سوال
«نَهٰی عَنْ بَيْعَتَيْنِ فِی بَيْعَةٍ» کی کتنی صورتیں ہو سکتی ہیں، اور جو چیز قسطوں پر خریدی جاتی ہے، اس پر یہ حدیث کیسے لاگو ہوتی ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نبی کریم ﷺ کی حدیث
«بَيْعَتَيْنِ فِی بَيْعَةٍ»
کے متعلق دو احادیث وارد ہوئی ہیں:
پہلی حدیث:
«نَهَی عَنْ بَيْعَتَيْنِ فِيْ بَيْعَةٍ»
یعنی: "نبی ﷺ نے ایک بیع میں دو سودوں سے منع فرمایا۔”
دوسری حدیث:
«مَنْ بَاعَ بَيْعتَيْنِ فِيْ بَيْعَةٍ فَلَهُ أَوْکَسُهُمَا أَوِ الرِّبَا»
(ابو داود، کتاب البیوع، باب فی من باع بیعتین فی بیعة)
ترجمہ: "جو شخص ایک سودے میں دو بیعیں کرے، تو اس کے لیے یا تو ان دونوں میں سے کم قیمت والا سودا ہے یا پھر سود ہے۔”
قسطوں پر خرید و فروخت کا حکم:
قسطوں پر خریدی جانے والی چیز پر دوسری حدیث صراحت کے ساتھ منطبق ہوتی ہے، خاص طور پر جب قسطوں کی مجموعی قیمت نقد قیمت سے زیادہ ہو۔
یعنی اگر کوئی چیز اس طرح فروخت کی جائے کہ نقد قیمت کچھ اور ہو اور قسطوں پر قیمت کچھ اور، اور دونوں کا اختیار ایک ہی بیع میں دیا جائے، تو یہ "بیعتین فی بیعة” میں داخل ہوگا۔
نتیجہ:
ایسی بیع جس میں قسطوں کی صورت میں رقم نقد قیمت سے زیادہ رکھی جائے اور ایک ہی سودا شمار کیا جائے، تو یہ حدیث کا مصداق بنے گی اور ممنوع ٹھہرے گی، کیونکہ اس میں سود یا دھوکہ شامل ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب