بين السجود کی دعا کا حکم اور اس کی صحت
سوال:
نماز کے دوران "بین السجود” یعنی دو سجدوں کے درمیان پڑھی جانے والی مشہور دعا "اللهم اغفرلي وارحمني واهدني وعافني وارزقني” کے بارے میں دریافت کیا گیا ہے کہ کیا واقعی یہ روایت ضعیف ہے، جیسا کہ "القول المقبول” کے محقق جناب عبدالرؤف صاحب نے فرمایا ہے؟
(سائل: تنویر سلفی، ضلع ایبٹ آباد)
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
روایت کی سند کا تجزیہ:
◈ مذکورہ دعا کی جو روایت ہے، اس کی سند میں "حبیب بن ابی ثابت” کی تدلیس کی وجہ سے محدثین کے نزدیک یہ ضعیف شمار کی گئی ہے۔
صحیح مسلم کی شہادت:
تاہم، یہ کلمات ایک اور مقام پر صحیح مسلم میں روایت ہوئے ہیں، جو کہ اس دعا کے عمومی مفہوم کو تقویت دیتے ہیں:
صحیح مسلم، کتاب الذکر والدعاء، حدیث (2698):
"َانَ الرَّجُلُ إِذَا أَسْلَمَ، عَلَّمَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ، ثُمَّ أَمَرَهُ أَنْ يَدْعُوَ بِهَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ: «اللهُمَّ اغْفِرْ لِي، وَارْحَمْنِي، وَاهْدِنِي، وَعَافِنِي وَارْزُقْنِي»”
یعنی جب کوئی آدمی اسلام قبول کرتا، تو رسول اللہ ﷺ اُسے نماز سکھاتے، اور اسے یہ کلمات پڑھنے کی ہدایت فرماتے:
"اللهم اغفرلي وارحمني واهدني وعافني وارزقني”
روایت کا حکم:
◈ اگرچہ "حبیب بن ابی ثابت” کی روایت ضعیف ہے، لیکن صحیح مسلم کی روایت اس کے عمومی مفہوم کی تائید کرتی ہے۔
◈ اس تائید (شاہد) کی وجہ سے "حبیب” والی روایت کو "حسن” کا درجہ دیا جا سکتا ہے۔
افضل اور صحیح ترین دعا:
تاہم، دو سجدوں کے درمیان جو دعا سند کے اعتبار سے سب سے صحیح ہے، وہ درج ذیل ہے:
"رَبِّ اغْفِرْ لِي، رَبِّ اغْفِرْ لِي”
یہ دعا سنن ابی داؤد، حدیث: 874 میں وارد ہے اور اس کی سند صحیح ہے:
(دیکھئے: سنن ابی داؤد:874، وسندہ صحیح)
نتیجہ:
◈ "اللهم اغفرلي وارحمني واهدني وعافني وارزقني” دعا اپنی اصل روایت میں ضعیف ہے، لیکن صحیح مسلم کی روایت اس کے مفہوم کی تائید کرتی ہے۔
◈ اس بنا پر اسے حسن درجہ دیا جا سکتا ہے۔
◈ تاہم، افضل اور سند کے لحاظ سے زیادہ مضبوط دعا "رَبِّ اغْفِرْ لِي، رَبِّ اغْفِرْ لِي” ہے، اور اسی پر عمل کرنا زیادہ بہتر ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب