تقلید شخصی کے نقصانات
اب اس تحقیقی کتاب کے آخر میں تقلید شخصی کے چند اہم ترین نقصانات پیش خدمت ہیں:
1. تقلید شخصی کی وجہ سے قرآن مجید کی آیات مبارکہ کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے
مثلاً: کرخی حنفی (تقلیدی) کہتے ہیں:
الأصل أن كل آية تخالف قول أصحابنا فإنها منسوخة أو مرجوحة والأولى أن يؤول مع التطبيق
”اصل یہ ہے کہ ہر آیت جو ہمارے ساتھیوں (فقہاء حنفیہ) کے خلاف ہے اسے منسوخیت پر محمول یا مرجوح سمجھا جائے گا، بہتر یہ ہے کہ تطبیق کرتے ہوئے اس کی تاویل کر لی جائے۔“
(اصول کرخی ص 29، دین میں تقلید کا مسئلہ ص 29)
2. تقلید شخصی کی وجہ سے احادیث صحیحہ کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے مثلاً: کرخی مذکور لکھتے ہیں:
الأصل أن كل خبر يجي بخلاف قول أصحابنا فإنه يحمل على النسخ أو على أنه معارض بمثله ثم صار إلى دليل آخر
”ہمارے نزدیک اصل یہ ہے کہ ہر حدیث جو ہمارے ساتھیوں (فقہاء حنفیہ) کے قول کے خلاف ہے تو اسے منسوخ یا اس جیسی دوسری روایت کے معارض سمجھا جائے گا پھر دوسری دلیل کی طرف رجوع کیا جائے گا۔“
(اصول کرخی ص 29، اصل: 30)
یوسف بن موسیٰ السلطی حنفی کہنا تھا:
من قرأ كتاب البخاري فهو زنديق
”جو شخص امام بخاری کی کتاب (صحیح بخاری) پڑھتا ہے وہ زندیق ہو جاتا ہے۔“
(شذرات الذہب ج 2 ص 40، دین میں تقلید کا مسئلہ ص 75)
3. تقلید شخصی کی وجہ سے کئی مقامات پر اجماع کو رد کر دیا جاتا ہے
مثلاً: خیر القرون میں اس پر اجماع ہے کہ تقلید شخصی ناجائز ہے۔
(دیکھیے النبذة الکافیہ ص 8، اور دین میں تقلید کا مسئلہ ص 34، 35)
مگر مقلدین حضرات دن رات تقلید شخصی کا راگ الاپ رہے ہیں۔
4. تقلید شخصی کی وجہ سے سلف صالحین کی گواہیوں اور تحقیقات کو رد کر کے بعض اوقات علانیہ ان کی توہین بھی کی جاتی ہے ۔
مثلاً: حنفی تقلیدیوں کی کتاب اصول شاشی میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو اجتہاد اور فتویٰ کے درجے سے باہر نکال کر اعلان کیا گیا ہے:
وعلى هذا ترك أصحابنا رواية أبى هريرة
”اور اس (اصول) پر ہمارے ساتھیوں نے (سیدنا) ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیان کردہ) روایت کو ترک کر دیا ہے۔“
(اصول الشاشی مع احسن الحواشی ص 75)
ایک حنفی تقلیدی نوجوان نے صدیوں پہلے، بغداد کی جامع مسجد میں کہا تھا:
أبو هريرة غير مقبول الحديث
”ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث قابل قبول نہیں ہے۔“
(سیر اعلام النبلاء ج 2 ص 619، مجموع فتاوی ابن تیمیہ ج 2 ص 538، حیاة الحیوان للدمری ج 1 ص 399)
5. تقلید شخصی کی وجہ سے اہل تقلید یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن مجید کی دو آیتوں میں تعارض واقع ہو سکتا ہے
مثلاً: ملا جیون حنفی لکھتا ہے:
لأن الآيتين إذا تعارضتا تساقطتا
”کیونکہ اگر دو آیتوں میں تعارض ہو جائے تو دونوں ساقط ہو جاتی ہیں۔“
(نور الانوار مع قمر الاقمار ص 193)
حالانکہ قرآن مجید کی آیات میں کوئی تعارض سرے سے موجود نہیں ہے اور نہ قرآن و احادیث صحیحہ کے درمیان کسی قسم کا تعارض ہے۔ والحمد للہ
6. تقلید شخصی کی وجہ سے اہل تقلید نے اپنے تقلیدی بھائیوں پر فتوے تک لگا دیے مثلاً: محمد بن موسیٰ البلاساغونی حنفی سے مروی ہے کہ اس نے کہا:
لو كان لي أمر لأخذت الجزية من الشافعية
”اگر میرے پاس اختیار ہوتا تو میں شافعیوں سے (انہیں کافر سمجھ کر) جزیہ لیتا۔“
(میزان الاعتدال للذہبی ج 2 ص 52)
عیسیٰ بن ابی بکر بن ایوب اکٹھی سے جب پوچھا گیا کہ تم حنفی کیوں ہو گئے ہو جب کہ تمہارے خاندان والے سارے شافعی ہیں؟ تو اس نے جواب دیا: کیا تم یہ نہیں چاہتے کہ گھر میں ایک مسلمان ہو۔
۔ (الفوائد البہیہ ص 152-153)
حنفیوں کے ایک امام السفکر دری نے کہا:
لا ينبغي للحنفي أن يزوج بنته من شافعي المذهب ولكن يتزوج منهم
”حنفی کو نہیں چاہیے کہ وہ اپنی بیٹی کا نکاح کسی شافعی مذہب والے سے کرے لیکن وہ اس (شافعی) کی لڑکی سے نکاح کر سکتا ہے۔“
(فتاوی بزازیہ علی ہامش فتاوی عالمگیریہ ج 2 ص 112)
یعنی شافعی مذہب والے (حنفیوں کے نزدیک) اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) کے حکم میں ہیں۔ دیکھیے البحر الرائق (ج 2 ص 46)
7. تقلید شخصی کی وجہ سے حنفیوں اور شافعیوں نے ایک دوسرے سے خونریز جنگیں لڑیں۔ ایک دوسرے کو قتل کیا، دکانیں توڑیں اور محلے جلائے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے یاقوت الحموی (متوفی 626ھ) کی معجم البلدان (ج 1 ص 209 ”اصبہان“، ج 3 ص 117 ”ری“) تاریخ ابن اثیر (الکامل ج 9 ص 92 حوادث سنة 561ھ)
حنفیوں اور شافعیوں کی باہم ان شدید لڑائیوں اور قتل و قتال کے باوجود اشرف علی تھانوی صاحب لکھتے ہیں: ”اگر یہ وجہ ہوتی تو حنفیہ، شافعیہ کی کبھی نہ بنتی لڑائی دنگہ رہا کرتا، حالانکہ ہمیشہ صلح و اتحاد رہا۔“ (امداد الفتاوی ج 3 ص 562)
8. تقلید شخصی کی وجہ سے آدمی حق، انصاف اور دلیل نہیں مانتا بلکہ اپنے مزعومہ امام کی اندھا دھند بے دلیل پیروی میں سرگرداں رہتا ہے۔ ایک صاحب نے ایک حدیث کو قوی (یعنی صحیح) تسلیم کر کے، اس کے جواب میں چودہ سال لگا دیے۔ دیکھیے العرف الشذی (ج 1 ص 107) اور دین میں تقلید کا مسئلہ (ص 26)
محمود الحسن دیوبندی کہتے ہیں:
الحق والإنصاف أن الترجيح للشافعي فى هذه المسألة ونحن مقلدون يجب علينا تقليد إمامنا أبى حنيفة
”حق و انصاف یہ ہے کہ اس مسئلے میں (امام) شافعی کو ترجیح حاصل ہے اور ہم مقلد ہیں ہم پر ہمارے امام ابو حنیفہ کی تقلید واجب ہے۔“
(تقریر ترمذی ص 36، دین میں تقلید کا مسئلہ ص 24)
احمد یار نعیمی بریلوی نے کہا: ”کیونکہ حنفیوں کے دلائل یہ روایتیں نہیں ان کی دلیل صرف قول امام ہے۔“
(جاء الحق ج 2 ص 9، دین میں تقلید کا مسئلہ ص 26)
9. تقلید شخصی کی وجہ سے جامد و عامی مقلدین نے بیت اللہ میں چار مصلے بنا ڈالے تھے جن کے بارے میں رشید احمد گنگوہی صاحب فرماتے ہیں: ”البتہ چار مصلی جو مکہ معظمہ میں مقرر کیے ہیں لا ریب یہ امر مذموم ہے کہ تکرار جماعات و افتراق اس سے لازم آگیا کہ ایک جماعت ہونے میں دوسرے مذہب کی جماعت بیٹھی رہتی ہے اور شریک جماعت نہیں ہوتی اور مرتکب حرمت ہوتے ہیں۔“
(تالیفات رشیدیہ ص 517)
10. تقلید کی وجہ سے تقلیدی حضرات اپنے مخالفین پر جھوٹ بولنے سے بھی نہیں شرماتے بلکہ کتاب و سنت پر بھی دیدہ دلیری سے جھوٹ بولتے رہتے ہیں
مثلاً: ایک صاحب نے ﴿فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ﴾ کے آخر میں وإلى أولي الأمر منكم کا اضافہ کر کے یہ اعلان کیا:
”اسی قرآن میں آیت مذکورہ بالا معروضہ احقر بھی موجود ہے۔“
(دیکھیے ایضاح الادلہ ص 97)
اہل حدیث کے بارے میں اشرف علی تھانوی صاحب لکھتے ہیں: ”اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو دربارہ تراویح کے بدعتی بتلاتے ہیں۔“ (امداد الفتاوی ج 2 ص 562)
حالانکہ اہل حدیث کے ذمہ دار علماء و عوام میں سے کسی سے بھی متبع سنت سیدنا عمر الفاروق رضی اللہ عنہ پر بدعتی کا فتویٰ ثابت نہیں۔ ہم ہر اس شخص کو گمراہ اور شیطان سمجھتے ہیں جو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بدعتی کہتا ہے۔
ان کے علاوہ تقلید شخصی کے اور بھی بہت سے نقصانات ہیں مثلاً فرقہ پرستی، بدعت پرستی، غلو، شدید تعصب اور تحقیق سے محرومی وغیرہ۔
ان تمام امراض کا صرف ایک ہی علاج ہے کہ کتاب و سنت اور اجماع پر سلف صالحین کے فہم کی روشنی میں عمل کیا جائے۔ والله هو الموفق
حافظ زبیر علی زئی
(13 ربیع الاول 1427ھ)