سوگ کی مدت اور تعزیت کے مروجہ طریقے کا شرعی جائزہ
سوال:
سوگ کتنے دنوں تک ہوتا ہے؟
بعض علاقوں میں یہ رواج پایا جاتا ہے کہ کسی فرد کے انتقال کے بعد اس کے بعض رشتہ دار اور دوست چٹائیوں یا چارپائیوں پر تین یا چالیس دن کے لیے بیٹھ جاتے ہیں۔ تعزیت کے لیے آنے والے ہر فرد سے زور دے کر دعا کی درخواست کی جاتی ہے اور پھر سب لوگ اجتماعی طور پر ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ:
◈ اس طرح کی مروجہ دعا کا،
◈ اہل میت کا متعین جگہ پر اجتماع کرنے کا،
◈ تعزیت کے لیے مخصوص دن مقرر کرنے کا،
◈ اور رائج طریقۂ تعزیت کا قرآن و حدیث سے کیا ثبوت ہے؟
جزاکم اللہ خیراً۔ (ایک سائل)
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مروجہ طریقہ تعزیت اور بدعت
◈ چالیس دنوں تک تعزیت کے لیے بیٹھنا،
◈ ہر آدمی کا بآواز بلند دعا کا مطالبہ کرنا،
◈ اور سب لوگوں کا ہاتھ اٹھا کر میت کے لیے دعا کرنا،
یہ سب امور بدعت ہیں، جن کا شریعت مطہرہ میں کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔
نبی ﷺ کا طرز عمل
سیدنا جعفر بن ابی طالب الطیار رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد نبی ﷺ نے آل جعفر کو تین دنوں کی مہلت دی، پھر ان کے پاس جا کر فرمایا:
"آج کے بعد میرے بھائی پر نہ رونا۔”
(سنن ابی داود: 4192، وسندہ صحیح)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرنا جائز نہیں۔
رسول اللہ ﷺ کا غم کا اظہار
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب زید بن حارثہ، جعفر (طیار) اور عبداللہ بن رواحہ (رضی اللہ عنہم) کی شہادت کی خبر آئی تو رسول اللہ ﷺ بیٹھ گئے اور آپ کے چہرے پر غم کے آثار نظر آرہے تھے۔
(صحیح بخاری: 1299، صحیح مسلم: 935، ترقیم دارالسلام: 2161)
اس حدیث سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اہل میت کا تعزیت کے لیے بیٹھنا جائز ہے۔
عورت کے لیے سوگ کی مدت
یاد رہے کہ عورت اپنے خاوند کی وفات پر چار مہینے دس دن سوگ منائے گی۔
تعزیت کی مسنون دعا
تعزیت کی ایک مشہور دعا یہ ہے:
((ان لله ما اخذ وله ما اعطي وكل عنده باجل مسمي))
"بے شک اللہ ہی کے لیے ہے جو وہ عطا فرمائے اور ہر چیز اس کے پاس ایک خاص وقت کے لیے ہے۔”
(صحیح بخاری: 1284 واللفظ لہ، صحیح مسلم: 923، ترقیم دارالسلام: 2135)
اجتماعی دعا کا شرعی حکم
◈ میت پر تعزیت کے لیے بار بار دعا کی درخواست کرنا اور اجتماعی طور پر ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے۔
نبی ﷺ کی عملی رہنمائی
سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ، سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے چند دنوں بعد ان کے گھر تشریف لائے، پھر ہمارے سروں کے بال منڈوا دیے۔ پھر آپ نے میرا (ایک) ہاتھ پکڑ کر آسمان کی طرف بلند کیا اور فرمایا:
"اے اللہ آل جعفر کی نگہبانی فرما اور عبداللہ بن جعفر کے لیے برکت نازل فرما۔”
(مسند احمد 1/204 ح 175، وسندہ صحیح)
اس حدیث سے:
◈ مروجہ اجتماعی دعا کا کوئی ثبوت نہیں ملتا،
◈ صرف نابالغ بچے کے ایک ہاتھ کو پیار سے بلند کرنا ثابت ہے۔
◈ عمومی دعا ایک ہاتھ سے ہو یا دونوں سے، مگر یہاں اجتماعی دعا کا کوئی ذکر نہیں۔
دیوبندی علماء کی تصریحات
دارالعلوم کراچی کے فتوے
نعیم الدین دیوبندی نے "رجل الرشید” میں اپنے علماء کے فتوے نقل کیے ہیں:
◈ دارالافتاء دارالعلوم کراچی کے محمد کمال الدین اور محمود اشرف لکھتے ہیں:
"مروجہ طریقہ کے مطابق تعزیت کے لیے ہاتھ اٹھا کر فاتحہ پڑھنا اور دعا کرنا شرعاً ثابت نہیں ہے۔ اس لیے تعزیت کے لیے رسمی طور پر ہاتھ اٹھانا درست نہیں۔ کیونکہ تعزیت کی حقیقت صرف یہ ہے کہ میت اور اس کے اقارب کے لیے زبانی دعا کی جائے اور ان کو صبر دلایا جائے۔ البتہ انفرادی طور پر ہاتھ اٹھا کر میت کے لیے دعا کرلی جائے تو شرعاً کوئی قباحت نہیں۔”
(رجل رشید ص 171)
مفتی رشید احمد لدھیانوی کا فتویٰ
دیوبندی مفتی رشید احمد لدھیانوی ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:
"تعزیت کی دعا میں ہاتھ اٹھانا بدعت ہے۔”
(احسن الفتاوی ج 4 ص 254، رجل رشید ص 173)
مزید ایک واقعہ
نعیم الدین دیوبندی نے قاری عبدالرشید دیوبندی سے نقل کیا کہ ان کے والد مفتی عبدالحمید دیوبندی نے فرمایا:
◈ قاری لطف اللہ دیوبندی کی موت پر جب ایک دیوبندی عالم تعزیت کے لیے آئے اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو فقیر اللہ صاحب (قاری لطف اللہ کے والد) نے فوراً کہا:
"مولانا! کیا یہ حدیث سے ثابت ہے؟”
انہوں نے فوراً اعتراف کیا:
"حضرت غلطی ہوئی۔”
اور ہاتھ چھوڑ دیے۔
(دیکھئے رجل رشید ص 169)
یہ فقیر اللہ دیوبندی، جامعہ رشیدیہ ساہیوال کے بانی تھے۔ انہوں نے اپنے بیٹے کی موت پر مروجہ دعا سے اشارتاً منع کر دیا تھا۔
ہمارے علاقے کی حالت
تعجب کی بات ہے کہ ہمارے علاقے میں دیوبندی حضرات بلا جھجک مروجہ دعا پر عمل پیرا ہیں، حالانکہ ان کے اپنے مفتیان کرام اس عمل کو بدعت اور غیر ثابت قرار دے چکے ہیں۔
علماء کا طرز عمل
اسی طرح بعض نام نہاد علماء کو "کیا یہ حدیث سے ثابت ہے؟” کے سوال سے سخت چڑ ہے، حالانکہ صحیح طریقہ یہ ہے کہ دلیل پوچھنے پر ناراض نہ ہوں۔ اگر دلیل معلوم ہو تو بیان کر دیں یا پھر سادگی سے کہہ دیں کہ دلیل معلوم نہیں۔
(الحدیث: 45)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب