إن الحمد لله نحمده، ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له ، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله . أما بعد:
بَابُ ثُبُوْتِ النَّارِ وَعَذَابِهَا
جہنم کے وجود کا ثبوت اور اس کے عذاب کا بیان
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ فِي نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ أُولَٰئِكَ هُمْ شَرُّ الْبَرِيَّةِ ﴾
[البينة: 6]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”بے شک اہل کتاب میں سے جنہوں نے کفر کیا اور مشرک، جہنم کی آگ میں جائیں گے جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہ لوگ بدترین مخلوق ہیں۔“
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ﴾
[البقرة: 39]
اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیات کو جھٹلایا وہ آگ میں جانے والے ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔“
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَمَن يَرْتَدِدْ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُولَٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ وَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ﴾
[البقرة: 217]
اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھرے گا اور کفر کی حالت میں جان دے گا اس کے اعمال دنیا اور آخرت میں ضائع ہو جائیں گے ایسے لوگ آگ والے ہیں اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ “
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَعَدَ اللَّهُ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْكُفَّارَ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ هِيَ حَسْبُهُمْ ۚ وَلَعَنَهُمُ اللَّهُ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ مُّقِيمٌ﴾
[التوبة: 68]
اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”منافق مردوں عورتوں اور كافروں كے ساتھ الله نے جهنم كی آگ كا وعده كر ركها ہے جس ميں وه ہميشہ رہيں گے يہی آگ ان كے ليے كافی ہے ان پر الله كی لعنت ہے اور ان كے ليے نہ ٹلنے والا عذاب ہے۔“
حدیث 1:
«عن سمرة رضى الله عنه أنه سمع النبى صلى الله عليه وسلم يقول: إن منهم من تاخذه النار إلى كعبيه ومنهم من تأخذه إلى حجزته و منهم من تأخذه إلى عنقه»
(صحیح مسلم، كتاب الجنة وصفة نعيمها، باب جهنم أعاذنا الله منها، رقم: 7169)
”حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: بعض لوگوں کو آگ ٹخنوں تک جلائے گی ، بعض لوگوں کو کمر تک جلائے گی اور بعض لوگوں کو گردن تک جلائے گی۔ “
بَابُ دَرَكَاتِ النَّارِ
جہنم کے درجات کا بیان
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿فَأَمَّا مَن طَغَىٰ . وَآثَرَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا . فَإِنَّ الْجَحِيمَ هِيَ الْمَأْوَىٰ .﴾
[النازعات: 37 تا 39]
اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”جس نے سرکشی اختیار کی اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی اس کا ٹھکانا بھڑکتی ہوئی آگ کا گڑھا ہو گا۔“
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمَوْعِدُهُمْ أَجْمَعِينَ . لَهَا سَبْعَةُ أَبْوَابٍ لِّكُلِّ بَابٍ مِّنْهُمْ جُزْءٌ مَّقْسُومٌ .﴾
[الحجر: 43، 44]
اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”شیطان کی پیروی کرنے والے تمام انسانوں کے لیے جہنم کی وعید ہے جس کے سات دروازے ہیں ہر دروازے کے لیے جہنمیوں میں سے ایک حصہ مخصوص کر دیا گیا ہے۔ “
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَلَن تَجِدَ لَهُمْ نَصِيرًا﴾
[النساء: 145]
اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”بے شک منافقین جہنم کی سب سے نچلی کھائی میں ہوں گے اور آپ ہرگز ان کا کوئی مددگار نہ پائیں گے۔“
حدیث 2:
«عن أبى هريرة لا عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: تأكل النار ابن أدم إلا أثر السجود حرم الله على النار أن تأكل أثر السجود»
سنن ابن ماجه، کتاب الزهد، باب صفة النار، رقم: 4326 ۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”آگ ابن آدم کے سارے جسم کو کھائے گی لیکن سجدہ والی جگہ کو نہیں کھائے گی اللہ تعالیٰ نے آگ پر سجدہ والی جگہ کو کھانا حرام کر دیا ہے۔ “
بَابُ سَعَةِ النَّارِ
جہنم کی وسعت کا بیان
قالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿كَلَّا ۖ إِنَّهَا لَظَىٰ . نَزَّاعَةً لِّلشَّوَىٰ. تَدْعُو مَنْ أَدْبَرَ وَتَوَلَّىٰ.﴾
[المعارج: 15 تا 18]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”ہر گز نہیں، وہ تو بھڑکتی ہوئی آگ کی لپیٹ ہے جو سر اور منہ کی کھال ادھیٹر دے گی پکار پکار کر اپنی طرف بلائے گی ہر اس شخص کو جس نے حق سے منہ موڑا ، پیٹھ پھیری مال جمع کیا اور خرچ نہ کیا۔ “
حدیث 3:
«عن أبى هريرة رضى الله عنه أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إن العبد ليتكلم بالكلمة ينزل بها فى النار أبعد ما بين المشرق وبين المغرب»
صحیح مسلم، کتاب الزهد، باب حفظ اللسان، رقم: 7481
”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ بندہ کوئی ایسی بات زبان سے کہہ دیتا ہے جس کی وجہ سے وہ جہنم میں زمین و آسمان کے درمیان فاصلے سے بھی نیچے چلا جاتا ہے۔ “
بَابُ هَوْلِ عَذَابِ النَّارِ
جہنم کے عذاب کی ہولناکی کا بیان
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿إِذَا رَأَتْهُم مِّن مَّكَانٍ بَعِيدٍ سَمِعُوا لَهَا تَغَيُّظًا وَزَفِيرًا﴾
[الفرقان: 12]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”جب جہنم کافروں کو دُور سے دیکھے گی تو کافر جہنم کا غصے سے چیخنا چلانا سن لیں گے۔ “
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِنَا سَوْفَ نُصْلِيهِمْ نَارًا كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُودُهُم بَدَّلْنَاهُمْ جُلُودًا غَيْرَهَا لِيَذُوقُوا الْعَذَابَ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَزِيزًا حَكِيمًا﴾
[النساء: 56]
اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”بے شک وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیتوں کو ماننے سے انکار کیا ہے انہیں ہم یقیناً آگ میں جھونکیں گے جب ان کے بدن کی کھال گل جائے گی تو اس کی جگہ دوسری کھال پیدا کر دیں گے تاکہ وہ عذاب کا خوب مزہ چکھیں، اللہ غالب بھی ہے اور حکمت والا بھی ہے۔“
حدیث 4:
«عن أنس بن مالك رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يوتى بأنعم اهل الدنيا من أهل النار يوم القيامة فيصبغ فى النار صبغة ثم يقال: يا ابن آدم هل رأيت خيرا قط؟ هل مر بك نعيم قط؟ فيقول: لا والله! يا رب ويؤتى بأشد الناس بوسا فى الدنيا من اهل الجنة فيصبغ صبغة فى الجنة، فيقال له: يا ابن آدم! هل رأيت بوسا قط؟ هل مر بك شدة قط؟ فيقول: لا والله يا رب! ما مربي من بوس قط، ولا رأيت شدة قط»
صحیح مسلم، کتاب صفات المنافقين، باب صبغ انعم اهل الدنيا في النار و صبغ، رقم: 7088
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”قیامت کے روز ایسے شخص کو لایا جائے گا جس کا جہنم میں جانا طے ہو چکا ہو گا دنیا میں اس نے زیادہ عیش وعشرت کی ہوگی اسے دوزخ میں ایک غوطہ دیا جائے گا اور اس سے پوچھا جائے گا اے ابن آدم! کیا دنیا میں تو نے کوئی نعمت دیکھی، کبھی دنیا میں تمہارا ناز و نعم سے واسطہ پڑا؟ وہ کہے گا: اے میرے رب! تیری قسم کبھی نہیں۔ پھر ایک ایسے آدمی کو لایا جائے گا جو جنتی ہو گا لیکن دنیا میں بڑی تکلیف کی زندگی بسر کی ہوگی اسے جنت میں ایک غوطہ دیا جائے گا اور اس سے پوچھا جائے گا: اے ابن آدم! کبھی دنیا میں تو نے کوئی تکلیف دیکھی یا رنج وغم سے کبھی تمہارا واسطہ پڑا؟ وہ کہے گا: اے میرے رب! تیری قسم کبھی نہیں۔ مجھے تو نہ کبھی رنج وغم سے واسطہ پڑا نہ کوئی دکھ یا تکلیف دیکھی۔ “
بَابُ شِدَّةِ حَرِّ النَّارِ
جہنم کی آگ کی شدت کا بیان
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿تَلْفَحُ وُجُوهَهُمُ النَّارُ وَهُمْ فِيهَا كَالِحُونَ﴾
[المؤمنون: 104]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”آگ ان کے چہروں کو چاٹ جائے گی اور ان کے جبڑے باہر نکل آئیں گے۔“
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ ۖ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ﴾
[البقرة: 24]
اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اس آگ سے بچو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے اور آگ کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ “
حدیث 5:
«عن أبى هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما رأيت مثل النار نام هاربها ولا مثل الجنة نام طالبها»
سنن ترمذی ابواب صفة جهنم، باب منه قصة اخر اهل النار خروجا، رقم: 2601 ـ سلسلة الصحيحة، رقم: 951
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے جہنم سے بھاگنے والے کسی شخص کو (آرام کی نیند ) سوتے نہیں دیکھا نہ ہی جنت کے کسی خواہشمند کو (آرام کی نیند ) سوتے دیکھا ہے۔ “
بَابُ اَهْوَنِ عَذَابِ النَّارِ
جہنم کے ہلکے ترین عذاب کا بیان
حدیث 6:
«عن ابن عباس رضي الله عنها أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: أهون أهل النار عذابا أبو طالب وهو منتعل بنعلين يغلى منهما دماغه»
صحیح مسلم، کتاب الايمان، باب اهون اهل النار عذابا، رقم: 515
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جہنم کا سب سے ہلکا عذاب عذاب ابوطالب کو ہو گا اور اسے آگ کی دو جوتیاں پہنائی جائیں گی جن سے اس کا دماغ کھولے گا۔ “
بَابُ حَالِ أَهْلِ النَّارِ
جہنمیوں کے حال کا بیان
قَالَ اللهُ تعالى: ﴿لَهُمْ فِيهَا زَفِيرٌ وَهُمْ فِيهَا لَا يَسْمَعُونَ﴾
[الأنبياء: 100]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”جہنم میں کافر پھنکارے ماریں گے اور حال یہ ہوگا کہ وہاں کان پڑی آواز سنائی نہیں دے گی۔ “
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِنَا سَوْفَ نُصْلِيهِمْ نَارًا كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُودُهُم بَدَّلْنَاهُمْ جُلُودًا غَيْرَهَا لِيَذُوقُوا الْعَذَابَ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَزِيزًا حَكِيمًا﴾
[النساء: 56]
اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”جن لوگوں نے ہماری آیتوں کا انکار کیا ہے انہی ہم جلد ہی آگ میں جھونک دیں گے جیسے ہی ان کے جسم کی کھال گل سڑ جائے گی ویسے ہی ہم اس کی جگہ دوسری کھال پیدا کر دیں گے تاکہ وہ خوب عذاب کا مزا چکھیں بے شک اللہ غالب اور حکمت والا ہے۔“
حدیث 7:
«عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: يحشر المتكبرون يوم القيامة أمثال الذر فى صور الرجال يغشاهم الذل من كل مكان يساقون إلى سجن فى جهنم يسمى بولس تعلوهم نار الانيار يسقون من عصارة أهل النار طينة الخبال»
سنن ترمذی، ابواب الصفة القيامة و الرقائق و الورع، باب منه، رقم: 2492 ـ المشكاة، رقم: 5112۔ محدث البانی نے اسے حسن کہا ہے۔
حضرت عمررو بن شعیب اپنے باپ سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”قیامت کے روز تکبر کرنے والوں کو چیونٹیوں کی مانند انسانوں کی شکل میں اٹھایا جائے گا ان پر ہر طرف سے ذلت چھائی ہوئی ہو گی جہنم میں وہ ایک جیل کی طرف ہانکے جائیں گے جس کا نام بولس ہو گا۔ بدترین آگ ان کو گھیر لے گی اور انہیں جہنمیوں کے جسموں سے رسنے والا (پیپ اور خون وغیرہ) پینے کو دیا جائے گا جسے طينة الخبال کہا جاتا ہے۔ “
حدیث 8:
«عن أبى سعيد الخدرد رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: يدخل أهل الجنة الجنة وأهل النار النار يقول الله تعالى: أخرجوا من كان فى قلبه مثقال حبة من خردل من إيمان فيخرجون منها قد امتحشوا وعادوا جمما فيلقون فى نهر الحيا أو الحياة شك مالك فينبتون كما تنبت الحبة فى جانب السيل ، ألم تر أنها تخرج صفراء ملتوية»
صحیح بخاری، کتاب الرقاق، باب صفة الجنة والنار، رقم: 6560
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”حساب کتاب کے بعد جنتی جنت میں چلے جائیں گے جہنمی جہنم میں چلے جائیں گے پھر اللہ تعالیٰ (جب چاہے گا) ارشاد فرمائے گا جس آدمی کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہے اسے بھی جہنم سے نکال دو چنانچہ جہنمی نکالے جائیں گے اور وہ (جل کر کوئلے کی طرح) سیاہ ہو چکے ہوں گے۔ پھر وہ نہر برسات یا شہر حیات (حدیث کے راوی امام مالک رحمہ اللہ کو شک ہے کہ نہر برسات ہے یا نہر حیات ) میں ڈالے جائیں گے جس سے وہ یوں (نئے سرے سے) اُگ آئیں گے جیسے کسی ندی کے کنارے دانہ اگ آتا ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا تم نے دیکھا نہیں کہ (ندی کے کنارے) دانہ (کیسا خوبصورت) زرد زرد اور لپٹا ہوا اگتا ہے۔ “
حدیث 9:
«عن عبد الله بن قيس رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إن أهل النار ليبكون حتى لو أجريت السفن فى دموعهم لجرت و أنهم ليبكون الدم يعني مكان الدمع»
سلسلة احاديث الصحيحة، رقم: 1679
حضرت عبد اللہ بن قیس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جہنمی اس قدر روئیں گے کہ اگر ان کے آنسوؤں میں کشتیاں چلائی جائیں تو چلنے لگیں (آنسو ختم ہو جائیں گے تو ) جہنمی خون کے آنسو بہائیں گے یعنی پانی کے آنسوؤں کی جگہ ۔“
بَابُ طَعَامِ أَهْلِ النَّارِ وَ شَرَابِهِمْ
اہل جہنم کے کھانے اور پینے کا بیان
قَالَ اللهُ تعالى: ﴿أَذَٰلِكَ خَيْرٌ نُّزُلًا أَمْ شَجَرَةُ الزَّقُّومِ . إِنَّا جَعَلْنَاهَا فِتْنَةً لِّلظَّالِمِينَ . إِنَّهَا شَجَرَةٌ تَخْرُجُ فِي أَصْلِ الْجَحِيمِ . طَلْعُهَا كَأَنَّهُ رُءُوسُ الشَّيَاطِينِ . فَإِنَّهُمْ لَآكِلُونَ مِنْهَا فَمَالِئُونَ مِنْهَا الْبُطُونَ . ثُمَّ إِنَّ لَهُمْ عَلَيْهَا لَشَوْبًا مِّنْ حَمِيمٍ.﴾
[الصافات: 62 تا 67]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”یہ ضیافت اچھی ہے یا زقوم کا درخت؟ ہم نے اس درخت کو ظالموں کے لیے فتنہ بنایا ہے زقوم وہ درخت ہے جو جہنم کی تہ میں اگتا ہے اس کے شگوفے ایسے ہیں جیسے سانپوں کے سر، جہنمی یہی (تھوہر کا درخت) کھائیں گے اور اسی سے اپنا پیٹ بھریں گے کھانے کے بعد پینے کے لیے انہیں کھولتا ہوا پانی ملے گا اور اس کے بعد ان کی واپسی اسی آتش دوزخ کی طرف ہو گی (جہاں سے پانی پلانے کے لیے لائے گئے تھے )۔ “
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿مِّن وَرَائِهِ جَهَنَّمُ وَيُسْقَىٰ مِن مَّاءٍ صَدِيدٍ . يَتَجَرَّعُهُ وَلَا يَكَادُ يُسِيغُهُ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِن كُلِّ مَكَانٍ وَمَا هُوَ بِمَيِّتٍ ۖ وَمِن وَرَائِهِ عَذَابٌ غَلِيظٌ .﴾
[إبراهيم: 16، 17]
اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ” (دنیا کے بعد ) آخرت میں (کافر کے لیے ) جہنم ہے جہاں وہ پیپ اور خون کی آمیزش والا پانی پلایا جائے گا جسے وہ زبر دستی گھونٹ گھونٹ کر کے پینے کی کوشش کرے گا لیکن مشکل سے ہی گلے سے اتار سکے گا کافر کو ہر طرف سے موت آتی دکھائی دے گی لیکن مرنے نہ پائے گا اور اس کے بعد بھی سخت عذاب اس کے پیچھے لگا ہو گا۔ “
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَإِن يَسْتَغِيثُوا يُغَاثُوا بِمَاءٍ كَالْمُهْلِ يَشْوِي الْوُجُوهَ ۚ بِئْسَ الشَّرَابُ وَسَاءَتْ مُرْتَفَقًا﴾
[الكهف: 29]
اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”جہنمی پانی مانگیں گے تو ایسے پانی سے ان کی تواضع کی جائے گی جو پگھلے ہوئے تانبے جیسا ہو گا جو چہرے کو بھون ڈالے گا بدترین پینے کی چیز اور بہت ہی بری آرام گاہ۔ “
حدیث 10:
«عن ابن عباس رضي الله عنهما قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لو أن قطرة من الزقوم قطرت فى دار الدنيا لأفسدت على أهل الدنيا معيشهم فكيف بمن تكون طعامه»
صحيح الجامع الصغير للألباني، رقم: 5126
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اگر تھوہر کا ایک قطرہ دنیا میں گرا دیا جائے تو ساری دنیا کے جانداروں کے اسباب زندگی (یعنی خورد و نوش کی چیزیں ) تباہ کر دے پھر اس شخص کا کیا حال ہو گا جس کی خوراک ہی تھوہر ہو۔ “
حدیث 11:
«عن أبى سعيد رضى الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ماء كالمهل كعكر الزيت فإذا قربه إلى فيه سقطت فروة وجهه»
مستدرك حاكم: 646/4-647 ۔ امام ذہبی نے تلخیص المستدرک میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ” (جہنمیوں کا مشروب) پگھلے ہوئے تانبے کا پانی، تیل کی تلچھٹ جیسا ہو گا جب جہنمی (اسے پینے کے لیے ) اپنے منہ کے قریب لے جائے گا تو اس کے منہ کا گوشت (جل بھن کر) گر پڑے گا۔ “
بَابُ عَذَابِ إِسْكَابِ الْمَاءِ الْحَمِيمِ
کھولتا ہوا پانی سر پر انڈیلنے کے عذاب کا بیان
قَالَ اللهُ تعالى: ﴿خُذُوهُ فَاعْتِلُوهُ إِلَىٰ سَوَاءِ الْجَحِيمِ . ثُمَّ صُبُّوا فَوْقَ رَأْسِهِ مِنْ عَذَابِ الْحَمِيمِ . ذُقْ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْكَرِيمُ . إِنَّ هَٰذَا مَا كُنتُم بِهِ تَمْتَرُونَ.﴾
[الدخان: 47 تا 50]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ” (حکم ہوگا ) پکڑ لو اسے اور رگیدتے ہوئے لے جاؤ اس کو جہنم کے بیچوں بیچ اور انڈیل دو اس کے سر پر کھولتے پانی کا عذاب (پھر اسے کہا جائے گا ) چکھو اس کا مزا بڑا زبردست عزت دار تھا تو ، یہ وہی چیز ہے جس کے آنے میں تم لوگ شک کیا کرتے تھے ۔ “
حدیث 12:
«عن أبى هريرة رضي الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم إن الحميم ليصب على رؤوسهم فينفد الحميم حتى يخلص إلى جوفه فيسلت ما فى جوفه حتى يمرق من قدميه و هو الصهر ثم يعاد كما كان»
شرح السنة، كتاب الفتن، باب صفة النار و أهلها: 244/12 ۔ مسند احمد: 374/2۔ احمد شاکر نے اسے صحیح کہا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کھولتا ہوا پانی کافروں کے سروں پر ڈالا جائے گا جو سر کو چھید کر پیٹ تک پہنچے گا اور پیٹ میں جو کچھ ہو گا اسے کاٹ ڈالے گا اور وہ سب کچھ (اس کی پیٹھ سے نکل کر ) قدموں میں جا گرے گا اور یہ ہے (تفسیر لفظ) «صهر» (کی) اس سزا کے بعد کافر پھر اپنی پہلی حالت پر لوٹا دیا جائے گا۔“
بَابُ عَذَابِ شِدَّةِ الْبَرْدِ
شدید سردی کے عذاب کا بیان
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿فَوَقَاهُمُ اللَّهُ شَرَّ ذَٰلِكَ الْيَوْمِ وَلَقَّاهُمْ نَضْرَةً وَسُرُورًا . وَجَزَاهُم بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا . مُّتَّكِئِينَ فِيهَا عَلَى الْأَرَائِكِ ۖ لَا يَرَوْنَ فِيهَا شَمْسًا وَلَا زَمْهَرِيرًا.﴾
[الإنسان: 11 تا 13]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”پس اللہ تعالیٰ اہل جنت کو اس دن کے شر سے بچا لے گا اور انہیں تازگی اور سرور بخشے گا اور ان کے صبر کے بدلے میں انہیں جنت اور ریشمی لباس عطا فرمائے گا جہاں وہ اونچی مسندوں پر تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے، نہ انہیں دھوپ کی گرمی ستائے گی نہ زمہریر کی سردی ۔“
حدیث 13:
«عن أبى هريرة الله رضي الله عنه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إذا كان يوم حار القى الله سمعه وبصره إلى اهل السماء واهل الارض ، فإذا قال العبد لا إله إلا الله ما اشد حرا هذا اليوم؟ اللهم أجرنى من حر نار جهنم قال الله لجهنم إن عبدا من عبادى قد استجار بي منك و إنى أشهدك إني قد أجرته وإذا كان يوم شديد البرد، القى الله سمعه وبصره إلى اهل السماء واهل الأرض فإذا قال العبد لا إله إلا الله ما اشد بردا هذا اليوم؟ اللهم أجرنى من برد زمهرير جهنم قال الله لجهنم إن عبدا من عبادى قد استجار بى من زمهريرك ، فإني أشهدك إني قد أجرته قالوا و ما زمهرير جهنم؟ قال حيث يلقى الله الكافر فيتميز من شدة بردها بعضه من بعض»
النهاية في الفتن و الملاحم، رقم: 307
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”گرمی کے موسم میں شدید گرمی کا دن ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنا کان اور اپنی آنکھ آسمان والوں اور زمین والوں کی طرف لگا دیتے ہیں جب کوئی بندہ کہتا ہے «لا اله الا الله» آج کے روز کتنی سخت گرمی ہے یا اللہ! مجھے جہنم کی آگ سے پناہ دے، تو اللہ تعالیٰ جہنم سے فرماتا ہے: میرے بندوں میں سے ایک بندے نے تجھ سے میری پناہ طلب کی ہے میں تجھے (یعنی جہنم کو ) گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اسے پناہ دے دی ہے۔ اور جب شدید سردی کا دن ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنا کان اور اپنی آنکھیں آسمان والوں اور زمین والوں کی طرف لگا دیتا ہے جب (کوئی) بندہ کہتا ہے «لا اله الا الله» آج کے دن کتنی سخت سردی ہے یا اللہ ! مجھے جہنم کے طبقہ زمہریر کی سردی سے پناہ دے تو اللہ تعالیٰ جہنم سے فرماتا ہے بے شک میرے بندوں میں سے ایک بندے نے مجھ سے تیسرے (طبقہ) زمہریر سے پناہ طلب کی ہے پس میں تجھے گواہ بناتا ہوں میں نے اسے پناہ دے دی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: (یا رسول اللہ !) جہنم کا (طبقہ ) زمہریر کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب اللہ تعالی کافر کو اس میں ڈالے گا تو اس کی شدید سردی سے ہی کافر اس کو پہچان جائے گا (کہ یہ زمہریرہ کا عذاب ہے) سردی اور گرمی دونوں جہنم کے عذاب ہیں۔ “
بابُ عَذَابِ الْإِرْهَاقِ فِي النَّارِ
آگ کے پہاڑ پر چڑھنے کے عذاب کا بیان
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿سَأُرْهِقُهُ صَعُودًا﴾
[المدثر: 17]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”میں اسے عنقریب ایک مشکل چڑھائی چڑھاؤں گا۔“
حدیث 14:
«عن أبى سعيد رضي الله عنه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: واد فى جهنم يهوى فيه الكافر أربعين خريفا قبل أن يبلغ قعرة و قال الصعود جبل من نار يصعد فيه سبعين خريفا ثم يهوى به كذلك فيه ابدا»
مسند ابو یعلی، الجزء الثاني، رقم: 1378، تحقيق الأثري (صحيح)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جہنم میں ایک وادی کا نام ویل ہے جس کی تہ تک پہنچنے سے پہلے کافر چالیس سال تک اس میں گرتا چلا جائے گا اور صعود جہنم میں ایک پہاڑ کا نام ہے جس پر کافر ستر سال (کے عرصہ) میں چڑھے گا پھر اس سے اترے گا۔ کافر ہمیشہ اسی (عذاب میں یعنی چڑھنے اور اترنے) میں مبتلا رہے گا“ ۔
بَابُ عَذَابِ الْمَقَامِعِ وَالْمَطَارِقِ فِى النَّارِ
جہنم میں لوہے کی ہتھوڑوں اور گرزوں سے مارے جانے کے عذاب کا بیان
قال الله تعالى: ﴿وَلَهُم مَّقَامِعُ مِنْ حَدِيدٍ . كُلَّمَا أَرَادُوا أَن يَخْرُجُوا مِنْهَا مِنْ غَمٍّ أُعِيدُوا فِيهَا وَذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِيقِ.﴾
[الحج: 21، 22]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”کافروں کے لیے (جہنم میں) لوہے کے گرز اور ہتھوڑے ہوں گے جب کبھی گھبرا کر جہنم سے نکلنے کی کوشش کریں گے تو پھر اسی میں واپس دھکیل دیئے جائیں گے (اور انہیں کہا جائے گا) اب جلنے کی سزا کا مزہ چکھو۔ “
حدیث 15:
«عن أبى سعيد الخدري رضي الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: لو أن مقمعا من حديد وضع على الأرض و اجتمع عليه الثقلان ما أقلوه من الأرض»
مسند ابو یعلی، الجزء الثاني، رقم: 1384 تحقيق الأثري (صحيح)
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر جہنم میں کافروں کو مارنے والا لوہے کا ایک گرز زمین پر رکھ دیا جائے اور سارے انسان اور جن اکٹھے ہو جائیں تب بھی اسے زمین سے نہیں اٹھا سکتے۔“
بَابُ الْحَيَّاتِ وَالْعَقَارِبِ فِي النَّارِ
جہنم میں سانپوں اور بچھوؤں کا عذاب
قال الله تعالى: ﴿زِدْنَاهُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ﴾
[النحل: 88]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”ہم انہیں عذاب بالائے عذاب دیں گے۔ “
حدیث 16:
«عن عبد الله بن حارث بن جز رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن فى النار حيات كأمثال أعناق البخت تلسع إحداهن اللسعة فيجد حموتها أربعين خريفا وإن فى النار عقارب كأمثال البغال الموكفة تلسع إحداهن التسعة فيجد حموتها أربعين سنة»
مسند أحمد: 191/4 ۔ شیخ حمزہ زین نے اسے صحیح کہا ہے۔
حضرت عبداللہ بن حارث بن جز رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جہنم میں بختی اونٹ (اونٹوں کی ایک قسم) کے برابر سانپ ہوں گے ان میں سے ایک سانپ کے کاٹنے سے جہنمی چالیس سال تک زہر کا اثر محسوس کرتا رہے گا۔ جہنم میں بچھو خچروں کے برابر ہوں گے ان میں سے ایک بچھو کے کاٹنے سے چالیس سال تک جہنمی زہر کا اثر محسوس کرتا رہے گا۔ “
حدیث 17:
«عن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه فى قول الله عز وجل: ﴿زِدْنَاهُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ﴾ قال زيدوا بالعقارب أنيابها كالنخل الطوال»
مجمع الزوائد، كتاب صفة النار، باب زيادة اهل النار من العذاب، مستدرك حاكم: 355/2-356۔ امام حاکم اور ذہبی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد: ﴿زِدْنَاهُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ﴾ [النحل: 88] ہم ان کے عذاب میں مزید عذاب کا اضافہ کر دیں گے۔ کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ (جہنمیوں کے عذاب میں اضافہ کے لیے) بچھوؤں کے ڈنک لمبی کھجوروں کے برابر بڑھا دیے جائیں گے۔ “
بَابُ بَعْضِ المَأْثَمِ وَعَقُوبَتِهَا الْخَاصَّةِ فِي النَّارِ
جہنم میں بعض گناہوں کے مخصوص عذاب کا بیان
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ هُوَ خَيْرًا لَّهُم ۖ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْ ۖ سَيُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ وَلِلَّهِ مِيرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ.﴾
[آل عمران: 180]
”اور وہ لوگ جو اس میں بخل کرتے ہیں جو اللہ نے انھیں اپنے فضل سے دیا ہے، ہرگز گمان نہ کریں کہ وہ ان کے لیے اچھا ہے، بلکہ وہ ان کے لیے برا ہے، عنقریب قیامت کے دن انھیں اس چیز کا طوق پہنایا جائے گا جس میں انھوں نے بخل کیا اور اللہ ہی کے لیے آسمانوں اور زمین کی میراث ہے اور اللہ اس سے جو تم کرتے ہو، پورا با خبر ہے۔“
حدیث 18:
عن أبى هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من آتاه الله مالا فلم يؤد زكاته ، مثل له ماله يوم القيامة شجاعا أقرع ، له زبيبتان، يطوقه يوم القيامة ثم يأخذ بلهز متيه يعني بشدقيه ثم يقول آنا مالك ، أنا كنزك ثم تلا ﴿وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ هُوَ خَيْرًا لَّهُم ۖ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْ ۖ سَيُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ وَلِلَّهِ مِيرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ﴾ الآية [آل عمران: 180]
صحیح بخاری، کتاب الزكاة، باب اثم مانع الزكاة، رقم: 1403
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس کو اللہ تعالی نے مال دیا اور اس نے اس سے زکاۃ ادا نہ کی تو قیامت کے دن اس کا مال گنجے سانپ کی شکل بن کر ، جس کی آنکھوں پر دو نقطے (داغ ) ہوں گے، اس کے گلے کا طوق ہو جائے گا۔ پھر اس کی دونوں باچھیں پکڑ کر کہے گا ”میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مال دیا ہے اور بخیلی کرتے ہیں تو اپنے لیے یہ بخل بہتر نہ سمجھیں بلکہ ان کے حق میں برا ہے عنقریب قیامت کے دن یہ بخیلی ان کے گلے کا طوق ہونے والی ہے۔“
حدیث 19:
«عن عمار رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من كان له وجهان فى الدنيا كان له يوم القيامة لسانان من النار»
سنن ابوداود، كتاب الادب، باب فى ذى الوجهين، رقم: 4873 ، سلسلة الصحيحة، رقم: 889
حضرت عمار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جس نے دنیا میں دور خا پن اختیار کیا اس کے لیے قیامت کے روز آگ کی دو زبانیں ہوں گی۔ “
حدیث 20:
«عن سمرة بن جندب رضي الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم فى حديث الرؤيا قال: قالا لي: وأما الرجل الذى أتيت عليه يشرشر شدقه إلى قفاه ومنخره إلى قفاه و عينه إلى قفاه فإنه الرجل يعدوا من بيته فيكذب الكذبة الافاق وأما الرجال والنساء العراة الذى هم فى مثل بناء التنور فإنهم الزناة والزواني وأما الرجل الذى أتيت عليه يسبح فى النهر و يلقم الحجر فإنه اكل الربا»
صحیح بخاری، کتاب التعبير، تعبير الرؤيا بعد صلاة الصبح، رقم: 7046
حضرت سمرہ بن جندب رضی الله عنہ خواب والی حدیث میں روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ” (خواب میں میرے پوچھنے پر) جبرائیل اور میکائیل علیہم السلام نے مجھے بتایا کہ (جو مناظر آپ کو دکھائے گئے ہیں ان میں سے) سب سے پہلے جس شخص پر آپ کا گزر ہوا اور جس کے جبڑے، نتھنے اور آنکھیں گدی تک (لوہے کے آلے سے ) چیری جا رہی تھیں وہ شخص تھا جو صبح کے وقت گھر سے نکلتا تھا جھوٹی خبریں گھڑتا تھا جو (آناً فاناً) ساری دنیا میں پھیل جاتیں اور (دوسرے) ننگے مرد اور عورتیں جو آپ نے تنور میں (جلتے) دیکھے وہ زانی مرد اور عورتیں تھیں اور (تیسرا) وہ شخص جو (خون کی) ندی میں غوطے کھا رہا تھا اور جس کے منہ میں (بار بار) پتھر ڈالے جا رہے تھے یہ وہ شخص تھا جو (دنیا میں) سود کھاتا تھا۔ “
حدیث 21:
«عن أبى أمامة الباهلي رضي الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: بينما أنا نائم أتاني رجلان فأخذا بضبعي فأتيا بي جبلا وعرا فقالا اصعد فقلت: إني لا أطيقه، فقالا إنا سنسهله لك فصعدت حتى إذا كنت فى سواء الجبل إذا بأصوات شديدة، قلت: ما هذه الاصوات؟ قالوا هذا عواء أهل النار ، ثم انطلق بي فإذا أنا بقوم معلقين بعراقيبهم مشققة أشداقهم تسيل اشداقهم دما ، قال: قلت من هؤلاء؟ قال: الذى يفطرون قبل تحلة صومهم»
صحیح الترغیب و الترھیب للالبانی ،رقم:995
”حضرت ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا میں سویا ہوا تھا اور میرے پاس دو آدمی آئے۔ انہوں نے مجھے بازؤوں سے پکڑا اور مجھے ایک مشکل چڑھائی والے پہاڑ پر لائے اور دونوں نے کہا: اس پہاڑ پر چڑھیں ۔ میں نے کہا: میں نہیں چڑھ سکتا۔ انہوں نے کہا: ہم آپ کے لیے سہولت پیدا کر دیں گے۔ پس میں چڑھ گیا حتی کہ میں پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ گیا جہاں میں نے شدید چیخ و پکار کی آوازیں سنیں۔ میں نے پوچھا: یہ آوازیں کیسی ہیں؟ انہوں نے بتایا: یہ جہنمیوں کی چیخ و پکار ہے۔ پھر وہ میرے ساتھ آگے بڑھے جہاں میں نے کچھ لوگ الٹے لٹکے ہوئے دیکھے جن کے منہ چیرے ہوئے ہیں اور ان سے خون بہہ رہا ہے۔ میں نے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: یہ وہ لوگ ہیں جو روزہ وقت سے پہلے افطار کر لیا کرتے تھے۔ “
حدیث 22:
«عن أبى هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من سئل عن علم علمه ثم كتمه الجم يوم القيامة بلجام من نار»
سنن ترمذی ، ابواب العلم، باب ما جاء فی کتمان العلم ، رقم 2649۔ سنن ابن ماجۃ ، رقم 264۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”جس شخص سے دین کامسئلہ پوچھا گیا اور اس نےچھپایا ، قیامت کے روز اسے اگ کی لگام پہنائی جائے گی۔“
حدیث 23:
«عن سمرة بن جندب رضي الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم فى حديث الرؤيا قال: قالا لي: أما الرجل الاول الذى أتيت عليه يتلخ رأسه بالحجر فإنه الرجل يأخذ القرآن فيرفضه و ينام عن الصلاة المكتوبة»
صحیح بخاری، کتاب التعبير تعبير الرؤيا بعد صلاة الصبح، رقم: 7046
حضرت سمرہ بن جندب رضی الله عنہ خواب والی حدیث میں روایت کرتے ہیں کہ خواب میں میرے پوچھنے پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جبرائیل اور میکائیل علیہم السلام نے مجھے بتایا کہ (جو مناظر آپ کو دکھائے گئے ہیں ان میں سے) سب سے پہلے جس شخص پر آپ کا گزر ہوا اور جس کا سر پتھر سے کچلا جا رہا تھا یہ وہ شخص تھا جس نے دنیا میں قرآن (سیکھ کر ) بھلا دیا تھا اور فرض نماز پڑھے بغیر سو جاتا تھا۔“
حدیث 24:
«عن أسامة و قال رضي الله عنه سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: يجاء بالرجل يوم القيامة فيلقى فى النار فتندلق أقتابه فى النار فيدور كما يدور الحمار برحاه فيجتمع اهل النار عليه فيقولون يا فلان ما شأنك؟ ليس كنت تأمرنا بالمعروف وتنهانا عن المنكر؟ قال كنت أمركم بالمعروف ولا آتيه ، وأنهاكم عن المنكر و آتيه»
صحیح بخاری، کتاب بدء الخلق، باب صفة النار، رقم: 3667
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ”قیامت کے روز ایک آدمی لایا جائے گا اور اسے آگ میں ڈال دیا جائے گا اس کی انتڑیاں (پیٹ سے باہر ) آگ میں ہوں گی وہ اپنی انتڑیوں کو لیے اس طرح گھومے گا جس طرح گدھا (کولہو کی ) چکی کے گرد گھومتا ہے، اہل جہنم اس کے اردگرد جمع ہو جائیں گے اور پوچھیں گے: اے فلاں ! تمہارا یہ حال کیسے ہوا، کیا تم ہمیں نیکی کرنے اور برائی سے باز رہنے کی نصیحت نہیں کیا کرتے تھے؟ وہ شخص جواب میں کہے گا: میں تمہیں نیکی کا حکم کرتا تھا لیکن خود نیکی نہیں کرتا تھا، تمہیں برائی سے روکتا تھا لیکن خود نہیں رکھتا تھا۔“
حدیث 25:
«عن أنس بن مالك رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لما عرج بي مررت بقوم لهم أظفار من نحاس يخمشون وجوههم و صدورهم فقلت: من هؤلاء يا جبريل؟ قال هؤلاء الذين يأكلون لحوم الناس ويقعون فى أعراضهم»
سنن ابوداود، كتاب الجنائز، باب ما جاء في قاتل النفس، رقم: 4878 ـ سلسلة الصحيحة، رقم 533
”حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: معراج کے دوران میں میرا گزر ایسے لوگوں پر ہوا جن کے ناخن سرخ تانبے کے تھے جن سے وہ اپنے چہروں اور اپنے سینوں کو نوچ نوچ کر زخمی کر رہے تھے۔ میں نے پوچھا: اے جبرائیل! یہ کون لوگ ہیں؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے بتایا: یہ وہ لوگ ہیں جو دوسروں کا گوشت کھاتے تھے (یعنی ان کی غیبت کرتے تھے ) اور ان کی عزتوں سے کھیلتے تھے۔ “
بَابُ مُكَالِماتِ الْعِبرَةِ
عبرت انگیز مکالمات کا بیان
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَسِيقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ جَهَنَّمَ زُمَرًا ۖ حَتَّىٰ إِذَا جَاءُوهَا فُتِحَتْ أَبْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ يَتْلُونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِ رَبِّكُمْ وَيُنذِرُونَكُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَٰذَا ۚ قَالُوا بَلَىٰ وَلَٰكِنْ حَقَّتْ كَلِمَةُ الْعَذَابِ عَلَى الْكَافِرِينَ . قِيلَ ادْخُلُوا أَبْوَابَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا ۖ فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ.﴾
[الزمر: 71]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ” (فیصلہ کے بعد ) کافر گروہ در گروہ جہنم کی طرف ہانکے جائیں گے۔ جب وہ جہنم کے قریب پہنچیں گے تو اس کے دروازے کھول دیئے جائیں گے جہنم کے دربان ان سے کہیں گے: کیا تمہارے پاس خود تمہارے لوگوں میں سے ایسے رسول نہیں آئے تھے جو تمہیں تمہارے رب کی آیتیں پڑھ کر سناتے اور اس دن کے آنے سے ڈراتے؟ وہ جواب دیں گے: ہاں آئے تھے لیکن عذاب کا فیصلہ کافروں پر حق ثابت ہو کر رہا۔ کہا جائے گا: داخل ہو جاؤ جہنم کے دروازوں میں یہاں اب تمہیں ہمیشہ رہنا ہے تکبر کرنے والوں کے لیے بہت ہی بری جگہ ہے۔ “
وَقَالَ اللهُ تعالى: ﴿فِي جَنَّاتٍ يَتَسَاءَلُونَ .عَنِ الْمُجْرِمِينَ . مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ . قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ . وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَ . وَكُنَّا نَخُوضُ مَعَ الْخَائِضِينَ . وَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوْمِ الدِّينِ . حَتَّىٰ أَتَانَا الْيَقِينُ .﴾
[المدثر: 40 تا 47]
اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ” (اہل جنت ) جنت میں اہل جہنم سے سوال کریں گے تمہیں کون سی چیز جہنم میں لے گئی؟ وہ کہیں گے ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہیں تھے ، مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے اور حق کے خلاف باتیں بنانے والوں کے ساتھ مل کر باتیں بناتے تھے ، روز جزا کو جھوٹ قرار دیتے تھے حتی کہ ہمیں موت آ گئی۔“
حدیث 26:
«عن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما و فى قوله عزوجل ﴿وَنَادَوْا يَا مَالِكُ لِيَقْضِ عَلَيْنَا رَبُّكَ﴾ قال يخلى عنهم أربعين عاما لا يجيبهم ثم أجابهم انكم مكثون [الزخرف: 77] فيقولون ﴿رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْهَا فَإِنْ عُدْنَا فَإِنَّا ظَالِمُونَ﴾ قال فيخلى عنهم مثل الدنيا ثم أجابهم ﴿قَالَ اخْسَئُوا فِيهَا وَلَا تُكَلِّمُونِ﴾ [المؤمنون: 108] قال فو الله ما ينبس القوم بعد هذه الكلمة إن كان إلا الزفير و الشهيق»
مستدرك الحاكم: 598/4۔ حاکم نے اسے صحیح کہا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو (بن عاص رضی اللہ عنہما ) اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿وَنَادَوْا يَا مَالِكُ لِيَقْضِ عَلَيْنَا رَبُّكَ﴾ ”جہنمی جہنم کے داروغہ مالک سے درخواست کریں گے کہ تیرا رب ہمارا کام تمام ہی کر دے تو اچھا ہے۔“ [الزخرف: 77] کے بارے میں فرماتے ہیں کہ (جہنمیوں کی اس درخواست کے جواب میں ) داروغہ جہنم ”مالک“ چالیس سال تک ان سے اعراض برتے گا اور ان کی درخواست کا کوئی جواب نہیں دے گا۔ (چالیس سال کے بعد ) داروغہ انہیں یہ جواب دے گا ”تم اسی جہنم میں رہو گے۔“ پھر جہنمی (براہ راست ) عرض داشت ہوں گے ﴿رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْهَا فَإِنْ عُدْنَا فَإِنَّا ظَالِمُونَ﴾ ”اے ہمارے پروردگار! ہمیں (ایک دفعہ ) اس جہنم سے نکال دے اگر ہم دوبارہ ایسا کریں تو ظالم ہوں گے۔“ [المومنون: 107] اللہ تعالیٰ ان کی بات سے اسی طرح اعراض کرے گا جس طرح انہوں نے دنیا میں اللہ کی بات سے اعراض کیا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ انہیں جواب ارشاد فرمائے گا: ”دور ہو جاؤ میرے سامنے سے، پڑے رہو اسی میں اور مجھ سے بات نہ کرو۔“ [المومنون: 108] سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: اللہ کی قسم ! اس کے بعد ان کے ہونٹ بند ہو جائیں گے اور صرف ان کی چیخ و پکار کی آواز میں باقی رہ جائیں گی۔
بَابُ الْاَمَاْنِیِّ الذَّائِفَۃِ
ناکام حسرتوں کا بیان
قَالَ اللهُ تعالى: ﴿ذَٰلِكَ جَزَاءُ أَعْدَاءِ اللَّهِ النَّارُ ۖ لَهُمْ فِيهَا دَارُ الْخُلْدِ ۖ جَزَاءً بِمَا كَانُوا بِآيَاتِنَا يَجْحَدُونَ . وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا رَبَّنَا أَرِنَا اللَّذَيْنِ أَضَلَّانَا مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ نَجْعَلْهُمَا تَحْتَ أَقْدَامِنَا لِيَكُونَا مِنَ الْأَسْفَلِينَ.﴾
[فصلت: 28، 29]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اللہ کے دشمنوں کا بدلہ یہ آگ ہے جس میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ان کا گھر ہوگا یہ بدلہ ہے اس بات کا کہ انہوں نے ہماری آیات کا انکار کیا وہاں (آگ میں) کافر کہیں گے: اے ہمارے رب! جنوں اور انسانوں میں سے جس جس نے ہمیں گمراہ کیا ہے ہمیں ذرا دکھا دے تاکہ ہم انہیں اپنے پاؤں تلے روندیں تاکہ وہ خوب ذلیل وخوار ہوں۔“
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿يَوَدُّ الْمُجْرِمُ لَوْ يَفْتَدِي مِنْ عَذَابِ يَوْمِئِذٍ بِبَنِيهِ . وَصَاحِبَتِهِ وَأَخِيهِ. وَفَصِيلَتِهِ الَّتِي تُؤْوِيهِ. وَمَن فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ يُنجِيهِ . كَلَّا ۖ إِنَّهَا لَظَىٰ . نَزَّاعَةً لِّلشَّوَىٰ .﴾
[المعارج: 11تا 16]
اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”مجرم چاہے گا کہ اس دن کے عذاب سے بچنے کے لیے اپنی اولاد کو، اپنی بیوی کو، اپنے بھائی کو اپنے قریب ترین خاندان کو جو اسے (دنیا میں) پناہ دینے والا تھا اور روئے زمین کے سب لوگوں کو فدیہ میں دے دے اور اسے نجات مل جائے۔ ہر گز نہیں، وہ تو بھڑکتی ہوئی آگ کی لپیٹ ہوگی جو گوشت پوست چاٹ جائے گی۔ “
حدیث 27:
«عن أنس بن مالك رضى الله عنه أن النبى صلى الله عليه وسلم قال: يقال للكافر يوم القيامة: أرأيت لو كان لك ملء الأرض ذهبا أكنت تفتدى به؟ فيقول: نعم فيقال له: قد سئلت أيسر من ذلك»
صحیح مسلم، کتاب المنافقين، باب في الكفار، رقم: 7085
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”قیامت کے روز کافر سے پوچھا جائے گا: اگر تیرے پاس روئے زمین کے برابر سونا ہو تو (جہنم سے بچنے کے لیے ) فدیہ میں دے دو گے؟ وہ کہے گا: ہاں! پھر اسے کہا جائے گا: (دنیا میں ) اس کی نسبت کہیں زیادہ آسان بات کا مطالبہ کیا گیا تھا (یعنی کلمہ توحید کا جس پر تم نے عمل نہیں کیا)۔“
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَاتَّبِعُوا أَحْسَنَ مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ بَغْتَةً وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ. أَن تَقُولَ نَفْسٌ يَا حَسْرَتَىٰ عَلَىٰ مَا فَرَّطتُ فِي جَنبِ اللَّهِ وَإِن كُنتُ لَمِنَ السَّاخِرِينَ . أَوْ تَقُولَ لَوْ أَنَّ اللَّهَ هَدَانِي لَكُنتُ مِنَ الْمُتَّقِينَ . أَوْ تَقُولَ حِينَ تَرَى الْعَذَابَ لَوْ أَنَّ لِي كَرَّةً فَأَكُونَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ . بَلَىٰ قَدْ جَاءَتْكَ آيَاتِي فَكَذَّبْتَ بِهَا وَاسْتَكْبَرْتَ وَكُنتَ مِنَ الْكَافِرِينَ.﴾
[الزمر: 55 تا 59]
اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اور پیروی کرو اپنے رب کی بھیجی ہوئی کتاب کے بہترین پہلو کی اس سے پہلے کہ تم پر اچانک عذاب آ جائے اور تم کو خبر بھی نہ ہو ایسا نہ ہو کہ بعد میں کوئی شخص کہے: افسوس! میری اس تقصیر پر جو میں اللہ کے جناب میں کرتا رہا افسوس میں مذاق اڑانے والوں میں شامل تھا۔ یا یوں کہے: کاش! اللہ نے مجھے ہدایت بخشی ہوتی تو میں بھی پر ہیز گاروں میں سے ہوتا۔ یا عذاب دیکھ کر کہے: کاش! مجھے ایک موقع اور مل جائے اور میں نیک عمل کرنے والوں میں شامل ہو جاؤں۔ اور اس وقت اسے جواب ملے: کیوں نہیں ، میری آیات تیرے پاس آچکی تھیں پھر تو نے انہیں جھٹلایا اور تکبر کیا اور تو (خود ہی) کافروں میں سے تھا۔ “
حدیث 28:
«عن أبى هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: كل أهل النار يرى مقعده من الجنة فيقول: لو ان الله هدانى فيكون عليهم حسرة، وكل اهل الجنة يرى مقعده من النار فيقول: لولا أن الله هدانى فيكون له شكرا ثم تلا رسول الله صلى الله عليه وسلم: ﴿أَن تَقُولَ نَفْسٌ يَا حَسْرَتَىٰ عَلَىٰ مَا فَرَّطتُ فِي جَنبِ اللَّهِ﴾ »
سلسلة الاحاديث الصحيحة، رقم: 2034
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہر جہنمی جنت میں اپنی جگہ دیکھتا ہے اور کہتا ہے کاش! اللہ مجھے ہدایت دیتا (تو میں جنت میں ہوتا ) اور وہ (دیکھنا) اس کے لیے باعث حسرت بنے گا، اور ہر جنتی جہنم میں اپنی جگہ دیکھتا ہے اور کہتا ہے اگر مجھے اللہ ہدایت نہ دیتا (تو میں اس جگہ ہوتا ) اور وہ (دیکھنا) اس کے لیے باعث شکر بنتا ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ﴿أَن تَقُولَ نَفْسٌ يَا حَسْرَتَىٰ عَلَىٰ مَا فَرَّطتُ فِي جَنبِ اللَّهِ﴾ [الزمر: 56] ” (قیامت کے روز ) کوئی آدمی یہ نہ کہے: افسوس! میری اس تقصیر پر جو میں الہ کی جناب میں کرتا رہا۔ “
بَابُ أَمْنِيَّةِ أَهْلِ النَّارِ فِي طَلْبٍ فُرْصَةٍ
جہنمیوں کے ایک اور موقع ملنے کی خواہش کرنے کا بیان
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَتَرَى الظَّالِمِينَ لَمَّا رَأَوُا الْعَذَابَ يَقُولُونَ هَلْ إِلَىٰ مَرَدٍّ مِّن سَبِيلٍ. وَتَرَاهُمْ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا خَاشِعِينَ مِنَ الذُّلِّ يَنظُرُونَ مِن طَرْفٍ خَفِيٍّ ۗ وَقَالَ الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ الْخَاسِرِينَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ أَلَا إِنَّ الظَّالِمِينَ فِي عَذَابٍ مُّقِيمٍ .﴾
[الشورى: 44، 45]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”تم دیکھو گے جب ظالم لوگ اپنے سامنے عذاب پائیں گے تو کہیں گے کیا اب (دنیا میں واپس) پلٹنے کی کوئی سبیل ہے۔ اور تم دیکھو گے جب یہ لوگ جہنم کے سامنے لائے جائیں گے تو ذلت کے مارے جھکے جا رہے ہوں گے اور جہنم کو نظر بچا بچا کر کنکھیوں سے دیکھیں گے (یعنی جہنم کو نظریں بھر کر دیکھنے کی ہمت نہیں کر پائیں گے ) اس وقت اہل ایمان کہیں گے واقعی وہ لوگ خسارے میں رہے جنہوں نے آج قیامت کے روز اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو خسارے میں ڈال دیا۔ خبردار رہو! ظالم لوگ مستقل عذاب میں مبتلا رہیں گے۔“
حدیث 29:
«عن أبى هريرة رضي الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: يلقى إبراهيم آباه آزر يوم القيامة و على وجه آزر قترة و غبرة فيقول له إبراهيم: ألم آقل لك لا تعصني؟ فيقول ابوه: فاليوم لا أعصيك، فيقول إبراهيم يا رب إنك وعدتنى أن لا تخزيني يوم يبعثون، ف أى خزي أخرى من أبى الأبعد؟ فيقول الله تعالى: إني حرمت الجنة على الكفرين، ثم يقال: يا إبراهيم ما تحت رجليك؟ فينظر فإذا هو بذيخ ملتطخ فيؤخذ بقوائمه فيلقى فى النار»
صحيح بخاري، كتاب أحاديث الأنبياء، باب قول الله تعالى و اتخذ الله ابراهيم خليلا، رقم: 3350
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”حضرت ابراہیم علیہ السلام قیامت کے دن اپنے باپ آزر کو اس حال میں دیکھیں گے کہ اس کے منہ پر سیاہی اور گرد و غبار جما ہو گا۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کہیں گے: میں نے دنیا میں تمہیں کہا نہیں تھا کہ میری نافرمانی نہ کرو۔ آزر کہے گا: اچھا آج میں تمہاری نافرمانی نہیں کروں گا۔ حضرت ابراہیم علیہ اسلام (اپنے رب سے درخواست کریں گے ): اے میرے رب! تو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ مجھے قیامت کے روز رسوا نہیں کرے گا لیکن اس سے زیادہ رسوائی اور کیا ہوگی کہ میرا باپ تیری رحمت سے محروم ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا: میں نے جنت کافروں پر حرام کر دی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے ابراہیم ! تمہارے دونوں پاؤں کے نیچے کیا ہے؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام دیکھیں گے کہ غلاظت میں لت پت ایک بجو ہے جسے (فرشتے) پاؤں سے پکڑ کر جہنم میں ڈال دیں گے۔ “
بَابُ إِبْلِيسَ فِي النَّارِ
ابلیس کے جہنم میں جانے کا بیان
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَقَالَ الشَّيْطَانُ لَمَّا قُضِيَ الْأَمْرُ إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدتُّكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ ۖ وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُم مِّن سُلْطَانٍ إِلَّا أَن دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِي ۖ فَلَا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنفُسَكُم ۖ مَّا أَنَا بِمُصْرِخِكُمْ وَمَا أَنتُم بِمُصْرِخِيَّ ۖ إِنِّي كَفَرْتُ بِمَا أَشْرَكْتُمُونِ مِن قَبْلُ ۗ إِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾
[ابراهيم: 22]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”جب فیصلہ کر دیا جائے گا تو شیطان کہے گا: حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو تم سے وعدے کیے تھے وہ سب بچے تھے اور میں نے تم سے جتنے بھی وعدے کیے ان کی خلاف ورزی کی اور (ہاں!) میرا تم پر کوئی زور تو نہ تھا میں نے اس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ اپنے راستے کی طرف تم کو دعوت دی، تم نے (خود ہی) میری دعوت پر لبیک کہی اب مجھے ملامت نہ کرو بلکہ اپنے آپ کو ملامت کرو، یہاں نہ تو میں تمہاری فریاد رسی کر سکتا ہوں نہ تم میری، اس سے پہلے جو تم نے مجھے اللہ کا شریک بنا رکھا تھا میں اس سے بری الذمہ ہوں ایسے ظالموں کے لیے دردناک عذاب یقینی ہے۔ “
حدیث 30:
عن أنس بن مالك رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: أول من يكسى حلة من النار إبليس فيضعها على حاجبه ويسحبها من خلفه و ذريته من بعده و هو ينادي يا ثبوراه و ينادون يا ثبورهم حتى يقفوا على النار فيقول يا ثبوراه ويقولون يا ثبورهم فيقال لهم: ﴿لَّا تَدْعُوا الْيَوْمَ ثُبُورًا وَاحِدًا وَادْعُوا ثُبُورًا كَثِيرًا﴾ [الفرقان: 14]
مسند أحمد: 152/3، تفسیر ابن کثیر: 651
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ” (قیامت کے روز ) سب سے پہلے ابلیس کو آگ کا لباس پہنایا جائے گا وہ اسے اپنی پیشانی پر رکھ کر پیچھے سے گھسیٹتا پھرے گا اس کی اولاد (یعنی اس کے پیروکار ) اس کے پیچھے پیچھے ہوں گے، ابلیس اپنی موت اور ہلاکت کو پکارتا پھر رہا ہو گا اس کے پیروکار بھی موت اور ہلاکت کو پکاریں گے حتی کہ جب وہ آگ کے اوپر آ کھڑے ہوں گے تو ابلیس کہے گا ہائے موت (اس کے ساتھ ) اس کے پیروکار بھی کہیں گے ہائے موت ! اس وقت ان سے کہا جائے گا: آج ایک موت کو نہیں بلکہ بہت سی موتوں کا پکارو۔ “
بَابُ الْأَعْمَالِ السَّائِقَةِ إِلَى النَّارِ خَلَّابَةٌ
جہنم میں لے جانے والے اعمالِ دلفریب کا بیان
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَىٰ يَدَيْهِ يَقُولُ يَا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا . يَا وَيْلَتَىٰ لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيلًا . لَّقَدْ أَضَلَّنِي عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ إِذْ جَاءَنِي ۗ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِلْإِنسَانِ خَذُولًا.﴾
[الفرقان: 27 تا 29]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اس روز ظالم اپنے ہاتھوں کو چبا چبا کر کہے گا ہائے افسوس! میں نے رسول کی راہ اختیار کی ہوتی ہائے افسوس! میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا اس نے تو مجھے نصیحت آ جانے کے بعد گمراہ کر دیا، شیطان واقعی انسان کو دھوکہ دینے والا ہے۔ “
حدیث 31:
«عن أبى هريرة رضي الله عنه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لما خلق الله الجنة والنار ارسل جبريل عليه السلام إلى الجنة فقال: انظر إليها و إلى ما أعددت لاهلها فيها ، قال: فجاء ها فنظر إليها وإلى ما أعد الله لاهلها فيها قال: فرجع إليه قال: فوعزتك لا يسمع بها أحد إلا دخلها فأمربها فحفت بالمكاره فقال: ارجع إليها فانظر إليها وإلى ما أعددت لاهلها فيها ، قال: فرجع إليها فإذا هي قد حفت بالمكاره ، فرجع إليه فقال: وعزتك لقد خفت أن لا يدخلها احد قال اذهب إلى النار فانظر إليها وإلى ما أعددت لاهلها فيها ، فإذا هي يركب بعضها بعضا، فرجع إليه ، فقال: وعزتك لا يسمع بها أحد فيدخلها ، فأمر بها فحفت بالشهوات، فقال: ارجع إليها فرجع إليها ، فقال: وعزتك لقد خشيت أن لا ينجو منها أحد إلا دخلها»
سنن ترمذی، ابواب صفة الجنة، باب ما جاء حفت الجنة بالمكاره، رقم: 2560 ۔ امام ترمذی نے اور شیخ البانی نے حسن صحیح کہا ہے۔
”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب اللہ تعالیٰ نے جنت اور جہنم پیدا فرمائی تو حضرت جبرائیل علیہ السلام کو جنت کی طرف بھیجا اور ارشاد فرمایا: (جاؤ اور ) جنت کا نظارہ کرو اور جو نعمتیں میں نے جنتیوں کے لیے پیدا کی ہیں انہیں دیکھو۔ جبرائیل علیہ السلام آئے اور جنت اور جنتیوں کے لیے پیدا کی گئی نعمتیں دیکھیں اور پھر اللہ تعالیٰ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: تیری عزت کی قسم ! جو بھی اس کے بارے سنے گا وہ ضرور اس میں داخل ہوگا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے (فرشتوں کو ) حکم دیا: جنت کو لات اور مصائب سے ڈھانپ دیا جائے۔ تب اللہ تعالی نے حضرت جبریل علیہ السلام کو (دوبارہ) حکم دیا: پھر جاؤ اور جنت اور جنتیوں کے لیے میں نے جو نعمتیں تیار کی ہیں انہیں دیکھو۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام گئے تو جنت مشکلات اور مصائب سے ڈھانپی ہوئی تھی، جنانچہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کی: تیری عزت کی قسم! مجھے ڈر ہے کہ اس میں کوئی بھی داخل نہیں ہو سکے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے حکم دیا: اب جہنم کی طرف جاؤ اور اسے دیکھو اور جو عذاب میں نے جہنمیوں کے لیے تیار کیے ہیں انہیں دیکھو کہ (کس طرح) اس کا ایک حصہ دوسرے پر سوار ہے۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام (سب کچھ دیکھ کر ) واپس لوٹے تو عرض کی: تیری عزت کی قسم! کوئی شخص ایسا نہیں ہو گا جو اس کے بارے میں سنے اور پھر اس میں داخل ہو۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا: اور جہنم کو شہوات اور لذات سے ڈھانپ دیا گیا۔ تب اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو فرمایا: دوبارہ جاؤ۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام دوبارہ گئے (سب کچھ دیکھا) اور عرض کیا: تیری عزت کی قسم ! مجھے ڈر ہے کہ اب تو اس سے کوئی بھی بچ نہیں پائے گا ہر کوئی اس میں داخل ہوگا۔“
حدیث 32:
«عن أنس بن مالك رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: حفت الجنة بالمكاره و حفت النار بالشهوات»
صحیح مسلم، كتاب الجنة وصفة نعيمها، رقم: 7130۔ سنن ترمذي، رقم: 2559
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جنت ناگوار چیزوں سے گھیری گئی ہے اور جہنم خوش گوار چیزوں سے گھیری گئی ہے۔“
بَابُ نَسْبِ اَهْلِ النَّارِ وَالْجَنَّةِ مِنْ بَنِي آدَمَ
بنی نوع انسان میں سے جہنمیوں اور جنتیوں کی نسبت کا بیان
قَالَ اللهُ تَعَالَى: يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ ۚ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيمٌ. يَوْمَ تَرَوْنَهَا تَذْهَلُ كُلُّ مُرْضِعَةٍ عَمَّا أَرْضَعَتْ وَتَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا وَتَرَى النَّاسَ سُكَارَىٰ وَمَا هُم بِسُكَارَىٰ وَلَٰكِنَّ عَذَابَ اللَّهِ شَدِيدٌ .﴾
[الحج: 1، 2]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو، بے شک قیامت کا زلزلہ بہت بڑی چیز ہے۔ جس دن تم اسے دیکھو گے ہر دودھ پلانے والی اس سے غافل ہو جائے گی جسے اس نے دودھ پلایا اور ہر حمل والی اپنا حمل گرا دے گی اور تو لوگوں کو نشے میں دیکھے گا، حالانکہ وہ ہر گز نشے میں نہیں ہوں گے اور لیکن اللہ کا عذاب بہت سخت ہے۔ “
حدیث 33:
«عن أبى سعيد رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول الله عزوجل: يا آدم فيقول لبيك وسعديك والخير فى يديك قال: يقول: أخرج بعث النار قال: وما بعث النار؟ قال: من كل ألف تسع مائة وتسعة وتسعين قال: فذاك حين يشيب الصغير ﴿وَتَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا وَتَرَى النَّاسَ سُكَارَىٰ وَمَا هُم بِسُكَارَىٰ وَلَٰكِنَّ عَذَابَ اللَّهِ شَدِيدٌ﴾ قال فاشتد ذلك عليهم قالوا يا رسول الله ! وأينا ذك الرجل؟ فقال: أبشروا ، فإن من يأجوج و مأجوج الفا و منكم رجل .. الحديث»
صحيح مسلم، کتاب الایمان، باب قوله يقول الله تعالى لادم اخرج بعث النار من كل الف تسع، رقم: 522
”حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ عزوجل (قیامت کے روز آدم علیہ السلام کو مخاطب کر کے فرمائے گا) اے آدم! حضرت آدم علیہ السلام عرض کریں گے: اے اللہ ! میں حاضر ہوں تیری خدمت میں اور تیری اطاعت میں اور بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔ تب اللہ تعالیٰ فرمائے گا: (مخلوق میں سے) آگ کی جماعت الگ کرو۔ حضرت آدم علیہ السلام عرض کریں گے: آگ کی جماعت کتنی ہے؟ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا: ہزار میں سے نوسو ننانوے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یہی وہ وقت ہوگا جب بچہ بوڑھا ہو جائے گا، حمل والی عورتوں کے حمل گر جائیں گے اور تو لوگوں کو مدہوش دیکھے گا حالانکہ وہ مدہوش نہیں ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب ہی اتنا سخت ہو گا (کہ لوگ ہوش و حواس کھو بیٹھیں گے)۔ حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں یہ سن کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پریشان ہو گئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ ! پھر ہم میں سے کون سا (خوش نصیب) آدمی ہو گا (جو جنت میں جا سکے گا؟ ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مطمئن رہو یاجوج ماجوج (کی تعداد اتنی زیادہ ہوگی کہ ان میں سے) ایک ہزار آدمی اور تم میں سے ایک آدمی کی گنتی انہی سے پوری ہو جائے گی ۔ “
بَابُ كَثْرَةِ النِّسَاءِ فِي النَّارِ
جہنم میں عورتوں کی کثرت کا بیان
حدیث 34:
«عن أبى هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: صنفان من أهل النار لم ارهما ، قوم معهم سياط كاذناب البقر يضربون بها الناس ونساء كاسيات عاريات مميلات مائلات رؤوسهن كأسنمة البخت المائلة لا يدخلن الجنة ولا يجدن ريحها وإن ريحها ليوجد من مسيرة كذا وكذا»
صحیح مسلم، كتاب الجنة وصفة نعيمها النار يدخلها الحبارون و الجنة يدخلها الضعفاء، رقم: 7194
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جہنم میں جانے والی دو قسمیں ایسی ہیں جو میں نے ابھی تک نہیں دیکھیں ان میں سے ایک وہ لوگ جن کے پاس بیل کی دموں کی طرح کے کوڑے ہوں گے جن سے وہ لوگوں کو (یعنی اپنی رعایا ) کو ماریں گے، دوسری قسم ان عورتوں کی ہے جو کپڑے پہننے کے باوجود ننگی ہوتی ہیں، مردوں کو بہکانے والیاں اور خود بہکنے والیاں، ان کے سر بختی اونٹوں کی کوہان کی طرح (بالوں میں جوڑے لگانے کی وجہ سے) ایک طرف جھکے ہوں گے ایسی عورتیں جنت میں جائیں گی نہ جنت کی خوشبو سونگھ سکیں گی حالانکہ جنت کی خوشبو طویل مسافت سے آتی ہے۔ “
بَابُ وَارِدُوا النَّارِ مُوقتاً
کچھ مدت کے لیے جہنم میں جانے والے لوگوں کا بیان
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ . يَوْمَ يُحْمَىٰ عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَىٰ بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ ۖ هَٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنتُمْ تَكْنِزُونَ.﴾
[التوبة: 34، 35]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”جو لوگ سونا چاندی جمع کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں درد ناک عذاب کی خوشخبری سنا دو ایک روز آئے گا کہ اسی سونے چاندی پر جہنم کی آگ دہکائی جائے گی اور پھر اس سے ان لوگوں کی پیشانیوں اور پہلوؤں کو داغا جائے گا اور کہا جائے گا یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لیے جمع کیا اب اپنی جمع کی ہوئی دولت کا مزہ چکھو۔“
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿إِنَّ الَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ لُعِنُوا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ .﴾
[النور: 23]
اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”جو لوگ پاک دامن، بے خبر مومن عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی گئی اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔ “
حدیث 35:
«عن عبد الله بن عمرو بن العاص رضي الله عنها عن النبى صلى الله عليه وسلم: أنه ذكر الصلاة يوما فقال: من حافظ عليها كانت له نورا وبرهانا و نجاة يوم القيامة ، و من لم يحافظ عليها لم يكن له نورا ولا برهانا ولا نجاة وكان يوم القيامة مع قارون وفرعون و هامان و أبى بن خلف»
صحيح ابن حبان للارناوط، رقم: 1467۔ ابن حبان نے اسے صحیح کہا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن نماز کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ”جس شخص نے نماز کی حفاظت کی اس کے لیے نماز قیامت کے روز نور، برہان اور نجات کا باعث ہوگی جس نے نماز کی حفاظت نہ کی اس کے لیے نہ نور ہوگا نہ برہان اور نہ نجات، نیز قیامت کے روز اس کا انجام قارون، فرعون، ہامان اور ابی بن خلف کے ساتھ ہوگا۔“
حدیث 36:
«عن أبى سعيد و أبى هريرة رضي الله عنهما عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قالوا: لو أن أهل السماء و أهل الأرض اشتركوا فى دم مؤمن لا كبهم الله فى النار»
سنن ترمذی کتاب الديات، باب الحكم في الدماء، رقم: 1398، التعليق الرغيب: 202/3۔ محدث البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
حضرت ابوسعید اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر آسمان اور زمین میں رہنے والی ساری مخلوق (جن و انس اور فرشتے) ایک مومن آدمی کے قتل میں شریک ہوں تو اللہ تعالیٰ ان سب کو منہ کے بل جہنم میں ڈال دے گا۔ “
حدیث 37:
«عن سلمة بن الأكوع رضي الله عنه قال: سمعت النبى صلى الله عليه وسلم يقول: من يقل على ما لم أقل فليتبوأ مقعده من النار»
صحیح بخاری، کتاب العلم باب اثم من كذب على النبي صلی اللہ علیہ وسلم
”حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: جس شخص نے میری طرف ایسی بات منسوب کی جو میں نے نہیں کہی وہ اپنی جگہ جہنم میں بنالے۔ “
حدیث 38:
«عن أبى هريرة رضي الله عنه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: أتدرون ما الله المفلس؟ قالوا المفلس فينا من لا درهم له ولا متاع فقال: المفلس أمتي من يأتى يوم القيامة بصلاة وصيام وزكاة و يأتى قد شتم هذا، وقذف هذا ، وأكل مال هذا ، وسفك دم هذا، وضرب هذا، فيعطى هذا من حسناته وهذا من حسناته فإن فنيت حسناته قبل أن يقضى ما عليه أخذ من خطاياه فطرحت عليه ، ثم طرح فى النار»
صحيح مسلم، کتاب البر والصلة و الادب، باب تحريم الظلم، رقم: 6579
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم) سے پوچھا: کیا تم جانتے ہو مفلس کسے کہتے ہیں؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: مفلس تو وہی ہے جس کے پاس پیسے نہ ہوں، نہ ہی کوئی سامان ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میری امت کا مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکاۃ جیسی نیکیاں لے کر حاضر ہوگا، لیکن کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر تہمت لگائی ہو گئی کسی کا مال کھایا ہو گا کسی کو قتل کیا ہو گا، کسی کو مارا ہوگا، لہذا اس کی نیکیاں مختلف لوگوں میں تقسیم کر دی جائیں گی ، اگر اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں اور مظلوموں کے حقوق باقی رہ گئے، تو پھر ان کے گناہ اس کے حساب میں ڈال دیئے جائیں گے اور اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔“
حدیث 39:
«عن أبى هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ثلاثة لا يكلمهم الله يوم القيامة ولا يزكيهم ولهم عذاب أليم؛ شيخ زان و ملك كذاب و عائل مستكبر»
صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بیان غلظ تحريم اسبال الازار و المن بالعطيلة و تنقيق السلعة بالحلف، رقم: 296
”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے روز اللہ تعالیٰ تین آدمیوں سے نہ کلام کرے گا نہ انہیں پاک کرے گا اور نہ ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا: (1) بوڑھا زانی (2) جھوٹا بادشاہ (3) مغرور فقیر“
حدیث 40:
«عن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من غشنا فليس منا والمكر والخداع فى النار»
سلسلة احاديث الصحيحة، رقم: 1058
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جس نے دھو کہ کیا وہ ہم میں سے نہیں نیز فرمایا فریب اور دھوکہ آگ میں ہے۔ “
و صلى الله تعالى على خير خلقه محمد و على آله وصحبه وسلم