تین وتر پڑھنے کے تین طریقے
یہ اقتباس ابو عدنان محمد منیر قمر نواب الدین کی کتاب نماز پنجگانہ کی رکعتیں مع نماز وتر و تہجد سے ماخوذ ہے۔

پہلا طریقہ:

وتروں کی تین رکعتیں پڑھنے کے مختلف طریقے احادیث میں مذکور ہیں جن میں سے پہلا طریقہ یہ ہے کہ ان تین میں سے پہلے دو رکعتیں پڑھ کر سلام پھیر لیا جائے اور پھر ایک رکعت پڑھی جائے جس میں دعائے قنوت ہو۔
ان عرب ممالک میں زیادہ تر یہی طریقہ رائج ہے جیسا کہ رمضان المبارک میں باجماعت نماز تراویح پڑھنے والوں پر مخفی نہیں۔ یہ طریقہ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و عمل سے ثابت ہے۔ جیسا کہ بخاری و مسلم اور ترمذی وغیرہ میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کی نماز دو دو رکعتیں کر کے پڑھتے تھے اور (آخر میں) ایک رکعت وتر پڑھتے۔
بجواله التحفه 555/2
اسی طرح بخاری و مسلم کی متفق علیہ حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کو گیارہ رکعتیں پڑھتے تھے۔ ہر دو رکعتوں کے بعد سلام پھیر دیتے اور (آخر میں) ایک وتر پڑھتے۔ ان احادیث سے تین وتروں کے مابین دو کے بعد سلام پھیر کر فصل کرنے کی دلیل لی گئی ہے جبکہ صحیح ابن حبان، مسند احمد، صحیح ابن السکن اور طبرانی میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے واضح طور پر مروی ہے۔
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يفصل بين الوتر والشفع بتسليمة ويسمعناها
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سلام پھیر کر دو اور ایک وتر میں فصل کیا کرتے تھے اور سلام کی آواز ہمیں سناتے تھے۔
بحوالہ الخفہ ایضاً 557/2
ابن ابی شیبہ میں بخاری و مسلم کی شرط پر پوری اترنے والی سند سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے الفاظ یوں ہیں۔
كان النبى صلى الله عليه وسلم يوتر بركعة يتكلم بين الركعتين والركعة
نبی صلی اللہ علیہ وسلم (رات کی نماز کو) ایک رکعت کے ساتھ وتر کرتے تھے اور دو رکعتیں اور ایک رکعت کے مابین کلام کر لیتے تھے۔
الارواء 150/2 ابن حبان حدیث 178 من الموارد و قواه الحافظ في الفتح 482/2
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بھی اسی طرح دو رکعتیں اور پھر ایک رکعت الگ الگ کر کے پڑھا کرتے تھے جیسا کہ صحیح بخاری شریف اور مؤطا امام مالک میں نافع سے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ۔
كان يسلم بين الركعة والركعتين فى الوتر حتى يأمر ببعض حاجة
وہ وتروں کی دو رکعتوں اور ایک رکعت کے مابین سلام پھیرا کرتے تھے حتی کہ اپنے کسی کام کا حکم دیں۔
بخاری مع الفتح 47712، الارواء 149/2
اسی طرح سنن سعید بن منصور اور معانی الآثار طحاوی میں بھی مذکور ہے اور امام طحاوی کی روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے خبر دی۔
وأن النبى صلى الله عليه وسلم كان يفعله
کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح کرتے تھے۔
فتح الباری 82/2 والنيل 33/3/2
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ و حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ، امام شافعی، امام مالک، امام احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی مذہب ہے۔
المغنی 15712 شرح السنہ 83/4

دوسرا و تیسرا طریقہ:

تین وتر پڑھنے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ان تینوں رکعتوں کے مابین سلام نہ پھیرے بلکہ انہیں ایک ہی سلام سے پڑھے۔ اور اس کے آگے پھر دو طریقے ہیں:
ایک یہ کہ ان تینوں رکعتوں کو ایک سلام اور ایک ہی تشہد سے پڑھے اور دوسرا یہ کہ ایک سلام مگر دو تشہد سے پڑھے۔
ایک ہی تشہد کے ساتھ پڑھنے کی دلیل مستدرک حاکم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث ہے جس میں ہے۔
وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يوتر بثلاث لا يقعد إلا في آخرهن
نبی صلی اللہ علیہ وسلم تین وتر اس طرح پڑھتے تھے کہ ان میں آخری رکعت کے سوا تشہد کے لیے نہیں بیٹھتے تھے۔
الفتح الربانی 294/4 في الشرح اته 553/2
امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور اہل مدینہ کا عمل اسی پر ہے اور حافظ ابن حجر کے بقول کئی سلف امت نے تین رکعتیں ایک تشہد سے پڑھی ہیں اور انہوں نے متعدد روایات بھی نقل کی ہیں۔
انظر فتح الباری 481/3
صرف ایک تشہد سے تین وتر پڑھنے کے جواز کی تائید بخاری و مسلم کی ان احادیث سے بھی ہوتی ہے جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پانچ اور سات وتروں کو ایک ہی تشہد سے پڑھنے کا ذکر ہے۔
مشكاة 394/1
تین رکعتوں کو ایک سلام مگر دو تشہدوں سے ادا کرنے کی دلیل علامہ ابن حزم نے المحلی میں اپنی سند کے ساتھ نقل کی ہے جو کہ نسائی شریف، مستدرک حاکم اور بیہقی میں بھی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں۔
وأن رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يسلم فى ركعتي الوتر
نبی صلی اللہ علیہ وسلم وتر کی دو رکعتوں کے بعد سلام نہیں پھیرا کرتے تھے۔
لتفصيل المرعاة 2013 – 202
بظاہر تو یہ حدیث بھی ایک تشہد و سلام سے تین وتر پڑھنے والوں کی واضح دلیل ہے۔ اس سے دو تشہدوں کا ثبوت کیسے مل گیا؟واللہ اعلم
مستدرک کے الفاظ ہیں۔
يوتر بثلاث لا يسلم إلا فى آخرهن
آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین وتر پڑھتے اور صرف ان کے آخر میں ہی سلام پھیرتے۔
شرح السند و خاصة تحقیقه 8313 – 1843 المحلی 48/3/2
امام احمد نے فصل و وصل دونوں کو صحیح قرار دیا ہے مگر فصل کی احادیث کو اصح و اثبت و اکثر کہا ہے اور اسے ہی اختیار کیا ہے۔
الفتح الربانی 295-303/4، زاد المعاد 330/1
امام شافعی کا بھی یہی مسلک ہے کہ دو رکعتوں اور تیسری میں تشہد و سلام سے فصل کرنا تینوں کو وصل سے پڑھنے کی نسبت افضل ہے۔
لتفصیل المرعاة 200/3

رکعات وتر میں قرائت:

نماز وتر کی تینوں رکعتوں میں ہی سورہ فاتحہ کے بعد قرآن کریم کی کوئی چھوٹی سورت یا کسی بڑی سورت کا کوئی حصہ پڑھنا ہوتا ہے اور اس کی پابندی تو کوئی نہیں کہ کون کون سی سورتیں یا کن سورتوں کا کون سا حصہ پڑھا جائے۔
البتہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان رکعتوں میں بعض سورتوں کی قرائت ثابت ہے۔ اگر ان پر عمل کیا جائے تو مسنون و مستحب اور زیادہ ثواب کا موجب ہے۔ چنانچہ ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ اور مسند احمد میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے، ترمذی و دارمی میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے اور مستدرک حاکم میں ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وتروں کی پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ اعلیٰ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى پڑھا کرتے تھے، دوسری رکعت میں سورہ کافرون قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ اور تیسری رکعت میں سورہ اخلاص قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ پڑھا کرتے تھے۔
شرح السنة وتحقیقہ 98-99/4، نیل الاوطار 22/3/2، الفتح الربانی 305/4
دارقطنی، طحاوی، مستدرک حاکم کی روایت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ تیسری رکعت وتر میں قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ کے ساتھ ہی قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ اور قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ بھی پڑھا کرتے تھے۔
شرح السنة 98-99/4، لتفصیل التحفة 560-561/2، صفة صلاة النبي للالبانی
معوذتین کے اس اضافے پر بعض محدثین نے کلام کیا ہے لیکن امام حاکم نے اس اضافے والی حدیث کو نہ صرف صحیح کہا ہے بلکہ اس کو بخاری و مسلم کی شرط پر پوری اترنے والی قرار دیا ہے۔ لہذا کبھی کبھی معوذتین کا تیسری رکعت میں اضافہ کرنا بھی جائز ہے۔
شرح السنة 98/4، الفتح الربانی 305/4، النیل 22/3/2
مسند احمد و نسائی اور ابن ماجہ کی روایت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ نماز وتر کا سلام پھیرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین مرتبہ یہ ذکر فرمایا کرتے تھے۔
سبحان الملك القدوس
شرح السنة 98/4، الفتح الربانی 305/4، النیل 22/3/2
مسند احمد و نسائی میں یہ بھی مذکور ہے کہ تیسری مرتبہ یہ کلمات بلند آواز سے پڑھتے تھے۔ مسند احمد میں اس ذکر کی یہ کیفیت بھی مذکور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری لفظ کو لمبا کھینچ کر پڑھتے
القدوس
شرح السنة 98/4، الفتح الربانی 305/4
دارقطنی میں ان الفاظ کے بعد یہ کہنا بھی ثابت ہے۔
رب الملائكة والروح
النیل 22/3/2

دعائے قنوت کا مقام و محل:

اس سلسلہ میں دو طرح کی احادیث ملتی ہیں اور آئمہ و فقہاء بلکہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی بھی دو ہی جماعتیں ہیں۔

قبل از رکوع:

ایک جماعت کا قول ہے کہ دعائے قنوت کا مقام سورہ فاتحہ اور دوسری سورت پڑھ چکنے کے بعد اور رکوع جانے سے پہلے ہے جبکہ دوسروں کا کہنا ہے کہ رکوع سے فارغ ہو کر (سمع اللہ لمن حمدہ) مکمل دعا پڑھنے کے بعد دعائے قنوت کا مقام ہے۔ قبل از رکوع والوں کا سند لے کر متعدد احادیث و آثار سے ہے۔
(168) شرح السنة 79/4، بحوالہ التحفة 555/2

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1