تین طلاقیں ایک دن میں: رجعی یا بائن؟ شرعی جواب اور دلائل
ماخذ: احکام و مسائل، طلاق کے مسائل، جلد 1، صفحہ 347

سوالات و جوابات طلاق کے شرعی احکام سے متعلق

سوال

«زَيْدٌ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ فِی الْوَقْتِ الصُّبْحِ طَلاَقًا وَاحِدًا ثُمَّ طَلَّقَ فِیْ وَقْتِ الظُّهُرِ طَلاَقًا آخَرَ ثُمَّ طَلَّقَ طَلاَقًا آخَرَ فِیْ وَقْتِ الْعَصْرِ هَلْ تُعَدُّ تِلْکَ الطَّلَقَاتُ الثَّلاَثُ فِیْ يَوْمٍ وَاحِدٍ طَلاَقًا وَاحِدًا رَجْعِيًّا اَوْ طَلاَقًا ثَلاَثاً بَائِنًا»

ترجمہ:
زید نے اپنی بیوی کو صبح کے وقت ایک طلاق دی، پھر ظہر کے وقت ایک اور طلاق دی، پھر عصر کے وقت تیسری طلاق دی۔ کیا ایک ہی دن میں دی گئی یہ تینوں طلاقیں ایک رجعی طلاق شمار ہوں گی یا تینوں بائن طلاقیں واقع ہوں گی؟

«زَيْدٌ کَتَبَ کِتَابًا لِاِمْرَأَتِهِ بِاَنْتِ بَائِنٌ وَمَا اَرَادَ بَاَنْتِ بَائِنٌ اِلاَّ طَلاَقًا وَاحِدًا رَجْعِيًّا ثُمَّ اَمْسَکَ زَيْدٌ هٰذَا مَعَهُ وَکَتَبَ مَکَانَهُ خَطًّا آخَرَ فیْ مَجْلِسٍ آخَرَ بِاَنْتِ طَالِقٌ ۔ هَلْ يَقَعُ فِیْ هٰذِهِ الصُّوْرَةِ طَلاَقَانِ اَوْ وَاحِدٌ وَالْحَالُ اَنَّ الْمُطَلِّقَ غَيَّرَ لَفْظَ بَائِنٍ اِلٰی طَالِقٍ بِغَيْرِ نِيَّةِ اِيْقَاعِ الطَّلاَقِ الثَّانِیْ»

ترجمہ:
زید نے اپنی بیوی کے نام ایک خط میں "أنتِ بائنٌ” کے الفاظ لکھے اور اس سے اس کی نیت صرف ایک رجعی طلاق دینے کی تھی۔ پھر زید نے وہ خط اپنے پاس محفوظ رکھا اور دوسری مجلس میں ایک دوسرا خط تحریر کیا جس میں "أنتِ طالقٌ” کے الفاظ تھے۔ کیا اس صورت میں ایک طلاق واقع ہو گی یا دو؟ جبکہ طلاق دینے والے نے لفظ "بائنٌ” کو "طالقٌ” سے بدلا، مگر دوسری طلاق دینے کی نیت نہیں کی تھی۔

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

وضاحت:

❀ پہلی طلاق رجعی ہے

❀ دوسری طلاق بھی رجعی ہے

❀ تیسری طلاق کے بعد رجوع کا حق ختم ہو چکا ہے

❀ اب عورت شوہر کے لیے حلال نہیں رہے گی

❀ جب تک وہ کسی دوسرے مرد سے صحیح نکاح نہ کرے جو شرطِ تحلیل سے پاک ہو

دلیل:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿اَلطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ أَوْ تَسْرِيْحٌ بِإِحْسَانٍ﴾
اور اس "تسریح” (چھوڑنے) سے مراد طلاق ہے، جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے اس کی تفسیر فرمائی ہے۔
(تفسیر ابن کثیر اور دیگر تفاسیر ملاحظہ ہوں)

وضاحت:

❀ یہاں زید کی نیت کا اعتبار کیا جائے گا

❀ اگر عورت مدخول بہا ہے (یعنی ازدواجی تعلق قائم ہو چکا ہے)، تو صرف ایک رجعی طلاق واقع ہو گی

❀ دوسری تحریر (أنتِ طالقٌ) اگرچہ بعد میں لکھی گئی، مگر چونکہ نیت دوسری طلاق کی نہ تھی، اس لیے دوسرا طلاق واقع نہیں ہو گا

خلاصہ:

❀ پہلی صورت میں تینوں طلاقیں شمار ہوں گی اور عورت شوہر کے لیے حلال نہ رہے گی جب تک دوسرا نکاح نہ کرے

❀ دوسری صورت میں صرف ایک رجعی طلاق واقع ہو گی اگر عورت مدخول بہا ہو

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1