بکریوں کے باڑے میں نماز کے 17 دلائل احادیث کی روشنی میں
(ماخذ: فتاویٰ الدین الخالص، جلد 1، صفحہ 320)

بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھنے کا حکم

سوال 

کیا بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھنا جائز ہے، جبکہ وہاں مینگنیاں پڑی ہوں اور بچھانے کے لیے کچھ بھی موجود نہ ہو؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد:

راجح اور درست قول یہی ہے کہ جن جانوروں کا گوشت کھایا جاتا ہے، ان کا گوبر اور مینگنیاں پاک ہیں، اور ان پر نماز پڑھنا جائز ہے۔ اس مسئلہ پر مختلف دلائل درج ذیل ہیں:

دلائل کی تفصیل

حدیث ابو ہریرہؓ

روایت: نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"صلوا في مرابض الغنم ولا تصلوا في أعطان الإبل”
(ترمذی 1/81، حدیث: 348؛ المشکوٰۃ 1/21)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بکریوں کے پیشاب اور مینگنیاں پاک ہیں، اسی لیے وہاں نماز جائز ہے۔ اونٹوں کے باڑے میں نماز سے ممانعت کی وجہ کچھ اور ہے، جیسے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ "الإبل خلق من الشياطين”۔

عملِ رسول ﷺ اور صحابہؓ

روایت: انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھا کرتے تھے، اس وقت جب ابھی مسجد تعمیر نہ ہوئی تھی۔
(بخاری 1/37، 61)
اور یہ بھی منقول نہیں کہ آپ ﷺ نے کچھ بچھایا ہو، یعنی زمین پر براہِ راست نماز پڑھی۔

امام بخاریؒ کا قول اور عملِ صحابہؓ

امام بخاریؒ فرماتے ہیں کہ یہ مسئلہ "اونٹوں اور بکریوں کے پیشاب اور ان کے باڑوں” سے متعلق ہے۔
ابو موسیٰؓ نے ایک مقام پر لید پڑی ہونے کے باوجود نماز پڑھی اور فرمایا:
"(طہارت میں) یہاں اور وہاں کوئی فرق نہیں۔”
(بخاری 1/36؛ فتح الباری 1/267)

حدیث ابن عباسؓ – واقعہ تبوک

روایت: عمر بن خطابؓ نے تبوک کے سفر کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ سخت پیاس کی حالت میں بعض صحابہؓ اونٹ کا گوبر نچوڑ کر اس کا پانی پیتے اور اسے اپنے سینے پر رکھتے۔
(حاکم 1/159)
اگر یہ گوبر نجس ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اس کے استعمال کی اجازت نہ دیتے۔
امام ذہبیؒ نے بھی اس حدیث کی صحت پر اتفاق کیا ہے۔

فقہی اصول

اصل ہر چیز کی طہارت ہے، جب تک نجاست کی دلیل نہ ہو۔ یہاں نجاست پر کوئی دلیل موجود نہیں، لہٰذا یہ چیزیں پاک شمار ہوں گی۔

حدیثِ عرینہ

روایت: نبی ﷺ نے چند افراد کو "اونٹوں کے پیشاب اور دودھ” پینے کی اجازت دی۔
(مسلم 2/57، اصحاب السنن)
اس حدیث میں کوئی تخصیص نہیں، اس لیے یہ پوری امت کے لیے دلیل ہے۔

طواف کا عمل

نبی ﷺ نے اپنی سواری پر مسجد حرام میں طواف کیا، اور ام سلمہؓ کو بھی اس کی اجازت دی۔
(بخاری 1/221، مسلم 1/413)
اگر جانور کا پیشاب و گوبر نجس ہوتا تو یہ مسجد کی ناپاکی کا سبب بنتا، جو کہ قابل قبول نہیں۔

مدینہ میں عام رواج

مدینہ میں اس بات پر عمل تھا کہ گوشت کھانے والے جانوروں کے پیشاب سے کوئی کراہت نہیں سمجھی جاتی۔
(بیہقی 1/252، دار قطنی حدیث: 47، مشکوٰۃ 1/516)
البتہ یہ حدیث ضعیف ہے، جیسا کہ اہل علم نے واضح کیا۔

واقعہ ابن مسعودؓ

روایت: قریش کے مشرکوں نے رسول اللہ ﷺ کے سجدے کی حالت میں اونٹ کی اوجھڑی آپﷺ کی پشت پر رکھی، مگر آپﷺ نے نماز مکمل کی۔
(بخاری 1/37)
اگر یہ نجاست ہوتی، تو نماز باطل ہوتی۔
﴿وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ﴾ (المدثر: 4)

جنوں کے طعام سے متعلق حدیث

روایت: نبی ﷺ نے فرمایا:
"لا تستنجوا بالروث ولا بالعظام فإنها زاد إخوانكم من الجن”
(ترمذی 1/11، نسائی 1/16، مشکوٰۃ 1/42)
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر مینگنیاں نجس ہوتیں تو وہ جنات کی خوراک نہ بنتیں۔

عملی تعامل اور رہنمائی کا فقدان

اگر یہ چیزیں نجس ہوتیں تو نبی ﷺ لازماً بیان کرتے، کیونکہ آپﷺ کا رہن سہن انہی جانوروں کے ساتھ ہوتا، اور صحابہؓ کو بھی اس کا حکم دیا جاتا۔ لیکن کوئی خاص ہدایت منقول نہیں۔

صحابہؓ و تابعین کا عمل

روایت: عبید بن عمیرؓ فرماتے ہیں کہ ان کی بکری ان کی جائے نماز پر مینگنیاں کر دیتی تھی۔
ابو جعفر الباقرؒ اور نافع مولیٰ ابن عمرؒ کے اقوال بھی یہی ہیں کہ اگر کپڑوں یا پگڑی پر اونٹ کا پیشاب لگ جائے تو کوئی حرج نہیں۔

نظافت اور طہارت کا فرق

اگر کسی نے گوبر وغیرہ کو دھویا بھی ہو تو اس کا مطلب نجاست نہیں بلکہ صرف صفائی ہو سکتی ہے، اور نظافت و طہارت میں فرق ہے۔

غلے کا استعمال

گندم و جو وغیرہ جانوروں کے چراگاہوں میں چرنے کے دوران ان پر پیشاب وغیرہ کرتے تھے، لیکن یہ غلہ حلال سمجھا جاتا تھا۔
(امام طحاوی 1/84)
سوائے حسنؒ کے، جنہوں نے کراہت کا اظہار کیا۔

حدیثِ رکس (نجاست)

روایت: ابن مسعودؓ نبی ﷺ کے لیے استنجاء کے لیے دو پتھر اور ایک لید لائے، تو آپ ﷺ نے لید پھینک دی اور فرمایا:
"هذا ركس”
(1/72)
لیکن اس پر کئی جوابات ہیں:
◈ یہ انسانی یا غیر ذبیحہ جانور کی لید ہو سکتی ہے۔
◈ رِکس کا مطلب ہر بار نجاست نہیں، بلکہ مردود یا ناپسندیدہ بھی ہو سکتا ہے۔

ابن مسعودؓ کا عمل

روایت: ابن مسعودؓ نے اونٹ کے گوبر و خون لگنے کے باوجود نماز پڑھی اور وضو نہ کیا۔
(ابن ابی شیبہ 1/392، مصنف عبد الرزاق 1/125، طبرانی کبیر 9/284)

ابو موسیٰ اشعریؓ کا قول

روایت: فرمایا:
"مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ میں اونٹ کو نحر کروں اور اس کے گوبر و خون سے آلودہ ہو جاؤں اور پھر نماز پڑھوں بغیر پانی استعمال کیے۔”
(جعدات 2/887، حدیث: 2503)
اگرچہ اس کی سند پر کچھ کلام ہے، مگر مفہوم واضح ہے۔

خلاصہ

ان تمام دلائل کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جن جانوروں کا گوشت کھایا جاتا ہے (جیسے بکری)، ان کے پیشاب، گوبر اور مینگنیاں پاک ہیں۔ لہٰذا بکریوں کے باڑے میں نماز جائز ہے، چاہے زمین پر مینگنیاں موجود ہوں اور بچھانے کے لیے کچھ نہ ہو۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1