تراویح کی مسنون رکعات آٹھ ہی ہیں

تحریر: غلام مصطفے ٰ ظہیر امن پوری

آٹھ رکعت نماز ترایح ہی سنت ہے، جیسا کہ :
◈ دار العلوم دیوبند کے شیخ الحدیث جناب انور شاہ کشمیری دیوبندی لکھتے ہیں :
”یہ تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تراویح آٹھ رکعات تھی اور کسی ایک روایت سے بھی ثابت نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں تہجد اور تراویح الگ الگ پڑھی ہوں۔ “ [العرف الشذي : 166/1]
◈ جناب خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی (م1346ھ) لکھتے ہیں :
”ابن ہمام (نے) آٹھ کو سنت اور زائد کو مستحب لکھا ہے، سو یہ قول قابل طعن نہیں۔“ [براهين فاطعه : 18]
◈ مزید لکھتے ہیں : ”سنت مؤکدہ ہونا تراویح کا آٹھ رکعت تو باتفاق ہے، اگر خلاف ہے تو بارہ میں۔“ [براهين فاطعه : 195]
◈ جناب اشرف علی تھانوی دیوبندی (1362-1280 ھ) کہتے ہیں :
بیماروں کو تو کہ دیتا ہوں کہ تراویح آٹھ پڑھو، مگر تندرستوں کو نہیں کہتا۔ [الكلام الحسن : 89/2]
◈ جناب عبد الشکور فاروقی لکھنوی دیوبندی (م 1381ھ) لکھتے ہیں :
”اگرچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آٹھ تراویح مسنون ہے اور ایک ضعیف روایت میں ابن عباس سے بیس رکعت بھی۔“ [علم الفقه از عبد الشكور ديوبندي : 198]
◈ یہی بات :
◈ امام احناف ابن ہمام حنفی [فتح القدير : 468/1] ،
◈ امام عینی حنفی [عمدة القاري : 177/7] ،
◈ امام ابن نجیم حنفی [البحر الرائق : 66/2] ،
◈ ابن عابدین شامی حنفی [ردالمحتار : 521/1] ،
◈ ابوالحسن شرنیلانی حنفی [مرافي الفلاح : 224] ،
◈ طحطاوی حنفی [حاشية الطحطاوي على الدر المحتار : 521/1 : 18] وغیرہم نے پیش کی ہے۔
حنفی و دیوبندی ”علماء وفقہاء“ کے آٹھ رکعت مسنون تراویح کے فیصلے کے بعد اب ہم انتہائی اختصار کے ساتھ آٹھ رکعت نماز تراویح کے سنت ہونے پر دلائل ذکر کرتے ہیں :

آٹھ رکعت نماز تراویح کے سنت ہونے پر دلائل

دلیل نمبر
ابوسلمہ بن عبد الرحمٰن نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے سوال کیا کہ رمضان المبار ک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز (تراویح) کی کیا کیفیت ہوتی تھی ؟ تو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
ماكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يزيد فى رمضان ولا فى غيره على احدي عشرة ركعة۔
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان ہو تا یا غیر رمضان، گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔“ [صحيح بخاري154/1، ح : 1147، ح : 2013 صحيح مسلم 254/1 : 738] .
↰ جمہور علماء ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے آٹھ رکعت تراویح ثابت کرتے ہیں، جیسا کہ :
◈ امام ابوالعباس احمد بن عمر بن ابراہیم القرطبی (م 656ھ) لکھتے ہیں :
ثم اختلف فى المختار من عدد القيام۔۔۔۔۔ وقال كثير من أهل العلم : احدي عشرة ركعة، أخذا بحديث عائشة المتقدم۔
”پھر قیام کے عدد مختار میں اختلاف کیا گیا ہے، کثیر علمائے کرام نے کہا ہے کہ یہ گیارہ رکعت ہے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ والی اس حدیث سے دلیل لیتے ہوئے جو گزر چکی ہے۔“ [المفهم لمااشكل من تلخيص كتاب مسلم : 389/2ـ 390]
اس حدیث کی شرح میں :
◈ جناب انور شاہ کشمیری دیوبندی لکھتے ہیں :
هذا الرواية رواية الصحيحين، وفي الصحاح صلاة تراويحة عليه السلام ثماني ركعات وفي السنن الكبريٰ وغيره بسند ضعيف من جانب أبى شيبة، فانه ضعيف اتفاقا، عشرون ركعة، الآن انما هو سنة خلفاء الراشدين، ويكون مرفوعا حكماوان لم نجد اسناده قويا۔
”یہ صحیح بخاری وصحیح مسلم کی روایت ہے اور صحیح احادیث سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازتراویح آٹھ رکعت ثابت ہے اور سنن کبریٰ میں بیس رکعتوں والی روایت ضعیف سند کے ساتھ ابوشیبہ سے آئی ہے، جوکہ باتفاق ضعیف ہے اور بیس رکعتیں خلفائے راشدین کی سنت ہے اور مرفوع کے حکم میں ہے، اگرچہ اس کی قوی سند ہمیں نہیں ملی۔“ [العرف الشذي : 101/1]
↰ دیکھے ! شاہ صاحب کس طرح آٹھ رکعت تراویح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح مسلم میں ثابت کر رہے ہیں اور ساتھ ہی حنفی مذہب کی کمزوری و معذوری میں پیش کر رہے ہیں کہ ہم بیس رکعت تراویح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قوی سند کے ساتھ نہیں پا سکے، آپ خود اندازہ فرمائیں کہ ایک مسئلہ جو قوی سند کے ساتھ ثابت بھی نہ ہو، پھر صحیح بخاری و صحیح مسلم کی متفق علیہ حدیث کے خلاف بھی ہو، اس کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے ؟
↰ ہم کہتے ہیں کہ خلفائے راشدین سے کسی وضع (من گھڑت) روایت سے بھی بیس رکعت ناز تراویح پڑھنا ثابت نہیں ہے، لہٰذا بیس رکعت تراویح کو خلفائے راشدین کی سنت قرار دینا صریح غلطی ہے۔
جناب انور شاہ کاشمیری دیوبندی کے علاوہ متعدد حنفی فقہا ء نے بھی اس حدیث عائشہ رضی اللہ عنہ کو آٹھ رکعت تراویح کی دلیل بنایا ہے اور تسلیم کیا ہے کہ نماز تراویح اور تہجد میں کوئی فرق نہیں ہے، یہ ایک ہی نماز کے دو مختلف نام ہیں۔ [تفصيل كيلئے ديكهيں فيض الباري : 420/2 وغيره]
دلیل نمبر
سیدنا جابر بن رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں :
صلٰي بنا رسول الله صلٰي الله عليه وسلم فى شهر رمضان ثمان ركعات و‍أوتر۔
”اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ماہ رمضان میں آٹھ رکعت نماز تراویح اور وتر پڑھائے۔“ [مسند ابي يعليٰ : 326/2، المعجم الصغير للطبراني : 190/1، فتح الباري : 12/3، وسنده حسن]
↰ اس روایت کے راوی عیسیٰ بن جاریہ، جمہورمحد ثین کے نزدیک ”موثق، حسن الحدیث“ ہیں۔
اس حدیث کو امام ابن خذیمہ [1070] اور امام ابن حبان [2409] رحمہ اللہ نے ”صحیح ”کہا ہے۔
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : واسنادہ وسط ”اس کی سنداچھی ہے۔“ [ميزان الا عتدال : 311/3]
◈ امام عینی حنفی [عمد ة القاري7 /177] اور دیگر فقہا ء نے اس حدیث کو آٹھ رکعت نماز تراویح پر دلیل بنا یا ہے۔
دلیل نمبر
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی، اے اللہ کے رسول ! آج رات مجھ سے ایک کام ہوا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، وہ کیا اے ابی ؟ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے عرض کی، میرے گھر کی عورتوں نے مجھے کہا : ہم قرآن کریم پڑھی ہوئی نہیں، اس لیے ہم آپ کے ساتھ نماز پڑھیں گی :
فصليت بهن ثمان ركعات، ثم أوترت، فكانت سنة الرضا، ولم يقل شيئا۔
”میں نے انہیں آٹھ رکعت تراویح پڑھائیں، پھر وتر پڑھائے، اس بات پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رضامندی اظہار فرمایا اور کچھ نہیں کہا۔“ [مسند ابي يعليٰ : 362/2، زوائد مسند الامام احمد : 115/5، المعجم الا وسط للطبراني 141/4، قيام الليل للمروزي : 217، وسنده حسن]
↰ اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ [2550] نے ”صحیح“ کہا ہے، حافط ہیثمی نے اس کی سند کو ”حسن“ کہا ہے۔ [مجمع الزوائد : 742]
دلیل نمبر
صحابی رسول سیدنا سائب بن یزید رضی اللہ عنہ بیا ن فرماتے ہیں :
أمر عمربن الخطاب أبى بن كعب وتميما الداري أن يقوما للناس باحدي عشرة ركعة
”سیدنا عمر خطاب رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابی بن کعب اور سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا کہ وہ لوگوں کو گیارہ رکعت نماز تراویح (مع وتر) پڑھایا کریں۔“ [ موطا امام مالك : 138، شرح معاني الآ ثار للطحاوي : 293/1، السنن الكبري للبهيقي : 496/2، مشكاة المصابيح : 1/407، وسنده صحيح]
↰ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا یہ حکم صحیح بخاری و صحیح مسلم والی حدیث عائشہ رضی اللہ عنہ کے موافق ہے، سیدنا امیر المومنین، شہید محراب کا حکم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے عین مطابق ہے، اس حدیث سے ثابت ہوا کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں آٹھ رکعت تراویح پڑھانے کا حکم دیا تھا اور اس سے بیس رکعت تراویح کے قائلین و عاملین کا رد ہوتا ہے اور ان کا یہ قول کہ وہ بیس رکعت نماز تراویح اس لیے پڑھتے ہیں کہ سید نا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیس پڑھی تھیں، یہ بات سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پر بہتان اور سراسر جھوٹ ہے، کسی وضعی (من گھڑت) روایت سے بھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے بیس رکعت تراویح پڑھنا ثابت نہیں ہے۔
↰ ثابت ہوا کہ عہد فاروقی میں آٹھ رکعت تراویح پر صحابہ کرام کا اجماع تھا۔
دلیل نمبر
سیدنا سائب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
ان عمر جمع الناس على أبى وتييم، فكانا يصليان احدي عشرة ركعة۔
”سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو سیدنا ابی بن کعب اور سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ پر جمع کر دیا، وہ دونوں گیارہ رکعت نماز تراویح پڑھاتے تھے۔“ [مصنف ابن ابي شيبة : 392-391/2، تاريخ المدينة للامام عمر بن شيبه : 713/2 وسندة صحيح]
دلیل نمبر
سیدنا سائب بن یزید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
كنا نقوم فى زمان عمر بن الخطاب باحدي عشرة ركعة۔۔۔۔۔
”ہم (صحابہ) سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں گیارہ رکعت (نماز تراویح) پڑھتے تھے۔“ [سنن سعيد بن منصور بحواله الحاوي للفتاوي للسيوطي : 349/1، حاشية آثار السنن للنيسوي : 250 وسنده صحيح]
◈ علامہ سبکی لکھتے ہیں : اسنادۂ فى غاية الصحة ”اس کی سندا انتہا درجہ کی صحیح ہے۔“ [ شرح المنهاج بحواله الحاوي للفتاوي : 350/1]
↰ مذکور ہ بالا دلائل سے ثابت ہوا کہ آٹھ رکعت نماز تراویح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور سید نا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابی بن کعب و سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ کو وتر سمیت گیارہ رکعت نماز تراویح پڑھانے کا حکم دیا اور انہوں نے آپ کے حکم کی تعمیل و تکمیل میں گیارہ رکعت نماز تراویح پرھائی اور صحابہ کرام نے پڑھی۔
↰ دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمیں بھی سنت پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین !

بیس رکعت تراویح کے دلائل کا جائزہ

اب ہم ان لوگوں کے دلائل کا علمی وتحقیقی، مختصر، مگر جامع جائزہ پیش کرتے ہیں جو بیس رکعت نماز تراویح کو ”سنت مؤکدہ“ کہتے ہیں۔
دلیل نمبر

”سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبار ک میں بیس رکعتیں اور وتر پڑ ھا کرتے تھے۔“ [مصنف ابن بي شيبة : 294/2، السنن الكبري للبيهقي : 496/2، المعجم الكبير للطبراني : 393/11، وغيره هم]

تبصرہ :

یہ جھوٹی روایت ہے،
اس کی سند میں ابوشیبہ ابراہیم بن عثمان راوی ”متروک الحدیث“ اور ”کذاب“ ہے، جمہورنے اس کی ”تضعیف“ کر رکھی ہے۔
◈ امام زیلعی حنفی لکھتے ہیں :
وهو معلو ل بأبي شيبة ابراهيم بن عثمان، جد الامام أبى بكر بن أبى شيبة، وهو متفق عليٰ ضعفة، الينة ابن عدي فى الكامل، ثم مخالف للحديث الصحيح عن أبى سلمة بن عبد الرحمٰن أنه سأل عائشة : كيف كانت صلاٰ رسول صلى الله عليه وسلم فى رمضان ؟ قالت : ماكان يزيد فى رمضان ولا فى غيره على ٰ احديٰ عشرة ركعة۔۔۔۔۔
”یہ روایت ابوشیبہ ابراہیم بن عثمان راوی کی وجہ سے معلول (ضعیف) ہے، جو کہ امام ابوبکر بن ابی شیبہ کے دادا ہیں، ان کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے، امام ابن عدی نے بھی الکامل میں ان کو کمزور قرار دیا ہے، پھر یہ اس صحیح حدیث کے مخالف بھی ہے، جس میں ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رمضان میں نماز کے بارے میں سوال کیا تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان یا غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔۔۔۔۔“ [نصب الراية للزيلعي : 153/2]
① جناب انور شاہ کشمیری دیو بندی لکھتے ہیں :
أما النبى صلى الله عليه وسلم فصح عنه ثمان ركعات وأ ما عشرون ركعة فهو عنه عليه السلام بسند ضعيف وعلي ضعفه اتفاق۔
”آٹھ رکعات نماز تراویح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ثابت ہیں اور جو بیس رکعت کی روایت ہے، وہ ضعیف ہے اور اس کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے۔“ [العرف الشذي : 166/1]
بالاتفاق ”ضعیف“ راوی کی روایت وہی پیش کر سکتا ہے جو خود اس کی طرح بالا تفاق ”ضعیف“ ہو۔
② جناب عبدالشکور فاروقی دیوبندی نے بھی اس کو ”ضعیف“ قرار دیا ہے۔ [ علم الفقة : ص 198]
③ ابن عابدین شامی حنفی (م 1252) لکھتے ہیں :
فضعيف بأبي شيبة، متفق على ضعفه مع مخالفة للصحيح۔
”یہ حدیث ضعیف ہے، کیونکہ اس میں راوی ابوشیبہ (ابراہیم بن عثمان) بالاتفاق ضعیف ہے، ساتھ ساتھ یہ حدیث (صحیح بخاری و صحیح مسلم کی) صحیح (حدیث عائشہ رضی اللہ عنہ) کے بھی خلاف ہے۔“ [منحة الخالق : 66/2]
یہی بات :
◈ امام ابن ہمام حنفی [فتح القدير : 468/1] ،
◈ امام عینی حنفی [عمدة القاري : 128/11] نے بھی کہی ہے۔
◈ علامہ سیوطی (911-849ھ) لکھتے ہیں :
هذا الحديث ضعيف جد ا، لاتقوم به حجة
”یہ حدیث سخت ترین ضعیف ہے، اس سے حجت و دلیل قائم نہیں ہو سکتی۔“ [المصابيح فى صلاة التراويح : 17]
تنبیہ : امام بریلویت احمد یار خان گجراتی ( 1391-1324ھ) اپنی کتاب [جاء الحق ص243/2] میں ”نماز جنازہ میں الحمد شریف تلاوت نہ کرو“ کی بحث میں امام ترمذی رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں : ”ابراہیم بن عثمان ابوشیبہ منکر حدیث ہے۔“
لیکن اپنی اسی کتاب [ 447/1] کے ضمیمہ میں مندرج رسالہ لمعات المصابیح علی رکعات التراویح میں اس کی حدیث کو بطور حجت پیش کرتے ہیں، دراصل انصاف کو ان سے شکایت ہے کہ وہ اس کا ساتھ نہیں دیتے، ایسے بدیانت اور جاہل، بلکہ اجہل لوگوں سے خیر کی کیا توقع رکھی جا سکتی ہے جو اس طرح کی واہی تباہی مچاتے ہیں ؟
قارئین کرام ! بعض الناس کی یہ کل کائنات تھی جس کا حشر آپ نے دیکھ لیا ہے، نہ معلوم اس کے باوجود ان لوگوں کو بیس رکعات نماز تراویح کو ”سنت مؤکدہ“ کہتے ہوئے شرم کیوں نہیں آتی ؟
دلیل نمبر

سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رمضان المبارک میں ایک رات نبی صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور صحابہ کرام کو چوبیس رکعتیں پڑھائیں اور تین رکعات وتر پڑھے۔ [ تاريخ جرجان لابي قاسم حمزة بن يوسف السهي المتوفي767، من الهجرية : ص 275]

تبصرہ :

یہ روایت جھوٹ کا پلندا ہے،
اس میں دو راوی عمر بن یارون البلخی اور محمد بن حمید الرازی ”متروک و کذاب“، نیز ایک غیر معروف راوی بھی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ بیس تراویح کے سنت مؤکدہ ہونے کا راگ الاپنے والے اس چوبیس والی حدیث کو کس منہ سے پیش کرتے ہیں ؟
دلیل نمبر

سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے انہیں حکم دیا کہ وہ رمضان میں رات کو لوگوں کو نماز پڑ ھایا کریں، آپ نے فرمایا، لوگ دن میں روزہ رکھتے ہیں، لیکن اچھی طرح قراءت نہیں کر سکتے، اگر تم رات کو ان پر قرآن پڑ ھا کرو تو اچھا ہو، سیدنا ابی بن کعب نے عرض کی، اے امیر المؤمنین ! پہلے ایسا نہیں ہوا تو آپ نے فرمایا، مجھے بھی معلوم ہے، تاہم یہ ایک اچھی چیز ہے، چنانچہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو بیس رکعات پڑھائیں۔ [كنز العمال : 4098]

تبصرہ :

”کنز العمال“ میں اس کی سند مذکور نہیں،
دین سند کا نام ہے، بے سند روایات وہی پیش کرتے ہیں، جن کی اپنی کوئی ”سند“ نہ ہو۔
دلیل نمبر

عن الحسن أن عمر بن الخطاب رضى الله عنه جمع الناس على أبيبن كعب، فكان يصلي لهم عشر ين ركعة۔
”حسن بصری رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ پر اکٹھا کیا، وہ انہیں بیس رکعات پڑ ھاتے تھے۔“ [سنن ابي داؤد، سير اعلام النبلاء : 400/10، جامع المسانيد والسنن للحافظ ابن كثير : 55/1]

تبصرہ :

عشر ين ركعة کے الفاظ دیوبندی تحریف ہے،
محمود الحسن دیوبندی (1268-1339ھ) نے یہ تحریف کی ہے، عشر ين ليلة ”بیس راتیں“ کی بجائے عشر ين ركعة ”بیس رکعتیں“ کر دیا ہے۔ جبکہ سنن ابی داؤد کے کسی نسخہ میں عشرين ركعة نہیں ہے، تمام نسخوں میں عشرين ليلة ہی ہے، حال ہی میں محمد عوامہ کی تحقیق سے جو سنن ابی داؤد کا نسخہ چھپا ہے، جس میں سات آٹھ نسخوں کو سامنے رکھا گیا ہے، اس میں بھی عشر ين ليلة ہی ہے، محمد عوامہ لکھتے ہیں : من الأ صول كلها۔
”سارے کے سارے بنیادی نسخوں میں یہی الفاظ ہیں۔“ [سنن ابي داؤد بتحقيق محمد عوامه : 256/2]
عشر ين ركعة کے الفاظ محرف ہونے پر ایک زبردست دلیل یہ بھی ہے کہ امام بیہقی رحمہ اللہ [السنن الكبري : 498/6] نے یہی روایت امام ابوداؤد رحمہ اللہ کی سند سے ذکر کی ہے اور اس میں عشر ين ليلة کے الفاظ ہیں۔ یہی الفاظ حنفی فقہاء اپنی اپنی کتابوں میں ذکر کرتے رہے ہیں۔ رہا مسئلہ ”سیر اعلام النبلاء“ اور ”جامع المسانیدو والسنن“ میں عشر ين ركعة کے الفاظ کا پایا جانا تو یہ ناسخین کی غلطی ہے، کیونکہ سنن ابی داؤد کے کسی نسخے میں یہ الفاظ نہیں ہیں، یہاں تک کہ امام عینی حنفی (855ھ) نے شرح أبی داؤد [343/5] میں عشرين ليلة کے الفاظ ذکر کر کیے ہیں، نسخوں کا اختلا ف ذکر نہیں کیا، اگر ركعة کے الفاظ کسی نسخے میں ہوتے تو امام عینی حنفی ضرور بالضر ور نقل کرتے، اسی لیے غالی حنفی نیموی (م1322ھ) نے بھی اس کو بیس رکعت تراویح کی دلیلوں میں ذکر نہیں کیا ہے۔
② اگر مقلدین کی بات کو صحیح تسلیم کر بھی لیا جائے تو پھر بھی یہ روایت ان کی دلیل نہیں بن سکتی، جیسا کہ :
◈ خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی صاحب (1346-1269ھ) لکھتے ہیں :
”ایک عبارت بعض نسخوں میں ہوا اور بعض میں نہ ہو تو وہ مشکوک ہوتی ہے۔“ [ بزل المجهود : 471/4، بيروت]
لہٰذا اس دیوبندی اصول سے بھی یہ روایت مشکوک ہوئی۔
تنبیہ : امام بریلوت احمد یار خان نعیمی گجراتی (1391-1324ھ) نے عشر ين ليلة کے الفاظ ذکر کیے ہیں۔ [ جاء الحق : 95/6] بحث ”قنوت نازلہ پڑھنا منع ہے۔“
◈ جناب سرفراز خان صفدر دیوبندی ایک دوسری روایت کے بارے میں لکھتے ہیں :
”جب عام اور متداول نسخوں میں یہ عبارت نہیں تو شاذ اور غیر مطبوعہ نسخوں کا کیا اعتبار ہو سکتا ہے ؟“ [ خزائن السنن : 97/2]
مقلدین کے اصول کے مطابق اس روایت کا کوئی اعتبار نہیں۔
◈ امام زیلعی حنفی (م 762ھ) اور امام عینی حنفی لکھتے ہیں :
لم يد رك عمر بن الخطاب۔
”اس روایت کے راوی امام حسن بصری رحمہ اللہ نے سیدنا عمر بن خطاب کا زمانہ نہیں پایا۔“ [ نصب الراية : 126/2، شرح ابي داؤد از عيني حنفي : 343/5]
لہٰذا یہ روایت ”منقطع“ ہوئی، کیا شریعت ”منقطع“ روایات کا نام ہے ؟
④ امام عینی حنفی نے اس کو ”ضعیف“ قرار دیا ہے۔ [ شرح سنن ابي داؤد از ع۔ ني حنفي : 343/5]
⑤ اس روایت کو حافظ رحمہ اللہ نے بھی ”ضعیف“ کہا ہے۔ [ خلاصة الا حكام للنووي : 565/1]
⑥ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا گیارہ رکعت تراویح بمع وتر کا حکم دینا ثابت ہے۔ [ موطا امام مالک : 138، السنن الکبری للبھقی : 496/2، شرح معانی الآثار للطحاوی : 293/1، معرفۃ السنن والآ ثار للبیھقی : 42/4، فضائل الاوقات للبیھقی : 274 : قیام اللیل للمروزی : 220، مشکاۃ المصابیح : 407 وسندہ صحیح]
امام طحاوی حنفی (321-239ھ) نے اس حدیث سے حجت پکڑی ہے۔
دلیل نمبر

یزید بن رومان کہتے ہیں کہ لوگ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں رمضان میں تیس رکعات پڑ ھا کرتے تھے۔ [ موطا امام مالك : 97/1، السنن الكبر ي للبيهقي : 494/2]

تبصرہ :

یہ روایت ”انقطاع“ کی وجہ سے ”ضعیف“ ہے، کیونکہ :
راوی یزید بن رومان نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا زمانہ ہی نہیں پایا،
◈ امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
يزيد بن رومان لم يد رك عمر بن الخطاب۔
”یزید بن رومان نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا۔“ [نصب الراية للز يلعي : 163/2]
لہٰذا یہ روایت ”منقطع“ ہوئی، جبکہ مؤطا امام مالک میں اس ”منقطع“ روایت سے متصل پہلے ہی ”صحیح ومتصل“ سند کے ساتھ ثابت ہے کہ امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے گیارہ رکعت کا حکم دیا تھا۔
◈ جناب انور شاہ کشمیری دیوبندی لکھتے ہیں :
ترجیح المسصل علی المنقطع.
”ضابطہ یہ ہے کہ متصل کو منقطع پر ترجیح حاصل ہوتی ہے۔“ [العرف الشذي : 11]
↰ ہم کہتے ہیں کہ یہاں بے ضابطگیاں کیوں ؟
◈ جناب اشرف علی تھانوی دیوبندی اس روایت کے بارے میں لکھتے ہیں :
”روایت مؤطا مالک منقطع ہے۔“ [اشرف الجواب : 182]
صحیح احادیث کے مقابلہ میں ”منقطع“ روایت سے حجت پکڑنا انصاف کا خون کرنے کے مترادف ہے۔
دلیل نمبر

یحیٰ بن سعید سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو بیس رکعات پڑحائے۔ [مصنف ابن ابي شيبة : 393/2]

تبصرہ :

یہ روایت ”منقطع“ ہونے کی وجہ سے ”ضعیف“ ہے،
◈ نیموی حنفی لکھتے ہیں :
يحيي بن سعيد لم يدرك عمر۔
”یحیٰ بن سعید الانصاری نے سید نا عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا۔“ [ التعلیق الحسن از نیموی حنفی : 253]
دلیل نمبر

”عبدالعزیز بن رفیع فرماتے ہیں کہ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ رمضان میں لوگوں کو مدینہ میں بیس رکعات پڑھاتے تھے اور وتر تین رکعات۔“ [ مصنف ابن ابي شيبة : 393/2]

تبصرہ :

یہ رویات بھی ”انقطاع“ کی وجہ سے ”ضعیف“ ہے، :
◈ نیموی حنفی لکھتے ہیں :
عبد العزيز بن رفيع لم يدرك أ بي بن كعب۔
”عبدالعزیز بن رفیع نے سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو نہیں پایا۔“ [التعليق الحسن : 253]
دلیل نمبر

سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں رمضان میں بیس رکعتیں پڑھتے تھے۔ [ مسند على بن الجعد : 2725، السنن الكبري للبيهقي : 496/2، وسنده صحيح]

تبصرہ :

یہ بیس رکعتیں پڑھنے والے لوگ صحابہ کرام کے علاوہ اور لوگ تھے، کیونکہ :
◈ صحابی رسول سیدنا سائب بن یزید خود فرما تے ہیں :
كنا (أي الصحابة) نقوم فى عهد عمر بن الخظاب با حدٰ ي عشرة ركعة۔۔۔
”ہم (صحابہ) سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور میں گیارہ رکعات (نماز تراویح بمع وتر) پڑھتے۔“ [حاشية آثار السنن : 25، وسنده صحيح]
↰ صحابہ کرام کے علاوہ دوسرے لوگوں کا عمل حجت نہیں، یہ کہاں ہے کہ یہ نامعلوم لوگ بیس کو سنت مؤکدہ سمجھ کر پڑھتے تھے، اگر کوئی آٹھ کو سنت، رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور بارہ کو زائد نفل سمجھ کر پڑھے تو صحیح ہے، یہ لوگ بھی ایسا ہی کرتے ہوں گے۔
◈ جناب خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی (م 1346ھ) لکھتے ہیں :
”ابن ہمام (نے) آٹھ رکعات کو سنت اور زائد کو مستحب لکھا ہے، سو یہ قول قابل طعن کے نہیں۔“ [ براهين قاطعة : 18]
مزید لکھتے ہیں : ”سنت مؤکدہ ہونا تراویح کا آٹھ رکعت تو باتفاق ہے، اگر خلاف ہے تو بارہ میں۔“ [ براهين قاطعه : 195]
دلیل نمبر

سائب بن یزید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں بیس رکعات تراویح اور وتر پڑ ھا کرتے تھے۔ [ معرفة السفن والآثار للبيهقي : 42/4]

تبصرہ :

یہ روایت ”شاذ“ ہے،
امام مالک، ا امام یحیٰ بن سعید القطان اور امام الدراوردی وغیرہم رحمہ اللہ کے مخالف ہونے کی وجہ سے اس میں ”شذوذ“ ہے،
اگرچہ خالد بن مخلد ”ثقہ“ راوی ہے، لیکن کبار ثقات کی مخالفت کرنے کی وجہ سے اس کی روایت قبول نہ ہو گی، اسی روایت میں کبار ثقافت گیارہ رکعات بیان کر رہے ہیں۔
دلیل نمبر

ابوعبد الرحمٰن سلمی کہتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے رمضان میں قراء کو بلا یا اور ان کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو بیس رکعات تراویح پڑھائیں، سیدنا علی رضی اللہ عنہ انہیں وتر پڑھاتے تھے۔ [ السنن الكبري للبيهقي : 496/2]

تبصرہ :

① یہ روایت ”ضعیف“ ہے،
اس کی سند میں حماد بن شعیب راوی ”ضعیف“ ہے، اس کو :
◈ امام یحیٰ بن معین، امام ابوززرعہ، امام نسائی اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ”ضعیف“ کہا ہے۔
② دوسری وجہ ضعیف یہ ہے کہ عطاء بن السائب ”مختلط“ راوی ہے، حماد بن شعیب ان لوگوں میں سے نہیں، جنہوں نے اس سے قبل الاختالط سنا ہے۔
دلیل نمبر

”ابوالحسناء سے رویات ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو پانچ تراویح، یعنی بیس رکعات تراویح پڑ ھایا کرے۔“ [ مصنف ابن ابي شيبة : 393/2]

تبصرہ :

اس روایت کی سند ”ضعیف“ ہے،
اس کی سند میں ابوالحسنا ء راوی ”مجہول“ ہے۔
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : لايعرف۔ ”یہ غیر معروف راوی ہے۔“ [ ميزان الاعتدال : 515/4]
اللہ تعالیٰ نے ہمیں غیر معروف راویوں کی روایات کا مکلف نہیں ٹھہرایا۔
دلیل نمبر

”اعمش کہتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیس رکعات تراویح پڑھا کرتے تھے۔“ [ مختصر قيام الليل للمروزي : 157]

تبصرہ :

اس کی سند ”ضعیف“ ہے،
عمدۃ القاری [ 128/11] میں یہ حفص بن غیاث عن الأعمش کے طریق سے ہے، جبکہ حفص بن غیاث اور اعمش دونوں زبردست ”مدلس“ ہیں اور ”عن“ سے بیان کر رہے ہیں، لہٰذا سند ”ضعیف“ ہے۔
باقی امام عطاء امام ابن ابی ملیکہ، امام سوید بن غفلہ وغیرہم کا بیس رکعت پڑھنا بعض الناس کو مفید نہیں، وہ یہ بتائیں کہ وہ امام ابوحنیفہ کے مقلد ہیں یا امام عطاء بن ابی رباح وغیرہ کے ؟ اور اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ وہ بیس رکعت کو سنت مؤکدہ سمجھ کر پڑھتے تھے۔
آل تقلید پر لازم ہے کہ وہ باسند صحیح اپنے امام ابوحنیفہ سے بیس رکعت تراویح کا جواز یا سنت مؤکدہ ہونا ثابت کریں، ورنہ مانیں کہ وہ اندھی تقلید میں سر گرداں ہیں۔
الحاصل :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی صحابی سے بیس رکعت نماز تراویح پڑھنا قطعاً ثابت نہیں ہے، سنت صرف آٹھ رکعات ہیں۔
دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمیں حق سمجھنے والا اور اس پر ڈٹ جانے والا بنائے۔ آمين !

اس تحریر کو اب تک 15 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply