جادو سوالات و جوابات (حصہ پنجم)

تالیف: ڈاکٹر رضا عبداللہ پاشا حفظ اللہ

41۔ میں جنات سے ڈرتا ہوں، میں کیا کروں ؟
جواب :
جنات سے ڈرنے والے شخص کو درج ذیل دعا پڑھنی چاہیے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا :
الله أكبر، الله أعز من خلقه جميعا، الله أعز مما أخاف وأخذر، أعود بالله الذى لا إله إلا هو الممسك السموت السبح أن يقعن على الأرض إلا بإذنه، من شر عبيرك فلان وجنوده ؛ وأتباعه ؛ وأشياعه من الجن والإنس، اللهم كن لي جارا من شرهم، جل ثناؤك وعز جارك وتبارك اسمك ولا إله خيرك، ثلاث مرات [الادب المفرد رقم الحديث 708]
” اللہ سب سے بڑا ہے، الله تمام مخلوق پر غالب ہے، جس چیز کا مجھے خوف و خدشہ ہے، اللہ اس پر بھی غالب ہے۔ میں الله کی پناہ میں آتا ہوں، جو ساتوں آسمانوں کو زمین پر گرنے سے روکے ہوئے ہے، ہاں اس کے حکم سے گر سکتے ہیں، میں تیرے فلاں بندے کے شر سے، اس کے لشکر، متبعین اور انسانوں اور جنات میں اس کے جو قبیلے ہیں ان کے شر سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔ اے اللہ! ان کے شر سے میرا مددگار بن جا، تیری تعریف بلند ہے، تیری پناه غالب اور تیرا نام بابرکت ہے، تیرے علاوہ کوئی انہیں۔“
——————

42۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صرف انسانوں کی طرف مبعوث ہوئے ہیں یا جنات کی طرف بھی ؟
جواب :
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
فضلت على الأنبياء : أعطيت جوامع الكلم، ونصرت بالرعب مسيرة شهر، وأحلت لي الغنام، وجعلت لي الأرض مسجدا وطهورة، وأرسلت إلى الخلق كافة، وختم بي البيون [صحيح مسلم رقم الحديث 523]
مجھے چھ چیزوں کی بنا پر دوسرے انبیاء پر فضیلت حاصل ہے :
➊ مجھے جامع کلمات عطا کیے گئے ہیں۔
➋ ایک مہینے کی مسافت سے رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی ہے (یعنی دشمن ایک مہینے کی مسافت پر دور ہو تو میرا رب اس پر چھا جاتا ہے۔
➌ میرے لیے غنیمت حلال ہے۔
➍ زمین میرے لیے مسجد اور پاک کرنے والی بنا دی گئی ہے۔
➎ میں تمام مخلوق کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔
➏ مجھ پر انبیا کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صرف انسانوں کے لیے ہی نہیں، بلکہ جنات اور دوسری مخلوقات کے لیے بھی رسول ہیں۔
——————

43۔ کیا جنات کی وجہ سے طاعون کی بیماری پھیلتی ہے ؟
جواب :
سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
أنه وخز الشيطان [مسند أحمد رقم الحديث 395/4، مسند ابي يعليٰ رقم الحديث 7226، طبراني رقم الحديث 1396]
طاعون شیطان کا چھبونا ہے۔
ایک دوسری روایت میں ہے:
الطاعون وخز أعدائكم من الجن وفيه شهادة [الصحيح الجامع رقم الحديث 3951]
’’طاعون تمھارے ”جن“ دشمنوں کا چھبونا ہے اور طاعون کی وجہ سے فوت ہونے والا شہید ہے۔‘‘
شیطان کی انسان سے پرانی دشمنی ہے اور شیطان کی وجہ سے بہت سی آزمایشیں بھی ہوتی ہیں، انہی آزمایشوں میں سے ایک طاعون کی بیماری ہے، تقدیر کے بعد اس کا سبب ظاہر ہے۔ یعنی وہ شیطان کی طرف سے ہے۔ ایک مسلمان خود کو مسنون اذکار کے ذریعے شیطان کے شر سے بچا سکتا ہے۔
——————

44۔ کیا اونٹوں کو جنات سے کوئی مناسبت ہے ؟
جواب :
سیدنا ابو لاس خزاعی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صدقے کے اونٹوں پر سوار کیا تو فرمایا:
ما من بعير إلا وفي ذروته شيطان، فاذكروا اسم الله عليها، إذا ركبتموها كما أمركم به، وامتهنوها لأنفسكم فإنما يحمل الله عليها [مسند أحمد رقم الحديث 221/4، صحيح ابن خزيمه رقم الحديث 1377]
”ہر اونٹ کی کوہان میں شیطان ہوتا ہے تو جب تم اونٹ پر سوار ہو تو حکم الہیٰ کے مطابق اللہ کا نام لے کر سوار ہونا اور انھیں اپنی خدمت میں رکھنا، یقینا الله تبارک و تعالیٰ ہی ان پر سوار کرواتا ہے۔ “
سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا :
على ظهر كل بعير شيطان، فإذا ركبتموها فسموا الله عزوجل ثم لا تقصروا عن حاجاتكم [الصحيح الجامع رقم الحديث 4031]
ہر اونٹ کی پشت پر شیطان ہوتا ہے، جب تم اونٹوں پر سوار ہو تو اللہ تعالیٰ کا نام لے کر سوار ہو، پھر اپنی ضروریات میں کمی نہ کرو۔‘‘
ہر اونٹ پر شیطان ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یا تو اونٹ کے سر میں یا اس کی کوہان میں ہوتا ہے، اللہ کے ذکر کرنے سے شیطان ذلیل و حقیر ہو جائے گا تو تم ان اونٹوں کو اپنے کام کاج اور خدمت میں استعمال کرو، اللہ تعالیٰ نے انہیں خدمت اور بندوں کی سواری کے لیے مسخر کر دیا ہے۔ اس لیے دین و دنیا کے لحاظ سے جو بھی فائدہ دیں، ان میں کمی نہیں کرنی چاہیے، یعنی مطلوبہ فائده حاصل کرنا چاہیے۔
——————

45۔ ایک آیت اور حدیث میں تطبیق
جواب :
ہم اس آیت اور حدیث میں تطبیق کیسے دیں گے کہ حدیث میں ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن دیکھا ہے؟‘‘
اللہ تعالی فرماتا ہے:
إِنَّهُ يَرَاكُمْ هُوَ وَقَبِيلُهُ مِنْ حَيْثُ لَا تَرَوْنَهُمْ ۗ
” بےشک وہ اور اس کا قبیلہ تمہیں وہاں سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم انھیں نہیں دیکھتے۔“ [ الأعراف: 27]
اس آیت مبارکہ کو ہم اکثر حالات پر محمول کریں گے، یعنی تم اکثر و اغلب جنات کو نہیں دیکھ سکتے، اگر ان کو دیکھنا محال ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے دیکھنے کے متعلق جو کہا ہے وہ نہ فرماتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ نہ فرماتے کہ میں اسے باندھنے لگا تھا، تاکہ تم سب اس کو دیکھو اور مدینے کے بچے اس کے ساتھ کھیلیں۔
قاضی عیاض نے کہا ہے :
” آیت کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ جنات کو ان کی اصلی شکل و صورت میں دیکھنا محال ہے، ہاں انبیاے کرام بہ طور معجزہ ان کی اصلی شکل میں دیکھ سکتے ہیں اور انسان ان کو غیر اصلی صورت میں دیکھ سکتے ہیں، جیسا کہ احادیث مبارکہ میں منقول ہے، کیونکہ جنات لطیف روحانی اجسام ہیں۔ ممکن ہے کہ وہ ایسی صورت اختیار کر لیں، جس صورت میں ان کو باندھنا ممکن ہو، پھر ان کا دوبارہ اصلی صورت اختیار کرنا محال ہو حتیٰ کہ ان کے ساتھ کھیلا جائے، اگرچہ یہ خلاف عادت ہے۔ “
لیکن جنات کا سیاہ کتے، سیاه گد ھے، کسی سیاه ٹکڑے یا سانپوں کی صورت میں ظاہر ہونا مکن ہے۔
——————

46۔ جن سے کیسے معاملہ ہو سکتا ہے ؟
جواب :
جنات ایک امت ہیں، جن کا تعلق غیبی جہاں سے ہے۔
الله تعالیٰ نے فرمایا :
إِنَّهُ يَرَاكُمْ هُوَ وَقَبِيلُهُ مِنْ حَيْثُ لَا تَرَوْنَهُمْ ۗ
” بے شک وہ اور اس کا قبیلہ تمہیں وہاں سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم انھیں نہیں دیکھتے۔“ [الأعراف: 27 ]
ان کے متعلق کسی بھی چیز کی معرفت کا ذرا یہ صرف وحی ( کتاب و سنت) ہی ہے۔ جو کتاب و سنت سے ثابت شدہ معلومات سے زائد ان کے متعلق کسی چیز کا ذکر کرتا ہے تو یہ اٹکاپچو اور اللہ تعالیٰ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر افترا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا ﴿٢٦﴾ إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِن رَّسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا ﴿٢٧﴾
’’(وہ) غیب کو جاننے والا ہے، پس اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا۔ مگر کوئی رسول، جسے وہ پسند کر لے تو بے شک وہ اس کے آگے اور اس کے پیچھے پہرا لگا دیتا ہے۔ “ [الجن: 27 , 26]
ہمارے پاس قرآن مجید میں چالیس سے زائد آیات ہیں، جو جن قوم کے متعلق بتاتی ہیں۔ سورة الجن میں اس امت کے بہت سے احوال مذکور ہیں، جس سے ہم جان سکتے ہیں کہ جنوں سے کیسے معاملہ کر سکتے ہیں۔
——————

47۔ لفظ ”شیطان“ کس کس پر بولا جا سکتا ہے ؟
جواب :
ہر وہ جو حق سے بعید اور سرکش ہو، اس پر لفظ ’’شیطان‘‘ بولا جا سکتا ہے اور ہر وہ شخص جو نافرمان و سرکش ہو، خواہ جنوں سے ہو، یا انسانوں یا چوپایوں سے وہ شیطان ہے۔ [الجامع لأحكام القرآن 136/1، تفسير القرآن العظيم 15/1، مصائب الإنسان ص: 7,6،غرائب و عجائب الجن ص: 24]
——————

48۔ شیاطین میں سے سخت ترین کون سی نوع ہے ؟
جواب :
وَحِفْظًا مِّن كُلِّ شَيْطَانٍ مَّارِدٍ ﴿٧﴾
اور ہر سرکش شیطان سے خوب محفوظ کرنے کے لیے۔“ [الصافات: 7 ]
یعنی سرکش و متکبر، جب کہ عفریت سرکش و مارد سے بھی زیادہ سخت ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مارد ہی عفریت ہے۔ والله أعلم.
——————

49۔ کیا کوئی شیطان سے بچ سکتا ہے ؟
جواب :
ہاں، مخلص لوگ شیطان سے بچ سکتے ہیں۔
شیطان نے کہا تھا :
قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ ﴿٨٢﴾ إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ ﴿٨٣﴾
”تو قسم ہے تیری عزت کی ! کہ میں ضرور بالضرور ان سب کو گمراہ کر دوں گا۔ مگر ان میں سے تیرے وہ بندے جو چنے ہوئے ہیں۔“ [ص: 82 , 83]
صحیح بخاری میں روایت ہے :
إن العبد إذا عرج بروحه إلى السماء، قالت الملائكة : سبحان الله ! نجا هذا العبد من الشيطان يا و يحه كيف نجا؟
جب بندے کی روح آسمان کی طرف لے جائی جاتی ہے تو فرشتے از راه تعجب کہتے ہیں : سبحان اللہ ! یہ بندہ شیطان سے بچ گیا، ہائے تعجب! یہ کیسے بچ گیا ہے؟
——————

50۔ کیا شیطان انسان کے لیے بھیڑیا ہے ؟
جواب :
جی ہاں،
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں :
إن الشيطان ذئب الإنسان كذئب الغنم يأخد الشاة القاصية والناجية، وإياكم والشعاب، وعليكم بالجماعة والعامة [مسند أحمد رقم الحديث 232/5]
”بلاشبہ شیطان انسان کے لیے بھیٹریا ہے، جیسا کہ بکریوں کا بھیٹریا ہوتا ہے، جو دور چلی جانے والی اور آگے بڑھ جانے والی بکری کو پکڑ لیتا ہے، ٹولیوں میں بٹنے سے بچو اور جماعت و اکثریت کو لازم پکڑو۔“
——————

یہ تحریر اب تک 3 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

Leave a Reply