توسل بالمیت سے متعلق 8 اصولی دلائل کا تحقیقی جائزہ
ماخوذ : فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری، جلد 1، صفحہ 44

سوال

کیا توسل کا موجودہ طریقہ، آنحضرت ﷺ یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت و منقول ہے؟
کیا خیر القرون (یعنی قرون ثلاثہ) میں یہ طریقہ رائج تھا؟ اگر ایسا نہیں تو پھر کیا اسے بدعت اور نئی ایجاد تسلیم کرنے میں کوئی شک باقی رہتا ہے؟ اس کے بعد بھی کیا عوام کی توحید محفوظ رہ سکتی ہے؟
توسل مروجہ کے قائلین کے تمام دلائل کی مکمل تردید کے لیے درج ذیل کتب کا مطالعہ ضروری ہے:
◈ صيانة الإنسان عن وسوسة الشيخ دحلان از علامہ محمد بشیر سہسوانی (مطبوعہ: مطبعہ المنار مصر)
◈ التوسل والوسيلة از حافظ امام ابن تیمیہ
◈ البروق النجدية از شیخ عبداللہ القصیمی
◈ الصارم المنكر فی الرد علی السبکی از شیخ عبدالہادی المقدسی

(ماخذ: مصباح، بستی جمادی الاولی ۱۳۷۱ھ)

وضاحت و تحقیق

(1) روایتِ طبرانی کے راوی پر اعتراض کا ازالہ

◈ روایت طبرانی میں روح بن صلاح نہیں بلکہ روح بن القاسم ہیں جو ثقہ راوی ہیں، صحیحین کے رجال میں سے ہیں۔
◈ اس روایت کے متعلق علامہ سہسوانی کی تنقید محض علامہ ابن تیمیہ کے مکمل کلام کو نظرانداز کرتے ہوئے کی گئی۔
◈ اصل روایت دو انداز میں منقول ہے:
مطولاً: قصے کے ساتھ، جس میں نابینا شخص حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس جاتا ہے۔
مختصراً: صرف مرفوع حدیث کے ساتھ، جس میں دعا کا ذکر ہے۔

حدیث کے مختلف طرق (روایت کی اقسام)

مختصر (مرفوع) روایت کے طرق

➊ شعبة → ابو جعفر الخطمی المدنی → عمار بن خزیمہ → عثمان بن حنیف
(احمد 4/138، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، حاکم، بیہقی، ابن السنی)
➋ حماد بن سلمہ → ابو جعفر الخطمی → …
➌ ہشام دستوائی → ابو جعفر الخطمی → …
➍ احمد بن شبیب → شبیب بن سعید → روح بن القاسم → …
➎ عباس بن محمد → عون بن عمارة → روح بن القاسم → …

مطول روایت کے طرق

➊ اسمعیل اور احمد بن شبیب → شبیب بن سعید → روح بن القاسم
➋ عبداللہ بن وہب → شبیب → روح بن القاسم

مطول روایت پر علمی کلام

(1) تنقیدی نکات

◈ شبیب بن سعید اس روایت میں منفرد راوی ہیں۔
◈ صحاح ستہ نے مرفوع روایت کو نقل کیا، مطول روایت سے اعراض کیا۔
◈ امام حاکم جیسے متساہل محدث نے بھی قصہ موقوفہ کو حذف کیا۔
◈ شبیب کی روایت ابن وہب کے طریق سے ضعیف ہے۔

(2) اگر یہ روایت صحیح بھی ہو

◈ دعا کی تعلیم آنحضرت ﷺ کی زندگی میں دی گئی تھی۔
اللهم فشفعه في کے الفاظ آنحضرت ﷺ کی زندگی میں دعا و شفاعت کے وسیلے پر دلالت کرتے ہیں، نہ کہ وفات کے بعد آپ کی ذات پر۔

اجماع صحابہ کا موقف

◈ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عام الرمادۃ میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے دعا کروائی۔
◈ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید بن اسود کو دعا کے لیے آگے کیا۔
◈ تمام صحابہ نے اس پر سکوت و رضا کا مظاہرہ کیا۔
◈ یہ اجماع سکوتی ہے، جس سے توسل بالمیت کی عدم مشروعیت ظاہر ہوتی ہے۔

امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:

جو صحابی کا قول حجت مانا گیا ہے وہ اس وقت ہے جب دیگر صحابہ اس سے اختلاف نہ کریں اور نصوص کے خلاف نہ ہو۔

(التوسل والوسيلة ص: 104-105)

ضعیف حدیث کے بارے میں اصولی تفصیل

حدیث کی اقسام

صحیح
حسن (لذاتہ، لغیرہ)
ضعیف

ضعیف حدیث کی مزید اقسام

ضعیف متروک: قابل ترک، ناقابلِ حجت
ضعیف غیر متروک: بعض صورتوں میں قابلِ عمل

کن شرائط کے تحت ضعیف حدیث پر عمل ممکن ہے

◈ موضوع فضائل اعمال سے متعلق ہو، احکام یا عقائد سے نہیں۔
◈ راوی کذاب یا متہم نہ ہو۔
◈ نفسِ عمل کی مشروعیت کسی اور دلیل سے ثابت ہو۔
◈ عمل کرنے والا ثابت ہونے کا یقین نہ رکھے، محض احتیاطاً کرے۔
◈ عبادت کا حکم قرآن یا حدیثِ صحیح یا حسن سے ہونا ضروری ہے۔

دعا اور توسل بالمیت

◈ دعا عبادت ہے اور اس میں مردہ کو وسیلہ بنانا شرعی دلیل کے بغیر غیر مشروع ہے۔
◈ کوئی بھی عبادت سنت، مستحب یا مباح نہیں بن سکتی جب تک کہ صحیح یا حسن حدیث یا قرآن سے مشروعیت نہ ہو۔

ایک ضعیف بلکہ موضوع روایت کا تجزیہ

◈ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث، جسے طبرانی، بیہقی اور حاکم نے روایت کیا:
عبدالرحمن بن زید بن اسلم ضعیف راوی ہیں۔
◈ امام حاکم خود ان کی احادیث کو موضوعة قرار دیتے ہیں۔
◈ طبرانی اور حاکم کی سندوں میں دیگر مجہول راوی بھی ہیں۔
◈ حافظ ذہبی نے اس روایت کو "موضوع” اور "باطل” کہا ہے۔
◈ مردوں کو وسیلہ بنانے کی مشروعیت پر صحیح یا حسن حدیث پیش کرنا ضروری ہے۔

نتیجہ

◈ مروجہ توسل نہ قرآن سے ثابت ہے نہ سنت سے۔
◈ حدیث نابینا سے زندہ کی دعا اور سفارش کا توسل ثابت ہے، نہ کہ وفات یافتہ کی ذات یا نام کا۔
◈ توسل بالمیت کے حق میں نہ کوئی صحیح حدیث ہے نہ صحابہ کا عمل۔
◈ ایسے توسل کو جائز سمجھنا بدعت ہے۔
◈ حجت صرف قرآن اور حدیث صحیح یا حسن ہیں، کسی صحابی کا فہم مخالف اجماع حجت نہیں ہو سکتا۔

ھذا ما عندی، والله أعلم بالصواب۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1