جنازے کے ساتھ ذکر بالجہر پر 2 ضعیف روایات اور ان کا تحقیقی جائزہ
ماخوذ : فتاوی علمیہ، جلد 1، کتاب الجنائز، صفحہ 521

جنازے کے ساتھ ذکر بالجہر: احادیث، آثار صحابہ، اور دلائل کا جائزہ

سوال

جنازے کے پیچھے آواز بلند کرنا، کیا اس کی ممانعت میں احادیث و آثار وارد ہوئے ہیں یا صحابہ کرام کا ناپسندیدگی کا اظہار آیا ہے؟ صحیح و ضعیف دلائل بیان فرما دیں تاکہ لوگوں کو سمجھانے میں آسانی ہو۔ یہ بھی الحدیث میں شائع کر دیا جائے۔

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جنازے کے ساتھ بلند آواز سے ذکر کرنا

جنازے کے ساتھ بلند آواز سے ذکر کرنا نبی کریم اور سلف صالحین کے آثار سے ثابت نہیں ہے۔

ایک روایت میں آیا ہے کہ آتے جاتے وقت جب نبی جنازے کے پیچھے چلتے تو آپ سے "لا الہ الا اللہ” کے علاوہ کچھ بھی نہیں سنا جاتا تھا۔

(الکامل لابن عدی 1/269، 4/1207-1208، نصب الرایۃ 3/293، جاء الحق/ مفتی احمد یار نعیمی بریلوی، طبع قدیم، ج 3، ص 404)

روایت کی تحقیق

اس روایت کا راوی ابراہیم بن احمد بن عبد الکریم عرف ابن ابی حمید الحرانی الضریر تھا، جو جھوٹا تھا۔

"كان يضع الحديث” یعنی وہ حدیثیں گھڑتا تھا۔

(الکامل لابن عدی 1/269، لسان المیزان 1/28)

نتیجہ:

یہ سند موضوع (من گھڑت) ہے۔

ایک دوسری روایت

ایک اور روایت میں آیا ہے:

"اكثروا في الجنازة قول: لا اله الا الله”
"جنازہ میں کثرت سے لا الہ الا اللہ کہو۔”

(الدیلمی 1/32 بحوالہ سلسلہ الضعیفۃ والموضوعۃ للالبانی 6/414، حدیث 2881)

اس روایت کے رواۃ کی تحقیق

اس روایت میں عبد اللہ بن محمد بن وہب، یحیی بن محمد صالح، اور خالد بن مسلم القرشی نامعلوم راوی ہیں۔

نتیجہ:

یہ روایت موضوع اور بے اصل ہے۔

خلاصہ

جنازے کے ساتھ ذکر بالجہر کرنے کی کوئی صحیح اور ثابت دلیل موجود نہیں۔

نبی اور صحابہ کرام سے جنازے کے ساتھ خاموشی اختیار کرنے کا ثبوت ملتا ہے۔

موضوع اور ضعیف روایات کی بنیاد پر عمل کرنا درست نہیں۔

اختتامیہ

وما علینا الا البلاغ
(12/ رجب 1426ھ)
(الحدیث : 18)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1