صرف اور صرف اسلام مصطفی علیہ الصلوۃ والسلام کی دعوت:
اللہ تعالیٰ کے قرآن کریم نے صرف اور صرف دعوت اسلام کا حکم ارشاد فرمایا، باقی ادیان کی دعوت کا حکم نہیں دیا۔ اور فرمایا کہ اس شخص سے بہتر بات کس کی ہوسکتی ہے جو لوگوں کو صرف ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دیتا ہے یعنی قرآن وسنت کی دعوت دینے والوں کو احسن قرار دیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّن دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ. وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۚ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ﴾
[فصلت: 34، 33]
”اور اُس شخص سے زیادہ اچھی بات والا کون ہوسکتا ہے جس نے لوگوں کو اللہ کی طرف بلایا، اور عمل صالح کیا، اور کہا کہ میں بے شک مسلمانوں میں سے ہوں ۔ اور نیکی اور برائی برابر نہیں ہوتی ، آپ برائی کو بطریق احسن ٹال دیجیے، تو (آپ دیکھیں گے کہ) آپ اور جس آدمی کے درمیان عداوت ہے، وہ آپ کا گہرا دوست بن جائے گا۔“
مفسرین لکھتے ہیں کہ اس آیت کے مصداق سب سے پہلے انبیاء کرام ہیں، پھر علماء، پھر مجاہدین، پھر اذان دینے والے، اور پھر توحید خالص اور قرآن وسنت کی دعوت دینے والے۔
بحواله تيسير الرحمن: 1373/2
احسن انداز میں دعوتِ اسلام کا حکم:
داعیان اسلام کو یہ حکم ہوا ہے کہ وہ اسلام کی دعوت اچھے اور احسن انداز سے دیں۔ اور اس راہ میں آزمائشوں اور مصائب و آلام پر صبر کا مظاہرہ کریں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۚ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ ۖ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ.وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُم بِهِ ۖ وَلَئِن صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِّلصَّابِرِينَ.﴾
[النحل: 125، 126]
”آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ذریعہ بلائیے ، اور ان کے ساتھ بحث و نقاش میں سب سے عمدہ اسلوب اختیار کیجیے، بے شک آپ کا رب اُن لوگوں کو خوب جانتا ہے جو اُس کی راہ سے برگشتہ ہو گئے ہیں، اور وہ ہدایت پانے والوں کو بھی خوب جانتا ہے۔ اور (مسلمانو!) اگر تم سزا دو تو اتنی ہی دو جتنی سزا تمھیں دی گئی تھی، اور اگر تم صبر کرو گے تو (جان لو کہ) ایسا کرنا صبر کرنے والوں کے لیے بہت اچھی بات ہے۔“
مذکورہ بالا آیت قرآنیہ میں اللہ رب العزت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم صادر فرمایا کہ وہ لوگوں کو اس کے دین، بلکہ دین اسلام کی طرف حکمت اور دانائی کے ساتھ دعوت دیں۔
مفسر ابن جریر طبری رحمہ اللہ لکھتے ہیں: کہ ”حکمت“ سے مراد قرآن وسنت ہے۔ یعنی دعوت کا طریقہ ان ہی دونوں کی روشنی میں متعین کریں۔ (تفسیر ابن جریر، تحت الآیة)
صاحب فتح البیان رقمطراز ہیں کہ ”حکمت“ سے مراد ایسی صحیح اور صریح بات ہے جو حق کو واضح کر دے اور ہر شک وشبہ کا ازالہ کر دے۔
اور ”موعظتہ“ سے مراد ایسی اچھی گفتگو ہے جسے سننے والا پسند کرے اور اس سے فائدہ اٹھائے لیکن اگر داعی الی اللہ کا واسطہ بھی سخت اور جھگڑالو مخالف سے پڑ جائے تو اس کے سامنے حق کو بیان کرنے کے لیے مناظرانہ اسلوب اختیار کرے، وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ میں اسی طرف اشارہ ہے یعنی نرمی کے ساتھ ایسی مدلل بات کرے کہ اس کا شر دب جائے ۔ اور قبول حق کے لیے آمادہ ہو جائے۔
اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ اگر کوئی شخص دعوت اسلام کو قبول نہیں کرتا تو آپ بالکل بھی پریشان نہ ہوں، اس لیے کہ ہدایت دینا آپ کا کام نہیں ہے۔ اللہ تعالی زیادہ جانتا ہے کہ گمراہی پر کون باقی رہے گا اور کون ہدایت کو قبول کرے گا، اور وہ روزِ قیامت ہر ایک کو اس کی ہدایت یا گمراہی کے مطابق بدلہ دے گا۔ آپ کو دعوت کا حکم صرف اس لیے دیا گیا ہے تا کہ حجت پوری ہو جائے اور کافروں کے لیے کوئی عذر باقی نہ رہے۔
مزید داعیانِ اسلام کو حکم دیا گیا ہے کہ اگر ان کا واسطہ غیر مسلموں سے پڑے تو پہلے انھیں قبول حق کی دعوت دیں، اور اگر انکار کریں اور جزیہ بھی نہ دیں تو ان سے قتال کریں، اگر دشمنوں سے بدلہ لینے کی نوبت آئے تو بدلہ لینے میں زیادتی نہ کریں اور بہتر یہی ہے کہ جس پر زیادتی ہوئی ہے وہ صبر کرے اور عفو و درگزر سے کام لے۔
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ مرفوعاً بیان کرتے ہیں میں تمھیں بات بیان کرتا ہوں تو جو تم میں سے موجود ہے وہ غائب کو بتا دے۔
سلسله احادیث صحیحہ حدیث: 2455۔ طبرانی فی الكبير كما في المجمع 139/1
مبلغ اسلام کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا:
سنن ابن ماجہ میں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
نضر الله امرأ سمع منا شيئا فبلغه كما سمعه
سنن ابن ماجه المقدمة، رقم: 232- المشكاة، رقم: 230۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”تر و تازہ رکھے اللہ تعالیٰ اس شخص کو کہ جس نے مجھ سے کچھ سنا پھر اس کو جس طرح سنا آگے پہنچا دیا۔ “
دین اسلام کی دعوت دینے والے کی مثال:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
مثل ما بعثني الله به من الهدى والعلم كمثل الغيث الكثير أصاب أرضا ، فكان منها نقية قبلت الماء فأنبتت الكلأ والعشب الكثير، وكانت منها أجادب، أمسكت الماء فنفع الله بها الناس فشربوا وسقوا وزرعوا، وأصابت منها طائفة أخرى، إنما هي قيعان لا تمسك ماء ولا تنبت كلا، فذلك مثل من فقه فى دين الله ونفعه ما بعثني الله به فعلم وعلم ومثل من لم يرفع بذلك رأسا ولم يقبل هدى الله الذى أرسلت به
صحيح البخاری، کتاب العلم، باب فضل من علم و علم، رقم: 79
”اس کی مثال جو اللہ نے مجھ کو ہدایت اور علم دیا ایسی ہے جیسے زمین پر بہت زیادہ مینہ برسے، اس میں کچھ حصہ ایسا تھا جس نے پانی کو جذب کر لیا اور چارہ اور بہت سا سبزہ جمایا اور کچھ حصہ اس کا کافی سخت تھا، اس نے پانی کو سمیٹ رکھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو اس سے فائدہ پہنچایا۔ لوگوں نے اس سے پیا اور پلایا اور چرایا (یعنی اس سے کھیتی کی ) اور کچھ حصہ اس کا چٹیل میدان تھا۔ نہ تو پانی روک رکھا اور نہ ہی گھاس اُگایا (جیسے چکنی چٹان کہ پانی لگا اور چل دیا ) تو یہ مثال ہے اس کی جس نے اللہ کے دین کو سمجھا اور اللہ نے اس کو فائدہ دیا۔ اس چیز سے جو مجھ کو عطا فرمائی اور خود بھی علم حاصل کیا اور دوسروں کو بھی سکھایا اور جس نے اس طرف سر نہ اٹھایا (یعنی توجہ نہ دی) اور اللہ کی ہدایت کو قبول نہ کیا جس کو میں دے کر بھیجا گیا ہوں ۔ “
جلانا ہے مجھے ہر شمع دل کو سوز پنہاں سے
تیری تاریک راتوں میں چراغاں کر کے چھوڑوں گا
تبلیغ اسلام والے کے لیے اجر و ثواب:
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
من دعا إلى هدى كان له من الأجر مثل أجور من تبعه، لا ينقص ذلك من آثامهم شيئا
صحیح مسلم، کتاب العلم باب من سنة حسنة أو سيئة ومن دعا الى هدى وضلالة، رقم: 2674
جس نے کسی کو ہدایت کی بات کی طرف دعوت دی تو اسے اسی طرح اجر و ثواب ملے گا، جس طرح اس پر عمل کرنے والے کو ملے گا ”لیکن ان کے اجر وثواب میں کسی طرح کی کمی واقع نہ ہوگی اور جس نے کسی گمراہی کی بات کی طرف بلایا اسے اتنا ہی گناہ ملے گا جتنا اس گمراہی پر عمل کرنے والے کو ملے گا، لیکن ان کے گناہوں میں کسی طرح کی کمی واقع نہ ہوگی۔“
تبلیغ اسلام صدقہ جاریہ ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
إذا مات الإنسان انقطع عنه عمله إلا من ثلاثة، إلا من صدقة جارية، أو علم ينتفع به، أو ولد صالح يدعوله
صحيح مسلم، کتاب الوصية، باب ما يلحق الانسان من الثواب بعد وفاته، رقم: 223
”جب انسان وفات پا جاتا ہے تو اس کے اعمال منقطع ہو جاتے ہیں، سوائے تین کے۔ صدقہ جاریہ یا ایسا علم جس سے فائدہ اٹھایا جاتا رہے، یا نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے۔ “
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: الہی ! میرے خلیفوں پر رحم کر ۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ کے خلیفے کون ہیں؟ آپ نے فرمایا: وہ لوگ جو میری احادیث روایت کریں گے اور لوگوں کو ان کی تعلیم دیں گے۔
مسند دارمی۔ طبرانی اوسط
اسلام کو سیکھنا باعث اجر و ثواب ہے:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ومن يرد الله به خيرا يفقهه فى الدين
سلسله احادیث الصحیحه، رقم: 2467۔ سنن ابن ماجه رقم: 211
”اور جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ کرے تو اسے دین میں سمجھ دے دیتا ہے۔“
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مرفوعاً نقل کیا گیا ہے سمندر کی مچھلیوں سمیت ہر مخلوق بھلائی سکھلانے والے کے لیے خیر کی دعا کرتی ہے۔
سلسله احادیث صحیحه حدیث نمبر: 2466
تبلیغ اسلام میں کوئی چیز رکاوٹ نہ بنے:
اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا نبی اور رسول بنا کر مبعوث کیا، اس نعمت عظمیٰ کا تقاضا تھا کہ آپ قرآن مجید کی تلاوت، اس پر عمل، اور اس کی تبلیغ کسی حال میں نہ چھوڑتے اور لوگوں کو اپنے رب کی توحید اور اس کی شریعت اسلامیہ پر عمل کی دعوت دیتے، چنانچہ آپ نے ایسے ہی کیا، اللہ تعالیٰ نے اس بات کا حکم بایں الفاظ صادر فرمایا:
﴿وَلَا يَصُدُّنَّكَ عَنْ آيَاتِ اللَّهِ بَعْدَ إِذْ أُنزِلَتْ إِلَيْكَ ۖ وَادْعُ إِلَىٰ رَبِّكَ ۖ وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِينَ﴾
[القصص: 87]
”اور کوئی کافر آپ کو اللہ کی آیتوں کی تبلیغ سے، انھیں آپ پر نازل کیے جانے کے بعد روک نہ دے، اور آپ اپنے رب کی طرف لوگوں کو بلاتے رہیے، اور مشرکوں میں سے نہ ہو جائیے ۔ “
قاضی بیضاوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ: چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں شرک کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تاکہ انھیں اس سے روکا جائے ، اس لیے اس سے مراد مشرکین کو قطعی طور پر ناامید کرنا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مشرکانہ اعمال میں ان کا کسی بھی حال میں ساتھ دیں گے۔ انتہی
دین اسلام کا مذاق اڑانے کی ممانعت:
دین اسلام کا مذاق اڑانا ممنوع ہے، جو لوگ دین اسلام اور پیغمبر اسلام کا مذاق اڑاتے ہیں، ان کی مجلس اختیار کرنا بھی جرم عظیم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
﴿وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ ۚ إِنَّكُمْ إِذًا مِّثْلُهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ جَامِعُ الْمُنَافِقِينَ وَالْكَافِرِينَ فِي جَهَنَّمَ جَمِيعًا﴾
[النساء: 140]
”اور اللہ قرآنِ کریم میں تمھارے لیے اتار چکا ہے کہ جب تم سنو کہ اللہ کی آیتوں کا انکار کیا جا رہا ہے، اور اُن کا مذاق اڑایا جا رہا ہے، تو ان کے ساتھ نہ بیٹھو یہاں تک کہ وہ کفار اس کے علاوہ کوئی اور بات کرنے لگیں، ورنہ تم انھی جیسے ہو جاؤ گے، بے شک اللہ تمام منافقین اور کافروں کو جہنم میں اکٹھا کرنے والا ہے۔ “
مشرکین مکہ اپنی مجلسوں میں دین اسلام کا مذاق اڑاتے تھے، لہذا اللہ رب العزت نے اہل اسلام کو ان کی مجالست اختیار کرنے سے منع کر دیا، اور سورۃ الانعام کی آیت (68) نازل فرمائی:
﴿وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آيَاتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ ۚ وَإِمَّا يُنسِيَنَّكَ الشَّيْطَانُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَىٰ مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ﴾
[الأنعام: 68]
”جب آپ ان لوگوں کو دیکھیں جو ہماری آیتوں میں عیب جوئی کرتے ہیں ، تو ان سے کنارہ کش ہو جائیے ، یہاں تک کہ وہ کسی اور بات میں لگ جائیں، اور اگر آپ کو شیطان بھلا دے تو یاد آنے کے بعد پھر ایسے ظالم لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھیے۔“
چنانچہ اس آیت کریمہ کے نزول کے بعد اہل اسلام نے کفار کی مجالست اختیار کرنا چھوڑ دی۔ جب مسلمان ہجرت کر کے مدینہ منورہ آئے تو یہود اور منافقین کے ساتھ ان کی مجلسوں میں بیٹھنا شروع کر دیا، جہاں یہود اسلام کا مذاق اڑاتے تو ، تو یہ آیت کریمہ نازل ہوئی، جس میں مسلمانوں کو یاد دہانی کرائی گئی کہ اس کے قبل قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا حکم آچکا ہے کہ جن مجلسوں میں کفار قرآن کریم کا مذاق اڑایا کریں، اُن میں مت بیٹھو، کیونکہ تمہارا ان کی مجلس اختیار کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ کی آیتوں کے انکار کیے جانے اور ان کا مذاق اڑائے جانے پر تم راضی ہو، پھر کفر اور عذاب جہنم کے مستحق ہونے میں تم ان کی مانند ہو جاؤ، پھر کفر اور عذاب جہنم کے مستحق ہونے میں تم ان کی مانند ہو جاؤ گے، جیسا کہ اللہ نے مزید فرمایا کہ ”اللہ منافقوں اور کافروں کو جہنم میں اکٹھا کر دے گا۔ “
امام حاکم رحمہ اللہ کا کہنا ہے: ”کہ جو علمائے اسلام ملحدین اور مخالفین اسلام کے ساتھ مناظرہ کرنے کے لیے ان کی مجلسوں میں جاتے ہیں، ان کے لیے کوئی ممانعت نہیں، بلکہ انھیں اجر و ثواب ملے گا۔ اور اگر کسی مجلس میں اللہ، رسول یا دین اسلام کا مذاق اڑایا جا رہا ہو، تو جو شخص اس سے راضی ہوگا ، وہ کافر ہو جائے گا، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿إِنَّكُمْ إِذًا مِّثْلُهُمْ﴾ یعنی ”تم بھی انھی جیسے ہو جاؤ گے۔“ انتہی !
مفسر ابن جریر رحمہ اللہ نے ضحاک رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے کہ ہر وہ آدمی جو دین اسلام میں کوئی نئی بات (بدعت) پیدا کرتا ہے، اور قیامت تک ہر بدعتی اس آیت کے ضمن میں آئے گا۔ انتہی ۔ (تفسیر ابن جریر، تحت الآیة)
علامہ شوکانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ چونکہ قرآن کریم میں خصوص سبب کا نہیں بلکہ عموم لفظ کا اعتبار ہوتا ہے، اس لیے ہر وہ مقام و موقف جہاں دلائل شرعیہ کا مذاق اڑایا جا رہا ہو اس سے اجتناب کرنا واجب ہے، مثال کے طور پر اسیرانِ تقلید شخصی جو قرآن وسنت کے بدلے میں لوگوں کے آراء کو قبول کرتے ہیں، اور جب کسی عالم کو اس مسئلہ پر قرآن وسنت سے استدلال کرتے دیکھتے ہیں، تو اس کا مذاق اُڑاتے ہیں، اور لوگوں کو باور کراتے ہیں کہ اس نے اُن کے امام مذہب کی مخالفت کر کے، جس کو انھوں نے معلم شریعت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام دے رکھا ہے، کسی بہت بڑے جرم کا ارتکاب کیا ہے، ایسے لوگوں کی مجلسوں سے پرہیز کرنا لازم ہے۔ انتہی
اور سورۃ التوبہ میں ارشاد فرمایا:
﴿يَحْذَرُ الْمُنَافِقُونَ أَن تُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ سُورَةٌ تُنَبِّئُهُم بِمَا فِي قُلُوبِهِمْ ۚ قُلِ اسْتَهْزِئُوا إِنَّ اللَّهَ مُخْرِجٌ مَّا تَحْذَرُونَ.وَلَئِن سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ ۚ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ.لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ ۚ إِن نَّعْفُ عَن طَائِفَةٍ مِّنكُمْ نُعَذِّبْ طَائِفَةً بِأَنَّهُمْ كَانُوا مُجْرِمِينَ.﴾
[التوبة: 64، 65، 66]
”منافقین ڈرتے ہیں کہ آپ پر کوئی سورۃ نازل ہو جو ان کے دلوں کی خفیہ باتوں کو ان کے سامنے کھول کر رکھ دے، آپ کہیے کہ تم مذاق اڑاتے رہو، اللہ یقیناً اُن باتوں کو باہر لانے والا ہے جن سے تم ڈرتے تھے۔ اور اگر آپ ان سے پوچھیں گے تو وہ کہیں گے کہ ہم تو یونہی گپ شپ کرتے تھے اور دل بہلاتے تھے، آپ کہیے کہ کیا تم لوگ اللہ اور اس کی آیات اور اس کے رسول کا مذاق اُڑاتے تھے۔ اب (جھوٹی) معذرت پیش نہ کرو، تم لوگ ایمان لانے کے بعد دوبارہ کافر ہو گئے ہو، اگر ہم تم میں سے ایک گروہ کو (ان کے ثابت ہو جانے کے بعد ) معاف کر دیں گے، تو دوسرے گروہ کو، اس لیے کہ وہ مجرمین تھے ضرور سزا دیں گے۔“
ابن ابی شیبہ اور ابن المنذر وغیرھم نے امام مجاہد رحمہ اللہ سے روایت کی ہے کہ منافقین آپس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے خلاف جب کوئی بات کرتے تو ڈرتے کہ کہیں ایسا نہ ہو اللہ ہماری بات محمد کو بتا دے۔ ایک اور روایت ہے کہ ایک منافق نے کہا کہ کاش ہمیں سو کوڑے لگائے جاتے اور ہمارے بارے میں قرآن نازل ہوتا جو ہمارا پردہ فاش کر دیتا ہے جو یہ آیت نازل ہوئی ، اور اللہ نے انھیں دھمکی دی کہ خوب اسلام اور مسلمانوں کا مذاق اڑا لو، لیکن یہ جان لو کہ اللہ تمہاری تمام خباثتوں اور منافقوں کو طشت از بام کر کے رہے گا ۔ انتہی
اور ابو نعیم رحمہ اللہ نے ”حلیہ“ میں شریح بن عبید سے اور علامہ ابن جریر، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ وغیرهم نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے اس آیت کے شان نزول کے بارے میں جو روایت نقل کی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک آدمی (اور وہ غالباً عبد اللہ بن ابی سلول تھا) نے غزوہ تبوک کے موقع سے ایک مجلس میں کہا کہ ہم نے ان قراء سے زیادہ جھوٹا اور بزدل نہیں دیکھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر ہو گئی اور قرآن نازل ہوا تو وہ آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کی مہاڑ پکڑ کر دوڑ رہا تھا اور لوگ اسے پتھر سے مار رہے تھے، اور کہتا تھا کہ یارسول اللہ ! ہم یونہی گپ شپ کر رہے تھے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہے جا رہے تھے کہ کیا تم لوگ اللہ ، اس کی آیتوں اور اس کے رسول کا مذاق اڑا رہے تھے۔ انتہی ۔
جو لوگ دین اسلام اور پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام کا مذاق اڑاتے تھے، ان کے لیے دردناک عذاب ہے، ارشاد فرمایا:
﴿ذَٰلِكَ جَزَاؤُهُمْ جَهَنَّمُ بِمَا كَفَرُوا وَاتَّخَذُوا آيَاتِي وَرُسُلِي هُزُوًا﴾
[الكهف: 106]
”ان کا بدلہ جہنم ہو گا اس لیے کہ انھوں نے کفر کی راہ اختیار کی ، اور میری آیتوں اور میرے رسولوں کا مذاق اڑایا۔ “
دین اسلام کو چھوڑ کر نفسانی خواہش کی اتباع کی مذمت:
اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی مذمت کی جنھیں اللہ نے آسمانی کتاب کا علم دیا، جس کا تقاضا یہ تھا کہ وہ اس میں موجود دلائل و براہین سے استفادہ کر کے اللہ تعالیٰ سے اپنا رشتہ استوار کرتے ، اور اصلاح و تقویٰ کی زندگی اختیار کرتے، لیکن معاملہ برعکس رہا، انھوں نے دنیاوی عارضی مفاد کی خاطر اللہ تعالیٰ کا انکار کر دیا اور اس کی نازل کردہ کتاب کو پشت کے پیچھے ڈال دیا اور دامن جھاڑ کر اس سے ایسے الگ ہو گئے جیسے کوئی سانپ اپنے چمڑے کے خول سے نکل کر باہر چلا جاتا ہے۔ اور جب وہ ایسے حال کو پہنچ گئے تو شیطان نے انھیں جالیا اور انھیں اپنا دوست اور ساتھی بنا لیا ، اور انھیں ضلالت و گمراہی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں پہنچا دیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ الَّذِي آتَيْنَاهُ آيَاتِنَا فَانسَلَخَ مِنْهَا فَأَتْبَعَهُ الشَّيْطَانُ فَكَانَ مِنَ الْغَاوِينَ.وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَاهُ بِهَا وَلَٰكِنَّهُ أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ وَاتَّبَعَ هَوَاهُ ۚ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ إِن تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ أَوْ تَتْرُكْهُ يَلْهَث ۚ ذَّٰلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا ۚ فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ.﴾
[الأعراف: 175، 176]
”اور آپ انھیں اُس آدمی کی خبر پڑھ کر سنا دیجیے جسے ہم نے اپنی نشانیاں دی تھیں تو وہ ان سے نکل کر باہر چلا گیا، پھر شیطان اس کے پیچھے تک گیا، پھر وہ گم گشتہ راہ لوگوں میں سے ہو گیا اور اگر ہم چاہتے تو اسے اس کی وجہ سے رفعت و بلندی عطا کرتے، لیکن وہ پستی میں گرتا چلا گیا اور اپنی خواہش نفس کا فرمانبردار ہو گیا، پس اس کی مثال کتے کی سی ہے، اگر تم اس پر کچھ بوجھ ڈال دو گے تو ہانپے گا، یا اگر اسے اس کے حال پر چھوڑ دو گے تب بھی ہانپے گا، یہ ان کی مثال ہے جنھوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ۔ پس آپ ان لوگوں کو یہ قصے سناتے رہیے ، شاید کہ وہ غور کریں۔“
اس آیت کریمہ میں بہت بڑی وعید ہے ان علمائے سوء کے لیے جو دنیا کی عارضی لذتوں کی خاطر آخرت کو فراموش کر دیتے ہیں، اور دنیا ہی کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تمام علمائے اسلام کو اس آیت کا مصداق بننے سے اپنے حفظ وامان میں رکھے۔
ابو عثمان نیسا بوری رحمہ اللہ کا قول ہے: جو اپنے آپ پر سنت کو قول و فعل میں حاکم بنا لیتا ہے اس کی زبان سے حکمت جھڑنے لگتی ہے، اور جو شخص اپنے قول و فعل میں خواہش نفس کو حاکم بنا لیتا ہے اس کی زبان سے بدعت جاری ہو جاتی ہے۔
حلية الاولياء: 244/10
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے:
لو كان الدين بالر أى لكان أسفل الخف أولى بالمسح من أعلاه
سنن ابوداؤد، کتاب الطهارة، رقم: 162۔ محدث البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
”اگر دین عقل کا نام ہوتا تو موزوں پر مسح اوپر کی بجائے پاؤں کے نیچے سے کرنا زیادہ بہتر ہوتا ۔“
اس حدیث مبارکہ میں بھی خواہش نفس کو دین اسلام پر مقدم کرنے کی مذمت ہے۔ پیغمبر اسلام علیہ الصلوۃ والسلام کا علو مرتبت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
﴿وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَىٰ. مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَىٰ. وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ.﴾
[النجم: 1، 2، 3]
”ستارے کی قسم جب وہ گرتا ہے تمھارے ساتھی (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) نہ گمراہ ہوئے ہیں اور نہ بھٹکے ہیں، اور وہ اپنی خواہش نفس کی پیروی میں بات نہیں کرتے ہیں۔ “
جو شخص خواہشات نفسانی کی پیروی کرتا ہے اور دین اسلام کو پس پشت ڈال دیتا ہے۔ قرآن مجید کی رو سے اس نے خواہشات نفسانی کو اپنا معبود بنا لیا۔ ارشاد فرمایا:
﴿أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَٰهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلَىٰ عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَىٰ سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ عَلَىٰ بَصَرِهِ غِشَاوَةً فَمَن يَهْدِيهِ مِن بَعْدِ اللَّهِ ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ﴾
[الجاثية: 23]
”کیا آپ نے اس شخص کے حال پر غور کیا ہے جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنا لیا، اور اللہ نے اُسے حق بات کا علم ہو جانے کے باوجود گمراہ کر دیا، اور اُس کے کان اور دل پر مہر لگا دی، اور اس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا، ایسے آدمی کو اللہ کے بعد کون راہ دکھا سکتا ہے، کیا تم لوگ نصیحت نہیں حاصل کرتے ۔“
نفسانی خواہشات اللہ تعالیٰ کی محبت پر غالب آجائیں، تو توحید میں خلل پڑتا ہے اگر توحید میں خلل نہیں پڑتا تو یہ پیرایہ بیان اختیار نہ کیا جاتا کہ اس نے خواہشات نفسانی کو الہ بنا لیا۔
بعض سلف کا کہنا ہے:
من شغلك عن الله فهو صنمك
”جو کوئی بھی تمھیں اللہ کی یاد سے غافل کر دے، وہ تمہارا بت ہے۔