سوال:
➊ جادو میں نفع و نقصان کا اثر ماننے کو شرک قرار دیا جاتا ہے، کیونکہ قرآن کریم میں واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نفع و نقصان کا مالک نہیں۔ اس ضمن میں ما فوق الاسباب کی بحث کی جاتی ہے، جبکہ پتھر، تلوار اور گولی کو ما تحت الاسباب میں شمار کیا جاتا ہے۔
➋ نظر بد کو ایک غیر حقیقی چیز کہا جاتا ہے، کیونکہ اسے بھی جادو کی طرح ما فوق الاسباب کے زمرے میں لیا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ نظر بد کے علاج سے متعلق احادیث کا کھلم کھلا مذاق اڑایا جاتا ہے۔
محترم! یہ بات بھی بیان کی گئی ہے کہ یہ لوگ احادیث کو مکمل طور پر ردّ نہیں کرتے، بلکہ صرف ان احادیث کو ردّ کرتے ہیں جو ان کے عقائد کے خلاف ہوں، چاہے وہ احادیث بخاری یا مسلم میں ہی کیوں نہ ہوں۔ وہ ایسی احادیث کو قرآن کے خلاف قرار دے کر ردّ کر دیتے ہیں۔
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
(1) جادو میں نفع و نقصان کا اثر ماننے کو شرک کہنا
◈ یہ دعویٰ کہ جادو کے اثر کو ماننا شرک ہے، قابلِ غور ہے۔
◈ آپ نے دلیل کے طور پر کہا کہ "اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی نفع و نقصان کا مالک نہیں”، لیکن یہ دلیل اس بات کو ثابت نہیں کرتی کہ جادو میں اثر ماننا شرک ہے۔
◈ اگر ما فوق الاسباب میں کسی چیز کا اثر ماننا شرک ہوتا تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا اکمہ اور ابرص کو شفا دینا اور مردوں کو زندہ کرنا بھی شرک قرار پاتا، حالانکہ یہ سب بھی ما فوق الاسباب ہیں۔
◈ لہٰذا، جادو کے اثر کو ماننے کو شرک کہنا محض دعویٰ ہے جس کی مضبوط دلیل درکار ہے۔
(2) نظر بد کے انکار کا دعویٰ
◈ آپ کا یہ کہنا کہ "نظر بد کوئی چیز نہیں”، صرف دعویٰ ہے، جس کی آپ نے کوئی دلیل نہیں پیش کی۔
◈ مزید یہ کہنا کہ یہ جادو کی طرح ما فوق الاسباب والی بات ہے، اس کا جواب اوپر دیا جا چکا ہے کہ ما فوق الاسباب کو ماننا لازماً شرک نہیں ہوتا۔
◈ اگر آپ نظر بد کے وجود کا انکار کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ بھی نکلتا ہے کہ "نظر نیک کوئی چیز ہے” اور اگر نظر نیک کو مانا جا سکتا ہے تو پھر نظر بد کے امکان کا بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اور یہ بات بھی ما فوق الاسباب میں ہی آتی ہے۔
احادیث کا انکار اور قرآن سے ٹکراؤ کا دعویٰ
◈ آپ نے لکھا کہ یہ لوگ احادیث کو مکمل طور پر ردّ نہیں کرتے بلکہ صرف ان احادیث کو ردّ کرتے ہیں جو ان کے عقائد کے خلاف ہوں اور انہیں قرآن کے مخالف قرار دیتے ہیں۔
◈ لیکن یاد رکھیں کہ صرف کسی حدیث کا کسی کے عقیدے کے خلاف ہونا اسے قرآن کے خلاف ثابت نہیں کرتا، جب تک کہ اس کے مقابلے میں قرآن کی واضح آیت پیش نہ کی جائے۔
◈ مثلاً رسول اللہ ﷺ کی حدیث ہے:
"اَلْعَیْنُ حَقٌّ”
(صحیح بخاری، کتاب الطب، باب العین حق)
◈ اگر کوئی اس حدیث کو قرآن کے خلاف کہتا ہے تو اسے لازم ہے کہ وہ قرآن کی وہ آیت پیش کرے جس میں آیا ہو:
— "اَلْعَیْنُ لَیْسَتْ بِحَقٍّ”
— "اَلْعَیْنُ بَاطِلٌ”
— "اَلْعَیْنُ لَیْسَتْ بِشَیْئٍ”
◈ جبکہ قرآنِ مجید میں ایسی کوئی آیت موجود نہیں جو اس بات کی دلیل دے کہ "نظر کوئی چیز نہیں”۔
لہٰذا غور فرمائیں کہ "اَلْعَیْنُ حَقٌّ” جیسی حدیث کو قرآن کے خلاف کہہ دینا کہاں تک درست ہے، جبکہ قرآن میں ایسی کوئی بات موجود ہی نہیں جو اس حدیث کے خلاف جاتی ہو۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب