جنات کی اشکال کیا ہیں ؟

تالیف: ڈاکٹر رضا عبداللہ پاشا حفظ اللہ

11۔ جنات کی اشکال کیا ہیں ؟
جواب :
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
طَلْعُهَا كَأَنَّهُ رُءُوسُ الشَّيَاطِينِ [الصافات 65]
” اس کے خوشے ایسے ہیں جیسے وہ شیطانوں کے سر ہوں۔“
آیت مذکورہ میں شیاطین کے سروں کو زقوم کی شاخوں سے تشبیہ دینا، انھیں قبیح قرار دینے اور ان کے ذکر کو مکروہ قرار دینے کی بنا پر ہے۔ شیاطین کے بال اوپر کو اٹھے ہوتے ہیں، جیسے زقوم کے کانٹے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا شیطان بدشکل ہوتے ہیں۔
——————

12۔ کیا جنات کو دیکھنا ممکن ہے ؟
جواب :
جن کو اس کی اصل صورت و شکل میں دیکھنا ناممکن ہے،
کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
إِنَّهُ يَرَاكُمْ هُوَ وَقَبِيلُهُ مِنْ حَيْثُ لَا تَرَوْنَهُمْ ۗ إِنَّا جَعَلْنَا الشَّيَاطِينَ أَوْلِيَاءَ لِلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ [الأعراف: 27 ]
” بے شک وہ اور اس کا قبیلہ تمہیں وہاں سے دیکھتے ہیں، جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھتے۔ بے شک ہم نے شیطانوں کو ان لوگوں کے دوست بنایا ہے جو ایمان نہیں رکھتے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار صحابہ سے اسے دیکھنے اور اسے باندھنے کے ارادے کا ذکر کیا، تاکہ وہ سب بھی اسے دیکھ لیں۔ [ شرح صحيح مسلم 295/2]
جنات کو ان کی تبدیل شده شکلوں میں دیکھنا صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ ان میں سے ایک حدیث یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو صدقے کے مال پر پہرے دار مقرر کیا تو تین دن تک سیدنا ابوہریرہ کے پاس جن آتا رہا اور صدقے کے مال سے چرانے کی کوشش کرتا رہا۔ جب پکڑا جاتا تو اہل و عیال کے فقر و فاقے کا ذکر کرتا۔ تیسرے دن سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آج میں تمہیں ضرور نبی کریم صلى الله عليه وسلم کے پاس لے کر جاؤں گا، تو اس وقت اس نے کہا کہ سوتے وقت آیۃ الکرسی پڑھ کر سو جاؤ تو کوئی چیز تمھارے پاس نہیں آ سکتی۔ آپ نے فرمایا : ”بات سچی کہہ گیا ہے، مگر ہے جھوٹا۔ “ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :” وہ شیطان تھا۔“ تو انسان کی صورت میں یا حیوان کی شکل و صورت میں آنا اس کے لیے ممکن ہے، جیسے سیاہ کتا، بچھو، اونٹ، سانپ، سیاه بلی اور سیاہ گدھا وغیرہ۔ اس سے پہلے شیطان سراقہ بن مالک کی صورت میں بھی ظاہر ہوا، جیسا کہ غزوہ بدر میں آیا تھا اور انبیائے کرام مثلا : نوح، موسیٰ، عیسیٰ علیہم السلام وغیرہ کے پاس بھی انسانی صورت میں آیا تھا۔
——————

13۔ کیا جنات میں ’’ عفاریت “ (طاقتور شرارتی جن) ہوتے ہیں ؟
جواب :
جی ہاں،
فرمان الہی ہے :
قَالَ عِفْرِيتٌ مِّنَ الْجِنِّ أَنَا آتِيكَ بِهِ
’’ جنوں میں سے ایک طاقتور شرارتی کہنے لگا : میں اسے تیرے پاس لے آوں گا۔“ [النمل: 39]
یہ آیت مبارکہ دلیل ہے کہ عفریت جنوں میں سے ہے۔
——————

14۔ عفریت (سرکش) جنات کے پاس کتنی طاقت ہوتی ہے ؟
جواب :
فرمان الہی ہے :
قَالَ عِفْرِيتٌ مِّنَ الْجِنِّ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن تَقُومَ مِن مَّقَامِكَ ۖ وَإِنِّي عَلَيْهِ لَقَوِيٌّ أَمِينٌ ﴿٣٩﴾
”جنوں میں سے ایک طاقتور شرارتی کہنے لگا : میں اسے تیرے پاس اس سے پہلے لے آؤں گا کہ تو اپنی جگہ سے اٹھے اور بلاشبہ میں اس پر یقیناً پوری قوت رکھنے والا، امانت دار ہوں۔ “ [ النمل: 39 ]
”عفریت“ کا معنی سرکش ہے، چونکہ سلیمان علیہ السلام صبح سے لے کر زوال تک فیصلوں اور حکومتی انتظامات کے لیے بیٹھتے تھے، تو عفریت نے کہا : میں تیرے یہاں سے اٹھنے سے پہلے تیرے پاس لے آؤں گا۔
وَإِنِّي عَلَيْهِ لَقَوِيٌّ أَمِينٌ یعنی میں اس تخت کو اٹھانے کی طاقت رکھتا ہوں اور اس میں جو جواہر اور خزانہ وغیرہ ہے، اسے بھی بطور امانت لے کر آؤں گا۔
تو سلیمان علیہ السلام نے فرمایا : میں اس سے بھی جلدی چاہتا ہوں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سلیمان علیہ السلام نے وہ تحت اس لیے حاضر کروانے کا ارادہ کیا، تاکہ وہ الله تعالیٰ کی عطا کی گئی بادشاہت کی عظمت کا اظہار کریں۔ اور اس نعمت کا بھی جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے لشکر مسخر کرنے کی صورت میں عطا کی، جو اس سے قبل کسی کو عطا نہیں کی تھی۔
——————

15۔ کیا ابلیس (شیطان ) جنات میں سے ہے ؟
جواب :
جی ہاں ! ابلیس جنات ہی میں سے ہے۔
فرمان الہی ہے :
إِلَّا إِبْلِيسَ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ ۗ
”مگر ابلیس، وہ جنوں میں سے تھا، سو اس نے اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی۔ “ [ الكهف: 50 ]
یہ ابلیس کے جنات میں سے ہونے کی دلیل ہے۔
——————

16۔ کیا جنات میں بھی رسول ہوتے ہیں ؟
جواب :
رسول صرف انسانوں میں سے ہوئے ہیں، جنات میں سے رسول نہیں ہوتے۔
قرآن مجید میں آیت کریمہ ہے۔
يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي وَيُنذِرُونَكُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَـٰذَا ۚ قَالُوا شَهِدْنَا عَلَىٰ أَنفُسِنَا ۖ وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَشَهِدُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَنَّهُمْ كَانُوا كَافِرِينَ ﴿١٣٠﴾ [ الأنعام: 130 ]
”اے جنوں اور انسانوں کی جماعت ! کیا تمھارے پاس تم میں سے کوئی رسول نہیں آئے، جو تم پر میری آیات بیان کرتے ہوں اور تمھیں اس دن کی ملاقات سے ڈراتے ہوں؟ وہ کہیں گے ہم اپنے آپ پر گواہی دیتے ہیں اور انھیں دنیا کی زندگی نے دھوکا دیا اور وہ اپنے آپ پر گواہی دیں گے کہ یقینا وہ کافر تھے۔ “
بعض کا خیال ہے کہ جنات میں سے بھی رسول ہوتے ہیں، کیونکہ الله تعالیٰ نے اس آیت میں رُسُلٌ مِّنكُمْ فرمایا، جو انسانوں اور جنات سب کو شامل ہے۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے ان کا وہم کا فور کرتے ہوئے فرمایا:
رُسُلٌ مِّنكُمْ کا مطلب ہے : تم جنوں اور انسانوں کی طرف جب کہ رسول صرف انسانوں سے ہیں، جنات سے نہیں ہیں۔ “
——————

17۔ کیا جن غیب جانتے ہیں ؟
جواب :
عالم الغیب صرف الله تعالی ہے۔ جو عالم الغیب ہونے کا دعویٰ کرے، وہ جھوٹا ہے۔
فرمان الہیٰ ہے :
وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَجَعَلْنَاهَا رُجُومًا لِّلشَّيَاطِينِ ۖ وَأَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابَ السَّعِيرِ ﴿٥﴾
”اور بلاشبہ یقیناً ہم نے قریب کے آسمان کو چراغوں کے ساتھ زینت بخشی اور ہم نے انھیں شیطانوں کو مارنے کے آلے بنایا اور ہم نے ان کے لیے بھڑکتی ہوئی آگ کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔“ [الملك: 5 ]
یعنی آسمان میں موجود ستاروں، بلکہ شہابوں سے بھی مزین کر دیا، جن سے شیاطین کو بھگایا جاتا ہے۔
مزید فرمان الہیٰ ہے :
فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَىٰ مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ تَأْكُلُ مِنسَأَتَهُ ۖ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ أَن لَّوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوا فِي الْعَذَابِ الْمُهِينِ ﴿١٤﴾
”پھر جب ہم نے اس پر موت کا فیصلہ کیا تو انھیں اس کی موت کا پتا نہیں دیا مگر زمین کے کیڑے (دیک) نے جو اس کی لاٹھی کھاتا رہا، پھر جب وہ گرا تو جنوں کی حقیقت کھل گئی کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو اس ذلیل کرنے والے عذاب میں نہ رہتے۔“ [سبأ: 14 ]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ مجھے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث سنائی کہ ایک رات وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، اچانک ایک ستارا پھینکا گیا تو ہر طرف روشنی ہو گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : جب اس کی مثل ( کوئی ستارا) پھینکا جائے تو تم کیا کہتے ہو؟ انھوں نے کہا: ہم تو کہتے ہیں، آج کی رات کوئی عظیم ہستی پیدا یا فوت ہوئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ ستارا کسی کی زندگی یا موت کی وجہ سے نہیں پھینکا جاتا، بلکہ ہمارا رب جب کسی کام کا فیصلہ کرتا ہے (اس وقت) عرش کو اٹھانے والے فرشتے تنبیہ کرتے ہیں۔ پھر آسمان میں اس کے پاس والے تسبیح کرتے ہیں، حتی کہ یہ تسبیح آسمانِ دنیا والوں تک پہنچ آتی ہے۔ پھر عرش کو اٹھانے والے فرشتوں کے پاس والے فرشتے ان سے پوچھتے ہیں : تمھارے رب نے کیا کہا ؟ پھر باقی آسمانوں والے ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں حتی کہ آسمانِ دنیا والوں تک بات آتی ہے۔ جنات اس بات کو چپکے سے سن کر اپنے دوستوں کو پہنچا دیتے ہیں۔ پھر جو بات وہ بعینہ لاتے ہیں وہ تو حق ہے، لیکن وہ اس میں جھوٹ ملاتے اور اضافہ کرتے ہیں۔ [صحيح مسلم، رقم الحديث 2229]
——————

18۔ انسانوں کا مرتبہ بلند ہے یا جنات کا ؟
جواب :
انسان کا مرتبہ بلند ہے۔
فرمان الہی ہے :
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَىٰ كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا ﴿٧٠﴾
”اور بلاشبہ یقیناً ہم نے آدم کی اولاد کو بہت عزت بخشی اور انھیں خشکی اور سمندر میں سوار کیا اور انھیں پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور ہم نے جو مخلوق پیدا کی، اس میں سے بہت سوں پر انھیں فضیلت دی، بڑی فضیلت دینا۔ “ [ الإسراء:70]
یہ شرف جنات کے لیے نہ اللہ تعالیٰ کی کتاب سے ثابت ہے اور نہ کسی رسول و پیغمبر سے۔ اس سے معلوم ہوا کہ انسان کا شرف و مقام جنات سے زیادہ ہے۔
——————

19۔ کیا جن کو قتل کیا جا سکتا ہے ؟
جواب :
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
جس طرح ناحق انسان کا قتل جائز نہیں، ایسے ہی ’’جن‘‘ کو بھی ناحق قتل نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ کسی کافر پر بھی ظلم کرنا جائز نہیں اور قتل ظلم ہے۔
فرمان الہیٰ ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّـهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ ۖ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَىٰ أَلَّا تَعْدِلُوا ۚ اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ ۖ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ ﴿٨﴾
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اللہ کی خاطر خوب قائم رہنے والے، انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات کا مجرم نہ بنا دے کہ تم عدل نہ کرو۔ عدل کرو، یہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو۔ بے شک اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔ “ [ المائدة: 8 ]
”جن“ گھریلو سانپوں کی شکل میں بھی آ جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں تین دن تک اسے چلے جانے کا کہا جائے۔ اگر چلا جائے تو ٹھیک ہے، ورنہ قتل کر دیا جائے۔ اگر تو وہ حقیقی سانپ ہوا تو پھر تو سانپ قتل ہوا ہے اور اگر وہ ”جن“ تھا تو اس نے سانپ کی صورت میں ظاہر ہو کر انسان کو خوف زدہ کرنے کے لیے زیادتی پر مجبور کیا ہے۔ بہرحال ان کو بغیر کسی سبب کے قتل کرنا جائز نہیں ہے۔
صحیح مسلم میں مروی ہے :
إن بالمبينة جنا قد أسلموا، فإذا رأيتم منهم شيئا فاذنوه ثلاثة أيام، فإن بدا لكمم بعد ذلك فاقتلوه فإنما هو شيطان
”مدینے کے کئی جن مسلمان ہوئے ہیں، اگر تم ان میں سے کسی کو دیکھو تو تین دن تک اسے الارم دو (یعنی اگر گھر میں سانپ کی صورت میں ظاہر ہو تو تین دن تک اسے نکل جانے کے لیے کہتے رہو ) اگر اس کے بعد نظر آئے تو اسے قتل کر دو، کیوں کہ وہ شیطان ہے۔“ [ مختصر صحيح مسلم، رقم الحديث 2236 ]
——————

20۔ کیا ’’ جن “ انسانوں کے ساتھ مل کر کھاتے ہیں ؟
جواب :
سیدنا امیہ صحابی سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے اور ایک آدمی کھانا کھا رہا تھا، مگر اس نے بسم الله نہیں پڑھی تھی، جب ایک لقمہ باقی رہ گیا اور وہ اسے منہ کی طرف اٹھانے لگا تو اس نے کہا:
بسم الله أوله وآخره
”اللہ کے نام کے ساتھ ( کھاتا ہوں) اس کے شروع اور اس کے آخر میں۔“
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے، پھر فرمایا :
ما زال الشيطان يأكل معه، فلما ذكر اسم الله اشتقاء ما فى بطنه
”شیطان اس کے ساتھ کھا رہا تھا، جب اس نے بسم الله پڑھی تو شیطان نے اپنے پیٹ کا تمام کھانا قے کر دیا۔ “ [ مشكاة المصابيح 152/4، الأحاديث المختصارة 342/4 ]
اس سے معلوم ہوا کہ اگر انسان”بسم الله“ نہ پڑھے تو شیطان (جن) بھی کھانے میں انسان کا شریک بن جاتا ہے۔
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
كنا إذا حضرنا مع النبى صلى الله عليه وسلم طعاما لم نضع أيدينا حتى يبدأ رسول الله صلى الله عليه وسلم فيضع يده وإنا حضرنا معه مة طعاما، فجاءت جارية كأنها تدفع فذهبت لتضع يدها فى الطعام، فاخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم : بيدها ثم جاء أعرابي كأنما يدفع فأخذ بيده، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إ الشيطان يستحل الطعام ألا يذكر اسم الله عليه وإنه جاء بهذه الجارية ليستحل بها فأخذت بيدها، فجاء بهذا الأعرابي لتحل به فأخذت بيده، والذي نفسي بيده إن يده فى يدي مع يديها
”جب ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی کھانے کی مجلس میں حاضر ہوتے تو جب تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شروع نہ کرتے ہم شروع نہیں کیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ہم دعوت طعام میں آپ کے ساتھ تھے، ایک بچی ایسے دوڑتی ہوئی آئی جیسے اسے کسی نے دھکا دیا ہو، اس نے کھانے میں ہاتھ ڈالنا چاہا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ پھر ایک دیہاتی ایسے ہی آیا جیسے کسی نے اس کو دھکا دیا ہو، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ بھی پکڑ لیا۔ (پھر) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : شیطان اس کھانے کو اپنے لیے حلال کر لیتا ہے، جس پر بسم الله نہ پڑھی جائے، شیطان اس بچی کو لے کر آیا، تاکہ اس کے سبب وہ یہ کھانا اپنے لیے جائز کر لے تو میں نے اس بچی کا ہاتھ پکڑ لیا، پھر وہ اس مقصد کے لیے دیہاتی کو لے کر آیا تو میں نے دیہاتی کا ہاتھ پکڑ لیا، اس ذات کی تم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! بلاشبہ شیطان کا ہاتھ اس کے ہاتھ کے ساتھ ہی میرے ہاتھ میں ہے۔ “ [ مختصر صحیح مسلم، رقم الحديث 2017 ]
——————

اس تحریر کو اب تک 18 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply