حدیث مسند الحمیدی:
مانعین رفع یدین کی طرف سے ”مسند حمیدی“ کی سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت بھی پیش کی ہے۔ جو کہ در حقیقت اثبات رفع یدین کی دلیل ہے، جیسا کہ آئندہ واضح ہوگا۔ان شاء اللہ!
حبیب الرحمن الاعظمی دیوبندی کی تحقیق سے طبع ہونے والی ” مسند حمیدی“ میں روایت کے الفاظ کچھ یوں ہیں۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
«رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا افتتح الصلاة رفع يديه حذو منكبيه ، وإذا أراد أن يركع ، وبعد ما يرفع رأسه من الركوع فلا يرفع ولا بين السجدتين .»
[مسند الحميدي 2 ، 277 ، رقم: 614 ، بتحقيق الاعظمي.]
الجواب:
(1) اس روایت میں فلا يرفع کے الفاظ صحیح ثابت نہیں۔ کیونکہ دیوبندی تحقیق شدہ نسخے میں بے شمار اغلاط ہیں۔ اور اس نسخہ کی تیاری علامہ اعظمی کے پیش نظر ” مکتبہ ظاہر یہ دمشق“ میں موجود ” مسند الحمیدی“ کا قلمی نسخہ بھی تھا، لیکن اس میں فلا يرفع کا اضافہ نہیں ہے۔
(2) امام سفیان بن عیینہ سے یہ حدیث امام حمیدی کے علاوہ 38 راوی بیان کرتے ہیں۔ اور سب ہی اثبات رفع یدین کی روایت بیان کرتے ہیں: جیسا کہ مفتی ابو جابر عبداللہ دامانوی حفظ اللہ نے تحقیق بیان فرمائی ہے۔ دیکھیں: ” قرآن و حدیث میں تحریف، (ص: 151 ) اگر ” دیو بندی تحقیق“ کو مدنظر رکھتے ہوئے ”امام حمیدی“ کی روایت کو نفی رفع یدین میں چند لمحوں کے لیے تسلیم کر لیا جائے تو امام حمیدی کی روایت ” امام سفیان بن عیینہ“ کے تقریباً (38) تلامذہ کے خلاف ہونے کی وجہ سے اصول حدیث کی رو سے ” شاذ قرار پائی ہے۔ جو کہ ضعیف کی ایک قسم ہے۔
(3)” مسند الحمیدی“ دار السقا۔ دمشق سے ”حسین سلیم اسد الدارانی“ کی تحقیق سے طبع ہوئی ہے۔ اس کی (جلد نمبر 1 ص 515) پر بھی فلا يرفع کا اضافہ نہیں ہے۔
(4)( دار الكتب العلمیہ، بیروت) سے ”امام ابو نعیم اصفہانی رحمہ اللہ کی کتاب” المسند المستخرج على صحيح الامام مسلم“ طبع ہوئی ہے۔ جس کی (جلد 2 ص 12 )پر ” حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہ“ یا مذکورہ امام ابونعیم نے اپنی سند سے بیان کی ہے۔ جس میں ”امام سفیان ابن عیینہ اللہ “ سے چھ شاگر د روایت کرتے ہیں۔ ان میں ایک ”امام حمیدی رحمہ اللہ “ بھی ہیں۔ اور حدیث اثبات رفع الیدین کی ہے۔ نہ کہ عدم رفع الیدین کی۔ اور پھر حدیث کے آخر میں لکھا ہے: ”اللفظ للحمیدی“ ان تمام حوالہ جات کے عکس مفتی ابو جابر دامانوی حفظہ اللہ کی کتاب ” قرآن و حدیث میں تحریف “(ص: 109 تا 129) میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ جزاه الله خيراً .
ایک تبصرہ