جس مسئلہ میں صحیح حدیث موجود ہو، اس میں قیاس کرنا کیسا ہے؟
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال :

جس مسئلہ میں صحیح حدیث موجود ہو، اس میں قیاس کرنا کیسا ہے؟

جواب :

صحیح حدیث کی موجود گی میں قیاس کرنا درست نہیں، بالخصوص جب قیاس صحیح حدیث کے مخالف ہو۔ یہ اہل بدعت کا وطیرہ ہے۔ قیاس وہاں جائز ہے، جب کسی مسئلہ میں قرآن، حدیث ، آثار صحابہ اور اجماع امت میں سے کوئی نص نہ ہو۔ نص کی موجودگی میں قیاس باطل ہے۔
❀ عبد خیر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
رأيت على بن أبى طالب، يمسح ظهور قدميه، ويقول : لولا أني رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم مسح على ظهورهما، لظننت أن بطونهما أحق .
”میں نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو پاؤں کے اوپر والی جانب مسح کرتے دیکھا۔ فرما رہے تھے : میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پاؤں کے اوپر مسح کرتے نہ دیکھتا تو سمجھتا کہ پاؤں کی نچلی جانب مسح کی زیادہ مستحق ہے۔“
(مسند الحميدي : 26/1، ح : 47، وسنده صحيح)
سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور یہ باور کرار ہے ہیں کہ حدیث رسول کی موجودگی میں رائے اور قیاس کو ترک کیا جائے گا، کیونکہ قیاس اور رائے کا تقاضا تھا کہ پاؤں کی نچلی جانب مسح کیا جائے ، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل پاؤں کی اوپر والی جانب مسح کرنے کا تھا، اس لیے اپنی رائے کو ترک کر دیا اور سنت کو مقدم رکھا۔
دین کے تمام اُمور میں اسی اصول کو اپنایا جائے گا۔ ہر عمل کی بنیاد اصل یعنی وحی پر رکھی جائے گی اور اس کی موجودگی میں رائے اور قیاس کو ترک کر دیا جائے گا۔
❀ حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ (463ھ) فرماتے ہیں:
إن القياس لا يستعمل مع وجود الخبر وصحته وأن الر أى لا مدخل له فى العلم مع ثبوت السنة بخلافه .
”صحیح حدیث کی موجودگی میں قیاس نہیں کیا جائے گا علم میں رائے کا کوئی دخل نہیں ، جب اس کے خلاف حدیث ثابت ہو۔“
(التمهيد : 121/12)
❀ امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے :
أَوَّلُ مَنْ قَاسَ إِبْلِيسُ .
”( نص کے مقابلہ میں ) سب سے پہلے ابلیس نے قیاس کیا تھا۔“
(مصنف ابن أبي شيبة : 86/14 ، وسنده حسن)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1