إن الحمد لله نحمده، ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له ، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله . أما بعد:
عمرہ گناہوں کا کفارہ اور حج مبرور کا بدلہ جنت ہے
قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاهِيمَ مَكَانَ الْبَيْتِ أَن لَّا تُشْرِكْ بِي شَيْئًا وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ ﴿٢٦﴾ وَأَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَىٰ كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ ﴿٢٧﴾ لِّيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ۖ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ ﴿٢٨﴾
(22-الحج:26تا28)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اور (یاد کریں) جب ہم نے ابراہیم کے لیے بیت اللہ کی جگہ مقرر کر دی (اور اسے حکم دیا) کہ تو میرے ساتھ کسی شے کو شریک نہ کر اور طواف کرنے والوں اور قیام کرنے والوں اور رکوع، سجدے کرنے والوں کے لیے میرا گھر پاک رکھ۔ اور لوگوں میں حج کا اعلان کر دے، وہ تیرے پاس پیدل (چل کر ) اور ہر لاغر سواری پر( سوار ہو کر) آئیں گے جو ہر دور دراز رستے سے آئیں گی ۔ تا کہ وہ اپنے منافع کے لیے حاضر ہوں، اور معلوم ایام میں (ذبح کرتے وقت ) ان چوپائے مویشیوں پر اللہ کا نام ذکر کریں جو اللہ نے انھیں دیے ہیں، پھر تم (خود بھی) ان کا گوشت کھاؤ اور ہر لا چار فاقہ کش فقیر کو کھلاؤ۔ “
حدیث 1
عن أبى هريرة رضی اللہ عنہ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: العمرة إلى العمرة كفارة لما بينهما ، والحج المبرور ليس له جزاء إلا الجنة
صحیح بخاری، کتاب الحج ، رقم : 1773 ، صحیح مسلم، رقم : 1349 .
”حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک عمرہ دوسرے عمرہ تک دونوں کے درمیانی گناہ کا کفارہ ہے۔ حج مبرور (جس میں کسی قسم کے گناہ کا ارتکاب نہ ہو ) کا بدلہ جنت کے علاوہ اور کوئی نہیں۔“
حدیث 2
وعن ابن مسعود رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : وليس للحجة المبرور ثواب إلا الجنة
سنن ترمذی، رقم : 810 ، سلسلة الصحيحة، رقم : 1185 ، 1200 ، هداية الرواة : 2458 .
”اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حج مبرور کا ثواب صرف جنت ہے۔“
حدیث 3
وعن جابر قال: قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : الحج المبرور ليس له جزاء إلا الجنة ، قالوا: يا نبي الله: ما بر الحج المبرور؟ قال: إطعام الطعام إفشاء السلام
مسند احمد، رقم : 325/3 ، صحيح الترغيب كتاب الحج ، رقم : 1104.
”اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حج مبرور کی جزا صرف جنت ہے، تو آپ سے دریافت کیا گیا کہ حج کی نیکی کیا ہے؟ تو آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: کھانا کھلانا اور سلام پھیلانا۔ “
جہاد کے بعد افضل عمل حج مبرور ہے
حدیث 4
وعن أبى هريرة رضي الله عنه قال: سئل النبى صلى الله عليه وسلم أى الأعمال أفضل؟ قال: إيمان بالله ورسوله ، قيل: ثم ماذا؟ قال: جهاد في سبيل الله ، قيل: ثم ماذا؟ قال: حج مبرور
صحیح بخاری، کتاب الحج ، رقم : 1519 ، صحیح مسلم، رقم : 83 .
” اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ کون سا عمل افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ ایمان لانا۔ دریافت کیا گیا کہ پھر کون سا عمل افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا پھر جہاد فی سبیل اللہ ۔ دریافت کیا گیا کہ پھر کون سا عمل افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: پھر حج مبرور “
حج سے انسان اس طرح پاک ہوتا ہے جیسے نومولود بچہ
قَالَ اللهُ تَعَالَى: الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَّعْلُومَاتٌ ۚ فَمَن فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ ۗ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمْهُ اللَّهُ ۗ وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَىٰ ۚ وَاتَّقُونِ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ ﴿١٩٧﴾
(2-البقرة:197)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”حج کے مہینے معلوم ومقرر ہیں، چنانچہ جس شخص نے ان (مہینوں) میں حج کو لازم کر لیا تو حج کے دوران میں وہ جنسی باتیں نہ کرے، اللہ کی نافرمانی نہ کرے اور کسی سے جھگڑا نہ کرے اور نیک کام تم کرتے ہو اللہ اسے جانتا ہے اور (حج کے لیے ) زاد راہ لے لو، بے شک بہترین زاد راہ تقویٰ ہے اور اے عقل مندو! تم مجھ سے ڈرو۔“
حدیث 5
وعن أبى هريرة رضي الله عنه قال: سمعت النبى صلى الله عليه وسلم يقول: من حج لله فلم يرفت ، ولم يفسق رجع كيوم ولدته أمه
صحيح بخاری، کتاب الحج ، رقم : 1521 ، صحیح مسلم، رقم : 1350، سنن ابن ماجه ، رقم : 2889.
”روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے حج کیا (اور اس میں) نہ عورتوں کے قریب گیا اور نہ ہی کوئی فسق و فجور کا کام کیا تو وہ اپنے گناہوں سے (پاک صاف ہوکر ) اس دن کی طرح لوٹے گا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا۔ “
حج و عمرہ میں متابعت سے فقر اور گناہوں کا خاتمہ
قَالَ الله تَعَالَى: إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَائِرِ اللَّهِ ۖ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَن يَطَّوَّفَ بِهِمَا ۚ وَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللَّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ ﴿١٥٨﴾
(2-البقرة:158)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”بے شک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں، پس جو شخص بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ ان دونوں کا طواف کرے، اور جو شخص خوشی سے کوئی نیکی کرے تو بے شک اللہ قدر کرنے والا ، خوب جاننے والا ہے۔“
حدیث 6
وعن عبد الله بن مسعود، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : تابعوا : بين الحج والعمرة، فإنهما ينفيان الفقر كما ينفي الكير خبث الحديد والذهب والفضة
سنن ترمذی، کتاب الحج، رقم: 810 ، مسند احمد، رقم : 387/1، سلسلة الصحيحة، رقم : 1200 .
”اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: پے در پے حج و عمرہ کرتے رہو، بلاشبہ حج اور عمرہ گناہوں کو اس طرح دور کر دیتے ہیں جیسے بھٹی لوہے،سونے اور چاندی کی میل کچیل کو دور کر دیتی ہے ۔ “
حج گزشتہ تمام گناہ مٹا دیتا ہے
قَالَ اللهُ تَعَالَى: إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَٰئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا ﴿٧٠﴾
(25-الفرقان:70)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” مگر جس نے توبہ کی اور وہ ایمان لایا اور نیک عمل کیے، تو انھی لوگوں کی برائیوں کو اللہ اچھائیوں سے بدل دے گا، اور اللہ غفور (اور) رحیم ہے۔ “
حدیث 7
وعن ابن شماسة المهري قال: حضرنا عمرو بن العاص وهو فى سياقة الموت فبكى طويلا وحول وجهه إلى الجدار ، فجعل ابنه يقول: يا أبتاه أما بشرك رسول الله صلى الله عليه وسلم بكذا؟ أما بشرك رسول الله صلى الله عليه وسلم بكذا؟ قال: فأقبل بوجهه وقال: إن أفضل ما نعد شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله، إني كنت على أطباق ثلاث، لقد رأيتني وما أحد أشد بغضا لرسول الله صلى الله عليه وسلم مني ولا أحب إلى أن أكون قد استمكنت منه فقتلته منه ، فلومت على تلك الحال لكنت من أهل النار ، فلما جعل الله الإسلام فى قلبي أتيت النبى فقلت: ابسط يمينك فلأبايعك فبسط يمينه ، قال: فقبضت يدى، قال: ما لك يا عمرو؟ قال: قلت: أردت أن أشترط ، قال: تشترط بماذا؟ قلت: أن يغفر لي قال: أما علمت أن الإسلام يهدم ما كان قبله؟ وأن الهجرة تهدم ما كان قبلها؟ وأن الحج يهدم ما كان قبله؟
صحیح مسلم، کتاب الايمان، رقم : 321 .
”اور ابن شماسہ مہری رحمہ اللہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوئے ، وہ موت کے سفر پر روانہ تھے، روتے جاتے تھے اور اپنا چہرہ دیوار کی طرف کر لیا تھا۔ ان کا بیٹا کہنے لگا: ابا جان! کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو فلاں چیز کی بشارت نہ دی تھی؟ کیا فلاں بات کی بشارت نہ دی تھی ؟ انہوں نے ہماری طرف رخ کیا اور کہا: جو کچھ ہم (آئندہ کے لیے) تیار کرتے ہیں، یقیناً اس میں سے بہترین یہ گواہی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ( صلى الله عليه وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔ میں تین درجوں (مرحلوں) میں رہا ہوں۔ (پہلا یہ کہ ) میں نے اپنے آپ کو اس حالت میں پایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مجھ سے زیادہ بعض کسی کو نہ تھا اور نہ اس کی نسبت کوئی اور بات زیادہ پسند تھی کہ میں آپ پر قابو پا کر آپ کو قتل کردوں۔ اگر میں اس حالت میں مرجاتا تو میں دوزخی ہوتا ۔ ( دوسرے مرحلے میں ) جب اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اسلام کی محبت پیدا کر دی تو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا، اپنا دایاں ہاتھ آگے بڑھائیے تاکہ میں آپ کی بیعت کروں۔ چنانچہ آپ نے اپنا دایاں ہاتھ آگے بڑھایا۔ تو میں نے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ اے عمرو! کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! میں شرط لگانا چاہتا ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم کیا شرط لگانا چاہتے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ میرے گزشتہ گناہ بخش دیئے جائیں۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا: کیا تجھے علم نہیں کہ اسلام گزشتہ تمام گناہ مٹا دیتا ہے۔ ہجرت گزشتہ تمام گناہ مٹا دیتی ہے اور حج گزشتہ تمام گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔ “
حج اور عمرہ کرنے والے کی دعا قبول کی جاتی ہے
حدیث 8
وعن ابن عمر ، عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: الغازي فى سبيل الله والحاج والمعتمر وفد الله، دعاهم فأجابوه، وسألوه فأعطاهم
سنن ابن ماجه، كتاب المناسك، رقم : 2893 ، صحيح الترغيب، رقم : 1108.
”اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا ، حاجی اور عمرہ کرنے والا اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بلایا تو انہوں نے اس دعوت کو قبول کیا اور پھر انہوں نے اللہ تعالیٰ سے مانگا تو اس نے انہیں عطا کر دیا۔ “
حج و عمرہ ، عورت، کمزور، بوڑھے اور بچے کا جہاد ہے
حدیث 9
وعن عائشة أم المؤمنين رضي الله عنه قالت: قلت: يا رسول الله ألا نغزو ونجاهد معكم؟ فقال: لكن أحسن الجهاد وأجمله الحج ، حج مبرور ، فقالت عائشة: فلا أدع الحج بعد إذ سمعت هذا من رسول الله صلى الله عليه وسلم
صحیح بخاری، کتاب العمرة ، رقم : 1861 .
”اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول! ہم بھی کیوں نہ آپ کے ساتھ جہاد اور غزووں میں جایا کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمہارے لیے سب سے اچھا اور مناسب جہاد حج ہے، ایسا حج جو مقبول ہو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سنا ہے، میں نے کبھی حج نہیں چھوڑا۔ “
حدیث 10
وعن عائشة؛ قالت: قلت: يا رسول الله على النساء جهاد؟ قال: نعم ، عليهن جهاد لا قتال فيه: الحج والعمرة
سنن ابن ماجه ، كتاب المناسك ، رقم : 2901 ، المشكاة، رقم : 2534۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
” اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا عورتوں پر جہاد فرض ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہاں ان پر جہاد فرض ہے لیکن اس میں قتال نہیں ہے اور وہ ہے حج وعمرہ۔ “
حدیث 11
وعن أبى هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : جهاد الكبير والصغير والضعيف والمرأة: الحج والعمرة
سنن نسائی، رقم : 2463 ، صحيح الترغيب، كتاب الحج : 1100 .
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بوڑھے، بچے ، کمزور اور عورت کا جہاد حج اور عمرہ ہے۔ “
حدیث 12
وعن الحسين بن على رضي الله عنه قال: جاء رجل إلى النبى صلى الله عليه وسلم فقال: إنى جبان وإني ضعيف، قال: هلم إلى جهاد لا شوكة فيه : الحج
سنن دار قطنی، رقم : 282 ، سنن الكبرى للبيهقي : 350/4 ، ارواء الغليل : 152/4 ۔ محدث البانی نے اسے ”صحیح الإسناد“ قرار دیا ہے۔
”اور حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے کہا، بلاشبہ میں ایک ضعیف القلب اور کمزور آدمی ہوں ۔ آپ نے ارشاد فرمایا، ایسا جہاد کرو جس میں کوئی تکلیف نہیں اور وہ حج ہے۔“
رمضان میں عمرہ کا ثواب حج کے برابر
حدیث 13
وعن ابن عباس رضي الله عنه يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : لامرأة من الأنصار ، ما منعك أن تححين معنا؟ قالت: كان لنا ناضح فركبه أبو فلان وابنه لزوجها وابنها ، وترك ناضحا ننضح عليه قال: فإذا كان رمضان اعتمرى فيه، فإن عمرة فى رمضان حجة
صحیح بخاری کتاب الحج، باب عمرة في رمضان، رقم:1782، مسلم، رقم : 1256 ، سنن ابن ماجه رقم : 2993 ۔
”اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم م نے ایک انصاری خاتون (ام سنان رضی اللہ عنہا ) پوچھا: تو ہمارے ساتھ حج کیوں نہیں کرتی؟ وہ کہنے لگی کہ ہمارے پاس ایک اونٹ تھا جس پرا بوفلاں (یعنی اس کا خاوند ) اور اس کا بیٹا سوار ہو کر حج کے لیے چل دیئے اور ایک اونٹ انہوں نے چھوڑا ہے، جس سے پانی لایا جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا جب رمضان آئے تو عمرہ کر لینا کیونکہ رمضان کا عمرہ ایک حج کے برابر ہوتا ہے۔ “
حاجی اور عمرہ والے کو اس کے خرچ اور مشقت کا اجر
حدیث 14
وعن الأسود قالا: قالت عائشة رضي الله عنها : يا رسول الله! يصدر الناس بنسكين وأصدر بنسك، فقيل لها: انتظرى فإذا طهرت فاخرجى إلى التنعيم فأهلى ، ثم اثتينا بمكان كذا ، ولكنها على قدر نفقتك أو نصبك
صحیح بخاری، کتاب العمرة ، رقم : 1787 ، صحیح مسلم، رقم : 1211 .
”اور اسود رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! لوگ تو دونسک (یعنی حج و عمرہ) کر کے واپس ہو رہے ہیں اور میں نے صرف ایک نسک (یعنی حج ) کیا ہے؟ اس پر ان سے کہا گیا کہ پھر انتظار کریں اور جب پاک ہو جائیں تو تنعیم جا کر وہاں سے (عمرہ کا ) احرام باندھیں پھر ہم سے فلاں جگہ آملیں اور یہ کہ اس عمرہ کا ثواب تمہارے خرچ اور محنت کے مطابق ملے گا۔ “
حاجی کو اپنی سواری کی وجہ سے بھی اجر ملتا ہے
حدیث 15
وعن ابن عمر قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : لا صلى الله عليه وسلم يضع قدما ولا يرفع أخرى إلا حط الله عنه خطيئة وكتب له بها حسنة
شعب الايمان للبيهقي، رقم: 4116، صحيح الترغيب، كتاب الحج : 1106 ، سنن ،ترمذی، رقم : 959 .
”اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے سنا: حاجی کا اونٹ جب بھی قدم اٹھاتا ہے یا ہاتھ (زمین پر) رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے اس کے بدلے ایک نیکی لکھ دیتے ہیں یا اس سے ایک گنا مٹا دیتے ہیں یا اس کا ایک درجہ بلند فرما دیتے ہیں۔ “
حج و عمرہ کے راستے میں فوت شدہ کے لیے مکمل اجر
حدیث 16
وعن أبى هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من خرج حاجا فمات كتب الله له أجر الحاج إلى يوم القيامة ، ومن خرج معتمرا فمات كتب الله أجرا المعتمر إلى يوم القيامة ، ومن خرج غازيا فى سبيل الله فمات كتب الله له أجرا الغازي إلى يوم القيامة
مسند ابی یعلى : 6357/11 ، سلسلة الصحيحة، رقم : 2553.
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص حج کرنے کے لیے نکلا اور فوت ہو گیا تو اس کے لیے روز قیامت تک حج کرنے والے کا اجر لکھ دیا جاتا ہے۔ اور جو عمرہ کرنے کے لیے روانہ ہوا اور فوت ہو گیا تو اس کے لیے روز قیامت تک عمرہ کرنے والے کا اجر لکھ دیا جاتا ہے۔ اور جو شخص جہاد کرنے کے لیے نکال اور فوت ہو گیا تو اس کے لیے روز قیامت تک جہاد کرنے والے کا اجر لکھ دیا جاتا ہے۔ “
حج اسلام کا رکن ہے
قَالَ اللهُ تَعَالَى: فِيهِ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ مَّقَامُ إِبْرَاهِيمَ ۖ وَمَن دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا ۗ وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا ۚ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ ﴿٩٧﴾
(3-آل عمران:97)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اس میں واضح نشانیاں ہیں (اور ) مقام ابراہیم ہے، اور جو اس میں داخل ہو جائے ، وہ امن والا ہو جاتا ہے، اللہ نے ان لوگوں پر بیت اللہ کا حج فرض کیا ہے جو اس کی طرف سفر کرنے کی طاقت رکھتے ہوں اور جس نے کفر کیا تو بے شک اللہ ساری دنیا سے بے پروا ہے۔ “
حدیث 17
وعن ابن عمر رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : بني الإسلام على خمس: شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله ، وإقام الصلاة ، وإيتاء الزكاة ، والحج ، وصوم رمضان
صحیح بخاری کتاب الایمان ،رقم : 8، صحیح مسلم، رقم : 16 ، سنن ترمذی 26 رقم : 2612 .
”اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اسلام کی بنیاد پانچ اشیاء پر رکھی گئی ہے، یہ گواہی دینا کہ اللہ تعالی کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں اور یقینا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ، نماز قائم کرنا، زکوۃ ادا کرنا، حج کرنا اور ماہ رمضان کے روزے رکھنا۔ “
حج کے وقت عورت کے ساتھ محرم ہو
حدیث 18
وعن أبى هريرة رضي الله عنه قال: قال النبى صلى الله عليه وسلم : لا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر أن تسافر مسيرة يوم وليلة ليس معها حرمة
صحیح بخاری کتاب تقصیر الصلاة، رقم : 1088 ، صحیح مسلم، رقم : 1339 .
” اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالٰی اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والی کسی بھی عورت کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ بغیر کسی محرم رشتہ دار کے ایک دن اور رات کا سفر کرے۔ “
وقوف عرفہ اور مزدلفہ میں شب بیداری
قَالَ اللهُ تَعَالَى: لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَبْتَغُوا فَضْلًا مِّن رَّبِّكُمْ ۚ فَإِذَا أَفَضْتُم مِّنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِندَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ ۖ وَاذْكُرُوهُ كَمَا هَدَاكُمْ وَإِن كُنتُم مِّن قَبْلِهِ لَمِنَ الضَّالِّينَ ﴿١٩٨﴾
(2-البقرة:198)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم (حج کے دوران ) اپنے رب کا فضل تلاش کرو، پھر جب تم عرفات سے لوٹو تو مشعر الحرام کے پاس اللہ کو یاد کرو اور تم اسے اس طرح یاد کرو جس طرح اس نے تمھیں ہدایت دی اور یقیناً اس سے پہلے تم گمراہوں میں سے تھے ۔ “
حدیث 19
وعن عروة بن مضرس الطائي أنه حج على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فلم يدرك الناس إلا وهم بجمع ، قال: فأتيت النبى صلى الله عليه وسلم فقلت: يا رسول الله! إني أنضيت راحلتي وأتعبت نفسي، والله إن تركت من حبل إلا وقفت عليه، فهل لي من حج فقال النبى : من شهد معنا الصلاة ، وأفاض من عرفات ليلا أو نهارا ، فقد قضى تفثه وتم حجه
سنن ابن ماجه، رقم : 3016، سنن ابو داؤد، رقم : 1950 .
