سوال
کیا سر منڈوانا نبی کریم ﷺ سے کسی حدیث میں ثابت ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
➊ پہلی قسم: حج یا عمرے میں سر کا مونڈھنا
حکم:
یہ عمل اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے واضح طور پر مشروع اور واجب قرار دیا گیا ہے۔
قرآن مجید سے دلیل:
﴿لَتَدخُلُنَّ المَسجِدَ الحَرامَ إِن شاءَ اللَّـهُ ءامِنينَ مُحَلِّقينَ رُءوسَكُم وَمُقَصِّرينَ لا تَخافونَ…٢٧﴾
سورة الفتح
"ان شاء اللہ تم یقینا امن کے ساتھ مسجد حرام میں داخل ہوگے، سر منڈواتے ہوئے اور بال کترواتے ہوئے۔”
حدیث سے دلیل:
نبی کریم ﷺ سے حج اور عمرے میں سر منڈوانا تواتر سے ثابت ہے۔ بعض صحابہ کرامؓ نے بال منڈوائے اور بعض نے کتروائے، لیکن منڈوانا افضل ہے۔
نبی ﷺ نے فرمایا:
"اللهم ارحم المحلقين”
صحابہؓ نے عرض کیا:
"والمقصّرین یا رسول اللہ؟”
آپ ﷺ نے تین بار "المحلقین” کے لیے دعا کی، چوتھی بار "والمقصّرین” کے لیے بھی دعا فرمائی۔
➋ دوسری قسم: ضرورت کے لیے سر منڈوانا
مثال:
علاج کے مقصد سے سر منڈوانا، مثلاً جوؤں کی زیادتی کی وجہ سے۔
شرعی حیثیت:
یہ بھی کتاب و سنت اور اجماع امت سے جائز ہے۔
قرآن سے دلیل:
﴿وَلا تَحلِقوا رُءوسَكُم حَتّىٰ يَبلُغَ الهَدىُ مَحِلَّهُ ۚ فَمَن كانَ مِنكُم مَريضًا أَو بِهِ أَذًى مِن رَأسِهِ فَفِديَةٌ مِن صِيامٍ أَو صَدَقَةٍ أَو نُسُكٍ…١٩٦﴾
سورة البقرة
"اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو، تو وہ فدیہ دے…”
حدیث کعب بن عجرہؓ:
نبی ﷺ نے فرمایا:
"کیا تمہیں تمہارے جانور (جوئیں) تکلیف دے رہے ہیں؟”
انہوں نے عرض کیا: "ہاں!”
تو فرمایا:
"اپنا سر منڈوا دو، اور بکری کی قربانی کرو، یا تین روزے رکھو، یا چھ مسکینوں کو ایک فرق کھانا کھلا دو۔”
➌ تیسری قسم: عبادت، زہد یا تدین کی نیت سے سر منڈوانا
مثال:
گناہوں سے توبہ کے اظہار کے طور پر یا زاہد و عابد بننے کے لیے سر منڈوانا۔
شرعی حکم:
یہ بدعت ہے کیونکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے اس کا حکم نہیں دیا۔
عمل صحابہ و تابعین:
صحابہ، تابعین، اور معروف مشائخ مثلاً فضیل بن عیاض، ابراہیم بن ادہم، ابو سلیمان الدرارانی اور معروف کرخیؒ وغیرہ سے یہ عمل ثابت نہیں۔
ائمہ کا موقف:
کسی بھی امام دین نے اسے واجب یا مستحب قرار نہیں دیا۔
➍ چوتھی قسم: بلا سبب اور مناسک کے بغیر سر منڈوانا
پہلا قول:
یہ مکروہ ہے۔ امام مالکؒ اور امام احمدؒ کی ایک روایت کے مطابق۔
دوسرا قول:
یہ مباح ہے، اصحابِ ابو حنیفہؒ اور شافعیہ کا قول۔
حدیث دلیل:
نبی ﷺ نے ایک لڑکے کو دیکھا جس کا سر جزوی طور پر منڈا ہوا تھا، تو فرمایا:
"(احلقوا كله أو اترکوه كله)”
"پورا منڈوا دو یا پورا چھوڑ دو۔”
نبی ﷺ بچوں کے سروں کو تین دن بعد منڈوایا کرتے تھے۔
آپ نے قزع (جزوی مونڈنا) سے منع فرمایا ہے۔
پہلا قول والوں کی دلیل:
خوارج سر منڈواتے تھے اور اس عمل کو عبادت سمجھتے تھے۔
صحیحین میں آتا ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
"(سیماھم التحلیق)”
"ان کی علامت سر منڈوانا ہے۔”
فتح کے موقع پر ایک شخص آیا جو سر منڈائے اور گھنی داڑھی والا تھا، آپ نے اس کی پہچان یہی علامت بتائی۔
تلخیص از: مجموع الفتاویٰ لابن تیمیہ (21/115-119)
➎ پانچویں قسم: مصیبت کے وقت سر منڈوانا
شرعی حکم:
یہ کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔
حدیث دلیل:
نبی ﷺ نے فرمایا:
"میں اس سے بری ہوں جو مصیبت کے وقت سر منڈوائے، اپنے آپ کو تھپڑ مارے یا گریبان پھاڑے۔”
(المشکاۃ: 1/150)
ابن قدامہؒ کا قول:
(المغنی: 1/103)
امام احمدؒ سے دو روایات ہیں:
ایک میں سر منڈوانا مکروہ ہے، کیونکہ خوارج کی علامت یہی ہے۔
عمر بن خطابؓ نے صبیغ سے فرمایا:
"اگر میں نے تمہیں سر منڈائے پایا تو وہ تلوار ماروں گا جو تمہاری آنکھ نکال دے گی۔”
حدیث:
"پیشانی کے بال نہ ہٹائے جائیں مگر حج و عمرے میں۔”
(دارقطنی الافراد، کنز العمال: 12150، 12151)
ابن عباسؓ کا قول:
"جو شخص شہر میں سر منڈوائے، وہ شیطان ہے۔”
امام احمدؒ کا مؤقف:
سر منڈوانا مکروہ ہے، کیونکہ ترک کرنا افضل ہے۔
عبد القادر جیلانیؒ:
(الغنیہ: 1/15):
حج و عمرے کے علاوہ اور بلا ضرورت سر منڈوانا، امام احمدؒ کی ایک روایت کے مطابق مکروہ ہے۔
انہوں نے نبی ﷺ کے سر منڈوانے کا ذکر کیا ہے، مگر وہ بغیر سند اور مخرج کے ہے، لہٰذا اس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔
نتیجہ
نبی ﷺ سے حج و عمرے کے علاوہ سر منڈوانا ثابت نہیں۔
لہٰذا بلا ضرورت سر منڈوانے کے بجائے بال رکھنا افضل ہے، سوائے حج و عمرے کے موقع پر۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب