حدیث رسولﷺ آپ کے عہد مبارک میں ہی مکتوب تھی
یہ تحریر محترم ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی کی کتاب اسلام مصطفٰی علیہ الصلاۃ والسلام سے ماخوذ ہے۔

دین اسلام، اللہ تعالیٰ کی طرف سے محفوظ ہے:

دین اسلام کتاب وسنت کا نام ہے اور وہ محفوظ ہیں، ان کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود لیا ہے۔
﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ﴾
[الحجر: 9]
”بے شک ہم نے قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔ “
حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید کی تفسیر ہے۔ اس تفسیر پر اللہ تعالی نے خود اپنے پیغمبر علیہ السلام کا وظیفہ مقرر کیا۔
﴿وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ﴾
[النحل: 44]
”اور ہم نے آپ پر قرآن نازل کیا ہے، تاکہ لوگوں کے لیے جو کچھ نازل کیا گیا ہے، اسے آپ ان کے لیے کھول کر بیان کر دیجیے۔“
یعنی اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا کہ ہم نے آپ پر قرآن نازل کیا ہے جو لوگوں کو ان کا بھولا ہوا سبق یاد دلاتا ہے، اور انھیں خواب غفلت سے بیدار کرتا ہے، اور آپ کی ذمہ داری یہ ہے کہ آپ بحیثیت رسول ان اوامر و نواہی اور وعدہ وعید کو لوگوں کے لیے بیان کر دیں جو اس قرآن میں موجود ہیں۔
معلوم ہوا کہ دین کتاب اللہ اور سنت رسول کا نام ہے، اور جیسے قرآن محفوظ ہے، ایسے ہی سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی محفوظ ہے، چنانچہ امام عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا فرمان ہے:
الإسناد عندى من الدين ولولا الإسناد لقال من شاء ما شاء
مقدمه صحیح مسلم
”میرے نزدیک سند دین کا حصہ ہے اور اگر سند نہ ہوتی تو جو چاہتا کہہ ڈالتا۔ “
امام ابو عبد اللہ الحاکم النیشا پوری مذکورہ بالا قول نقل کرنے کے بعد اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:
”اگر اسناد نہ ہوئیں اور محدثین کرام ان کو طلب نہ کرتے اور کثرت سے یاد نہ رکھتے تو اسلام کی علامتیں مٹ جائیں ، جھوٹی احادیث گھڑ لی جاتیں ، اسناد حدیث کوالٹ پلٹ کر دیا جاتا اور اس طرح اہل بدعت غالب آجاتے، کیونکہ اگر احادیث کو اسناد سے بے نیاز کر دیا جائے تو وہ بالکل بے بنیاد رہ جائیں گی ۔ “
معرفة علوم الحديث، ص: 6

حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے عہد مبارک میں ہی مکتوب تھی:

یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے عہد مبارک میں مکتوب تھی، لہذا اسے مشکوک اور ظنی قرار دینا، اور اعتراض یہ کرنا کہ حدیث عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں مدون نہ تھی، بعد میں لکھی گئی، لہذا یہ مشکوک ہے، اس کو شریعت اسلامیہ یا دین قرار دینا درست نہیں۔
آپ نے سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے فرمایا:
”احادیث لکھا کرو، قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اس منہ سے حق کے سوا کوئی بات نہیں نکلتی۔“
سنن ابوداؤد، کتاب العلم باب كتابة العلم، رقم: 3646
سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جب ان کو یمن کا حاکم بنا کر بھیجا تو زکوۃ کے فرائض لکھ کر دیے۔
صحیح بخاری، کتاب الزکوة، باب زكاة الغنم، رقم: 1454
ابو راشد الحبرانی فرماتے ہیں کہ سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما نے میرے سامنے ایک کتاب رکھی اور فرمایا:
”یہ وہ کتاب ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوا کر مجھے دی تھی ۔ “
سنن ترمذی، کتاب الدعوات، باب دعاء علمه أبا بكر: 3529
موسیٰ بن طلحہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس وہ کتاب ہے جو معاذ رضی اللہ عنہ کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوائی تھی۔
سنن الدارقطني: 96/2 ، رقم: 1891 – مسند أحمد: 228/5 رقم: 21989- مستدرك حاكم: 401/1- سنن الكبرى البيهقي: 128/4 ، 129
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کو یمن کا عامل بنا کر بھیجا تو اہل یمن کے لیے ایک کتاب لکھوا کر دی جس میں فرائض، سنت اور دیت کے مسائل تحریر تھے۔ امام زہری فرماتے ہیں کہ میں نے اس کتاب کو پڑھا، یہ کتاب ابوبکر بن حزم کے پاس تھی۔ سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے بھی اس کتاب کو پڑھا۔
سنن نسائی، کتاب القسامة، باب عقل الأصابع، رقم: 4850 (وباب) ذکر حدیث عمرو بن حزم في العقول واختلاف الناقلين له ، رقم: 4857
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتاب الصدقہ تحریر کروائی۔ امام محمد بن مسلم فرماتے ہیں کہ آپ کی یہ کتاب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے خاندان کے پاس تھی اور مجھے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پوتے سالم نے یہ کتاب پڑھائی اور میں نے پوری طرح اس کو محفوظ کر لیا۔ خلیفہ عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے اس کتاب کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پوتوں سالم اور عبد اللہ سے لے کر لکھوایا ۔
سنن ابوداؤد، کتاب الزكاة، باب في الزكاة السائمة: 1570
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”ہمارے پاس کوئی چیز نہیں سوائے کتاب اللہ کے اور اس صحیفہ کے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث ہیں ۔ “
صحیح بخاری، کتاب فضائل المدينة، باب حرم المدينة، رقم: 1870 – صحیح مسلم، کتاب الحج، باب فضل المدينة….. الخ، رقم: 1370
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کوئی شخص مجھ سے زیادہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث بیان نہیں کرتا سوائے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ، اس لیے کہ وہ لکھا کرتے تھے اور میں لکھتا نہیں تھا۔
صحیح بخاری، کتاب العلم، باب كتابة العلم، رقم: 113
خلیفہ ثانی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بھی زکوۃ کے متعلق ایک کتاب تحریر فرمائی تھی۔ امام مالک فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہا کی کتاب پڑھی ۔
موطا امام مالك، كتاب الزكاة، باب صدقة الماشية رقم: 23
سیدنا عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے علماء کو حدیث کی جمع و تدوین کا حکم صادر فرمایا: آپ نے ابوبکر بن حزم رحمہ اللہ کے نام ایک خط میں تحریر کیا:
”احادیث نبویہ جہاں بھی ملیں ، ان کو لکھ لو ، اس لیے کہ مجھے علم کے مٹ جانے اور علماء کے رخصت ہو جانے کا خدشہ دامن گیر ہے حدیث نبوی کے سوا اور کچھ قبول نہ کیجیے۔ علم کی اشاعت کیجیے اور بیٹھ کر درس دیجیے تا کہ جوشخص نہیں جانتا وہ جان لے، یاد رکھئے کہ علم اس وقت تک معدوم نہیں ہوتا جب تک اسے پوشیدہ نہ رکھا جائے ۔ “
صحیح بخاری، کتاب العلم – مؤطا مالك، كتاب العلم
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وتابعین رحمہ اللہ کی ایک جماعت کتابت حدیث کو ناپسند کرتی تھی، وہ چاہتے تھے کہ جس طرح انھوں نے وہ احادیث اپنے حافظہ میں محفوظ رکھیں، اسی طرح دوسرے لوگ بھی ان احادیث کو یاد کر لیں مگر جب ہمتیں پست ہوگئیں اور علماء علم کے ضائع ہو جانے سے ڈرنے لگے تو انھوں نے احادیث کو مدون کر لیا۔ اس ضمن میں سبقت کا شرف امام ابن شہاب زہری رحمہ اللہ کو حاصل ہوا۔ آپ نے پہلی صدی ہجری کے اختتام پر جناب عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کے حکم سے حدیثیں جمع کیں۔ پھر تدوین و تصنیف کا دائرہ وسیع ہوتا چلا گیا اور اس سے (ملت اسلامیہ کو) بڑا فائدہ پہنچا۔
فتح الباری: 815/1

دین اسلام، آسان دین ہے:

دین اسلام آسان دین ہے، اس میں جبر نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان عالی شان ہے:
﴿لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ﴾
[البقرة: 256]
”دین میں داخل ہونے کے لیے کسی کو مجبور نہ کیا جائے۔“
یہ آیت کریمہ دین اسلام کے کامل ہونے کی دلیل ہے، اور اس میں اس بات کا بیان ہے کہ دین اسلام کی صداقت کے دلائل و براہین واضح ہیں، لہذا ضرورت نہیں کہ کسی کو اس میں داخل ہونے پر مجبور کیا جائے، اگر کوئی شخص اس میں داخل ہوتا ہے تو یہ اس کی خوش نصیبی ہے کہ اللہ نے اسے حق قبول کرنے کی توفیق دی ، اور اگر وہ کفر کی راہ اختیار کرتا ہے تو گویا اللہ نے اس کے دل کی روشنی چھین لی ، اور اس کی آنکھ اور کان پر مہر لگا دی، اب اگر ایسے آدمی کو اسلام قبول کرنے پر مجبور بھی کیا جائے تو کوئی فائدہ نہ ہوگا، کیونکہ حق قبول کرنے کے تمام راستے مسدود ہو چکے ہیں۔
مزید اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
﴿لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا﴾
[البقرة: 286]
”اللہ کسی آدمی کو اس کی طاقت سے زیادہ مکلف نہیں کرتا ۔ “
سورۃ البقرہ میں دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:
﴿وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ﴾
[البقرة: 195]
”اور اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو۔ “
لہذا ہر وہ کام اور ہر وہ بات جس میں مسلمانوں کی ہلاکت کا ڈر ہو، اس آیت کے حکم میں داخل ہوگی۔
سورۃ البقرہ میں تیسرے مقام پر ارشاد فرمایا:
﴿يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ﴾
[البقره: 185]
”اللہ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے، تمہارے لیے تنگی کو پسند نہیں کرتا ۔ “
اس آیت کریمہ میں مریض اور مسافر جتنے دن روزے نہیں رکھیں گے، اتنے دن کے روزے صحت مند ہونے اور سفر ختم ہو جانے کے بعد رکھ لیں گے۔ اللہ کی طرف سے بندوں کو یہ سہولت دی گئی ہے، اور قضا کا حکم اس لیے دیا گیا تاکہ رمضان کے فرض روزے پورے ہو جائیں۔
حالت سفر میں روزہ افطار کرنے کی رخصت دین اسلام کی طرف سے آسان ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ماہ رمضان میں مدینہ سے مکہ کے لیے روانہ ہوئے تو روزے سے تھے، جب عسفان پہنچے تو پانی مانگا اور اسے دونوں ہاتھوں سے اوپر اٹھایا تاکہ لوگ اسے دیکھ لیں، پھر روزہ توڑ دیا، یہاں تک کہ مکہ پہنچ گئے ۔ اسی حدیث کے پیش نظر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہا کہا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (سفر میں) روزہ بھی رکھا اور افطار بھی کیا ، اس لیے جو چاہے روزہ رکھے اور جو چاہے افطار کرے ۔
صحیح بخاری، کتاب الصوم، رقم: 1948 – صحیح مسلم، کتاب الصيام، رقم: 1113
سیدنا ابو بردۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو موسیٰ اشعری اور معاذ بن جبل (رضی اللہ عنہا) کو یمن کی طرف روانہ فرمایا تو اُن سے ارشاد فرمایا: يسروا ولا تعسرا
صحیح بخاری، کتاب المغازی، رقم: 4341، 4342
”لوگوں کے لیے آسانی کی راہ اختیار کرنا، ان کے لیے تنگی پیدا نہ کرنا۔ “

دین اسلام، خیر خواہی کا دین ہے:

سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار ارشاد فرمایا:
الدين النصيحة: قلنا: لمن؟ قال: لله ولكتابه ولرسوله ولأبيه المسلمين وعامتهم
صحیح مسلم کتاب الایمان، رقم: 55/95- سنن ترمذی، رقم: 1926 – سنن نسائی، رقم: 4199 سنن دارمی، رقم: 4754۔ مسنداحمد: 102/4
دین خیر خواہی کا نام ہے۔ ہم نے دریافت کیا، کس کے لیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، اس کے پیغمبر کے لیے، مسلمان خلفاء کے لیے اور عام مسلمانوں کے لیے۔“
سیدنا جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
بايعت رسول الله صلى الله عليه وسلم على إقام الصلاة، وإبتاء الزكاة، والنصح لكل مسلم
صحیح بخاری، رقم: 2715۔ صحیح مسلم، رقم: 97-56
”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز قائم کرنے، زکوۃ ادا کرنے اور ہر مسلمان کی خیر خواہی کرنے پر بیعت کی۔ “

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!