اعضاء وضو کا تین بار سے زائد دھونا – ایک تحقیقی جائزہ
حدیث کا پس منظر اور وضاحت
صاحب ہدایہ نے اپنی کتاب ہدایہ (جلد 1، صفحہ 91) میں ایک حدیث ذکر کی ہے جس میں تین مختلف طریقوں سے وضو کرنے کا ذکر ہے:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایک بار اعضائے وضو دھوئے اور فرمایا:
"یہ میرا وضو ہے جس کے بغیر اللہ تعالیٰ نماز قبول نہیں فرماتا۔”
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دو بار وضو کیا اور فرمایا:
"یہ اس شخص کا وضو ہے جس کا اجر اللہ دو چند کرے گا۔”
پھر تین تین بار وضو فرمایا اور ارشاد فرمایا:
"یہ میرا اور مجھ سے پہلے انبیاء کا وضو ہے۔ جو اس سے زیادہ کرے گا یا کم کرے گا تو وہ حد سے بڑھا اور ظلم کا مرتکب ہوا۔”
"کم کرے گا” کے الفاظ کا مسئلہ
اس روایت میں جو بات قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ "کم کرے گا” کا جملہ صحیح احادیث کے برخلاف معلوم ہوتا ہے کیونکہ صحیح احادیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک اور دو بار وضو کرنے کی صراحت موجود ہے۔
مختلف احادیث کی روشنی میں وضو کی کیفیت:
ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایک بار وضو کیا۔”
(بخاری، جلد 1، صفحہ 27)
عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت:
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دو بار وضو کیا۔”
(بخاری)
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی روایت:
"انہوں نے مقامِ مقاعد پر وضو کیا اور فرمایا: کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو نہ دکھاؤں؟”
"پھر تین تین بار وضو کیا۔”
(مسلم)
ترمذی (1/16) کی روایت میں:
"عبد اللہ بن زید سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چہرہ تین بار دھویا، ہاتھ دو بار دھوئے، سر کا مسح کیا اور پاؤں دو بار دھوئے۔”
اس روایت کو ابو داؤد (1/25) برقم 118 نے بھی نقل کیا ہے۔
تاہم، پاؤں کا دو بار دھونا شاذ (غیر معمول) قرار دیا گیا ہے، کیونکہ بخاری، مسلم اور ابو داؤد میں یہ ذکر بغیر دو بار کے آیا ہے۔
ان احادیث کی تطبیق کیسے ممکن ہے؟
ان احادیث سے ایک، دو اور تین بار وضو کرنے کا جواز ثابت ہوتا ہے، جب کہ مذکورہ روایت جس میں "جو اس سے زیادہ کرے گا یا کم کرے گا، تو وہ حد سے بڑھا اور ظلم کیا” کا ذکر ہے، اس سے بظاہر تعارض (تصادم) ہوتا ہے۔ تطبیق کی صورت یہ ہے کہ:
◈ ایک بار کرنا جائز ہے۔
◈ دو بار کرنا بھی جائز ہے۔
◈ تین بار کرنا سنت و افضل ہے۔
◈ تین بار سے زائد کرنا ممنوع ہے۔
ابن ماجہ اور دیگر کتب کی روشنی میں وضاحت
ابن ماجہ (حدیث نمبر 422) کے باب ’’باب وضوء میں اعتدال اور حد سے تجاوز کی کراہت‘‘ میں ذکر ہے:
"عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: ایک اعرابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور وضو کے متعلق دریافت کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین تین بار کر کے وضو کر کے دکھایا، پھر فرمایا:
’جس نے اس سے زیادہ کیا اس نے برا کیا، یا فرمایا: حد سے بڑھا اور ظلم کیا۔‘”
یہ حدیث صحیح ہے۔
ابو داؤد (حدیث نمبر 135) میں ایک طویل روایت آئی ہے جس میں یہ الفاظ موجود ہیں:
’’وضو اس طرح کیا جاتا ہے، جو اس سے کم یا زیادہ کرے اس نے برا کیا اور ظلم کیا یا ظلم کیا اور برا کیا۔‘‘
شیخ البانی رحمہ اللہ نے "صحیح ابو داؤد” میں ان الفاظ کو شاذ قرار دیا ہے۔
علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے "نیل الأوطار” (جلد 1، صفحہ 216) میں ان الفاظ کے شذوذ کی طرف اشارہ کیا ہے اور بعض نے اسے منکر بھی کہا ہے۔
تین بار سے زائد دھونا – بدعت یا وسوسہ؟
ثابت ہوا کہ تین بار سے زائد اعضائے وضو دھونا حرام ہے، چاہے نیت میں احتیاط ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ ایسی احتیاط بدعت اور وسوسہ شمار ہوتی ہے۔
ائمہ و فقہاء کے اقوال:
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ:
"تین بار سے زیادہ دھونا صرف وسوسہ زدہ شخص ہی کر سکتا ہے۔”
عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ:
"جو شخص وضو میں تین بار سے زائد دھوتا ہے، اس کے گناہ گار ہونے کا خطرہ ہے۔”
امام شوکانی رحمہ اللہ:
"تین بار سے زائد کے مکروہ ہونے میں کسی کا اختلاف نہیں۔”
صاحب ہدایہ کا مؤقف اور اس پر تنقید
صاحب ہدایہ نے یہ کہا کہ احتیاط کے طور پر تین بار سے زائد دھونا جائز ہے، لیکن یہ بات حدیث کے خلاف ہے۔ کیونکہ:
صحیح مرفوع حدیث میں آیا ہے:
"عنقریب میری امت میں ایسی قوم ہو گی جو دعا اور طہارت میں حد سے بڑھے گی۔”
(احمد، ابو داؤد، ابن ماجہ، مشکاۃ المصابیح جلد 1، صفحہ 47)
یہ حدیث ان لوگوں کے لئے سخت تنبیہ ہے جو عبادات میں حد سے تجاوز کرتے ہیں۔
نتیجہ
مسلمان کو چاہئے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس سچے فرمان سے عبرت لے اور ان لوگوں میں شامل نہ ہو جن کی مذمت کی گئی ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب