جماع کے بعد دوبارہ بیوی کے پاس جانے سے پہلے وضوء کا حکم
ماخوذ: احکام و مسائل، نکاح کے مسائل، جلد 1، صفحہ 324

جماع کے بعد دوبارہ بیوی کے پاس جانے سے پہلے وضوء کرنا اور غسل جنابت کا مسئلہ

سوال:

کیا حدیث میں یہ بات آئی ہے کہ اگر ایک بار جماع کے بعد مرد اپنی بیوی کے پاس دوبارہ جانا چاہے تو اسے وضوء کرنا چاہیے؟ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وضوء کرنے سے پہلے نجاست کو دور کرنا ضروری ہوتا ہے یا غسل جنابت کرنا لازم ہوتا ہے۔ جب تک غسل جنابت نہ کیا جائے، وضوء صحیح نہیں ہوتا۔ تو اس صورت میں تو ایک مشکل پیدا ہو جاتی ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں۔

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ نے سوال میں جو بات لکھی کہ:

’’وضوء کے لیے ضروری ہے کہ پہلے نجاست کو دور کیا جائے یا غسل جنابت کیا جائے‘‘

تو محترم، گزارش ہے کہ:

◈ اگر دوبارہ بیوی کے پاس جانے کا ارادہ ہو یا
◈ جماع کے بعد سونا ہو یا
◈ کھانے پینے کا ارادہ ہو

تو اس کے لیے صرف وضوء کرنا کافی ہے۔
آپ نے جو شرط لکھی ہے کہ وضوء کے لیے نجاست کو دور کرنا یا غسل جنابت کرنا ضروری ہے، تو یہ شرط شریعت میں موجود نہیں۔

وضوء کرنے کی اجازت:

◈ جماع کے بعد اگر دوبارہ بیوی کے پاس جانا ہو تو وضوء کرنا مسنون ہے، تاکہ تازگی حاصل ہو اور جسم میں توانائی آ جائے۔
◈ اسی طرح اگر کوئی شخص جنابت کی حالت میں ہو اور وہ کھانا پینا یا سونا چاہے تو اس کے لیے بھی وضوء کرنا کافی ہے۔

وضوء سے پہلے غسل جنابت کی شرط کا کوئی ثبوت نہیں:

اگر آپ کے پاس کوئی آیتِ قرآنی یا صحیح حدیث موجود ہو جس میں یہ بات بیان کی گئی ہو کہ:

وضوء سے پہلے نجاست کو دور کرنا یا غسل جنابت کرنا ضروری ہے

تو براہ کرم ہمیں ضرور مطلع فرمائیں، ہم آپ کے شکرگزار ہوں گے۔

اس وقت تک شریعت میں ایسی کوئی شرط ثابت نہیں ہے، لہٰذا جو اشکال آپ کو محسوس ہو رہا ہے، وہ ختم ہو جانا چاہیے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1