھتے تھے۔ “
عفو و درگزر کرنا
قَالَ اللهُ تَعَالَى: الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ﴿١٣٤﴾
(3-آل عمران:134)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”ایمان والے وہ ہوتے ہیں جو فراخی رزق اور تنگ دستی میں فی سبیل اللہ خرچ کیے جاتے ہیں اور وہ غصے کو پی جانے والے ہوتے ہیں۔ وہ لوگوں سے درگزر کرنے والے ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ تو نیکیاں کرنے والوں کو بہت پسند کرتا ہے۔“
حدیث : 11
وعن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من أنظر معسرا أو وضع له وقاه الله من قبح جهنم، ألا إن عمل الجنة حزن فيح بربوة ثلاثا ، ألا إن عمل النار سهل بشهوة، والسعيد من وقي الفتن، وما من جرعة أحب إلى الله من جرعة غيط يكظمها عبد، ما كظمها عبد لله إلا ملا الله جوفه إيمانا
مسند أحمد : 327/1 ، مجمع الزوائد : 134، 134 ۔ ابن کثیر نے اسے حسن قرار دیا ہے۔
”اور سید نا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص کسی تنگ دست آدمی کو جو اُس کا مقروض ہو مہلت دے یا اپنا قرض اسے معاف کر دے، اللہ تعالیٰ اسے جہنم کی سخت ترین گرمی سے بچا لیتا ہے۔ لوگو! سنو، جنت کے اعمال نہایت سخت اور مشکل ہیں۔ ( یہ لفظ تین بار ارشاد فرمایا۔) خبردار! لوگو! جہنم کے کام آسان اور سہل ہیں۔ نیک بخت وہی ہے جوفتنوں سے بچ جائے۔ اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ گھونٹ غصے کا وہ گھونٹ ہے کہ جسے آدمی اللہ کی خاطر پی لے۔ جو آدمی اپنا غصہ پی لیتا ہے اللہ تعالیٰ اُس کے دل کو ایمان سے بھر دیتا ہے۔“
دوسروں سے حسن سلوک سے پیش آنا ہے
قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا ﴿٣٦﴾
(4-النساء:36)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اور اللہ کی عبادت کرو، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، اور والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو، اور رشتہ داروں، اور یتیموں، اور مسکینوں، اور رشتہ دار پڑوسی ، اور اجنبی پڑوسی ، اور پہلو سے لگے ہوئے دوست، اور مسافر، اور غلاموں اور لونڈیوں کے ساتھ ۔ بے شک اللہ اکڑنے والے اور بڑا بننے والے کو پسند نہیں کرتا۔“
حدیث :12
وعن النعمان بن بشير ، قال: قال رسول الله : مثل المؤمنين فى توادهم وتراحمهم وتعاطفهم مثل الجسد إذا اشتكى منه عضو تداعى له سائر الجسد بالسهر والحمى
صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، رقم : 6586.
”اور سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اہل ایمان، مسلمانوں کی مثال اُن کو باہمی الفت و محبت ، دوستی و اتحاد، با ہمی رحم و شفقت اور با ہمی اُنسیت و غم گساری میں ایک جسم کی طرح ہوتی ہے۔ کہ بدن میں سے جب کوئی عضو درد محسوس کرتا ہے تو سارا بدن اس درد میں اس کا شریک ہو جاتا ہے۔ نیند نہیں آتی اور بخار آلیتا ہے۔ “
جاہلیت کے کاموں سے اعراض کرنا
قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَعِبَادُ الرَّحْمَٰنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا ﴿٦٣﴾
(25-الفرقان:63)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اور رحمن کے بندے وہ لوگ ہیں جو زمین پر نرمی اور عاجزی کے ساتھ چلتے ہیں، اور جب نادان لوگ ان کے منہ لگتے ہیں تو سلام کر کے گزر جاتے ہیں۔“
حدیث : 13
وعن المعرور بن سويد ، قال: مررنا بأبي ذر بالربدة وعليه برد وعلى غلامه مثله فقلنا : يا أبا ذرا لو جمعت بينهما كانت حلة ، فقال: إنه كان بيني وبين رجل من إخواني كلام وكانت أمه أعجمية فعيرته بأمه فشكاني إلى النبى صلى الله عليه وسلم فلقيت النبى صلى الله عليه وسلم فقال: يا أبا ذرا إنك امرؤ فيك جاهلية ، قلت: يا رسول الله! من سب الرجال سبوا أباه وأمه قال: يا أبا ذرا إنك امرؤ فيك جاهلية هم إخوانكم جعلهم الله تحت أيديكم فأطعموهم مما تأكلون وألبسوهم مما تلبسون ولا تكلفوهم ما يغلبهم فإن كلفتموهم فأعينوهم
صحیح مسلم، کتاب الايمان، رقم : 4313 .
”اور معرور بن سوید نے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا: ہم ربذہ (کے مقام) میں حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کے ہاں گزرے، ان (کے جسم) پر ایک چادر تھی اور ان کے غلام (کے جسم پر )بھی ویسی ہی چادر تھی۔ تو ہم نے کہا: ابوذر! اگر آپ ان دونوں (چادروں) کو اکٹھا کر لیتے تو یہ ایک حلہ بن جاتا۔ انہوں نے کہا: میرے اور میرے کسی (مسلمان) بھائی کے درمیان تلخ کلامی ہوئی، اس کی ماں عجمی تھی، میں نے اسے اس کی ماں کے حوالے سے عار دلائی تو اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس میری شکایت کر دی، میں نبی صلى الله عليه وسلم سے ملا تو آپ نے ارشاد فرمایا: ابوذر! تم ایسے آدمی ہو کہ تم میں جاہلیت ( کی عادت موجود ) ہے۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول! جو دوسروں کو برا بھلا کہتا ہے وہ اس کے ماں اور باپ کو برا بھلا کہتے ہیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا: ابوذر! تم ایسے آدمی ہو جس میں جاہلیت ہے، وہ (چاہے کنیز زادے ہوں یا غلام یا غلام زادے) تمہارے بھائی ہیں، اللہ نے انہیں تمہارے ماتحت کیا ہے، تم انہیں وہی کھلا ؤ جو خود کھاتے ہو اور وہی پہناؤ جو خود پہنتے ہو اور ان پر ایسے کام کی ذمہ داری نہ ڈالو جو ان کے بس سے باہر ہو، اگر ان پر ( مشکل کام کی ) ذمہ داری ڈالو تو ان کی اعانت کرو۔“
دین اسلام کی راہ میں محنت کرنا
قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ ﴿٦٩﴾
(29-العنكبوت:69)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اور جو لوگ ہمارے دین کی خاطر کوشش کرتے ہیں، ہم انھیں اپنے راہِ راست پر ڈال دیتے ہیں، اور بے شک اللہ تعالیٰ نیک عمل کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ “
حدیث :14
وعن فضالة بن عبيد ، قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: المجاهد من جاهد نفسه فى طاعة الله
سنن ترمذی، رقم : 1621، مسند أحمد : 20/6، 22، سلسلة الصحيحة، رقم : 549 ۔
”اور حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرماتے تھے: مجاہد وہ ہے جس نے اپنے نفس کو اللہ کی اطاعت پر جھکانے کے لیے اس سے جہاد کیا۔ “
برائی کابدلہ اچھائی سے
قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۚ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ ﴿٣٤﴾ وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ ﴿٣٥﴾
(41-فصلت:34، 35)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور نیکی اور برائی برابر نہیں ہوتی ، آپ برائی کو بطریق احسن ٹال دیجیے، تو آپ دیکھیں گے کہ تمھارے اور جس آدمی کے درمیان عداوت ہے، وہ آپ کا گہرا دوست بن جائے گا اور یہ صفت صرف اُن لوگوں میں پیدا ہوتی ہے جو صبر کرتے ہیں، اور یہ صفت صرف بڑے نصیب والے کو حاصل ہوتی ہے۔“
حدیث : 15
وعن عائشة رضی اللہ عنہا ، قالت: ما ضرب رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم شيئا قط بيده، ولا امرأة ولا خادما ، إلا أن يجاهد فى سبيل الله ، وما نيل منه شيء قط فينتقم من صاحبه ، إلا أن ينتهك شيئا من محارم الله فينتقم لله بها
صحيح مسلم، كتاب الفضائل، باب مباعده للآثام رقم : 6050 .
”اور اُم المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی کو اپنے ہاتھ سے نہیں مارا، نہ عورت کو اور نہ ہی کسی خادم کو ۔ البتہ جہاد فی سبیل اللہ میں مارا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو کسی نے نقصان پہنچایا تو اس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدلہ نہیں لیا۔ البتہ اگر کوئی اللہ کے محارم کو پامال کرتا تو اُس سے اللہ عزوجل کے لیے بدلہ لیتے تھے۔ “
رحم کرنا
قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ ﴿١٠٧﴾
(21-الأنبياء:107)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اور ہم نے آپ کو سارے جہان والوں کے لیے سراپا رحمت بنا کر بھیجا ہے۔“
حدیث : 16
وعن جرير رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من لا يرحم الناس لا يرحمه الله عز وجل
صحیح مسلم، کتاب الفضائل، رقم : 6029۔
”اور سید نا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو آدمی لوگوں پر رحم نہیں کرتا اللہ عز وجل بھی اُس پر رحم نہیں فرماتا۔ “
اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا
قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَنُبَوِّئَنَّهُم مِّنَ الْجَنَّةِ غُرَفًا تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ نِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ ﴿٥٨﴾ الَّذِينَ صَبَرُوا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ ﴿٥٩﴾
(29-العنكبوت:58، 59)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور جو لوگ ایمان لائیں گے اور عمل صالح کریں گے، ہم انھیں جنت کے بالا خانوں میں جگہ دیں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، جن میں ہمیشہ کے لیے رہیں گے، یہ بہت ہی اچھا بدلہ ہوگا نیک عمل کرنے والوں کا ، جو صبر کرتے ہیں اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔“
حدیث : 17
وعن عمر بن الخطاب، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: لو أنكم كنتم توكلون على الله حق توكله لرزقتم كما ترزق الطير، تعدوا خماصا وتروح بطانا
سنن ترمذى، كتاب الزهد ، باب في التوكل على الله ، رقم : 2344 ۔ محدث البانی نے اسے حسن صحیح کہا ہے۔
”اور سیدنا عمر بن خطاب رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر تم اللہ عزوجل پر اس طرح سے تو کل کرتے جیسا اُس پر بھروسہ کرنے کا حق ہے تو تمہیں ٹھیک اس طرح سے روزی دی جاتی جس طرح پرندے کو رزق دیا جاتا ہے۔ پرندہ صبح کے وقت خالی پیٹ نکلتا ہے اور پچھلے پہر پیٹ بھر کر واپس پلٹتا ہے۔ “
رحمت الہی سے پر امید رہنا
قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَإِذَا أَنْعَمْنَا عَلَى الْإِنسَانِ أَعْرَضَ وَنَأَىٰ بِجَانِبِهِ ۖ وَإِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ كَانَ يَئُوسًا ﴿٨٣﴾
(17-الإسراء:83)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور جب ہم انسان کو نعمت دیتے ہیں تو وہ منہ پھیر لیتا ہے، اور بندگی سے دور ہوجاتا ہے، اور جب اُسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ نا امید ہو جاتا ہے۔ “
حدیث : 18
وعن أبى هريرة، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إن الله خلق الرحمة يوم خلقها مائة رحمة ، فأمسك عنده تسعا وتسعين رحمة وأرسل فى خلقه كلهم رحمة واحدة ، فمن ذلك الجزء تتراحم الخلق ، حتى ترفع الفرس حافرها عن ولدها خشية أن تصيبه فلو يعلم الكافر بكل الذى عند الله من الرحمة لم ييأس من الجنة، ولو يعلم المؤمن بكل الذى عند الله من العذاب لم يأمن من النار
صحيح البخاری، رقم : 6469، 6000.
”اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سنا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے تھے: اللہ تعالیٰ نے رحمت کو جس دن پیدا فرمایا تو اس کے سو حصے کیے اور اپنے پاس ان میں سے ننانوے حصے رکھے۔ اس کے بعد تمام مخلوق کے لیے صرف ایک حصہ رحمت کا بھیجا۔ پس اس ایک حصہ رحمت کا مظہر یہ ہے کہ تمام مخلوق باہم ایک دوسرے پر رحم کرتی ہے حتی کہ گھوڑی بھی اپنے بچے کو اپنا سم نہیں لگنے دیتی اور اپنا پاؤں اس سے اُٹھا کر رکھتی ہے مبادا اس سے اس کے بچے کو تکلیف پہنچے ۔ پس کا فر کو اگر اس تمام رحمت کے بارے میں علم ہو جائے جو اللہ کے ہاں ہے تو وہ کبھی جنت کے حصول سے مایوس نہ ہو۔ اور اگر ایک مومن آدمی کو اس ساری سزا کے بارے میں علم ہو جائے جو اللہ کے ہاں درج ہے تو وہ کبھی بھی جہنم سے بے خوف نہ ہو۔“
خواہشات نفس کو شریعت کے تابع کرنا
قَالَ اللهُ تَعَالَى:وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَىٰ ﴿٤٠﴾ فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَىٰ ﴿٤١﴾
(79-النازعات:40، 41)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اور جو اپنے رب کے مقام سے ڈرا، اور اپنے نفس کو خواہش کی اتباع سے روکا۔ تو بے شک جنت اس کا ٹھکانا ہوگا۔“
حدیث : 19
وعن عبد الله بن عمرو ، قال: قال رسول الله : لا يؤمن أحدكم حتى يكون هواه تبعا لما جئت به
مشكوة المصابيح ، رقم : 167۔ امام بغوی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو شرح السنہ میں روایت کیا ہے۔ اور امام نووی دانشنہ اس حدیث کو اپنی کتاب ‘الاربعین میں درج کرتے ہوئے لکھتے ہیں : هذا حديث حسن صحيح ، رويناه في كتابِ الحجتہ، باسناد صحيح .
” اور سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اتنی دیر تک مومن نہیں ہوسکتا حتی کہ اُس کی نفسانی خواہشات اس دین حنیف کے تابع نہ ہو جا ئیں کہ جسے میں لے کر آیا ہوں۔“
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اہتمام
قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ أُولَٰئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللَّهُ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴿٧١﴾
(9-التوبة:71)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے مددگار ہوتے ہیں، بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں، اور نماز قائم کرتے ہیں، اور زکاۃ دیتے ہیں، اور اللہ اور اس کے رسول کی بات مانتے ہیں، اللہ انھی لوگوں پر رحم کرے گا، بے شک اللہ زبردست، بڑی حکمتوں والا ہے۔“
حدیث : 20
وعن أبى سعيد الخدري، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من رأى منكم منكرا فليغيره بيده ، فإن لم يستطع فبلسانه فإن لم يستطع فبقلبه ، وذلك أضعف الإيمان
صحیح مسلم، کتاب الایمان، رقم : 49.
”اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم میں سے جو شخص کوئی برائی ہوتے دیکھے تو اپنے ہاتھ سے روک دے، اگر ایسا نہ کر سکے تو زبان سے منع کرے، اور اگر ایسا بھی نہ کر سکے تو دل سے برا سمجھے، اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔ “
نیک لوگوں سے دوستی رکھنا
قَالَ اللهُ تَعَالَى: فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَٰلِكَ ظَهِيرٌ ﴿٤﴾
(66-التحريم:4)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”بے شک اللہ اُن کا مولیٰ ہے، اور جبریل اور نیک مومنین ان کے مولیٰ ہیں، اور اس کے بعد فرشتے ان کے مددگار ہیں۔“
حدیث :21
وعن أنس ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ثلاث من كن فيه وجد بهن حلاوة الإيمان: أن يكون الله ورسوله أحب إليه مما سواهما ، وأن يحب المرم لا يحبه إلا لله، وأن يكرة أن يعود فى الكفر بعد أن أنقذه الله منه كما يكره أن يقذف فى النار
صحیح بخارى، كتاب الإيمان، رقم : 16 ، صحیح مسلم، كتاب الإيمان، رقم :43 ۔
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: تین باتیں جس شخص کے اندر پائی جائیں وہ ایمان کی حلاوت محسوس کرے گا۔
① یہ کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ماسوا سے زیادہ محبوب ہوں۔
② یہ کہ آدمی کسی سے محبت کرے تو صرف اللہ کے لیے کرے۔
③ یہ کہ ہدایت پانے کے بعد کفر میں لوٹ جانا اتنا ہی ناپسندیدہ ہو جتنا کہ آگ میں ڈال دیا جاتا ہے۔“
بیمار پرسی کرنا
حدیث :22
وعن ثوبان ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إن المسلم إذا عاد أخاه المسلم لم يزل فى خرفة الجنة حتى يرجع
صحیح مسلم کتاب البر والصله رقم : 2568.
”اور سید نا ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب کوئی مسلمان اپنے کسی مسلمان بھائی کی بیمار پرسی کرنے جاتا ہے تو وہ مسلسل جنت کے باغ میں رہتا ہے۔ “
نماز جنازہ میں شرکت
حدیث :23
وعن أبى هريرة، قال: قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : من شهد جنازة حتى يصلى عليها فله قيراط ، ومن شهدها حتى تدفن فله قيراطان ، قيل: وما القيراطان يارسول الله؟ قال: مثل الجبلين العظيمين
سنن نسائی، کتاب الجنائز، رقم : 1995۔ محدث البانی نے اسے ”صحیح“ کہا ہے۔
”اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص کسی کی نماز جنازہ پڑھے اس کو ایک قیراط (ثواب) ملے گا، اور جو اس کے پیچھے جائے یہاں تک کہ اس کی تدفین ہو جائے تو اس کو دو قیراط ملیں گے، کہا گیا، اے اللہ کے رسول! قیراطان سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: قیراطان دو بڑے پہاڑوں کے برابر ہوں گے۔ “
نفلی روزہ رکھنا
حدیث : 24
وعن أبى سعيد الخدري رضي الله عنه قال: قال رسول الله : ما من عبد يصوم يوما فى سبيل الله ، إلا باعد الله بذلك اليوم ، وجهه عن النار سبعين خريفا
صحيح مسلم، کتاب الصيام، رقم : 2711 .
”اور سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص اللہ تعالیٰ کے راستے میں ایک دن کا روزہ رکھے گا، اللہ رب العزت اس کے چہرہ کو آگ سے ستر برس کی مسافت طے کرنے کے برابر دور کر دے گا۔“
صدقہ خیرات کرنا
حدیث : 25
وعن أنس رضي الله عنه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن الصدقة لطفى غضب الرب، وتدفع مينة السوء
سنن ترمذى، كتاب الزكاة رقم : 664 ، سلسلة الصحيحة، رقم : 1908 .
”اور سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک صدقہ رب تعالیٰ کے غصہ کو ختم کرتا ہے، اور انسان کو بری موت سے بچاتا ہے۔ “
نیکی کی طرف رہنمائی
حدیث : 26
وعن أبى مسعود رضي الله عنه ، قال: قال النبى صلى الله عليه وسلم : من دل على خير فله مثل أجر فاعله
صحیح مسلم کتاب الامارة، باب فضل اعانة الغازى فى سبيل الله، رقم : 1893 ۔
”اور سیدنا ابو مسعود انصاری ن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص کسی نیک کام کی طرف کسی کی رہنمائی کرے اس کو اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا اس کے کرنے والے کو ملے گا۔ “
مسلح کرانا ہے
قَالَ اللهُ تَعَالَى:وَالصُّلْحُ خَيْرٌ
(4-النساء:128)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”صلح میں خیر ہے۔ “
حدیث : 27
وعن أبى هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : كل سلامى من الناس عليه صدقة، كل يوم تطلع فيه الشمس يعدل بين الناس صدقة
صحیح بخاری کتاب الصلح، رقم : 2707، صحیح مسلم كتاب الزكوة، رقم : 1009 ۔
” اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: انسان کے بدن کے ( تین سو ساٹھ جوڑوں میں سے ) ہر جوڑ پر اس دن کا صدقہ واجب ہے جس میں سورج طلوع ہوتا ہے اور لوگوں کے درمیان انصاف کرنا بھی ایک صدقہ ہے۔ “
اللہ کے لیے محبت کرنا
حدیث : 28
وعن أبى هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إن الله يقول يوم القيمة: أين المتحابون بجلالي؟ اليوم أظلهم فى ظلى يوم لا ظل إلا ظنى
صحيح مسلم، كتاب البر والصلة، رقم : 2566/37 ، سنن الكبرى للبيهقي : 233/10، مختصر العلو : 105 .
”اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا کہ میری عظمت کی خاطر آپس میں محبت کرنے والے کہاں ہیں؟ آج میں ایسے لوگوں کو اپنے سائے میں رکھوں گا جب کہ آج میرے سایہ کے علاوہ کوئی سایہ نہیں ہے۔ “
نرمی سے پیش آنا
حدیث : 29
وعن عائشة رضي الله عنها ، قالت: قال النبى صلى الله عليه وسلم : إن الله رفيق يحب الرفق، ويعطي على الرفق ما لا يعطي على العنف، ومالا يعطي على ما سواه
صحیح مسلم، رقم : 2593.
”اور سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نرمی کا معاملہ کرنے والا ہے، اور نرمی کے معاملہ کو پسند فرماتا ہے، اور نرم خوئی پر وہ اجر عطا فرماتا ہے جو اجر تنگی اورسختی پر نہیں دیتا، بلکہ کسی اور چیز پر بھی نہیں دیتا۔ “
صدقہ دینا
حدیث : 30
وعن أبى هريرة، قال: قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : ما نقصت صدقة من مال، وما زاد الله عبدا بعفو إلا عرا وما تواضع أحد لله إلا رفعه الله
صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، رقم : 2588.
”اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ بندے کو اس کے معاف کر دینے کے سبب اس کی عزت بڑھاتا ہے، اور جو بھی شخص اللہ کے لیے انکساری کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا مرتبہ بلند فرما دیتا ہے۔ “
حسن اخلاق
حدیث : 31
وعن أبى الدرداء رضی اللہ عنہ ، قال: قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : ما من شيء أثقل فى ميزان المؤمن يوم القيامة من حسن الخلق، وان الله ليبغض الفاحش البذي
سنن ترمذى، كتاب البر والصلة باب في حسن الخلق، رقم: 2002، سلسلة الصحيحة، رقم : 876 .
”اور سیدنا ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن مومن بندے کی میزان میں کوئی چیز خوش خلقی سے زیادہ وزنی نہیں ہوگی ، اور اللہ تعالیٰ فخش گو اور بے ہودہ گوشخص کو سخت نا پسند فرماتا ہے۔ “
لڑائی جھگڑے سے پر ہیز کرنا
حدیث :32
وعن أبى أمامة رضي الله عنه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : أنا زعيم ببيت فى ربض الجنة لمن ترك المراء وإن كان محقا
سنن ابوداؤد، کتاب البر والصلة، باب في حسن الخلق، رقم : 4800، سلسلة الصحيحة، رقم : 273.
” اور سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ نے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں اس شخص کو جنت کے کناروں پر گھر دلوانے کی ضمانت دیتا ہوں جو جھگڑا چھوڑ دے خواہ وہ حق پر ہی کیوں نہ ہو۔ “
احسان کرنا
قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَسَارِعُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ ﴿١٣٣﴾ الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ﴿١٣٤﴾
(3-آل عمران:133، 134)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اور اپنے رب کی بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف دوڑو جس کا عرض آسمان اور زمین کے برابر ہے جو پرہیز گاروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ جو لوگ آسانی کے موقعہ پر بھی اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں، اللہ تعالیٰ ان نیکوکاروں کو دوست رکھتا ہے۔“
حدیث : 33
وعن عمر بن الخطاب قال: بينما نحن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم إذ طلع علينا رجل شديد بياض القياب شديد سواد الشعر لا يرى عليه أثر السفر ولا يعرفه منا أحد حتى جلس إلى النبى صلى الله عليه وسلم فأسند ركبتيه ، إلى ركبتيه ووضع كفيه على فخذيه، وقال: يا محمد أخبرني عن الإسلام فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الإسلام أن تشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله وتقيم الصلوة وتؤتي الزكوة ، وتصوم رمضان ، وتحج البيت إن استطعت إليه سبيلا ، قال : صدقت ، قال: فعجبنا له يسأله ويصدقه، قال: فأخبرني عن الإيمان قال: أن تؤمن بالله وملئكته وكتبه ورسله، واليوم الآخر ، وتؤمن بالقدر خيره وشره. قال: صدقت قال: فأخبرني عن الإحسان ، قال: ان تعبد الله كأنك تراه فإن لم تكن تراه فإنه يراك . قال: فأخبرني عن الساعة قال: ما المستول عنها بأعلم من السائل. قال: فأخبرني عن أماراتها قال: أن تلد الامة ربتها، و أن ترى الحفاة العالة رعاء الشاء يتطاولون فى البنيان . قال : ثم انطلق فلبثت مليا ثم قال لي: يا عمر أتدري من السائل: قلت: الله ورسوله أعلم ، قال: فإنه جبرئيل آتاكم يعلمكم دينكم
صحیح مسلم، كتاب الإيمان، رقم : 1 .
”اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی کہ ایک دن ہم نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں حاضر تھے، اسی اثنا میں، اچانک ایک شخص ہمارے سامنے نمودار ہوا، جس کے کپڑے انتہائی سفید اور بال بہت ہی زیادہ سیاہ تھے، اس پر سفر کے اثرات دکھائی دیتے تھے ، اور ہم میں سے کوئی ایک اسے جانتا پہچانتا بھی نہ تھا، حتی کہ وہ آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھ گیا، اور اپنے گھٹنے، آپ کے گھٹنوں سے ملا دیے، اور اپنی ہتھیلیاں، اپنی رانوں پر رکھ لیں، (جیسے طالب علم استاد کے سامنے بیٹھتا ہے ) اور پوچھا اے محمد ! ( صلی اللہ علیہ وسلم ) مجھے اسلام کے بارے میں بتلائیے ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام یہ ہے کہ تو اس بات کا اقرار کرے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی الہ نہیں ( بندگی اور عبادت کے لائق کوئی نہیں ) اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس کے رسول ہیں۔ نماز کا اہتمام کرے، زکاۃ ادا کرتا رہے، رمضان کے روزے رکھے، بیت اللہ کا حج کرے اگر اس تک پہنچنے کی طاقت رکھتا ہو، اس نے کہا، آپ نے ہی کہا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، ہمیں اس کی اس بات پر تعجب ہوا کہ یہ شخص پوچھتا ہے اور پھر (خود ہی) تصدیق کرتا ہے، اس نے سوال کیا، مجھے ایمان کی حقیقت سے آگاہ کیجئے ، آپ نے فرمایا: تو اللہ تعالی ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور آخرت کے دن یعنی قیامت کو مان لے اور تقدیر کو خیر کی ہو یا شر کی ، تسلیم کر لے۔ اس نے کہا، آپ نے درست فرمایا۔ اس نے پوچھا، پس مجھے احسان کی حقیقت کی خبر دیجئے ، آپ نے فرمایا: تو اللہ تعالیٰ کی بندگی وطاعت اس طرح کرے گویا کہ تو اسے دیکھ رہا ہے حالانکہ تو اسے نہیں دیکھ رہا یقینا وہ تجھے دیکھ رہا ہے، اس نے سوال کیا، مجھے قیامت کے بارے میں بتائیے، آپ نے جواب دیا: جس سے قیامت کے بارے میں سوال کیا جا رہا ہے، وہ سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا اس نے کہا، تو مجھے اس کی کچھ علامات (نشانیاں) ہی بتا دیجئے، آپ نے فرمایا: لونڈی اپنی مالکہ کو جنے گی اور تو دیکھے گا ننگے پاؤں، ننگے بدن والے محتاج ، بکریوں کے چرواہے عمارتوں کی تعمیر میں، ایک دوسرے پر فخر کریں گے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے پھر وہ سائل چلا گیا تو میں کچھ عرصہ ٹھہرا رہا، بعد میں مجھ سے آپ نے پوچھا: اے عمر! تجھے معلوم ہے سائل کون تھا؟ میں نے عرض کیا، اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتا ہے۔ آپ نے فرمایا: وہ جبریل علیہ السلام تھے تمہارے پاس تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے تھے ۔“
پردہ پوشی
حدیث : 34
وعن أبى هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من نفس عن مؤمن كربة من كرب الدنيا نفس الله عنه كربة من كرب يوم القيمة، ومن يسر على معسر يسر الله عليه فى الدنيا والآخرة، ومن ستر مسلما ستره الله فى الدنيا والآخرة، والله فى عون العبد ما كان العبد فى عون أخيه
صحيح مسلم، كتاب الذكر والدعاء، باب فضل الاجتماع على تلاوة القرآن ، رقم: 2699.
” اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے کسی مسلمان سے اس کی دنیاوی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کی اللہ تعالیٰ اس سے قیامت کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کرے گا۔ اور جس شخص نے کسی تنگ دست پر آسانی کی اللہ تعالیٰ اس پر دنیا اور آخرت میں آسانی کرے گا۔ اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی پردہ پوشی کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے۔“
والدین کے ساتھ حسن سلوک
قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا ﴿٣٦﴾
(4-النساء:36)
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور اللہ کی عبادت کرو، اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ اور والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو، اور رشتہ داروں، اور یتیموں، اور مسکینوں، اور رشتہ دار پڑوسی، اور اجنبی پڑوسی، اور پہلو سے لگے ہوئے دوست، اور مسافر، اور غلاموں اور لونڈیوں کے ساتھ ۔ بے شک اللہ اکڑنے والے اور بڑا بننے والے کو پسند نہیں کرتا ۔“
حدیث : 35
وعن أبى الدرداء ، قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: الوالد أوسط من أبواب الجنة فإن شئت فاضع ذلك الباب أو احفظه
سنن ترمذیى كتاب البر والصلة باب فى الفضل فى رضا الوالدين رقم : 1900، سلسلة الصحيحة، رقم : 910 .