” اور حضرت عروہ بن مضرس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں حج کیا۔ وہ (عام) لوگوں تک اس وقت پہنچے جب لوگ مزدلفہ میں تھے۔ وہ کہتے ہیں: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! میں نے اپنی سواری کو دبلا کر دیا اور اپنی جان کو تھکا دیا۔ قسم ہے اللہ کی میں نے کوئی ٹیلا نہیں چھوڑا جس پر ٹھہرا نہ ہوں۔ تو کیا میرا حج ہو گیا ؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص ہمارے ساتھ (10 ذوالحجہ کے روز مزدلفہ میں فجر کی) نماز میں حاضر ہوا اور میدان عرفات سے رات یا دن کو چکر لگا آیا تو بے شک اس نے اپنا میل کچیل دور کر لیا اور اس کا حج مکمل ہوا۔ “
حدیث 20
وعن عروة بن مضرس بن أوس بن حارثة بن الطائي قال: أتيت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم بالمزدلفة حين خرج إلى الصلاة فقلت: يا رسول الله إني جنت من جبلي طيء أكللت راحلتي وأتعبت نفسى والله ما تركت من حبل إلا وقفت عليه فهل لى من حج؟ فقال رسول الله : من شهد صلاتنا هذه ووقف معنا حتى ندفع وقد وقف بعرفة قبل ذلك ليلا أو نهارا فقد أتم حجه وقضى تفثه
سنن ترمذی، کتاب الحج، رقم : 891۔
”اور حضرت عروہ بن مضرس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں مزدلفہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت آیا جب آپ نماز کے لیے نکلے۔ میں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں طے کے دو پہاڑوں کے درمیان سے آیا ہوں، میں نے اپنی سواری کو اور اپنے آپ کو تھکا دیا۔ اللہ کی قسم! میں نے کوئی ایسا ٹیلہ نہیں چھوڑا جس پر وقوف نہ کیا ہو تو کیا میرا حج ہو گیا ہے؟ یہ سن کر رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: جو ہماری اس نماز میں شریک ہوا اور ہمارے ساتھ (مزدلفہ میں ) ٹھہرا رہا حتی کہ لوٹ گیا اور اس سے پہلے رات یا دن کے کسی حصے میں وہ وقوف عرفہ بھی کر چکا تھا تو یقیناً اس کا حج مکمل ہوا اور اس نے مناسک حج مکمل کر لیے ۔“
طواف وداع کرنا
حدیث 21
وعن ابن عباس رضي الله عنه قال: أمر الناس أن يكون آخر عهدهم بالبيت إلا أنه خفف عن الحائض
صحیح بخاری، کتاب الحج، رقم : 1755 ، صحیح مسلم، رقم : 1328، سنن دارمی : 1933 .
”اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں کو حکم دیا گیا کہ وہ سب سے آخر میں بیت اللہ کا طواف ( یعنی طواف وداع)کریں لیکن حائضہ سے سے اس کی تخفیف کی گئی ہے۔“
حج استطاعت کے بعد فوری طور پر واجب ہے
قَالَ اللهُ تَعَالَى: فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ
(2-البقرة:148)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” لہذا تم نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھو۔“
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: وَسَارِعُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ
(3-آل عمران:133)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اور اپنے رب کی بخشش کی طرف دوڑو ۔“
حدیث 22
وعن ابن عباس ، عن الفضل أو أحدهما عن الآخر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من أراد الحج فليتعجل فإنه قد يمرض المريض، وتضل الراحلة، وتعرض الحاجة
مسند احمد : 214/1 ، سنن ابن ماجه ، كتاب المناسك، رقم : 2883 ، ارواء الغليل :990۔ احمد شاکر نے اسے صحیح کہا ہے۔
” اور حضرت عبد اللہ بن عباس یا حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو حج کرنا چاہتا ہے وہ جلدی کرے کیونکہ بے شک مرض لاحق ہو سکتا ہے، سواری گم ہوسکتی ہے اور کوئی حاجت پیش آسکتی ہے۔“
عمرہ ایک سے زیادہ مرتبہ بھی کیا جاسکتا ہے
حدیث 23
وعن أبى هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: العمرة إلى العمرة كفارة لما بينهما ، والحج المبرور ليس له جزاء إلا الجنة
صحیح بخاری کتاب الحج، رقم : 1773 ، صحیح مسلم، رقم 1349، سنن ترمذی، رقم : 933.
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک عمرہ دوسرے عمرہ تک دونوں کے درمیانی گناہوں کا کفارہ ہے۔ “
نا بالغ بچے کاحج
حدیث 24
وعن ابن عباس ، قال رفعت امرأة صبيا لها ، فقالت: يا رسول الله ألهذا حج؟ قال: نعم، ولك أجر
صحيح مسلم، کتاب الحج ، رقم 3254، سنن ابو داؤد، رقم : 1736 .
” اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت اپنے بچے کو اٹھا کر لائی اور کہا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا اس کے لیے حج ہے؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا: ہاں اور اس کا ثواب تمہیں ملے گا۔“
حدیث 25
وَعَنْ أَبِي أُمَامَةَ التَّيْمِي قَالَ: كُنْتُ رَجُلًا أُكَرِى فِي هَذَا الْوَجْهِ ، وَكَانَ نَاسٌ يَقُولُونَ لِي: إِنَّهُ لَيْسَ لَكَ حَقٌّ ، فَلَقِيتُ ابْنَ عُمَرَ فَقُلْتُ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، إِنِّي رَجُلٌ أُكَرِى فِي هَذَا الْوَجْهِ ، وَإِنَّ نَاسًا يَقُولُونَ لِي: إِنَّهُ لَيْسَ لَكَ حَقٌّ ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ : أَلَيْسَ تُحْرِمُ وَتُلَبِى وَتَطُوفُ بِالْبَيْتِ وَتُفِيضُ مِنْ عَرَفَاتٍ وَتَرْمِي الْحِمَارَ؟ قَالَ: قُلْتُ: بَلَى قَالَ: فَإِنَّ لَكَ حَبًّا، جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَسَأَلَهُ عَنْ مِثْلِ مَا سَأَلْتَنِي عَنْهُ، فَسَكَتَ عَنْهُ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم فَلَمْ يُجِبْهُ، حَتَّى نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: ﴿لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ﴾[البقرة : 198] فأرسل إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم وقرأ عليه هذه الآية وقال: لك حج
سنن ابو داؤد، كتاب المناسك ، رقم : 1733۔ محدث البانی نے اسے ”صحیح“ کہا ہے۔
” اور ابو امامہ تیمی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے حج میں جانور کرایہ پر دیتا تھا۔ لوگ کہتے تھے تیرا حج نہیں ہوتا۔ میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے کہا کہ اے ابو عبد الرحمن ! میں ایسا آدمی ہوں جو دوران حج کرایہ کماتا ہوں اور لوگ کہتے ہیں کہ میرا حج درست نہیں۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، کیا تو احرام نہیں باندھتا، تلبیہ نہیں کہتا، طواف نہیں کرتا، عرفات سے نہیں لوٹتا اور کنکریاں نہیں مارتا ؟ میں نے کہا، کیوں نہیں، سب کچھ کرتا ہوں۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا پھر تو تیرا حج درست ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا تھا اور اس نے آپ سے ایسا ہی سوال پوچھا تھا جیسا اس نے مجھ سے پوچھا ہے۔ آپ خاموش رہے اور کوئی جواب نہ دیا حتی کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ” تم پر اپنے رب کا فضل تلاش کرنے میں کوئی گناہ نہیں۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کو بلایا اور یہ آیت سنائی اور کہا: تیرا حج درست ہے۔“
کسی دوسرے کی طرف سے حج کرنا
حدیث 26
وعن عبد الله ابن عباس رضی اللہ عنہ قال: كان الفضل رديف رسول الله صلى الله عليه وسلم فجاءت امرأة من خشعم فجعل الفضل ينظر إليها ، وتنظر إليه ، وجعل النبى صلی اللہ علیہ وسلم يصرف وجه الفضل إلى الشق الآخر ، فقالت: يا رسول الله! إن فريضة الله على عباده فى الحق أدركت أبى شيخا كبيرا لا يثبت على الراحلة أفأحج عنه قال: نعم، وذلك فى حجة الوداع
صحیح بخاری، کتاب الحج ، رقم : 1513 ، صحیح مسلم، رقم : 1334 ، سنن : ابوداؤد، رقم : 1809 .
”اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ فضل بن عباس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھے، پس خثعم قبیلہ کی ایک عورت آئی تو فضل اس کی طرف دیکھنے لگ گئے اور وہ ان کی طرف دیکھنے لگ گئی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل کا رُخ دوسری طرف پھیر دیا، پس اس نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! بے شک اللہ کی جانب سے اس کی بندوں پر عائد فریضہ حج نے میرے والد پا لیا ہے اور وہ بہت بوڑھا ہے، سواری پر سوار ہونے کی طاقت نہیں رکھتا، کیا میں اس کی طرف سے حج کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ یہ حج الوداع کا واقعہ ہے۔“
حدیث 27
وعن ابن عباس رضي الله عنه أن امرأة من جهينة جاءت إلى النبى صلى الله عليه وسلم فقالت: إن أمي نذرت أن تحج فلم تحج حتى ماتت أفأحج عنها؟ قال: نعم ، حجى عنها أرأيت لو كان على أمك دين أكنت قاضية؟ اقضوا الله، فالله أحق بالوفاء
صحیح بخاری کتاب العمرة، رقم : 1852.
”اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جہنیہ قبیلہ کی ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور اس نے عرض کیا، میری والدہ نے نذر مانی تھی کہ وہ حج کرے گی لیکن وہ حج کرنے سے پہلے ہی فوت ہوگئی، کیا میں اس کی طرف سے حج کروں؟ آپ نے ارشاد فرمایا : ہاں اس کی طرف سے حج کر۔ مجھے بتا اگر تیری ماں پر قرض ہوتا تو کیا تو اسے ادا کرتی ؟ اللہ کا قرض ادا کر ( کیونکہ ) اللہ کا قرض سب سے زیادہ حق رکھتا ہے کہ اسے ادا کیا جائے۔“
حج فی سبیل اللہ میں شامل ہے
حدیث 28
وعن أم معقل الأسدية قالت: قال النبى صلى الله عليه وسلم : الحج والعمرة من سبيل الله
مسند احمد ،رقم : 221/4 ، 405/6 ، مستدرك حاكم : 482/1، ارواء الغليل، رقم : 869۔ حاکم اور شیخ حمزہ زین نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت ام معقل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حج اور عمرہ فی سبیل اللہ میں شامل ہے۔ “
تلبیہ اونچی آواز سے پکارنا چاہیے
حدیث 29
وعن السائب بن خلاد ، أن النبى صلى الله عليه وسلم قال: أتاني جبريل فأمرني أن أمر أصحابي أن يرفعوا أصواتهم بالإهلال
سنن ابن ماجه ، كتاب المناسك ، رقم : 2922 ۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
” اور حضرت سائب بن خلاد بن سوید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حضرت جبریل علیہ السلام میرے پاس وحی لے کر تشریف لائے کہ (اے نبی ! ) اپنے ساتھیوں کو بلند آواز سے تلبیہ کہنے کا حکم دو۔ “
جمرہ عقبہ کی رمی
حدیث 30
وعن جابر يقول: رأيت النبى صلى الله عليه وسلم يرمن على راحلته يوم النحر، ويقول: لتأخذوا مناسككم، فإني لا أدري لعلي لا احج بعد حجتى هذه
صحیح مسلم، کتاب المناسك، رقم : 3137.
”اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو رمی کرتے ہوئے دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مجھے سے حج کے طریقے سیکھ لو، میں نہیں جانتا شاید اس حج کے بعد میں کوئی حج نہ کر سکوں۔ “
خطبة يوم النحر
حدیث 31
وعن أبى بكرة عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: الزمان قد استدار كهيئة يوم خلق السموات والأرض ، السنة اثنا عشر شهرا ، منها أربعة حرم ، ثلاثة متواليات ذو القعدة، وذو الحجة، والمحرم، ورجب مضر الذى بين جمادى وشعبان ، أى شهر هذا؟ قلنا: الله ورسوله أعلم ، فسكت حتى ظننا أنه سيسميه بغير اسمه، قال: أليس ذو الحجة؟ قلنا: بلى ، قال: ف أى بلد هذا؟ قلنا: الله ورسوله أعلم ، فسكت حتى ظننا أنه سيسميه بغير اسمه، قال: أليس البلدة؟ قلنا: بلى، قال: ف أى يوم هذا؟ قلنا الله ورسوله أعلم، فسكت حتى ظننا أنه سيسميه بغير اسمه ، قال: أليس يوم النحر؟ قلنا: بلى، قال: فإن دمانكم وأموالكم – قال محمد: وأحسبه قال: وأعراضكم – عليكم حرام كحرمة يومكم هذا، فى بلدكم هذا، فى شهركم هذا، وستلقون ربكم فسيسألكم عن أعمالكم ، ألا فلا ترجعوا بعدي ضلالا ، يضرب بعضكم رقاب بعض ، ألا ليبلغ الشاهد الغائب ، فلعل بعض من يبلغه أن يكون أوعى له من بعض من سمعه ، فكان محمد إذا ذكره يقول: صدق محمد صلى الله عليه وسلم ثم قال: ألا هل بلغت مرتين
صحیح بخاری، کتاب المغازی، رقم : 4406 ، صحیح مسلم، رقم : 1679 .
”اور حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خطبہ میں فرمایا: بلاشبہ زمانہ گھوم کر اپنی اسی دن کی ہیئت پر پہنچ گیا ہے جس دن اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا تھا۔ سال بارہ مہینے کا ہے، جن میں سے چار مہینے حرمت کے ہیں۔ تین تو پے در پے ہیں یعنی ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم اور ایک رجب مضر، جو جمادی الآخرہ اور شعبان کے درمیان ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ یہ کون سا مہینہ ہے؟ ہم نے عرض کیا ، اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ خاموش ہو گئے ۔ ہم نے خیال کیا کہ آپ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا، کیا یہ ذوالحجہ کا مہینہ نہیں ہے؟ ہم نے جواب دیا، کیوں نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا، یہ کون سا شہر ہے؟ ہم نے عرض کیا، اللہ اور اس کا رسول خوب جانتے ہیں، آپ خاموش ہو گئے حتی کہ ہم نے سوچا شاید آپ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے۔ پھر آپ نے خود ہی فرمایا: کیا یہ حرمت والا شہر نہیں ہے؟ ہم نے عرض کیا، بے شک۔ پھر آپ نے دریافت کیا، یہ کون سا دن ہے؟ ہم نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ خاموش ہو گئے حتی کہ ہم نے یہ گمان کیا کہ آپ اس کا کوئی اور نام بتائیں گے۔ آپ نے پھر خود فرمایا، کیا یہ نحر کا دن نہیں ہے؟ ہم نے کہا، بالکل ٹھیک۔ آپ نے فرمایا، بلاشبہ تمہارے خون، تمہارے اموال اور تمہاری عزتیں تم پر حرام ہیں، جیسے تمہارا یہ دن، تمہارا یہ شہر اور تمہارا یہ مہینہ حرمت والا ہے۔ تم عنقریب اپنے پروردگار سے ملو گے وہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں دریافت کرے گا۔ خبردار! تم میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا کہ تم ایک دوسرے کی گردنوں پر تلوار میں چلاؤ۔ خبردار! کیا میں نے تبلیغ کر دی؟ لوگوں نے کہا، جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: اے اللہ ! گواہ رہنا۔ پھر فرمایا : جو لوگ حاضر ہیں وہ یہاں غیر حاضر لوگوں تک یہ پیغام پہنچا دیں اس لیے کہ کبھی وہ لوگ جنہیں کچھ پہنچایا جاتا ہے سننے والوں سے زیادہ یاد رکھنے والے ہوتے ہیں۔“
عمرے کا ثواب بقدر مشقت
حدیث 32
وعن الأسود قالا: قالت عائشة رضی اللہ عنہا يا رسول الله يصدر الناس بنسكين ، وأصدر بنسك فقيل لها: انتظرى فإذا طهرت فاخرجى إلى التنعيم ، فأهلى ثم اثتينا بمكان كذا ولكنها على قدر نفقتك ، أو نصبك
صحیح بخاری، کتاب العمرة رقم : 1787 .
”اور اسود نے بیان کیا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ ! لوگ تو دونسک (حج اور عمرہ) کر کے واپس ہو رہے ہیں اور میں نے صرف ایک نسک (حج) کیا ہے؟ اس پر ان سے کہا گیا: پھر انتظار کریں اور جب پاک ہو جائیں تو تنعیم جا کر وہاں سے (عمرہ کا ) احرام باندھیں ، پھر ہم سے فلاں جگہ آ ملیں اور یہ کہ اس عمرہ کا ثواب تمہارے خرچ اور محنت کے مطابق ملے گا۔ “
احرام باندھتے وقت خوشبو لگانا
حدیث 33
وعن عائشة رضي الله عنها قالت: كنت أطيب النبى صلى الله عليه وسلم عند إحرامه بأطيب ما أجد
صحیح بخاری، کتاب اللباس، رقم : 5928 ، صحیح مسلم، رقم : 1189 .
”اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو احرام باندھتے وقت اپنے پاس موجود سب سے عمدہ خوشبو ( کستوری) لگایا کرتی تھی ۔ “
حالت احرام میں فوت ہونے والے کا ثواب
حدیث 34
وعن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اغسلوا المحرم فى ثوبيه اللذين أحرم فيهما ، واغسلوه بماء وسدر، وكفنوه فى ثوبيه، ولا تمسوه بطيب، ولا تخمروا رأسه ، فإنه يبعث يوم القيامة محرما
سنن نسائی ، باب كيف يكفن المحرم إذا مات ، رقم : 1904 ۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
” اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: محرم کو اس کے ان دو کپڑوں میں پانی اور بیری کے پتوں کے ساتھ غسل دو جن میں اس نے احرام باندھا ہوا تھا اور اسے اس کے احرام کے دو کپڑوں میں ہی کفن دو۔ اسے خوشبو مت لگاؤ اور اس کا سر بھی نہ ڈھانپو کیونکہ اسے روز قیامت احرام کی حالت میں ہی اٹھایا جائے گا۔“
حج میں قربانی کرنا
قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَلَا تَحْلِقُوا رُءُوسَكُمْ حَتَّىٰ يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ
(2-البقرة:196)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اپنے سر نہ منڈاؤ جب تک کہ قربانی قربان گاہ تک نہ پہنچ جائے۔“
حدیث 35
وعن أم سلمة قال: قال النبى صلى الله عليه وسلم : إذا دخلت العشر وأراد أحدكم أن يضحي ، فلا يمس من شعره وبشره شيئا
صحيح مسلم، کتاب الأضاحی، رقم : 1977 ، سنن ابوداؤد، رقم : 2791، سنن ترمذی، رقم : 1523، سنن ابن ماجه رقم : 3149، السنن الكبرى للنسائي، رقم: 4451 .
” اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب عشرہ ذوالحجہ شروع ہو جائے اور تم میں سے کوئی قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو اپنے بالوں اور ناخنوں سے کچھ نہ کاٹے “
تلبیہ کہنے کی فضیلت
حدیث 36
وعن سهل بن سعد رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ما من : ملب يلتى إلا لبى ما عن يمينه وشماله من حجر أو شجر أو مدر حتى تنقطع الأرض من هاهنا وهاهنا
سنن ابن ماجه كتاب المناسك، رقم : 2921 ، سنن ترمذی، رقم : 828 ۔ محدث البانی نے اسے ”صحیح“ کہا ہے۔
”اور حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب کوئی تلبیہ کہنے والا تلبیہ کہتا ہے تو اس کے دائیں اور بائیں جانب زمین کے آخری کناروں کے تمام پتھر ، درخت اور کنکریاں سب لبیک پکارتے ہیں (جس کا اجر بھی تلبیہ کہنے والے کو ملتا ہے۔) “
تلبیہ کے مسنون الفاظ
حدیث 37
وعن عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہ أن تلبية رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : لبيك اللهم لبيك، لبيك لا شريك لك لبيك، إن الحمد والنعمة لك والملك لا شريك لك
صحیح بخاری، کتاب الحج، رقم : 1549 ، صحیح مسلم، رقم : 1184، سنن ابوداؤد، رقم : 1812 .
” اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تلبیہ ان الفاظ میں تھا: لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ والنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ حاضر ہوں اے اللہ ! حاضر ہوں میں، تیرا کوئی شریک نہیں، حاضر ہوں، تمام حمد و تعریف تیرے لیے ہی ہے اور تمام نعمتیں تیری طرف سے ہی ہیں۔ بادشاہی تیری ہی ہے، تیرا کوئی شریک نہیں۔“
بیت اللہ کو دیکھ کر دعا کرنا
قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ۖ إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ﴿١٢٧﴾
(2-البقرة:127)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اور جب ابراہیم اس گھر کی بنیادیں اٹھا رہے تھے اور اسماعیل بھی۔ اے ہمارے رب! ہم سے قبول فرما، بے شک تو ہی سب کچھ سننے والا ، سب کچھ جاننے والا ہے۔ “
حدیث 38
وعن ابن عمر أنه لما رأى البيت يقول: اللهم أنت السلام ومنك السلام فحينا ربنا بالسلام
مصنف ابن أبي شيبة : 15757 ، تلخيص الجير لابن حجر : 257/2 .
”اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب وہ بیت اللہ شریف کو دیکھتے تو یہ دعا کرتے : اے اللہ ! تو ہی سلامتی والا ہے اور تیری طرف سے ہی سلامتی ہے لہذا اے پروردگار! تو ہمیں سلامتی کے ساتھ زندہ رکھ ۔ “
کعبہ کی فضیلت
حدیث 39
وعن ابن عمر قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من طاف بالبيت وصلى ركعتين كان كعتق رقبة
سنن ابن ماجه كتاب المناسك ، رقم : 2956 ، سلسلة الصحيحة : 2725.
”اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: جس نے بیت اللہ کا طواف کیا اور دو رکعتیں ادا کیں اسے ایک غلام آزاد کرنے کے برابر ثواب ملے گا۔ “
عمرہ کرنے والا کب احرام کی پابندیوں سے آزاد ہوتا ہے؟
حدیث 40
وقال عطاء عن جابر رضي الله عنه : أمر النبى صلى الله عليه وسلم أصحابه أن يجعلوها عمرة ويطوفوا ثم يقصروا ويحلوا
صحیح بخاری، ابواب العمرة، قبل حديث رقم : 1791 تعليقاً .
”اور حضرت عطاء نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ وہ اپنے احرام حج کو عمرہ میں بدل لیں، طواف کریں، پھر بال چھوٹے کرائیں اور احرام کی پابندیوں سے آزاد ہو جائیں ۔ “
وصلى الله تعالى على خير خلقه محمد وآله وصحبه أجمعين