تجہیز و تکفین کے احکام و فضائل
جنازے کے بارے میں نبی کریم ﷺ کا فرمان
سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک جنازہ گزرا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’راحت پانے والا ہے یا اس سے اوروں نے راحت پائی‘‘
مومن بندہ دنیا کے رنج ومصیبت سے راحت پاتا ہے اور اس ایذاء سے اللہ کی رحمت کی طرف آرام پاتا ہے، اور فاجر بندہ سے انسان، شہر، درخت اور جانور راحت پاتے ہیں۔
(بخاری: الرقاق، باب: سکرات الموت: ۲۱۵۶، مسلم: ۰۵۹)
عالم نزع میں تلقین کی اہمیت
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ان لوگوں کو جو مرنے کے قریب ہوں (لا الہ الا اللہ) کی تلقین کرو۔‘‘
(مسلم، الجنائز، باب تلقین الموتی (لا الہ الا اللہ) حدیث ۶۱۹، ۷۱۹)
اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ قریب المرگ کے قریب (لا الہ الا اللہ) پڑھا جائے تاکہ وہ بھی سن کر پڑھ لے۔
افسوس کہ آج کل جہلا یہ تلقین نہیں کرتے بلکہ مرنے کے بعد چارپائی کو کندھا دیتے وقت ’’کلمہ شہادت‘‘ کہتے ہیں، حالانکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں یہ طریقہ نہیں تھا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’جس کا آخر کلام (لا الہ الا اللہ) ہوا وہ جنت میں داخل ہو گا۔‘‘
(ابو داود، الجنائز، باب فی التلقین: ۶۱۱۳۔ اسے حاکم اور ذہبی نے صحیح کہا)
کیونکہ اس نے اللہ سے خوف کے ساتھ کلمہ پڑھا اور اللہ کی قضا آ گئی، کلمہ اس کا آخری کلام بن گیا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق دے، آمین۔
مریض یا میت کے پاس دعا اور کلمات خیر
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب تم بیمار یا میت کے پاس جاؤ تو بھلائی کی بات کہو کیونکہ اس وقت تم جو کچھ کہتے ہو، فرشتے اس پر آمین کہتے ہیں۔‘‘
(مسلم، الجنائز، باب ما یقال عند المریض والمیت: ۹۱۹)
اللہ تعالیٰ سے اچھے گمان کے ساتھ موت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تمہیں اس حال میں موت آنی چاہیے کہ تم اللہ کے ساتھ اچھا گمان رکھتے ہو۔‘‘
(مسلم: الجنۃ، باب: الأمر بحسن الظن باللہ تعالیٰ عند الموت: ۷۷۸۲)
امید اور خوف کا امتزاج
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک قریب المرگ نوجوان کے پاس تشریف لے گئے۔ آپ نے پوچھا کہ کیسا محسوس کرتے ہو؟ اس نے جواب دیا:
"میں اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں اور اپنے گناہوں سے خائف ہوں۔”
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس بندے کے دل میں اس وقت یہ دونوں چیزیں جمع ہو جائیں، اللہ تعالیٰ اسے وہی عطا فرما دیتے ہیں جس کی وہ امید رکھتا ہے اور اسے اس چیز سے امن بخشتا ہے جس سے وہ خائف ہوتا ہے۔‘‘
(ابن ماجہ: ۱۶۲۴، ترمذی: الجنائز باب ما جاء فی التشدید عند الموت: ۳۸۹)
مکہ یا مدینہ میں موت کی تمنا
ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں:
’’میں نے سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا:
اللّٰہُمَّ ارْزُقْنِیْ شَہَادَۃً فِی سَبِیْلِکَ وَاجْعَلْ مَوْتِیْ فِیْ بَلَدِ رَسُوْلِکَ
اے اللہ! مجھے شہادت کی موت دے اور مجھے مدینہ رسول میں موت دے۔‘‘
(بخاری: أبواب فضائل المدینہ: ۰۹۸۱)
موت کی آرزو سے ممانعت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’موت کی آرزو نہ کرو۔ اگر تم نیک ہو تو شاید زیادہ نیکی کر سکو گے، اور اگر بدکار ہو تو شاید توبہ کر کے اللہ کو راضی کر سکو گے۔‘‘
(بخاری، التمنی، باب مایکرہ من التمنی: ۵۳۲۷)
ایک اور روایت میں فرمایا:
’’نہ موت کی آرزو کرو نہ موت کی دعا کرو، کیونکہ جب کوئی شخص مر جاتا ہے تو اس کی نیکی کرنے کی امید ختم ہو جاتی ہے، اور مومن کی لمبی عمر سے اس کی نیکیاں بڑھتی ہیں۔‘‘
(مسلم، الذکر و الدعاء باب کراھیۃ تمنی الموت: ۲۸۶۲)
دنیا میں مسافر کی طرح رہنے کی تلقین
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا کندھا پکڑ کر فرمایا:
’’دنیا میں اس طرح رہ گویا کہ تو مسافر بلکہ راہی ہے۔‘‘
چنانچہ وہ فرمایا کرتے تھے:
’’جب شام ہو تو صبح کا انتظار نہ کر، جب صبح ہو تو شام کا انتظار نہ کر۔ تندرستی کو بیماری اور زندگی کو موت سے پہلے غنیمت جان۔‘‘
(بخاری، الرقاق، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم کن فی الدنیا کانک غریب: ۶۱۴۶)
میت کو بوسہ دینا
کسی قریبی عزیز کے فوت ہونے پر اسے محبت سے بوسہ دینا جائز ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل:
’’آپ نے سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کا بوسہ لیا جبکہ وہ وفات پا چکے تھے، اور آپ کے آنسو جاری تھے۔‘‘
(ابو داؤد: الجنائز، باب فی تقبیل المیت: ۳۶۱۳، ترمذی: ۹۸۹)
اسی طرح:
’’سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ آئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے سے کپڑا ہٹایا، آپ پر جھکے اور آپ کا بوسہ لیا۔‘‘
(بخاری: الجنائز، باب: الدخول علی المیت بعد الموت إذا أدرج فی کفنہ: ۱۴۲۱)
میت پر چادر ڈالنا
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو ایک دھاری دار یمنی چادر سے آپ کو ڈھانپ دیا گیا تھا۔‘‘
(بخاری: الجنائز، باب: الدخول علی المیت بعد الموت: ۱۴۲۱)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ میت پر چادر ڈالنی چاہیے، جو ضرورت کے وقت ہٹائی جا سکتی ہے۔