آبائی مقام میں قصر نماز کا حکم
سوال:
میرے والدین گزشتہ بیس (20) سال سے تحصیل بہاولنگر میں مقیم ہیں، جبکہ ہماری ذاتی زمینیں ہارون آباد اور بہاولپور میں واقع ہیں، جن کا بہاولپور شہر سے فاصلہ بالترتیب 50 کلومیٹر اور 250 کلومیٹر ہے۔ ہماری مرکزی مسجد کے عالم صاحب فرماتے ہیں کہ ان علاقوں میں آپ قصر نماز ادا نہیں کر سکتے۔ براہ کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔
(ابو فہد، بہاولپور)
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قصر نماز کی مدت کے بارے میں صحیح حدیث:
صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
"أقام رسول الله ﷺ تسعة عشر يقصر، فنحن إذا سافرنا تسعة عشر قصرنا، وإن زدنا أتممنا”
”رسول اللہ ﷺ نے (سفر کے دوران) انیس دن قیام فرمایا اور قصر نماز ادا فرماتے رہے، پس ہم بھی جب انیس دن قیام کرتے تو قصر پڑھتے اور اگر زیادہ قیام کرتے تو پوری نماز ادا کرتے۔”
(صحیح بخاری، کتاب قصر الصلوۃ، ابواب التقصیر، باب ما جاء فی التقصیر وکم یقیم حتی یقصر، حدیث 1080)
مسئلے سے حاصل ہونے والا حکم:
◈ اس حدیث مبارکہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اگر کسی مقام پر بیس دن یا اس سے زیادہ کا قیام ہو تو وہاں قصر نماز نہیں پڑھی جائے گی بلکہ پوری نماز ادا کی جائے گی۔
موجودہ مسئلہ پر اطلاق:
◈ چونکہ آپ اور آپ کے والدین کا مستقل قیام تحصیل بہاولنگر میں ہے اور
◈ آپ کی زمینیں ہارون آباد اور بہاولپور میں واقع ہیں، جہاں آپ وقتاً فوقتاً آتے جاتے ہیں،
◈ اور ان مقامات پر آپ کا آبائی تعلق بھی ہے،
لہٰذا، ان مقامات پر آپ مسافر شمار نہیں ہوں گے۔
اسی لیے:
◈ آپ کو ان علاقوں میں پوری نماز ادا کرنی چاہیے، قصر نماز کا حکم آپ پر لاگو نہیں ہوتا۔
◈ یہ رائے قرآن و حدیث کے اصولوں اور فقہی قواعد کی روشنی میں دی گئی ہے۔
اضافی حوالہ:
مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ فرمائیں:
◈ ماہنامہ شہادت، اپریل 2001ء
◈ ماہنامہ شہادت، جولائی 2001ء
خلاصہ:
◈ آپ چونکہ اپنے آبائی مقام (ہارون آباد، بہاولپور) میں سفر کی نیت سے نہیں بلکہ ملکیت و تعلق کے سبب جاتے ہیں، اور وہاں کا قیام عارضی نہیں بلکہ بارہا ہوتا ہے، اس لیے آپ مسافر نہیں۔
◈ لہٰذا، قصر کے بجائے پوری نماز پڑھنا ضروری ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب