سوال
سود کی تعریف اور حدیث میں مذکور اشیاء کی تفصیل، دیگر اشیاء کی حیثیت کیا ہے؟
سوال میں یہ بات ذکر کی گئی ہے کہ سود کی جو تعریف عام طور پر حدیث میں آتی ہے، اس میں چھ چیزوں (سونا، چاندی، گندم، جو، کھجور، نمک) کا لین دین کمی بیشی یا نقد و ادھار کے ساتھ ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ تاہم کچھ دیگر اشیاء جیسے مویشی، اونٹ وغیرہ ایسی ہیں جن کا تبادلہ کمی بیشی کے ساتھ جائز ہے۔ سوال یہ ہے کہ کچھ لوگ انہی چھ چیزوں کو سود کی بنیاد سمجھتے ہیں، جبکہ دیگر اشیاء کو اس تعریف سے مستثنیٰ قرار دیتے ہیں۔
مزید وضاحت کے لیے سوال میں ذکر کیا گیا:
✿ ایک گروہ کا کہنا ہے کہ یہ حکم صرف ان اشیاء کے لیے ہے جن کا لین دین وزن یا پیمانے سے ہوتا ہے۔
✿ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ یہ حکم ان اشیاء کے لیے خاص ہے جو غذا کے طور پر استعمال ہوتی ہیں اور ذخیرہ کی جاتی ہیں، ان کے اندر حرمت کی علت درہم و دینار کا وزن ہے (یہ امام مالک رحمہ اللہ کا مذہب ہے)۔
✿ بعض اہل علم کے مطابق سود کی علت "قیمت” ہے۔
اسی اختلاف علت کی وجہ سے اہل علم کے درمیان معاملات میں اختلاف پایا جاتا ہے۔
موطا امام مالک کی ایک حدیث کا بھی حوالہ دیا گیا جس میں بیان ہے:
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک اونٹ کے بدلے بیس (20) اونٹ لیے اور وہ بھی ایک مدت کے بعد۔
سوال کرنے والے نے وضاحت چاہی ہے کہ چونکہ نبی کریم ﷺ نے خود جانوروں کے تبادلے میں کمی بیشی کی اجازت دی، اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی ایسا کیا، تو پھر ان اشیاء کا سود سے تعلق نہیں ہونا چاہیے کیونکہ جانوروں کی قیمتوں میں بڑا فرق پایا جاتا ہے۔ اس تمام بحث کی روشنی میں محترم حافظ صاحب سے وضاحت طلب کی گئی ہے۔
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سود کی تعریف اور اس کی علت پر جامع وضاحت
آپ نے جو سوال کیا ہے کہ سود کی تعریف کیا ہے، تو واضح ہو کہ مجھے کتاب و سنت میں سود (ربا) کی کوئی جامع اور مکمل "تعریف” نہیں ملی، جیسا کہ زنا کی بھی کوئی "تعریف” کتاب و سنت میں مذکور نہیں، البتہ ان دونوں کی حرمت کتاب و سنت میں جگہ جگہ بیان کی گئی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے جن چھ چیزوں کا لین دین برابر اور نقد کے ساتھ کرنے کا حکم دیا، ان کی علت (سبب) کے بارے میں اہل علم کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے، لیکن نبی کریم ﷺ نے کسی ایک علت کی تخصیص خود نہیں فرمائی۔
ان چھ چیزوں (سونا، چاندی، گندم، جو، کھجور، نمک) میں اگر کسی ایک علت کی موجودگی دوسری اشیاء میں بھی پائی جائے تو وہ بھی سود میں شامل ہو جاتی ہیں۔
لہٰذا:
✿ جو صورتیں بظاہر سود میں شامل دکھائی دیتی ہیں،
✿ لیکن حدیث میں ان کی جواز کی تصریح موجود ہے،
✿ تو وہ سود نہیں اور حکم سود سے مستثنیٰ ہیں۔
یہی اصول ہے کہ جس چیز کی حرمت حدیث سے ثابت ہو، وہ حرام ہے، اور جس چیز کا جواز نبی ﷺ کے عمل یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل سے ثابت ہو جائے، وہ سود کے حکم سے خارج ہے۔
لہٰذا جانوروں، اونٹوں، مویشیوں کے تبادلے میں اگر کمی بیشی ہے، تو چونکہ اس کا جواز نبی کریم ﷺ کے عمل اور صحابہ کرام کے عمل سے ثابت ہے، اس لیے وہ سود کے حکم میں داخل نہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب