بینک قرض، سودی منافع اور زکوٰۃ کا شرعی حکم
ماخوذ : احکام و مسائل، زکٰوۃ کے مسائل جلد 1، صفحہ 271

(بینک قرض، منافع اور زکوٰۃ کے مسائل)

سوال:

میں نے مکان کی تعمیر کے لیے ایک بینک سے قرض حاصل کیا، جس میں سے کچھ رقم بچ گئی۔ میں نے وہ بچی ہوئی رقم دوسرے بینک میں جمع کروا دی ہے اور اس سے منافع حاصل کر رہا ہوں۔ اب اس رقم کو ایک سال ہو چکا ہے، لیکن میں نے اس پر زکوٰۃ ادا نہیں کی کیونکہ یہ قرض کی رقم ہے، اور میرا خیال ہے کہ قرض کی رقم پر زکوٰۃ نہیں بنتی۔ کیا اس رقم پر زکوٰۃ لازم ہے؟ اور کیا جو منافع میں اس رقم سے حاصل کر رہا ہوں، وہ جائز ہے یا نہیں؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرض کی رقم پر زکوٰۃ کی ذمہ داری:

قرض کی مد میں لی گئی رقم پر زکوٰۃ قرض دینے والے کے ذمہ ہوتی ہے، یعنی وہ شخص جس نے رقم دی ہے، وہ زکوٰۃ کی ادائیگی کا ذمہ دار ہے، نہ کہ قرض لینے والا۔

بینک سے سودی قرض لینا اور رقم جمع کروانا:

آپ کا ایک بینک سے قرض لینا اور پھر اس رقم کو سود دینے والے بینک میں جمع کروا کر اس پر سود حاصل کرنا مکمل طور پر ناجائز اور حرام عمل ہے۔

عمل سے فوری نجات ضروری:

اس طرح کا مالی لین دین شریعت کے احکام کے خلاف ہے، لہٰذا جتنا جلدی ممکن ہو، اس عمل سے جان چھڑانا واجب ہے۔
ھٰذَا مَا عِنْدِي وَاللّٰهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1