”اور حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: والد جنت کا درمیان والا دروازہ ہے، آپ اس کی حفاظت کر لیں یا اسے ضائع کر دیں۔ “
صلہ رحمی
حدیث : 36
وعن أبى هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : خلق الله الخلق فلما فرغ منه قامت الرحم فأخذت بحقوى الرحمن فقال له: مه قالت: هذا مقام العائذ بك من القطيعة ، قال: ألا ترضين ان اصل من وصلك ، وأقطع من قطعك؟ قالت: بلى يا رب قال: فذاك
صحیح بخاری، کتاب التفسير ، باب وتقطعوا أرحامكم، رقم : 4830.
”اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو پیدا فرمایا، جب اللہ اس سے فارغ ہوا تو صلہ رحمی کھڑی ہوگئی اور اس نے اللہ کے تہبند کو پکڑ لیا، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ہٹ جا، اس نے کہا: یہ اس شخص کا مقام ہے جو تیرے ساتھ قطع رحمی سے پناہ مانگتا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کیا تجھے یہ بات پسند نہیں کہ میں اس شخص کو (اپنے ساتھ ) ملاؤں جو تجھ کو ملائے اور میں اس شخص سے قطع تعلق کروں جو تجھ سے قطع تعلق کرے؟ اُس نے جواب دیا پروردگار! درست ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: پس یہ تیرے لیے ہے۔“
پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک
حدیث : 37
وعن أبى هريرة ، قال: قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلا يؤذ جاره
صحیح بخاری کتاب الادب، باب من كان يومن بالله واليوم الآخر فلا يؤذ جاره، رقم : 6018.
”اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے۔“
زبان کی حفاظت کرنا
حدیث : 38
وعنه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده
صحیح بخاری، کتاب الايمان، رقم: 10 ۔
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: مسلمانوں میں سے بہترین وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ “
فضول گفتگو سے پر ہیز کرنا
حدیث : 39
وعنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من حسن اسلام المرء تركه ما لا يعنيه
سنن ترمذی ، کتاب الزهد، رقم : 2317 ، سنن ابن ماجه ، رقم : 3976 ۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: انسان کے اچھے مسلمان ہونے کی نشانی یہ ہے کہ وہ بے فائدہ باتوں کو چھوڑ دے۔ “
اللہ تعالیٰ کے بارے حسن ظن
قالَ اللهُ تَعَالَى: أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّيْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَيَرْجُو رَحْمَةَ رَبِّهِ ۗ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ ۗ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ ﴿٩﴾
(39-الزمر:9)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”بھلا جو شخص راتوں کے اوقات سجدے اور قیام کی حالت عبادت میں گزارتا ہو، آخرت سے ڈرتا ہو اور اپنے رب کی رحمت کی امید رکھتا ہو بتلاؤ تو علم والے اور بے علم کیا برابر کے ہیں؟ یقیناً نصیحت وہی حاصل کرتے ہیں جو عقلمند ہوں۔“
حدیث : 40
وعنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : يقول الله تعالى: أنا عند ظن عبدي بي ، وأنا معه إذا ذكرني فإن ذكرني فى نفسه ذكرته فى نفسي، وإن ذكرني فى ملاء، ذكرته فى ملاء خير منهم
صحیح بخاری، رقم : 7405۔ صحیح مسلم، رقم : 2675/2 .
”اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث قدسی میں ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرا بندہ مجھ سے جو گمان رکھتا ہے میں اس کے مطابق اس کے ساتھ کرتا ہوں، اور جہاں وہ مجھے یاد کرے میں اس کے ساتھ ہوں، پس اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرے تو میں بھی اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں، اور اگر وہ مجھے کسی مجلس میں یاد کرے تو میں اس کو ان سے بہتر جماعت میں یاد کرتا ہوں۔“
وصلى الله تعالى على خير خلقه محمد وآله وصحبه أجمعين