حرام اقساط والے کاروبار پر اسلامی رہنمائی اور آپ کا کردار
ماخوذ : احکام و مسائل، خرید و فروخت کے مسائل، جلد 1، صفحہ 372

سوال

میری عمر تقریباً 16 سال ہے اور میں میٹرک کا طالب علم ہوں۔ ہم چار بھائی ہیں اور والد صاحب واپڈا میں ملازمت کرتے ہیں۔ بڑے دو بھائیوں نے آسان اقساط پر خرید و فروخت کا کاروبار شروع کیا ہوا ہے۔ والد صاحب رات کو سرکاری ڈیوٹی پر جاتے ہیں اور دن کو دکان پر موجود ہوتے ہیں۔ مجھے قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ جاننا ہے کہ ان حالات میں مجھے کیا کرنا چاہیے، کیونکہ اقساط والا کاروبار حرام روزی کا ذریعہ ہے، اور میرے بھائی کسی بھی صورت میں یہ کاروبار چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں۔ اس معاملے میں میرا رد عمل کیا ہونا چاہیے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اقساط پر خرید و فروخت کے کاروبار کے متعلق شرعی حکم درج ذیل ہے:

اگر کسی چیز کی قیمت نقد جتنی ہے، اور وہی قیمت ادھار یکمشت یا قسطوں میں وصول کی جائے تو یہ کاروبار شرعاً درست ہے، بشرطیکہ اس میں کوئی اور خلافِ شرع امر شامل نہ ہو۔

لیکن اگر کسی چیز کی قیمت نقد جتنی نہیں رکھی جاتی بلکہ ادھار یکمشت یا قسطوں میں اس سے زیادہ وصول کی جاتی ہے، تو یہ کاروبار سود (ربا) کے زمرے میں آتا ہے، اس لیے ناجائز اور حرام ہے۔

آپ کے لیے رہنمائی

❀ آپ اپنے والد صاحب کو نرمی اور حکمت کے ساتھ سمجھائیں کہ وہ کاروبار کو پہلی (جائز) صورت کے مطابق کر لیں۔

❀ ان شاء اللہ، وہ سمجھ جائیں گے اور شرعی طریقے کو اپنا لیں گے، جس سے:

گناہ سے بھی بچا جا سکے گا۔

کاروبار بھی چلتا رہے گا۔

زیادہ مال بھی حاصل ہوگا اور وہ حلال طریقے سے ہوگا۔

❀ کیونکہ جب کاروبار جائز اور حلال طریقے سے کیا جائے گا تو:

◈ خریداروں کی تعداد بڑھ جائے گی۔

◈ مال زیادہ فروخت ہوگا۔

◈ نفع بھی اسی تناسب سے زیادہ حاصل ہوگا۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1