بنک سے قرضہ لینے کا حکم

تحریر : فتاویٰ سعودی فتویٰ کمیٹی

158- رہن لینے والے کاگروی میں رکھی گئی چیز سے فائدہ اٹھانا
اگر رہن ایسی چیز ہو جو کسی اہتمام اور خرچ کی محتاج نہ ہو، جیسے کوئی سامان، زمین، گھر وغیرہ، اور یہ اس ادھار کے بدلے نہ رکھی گئی ہو جو بطور قرض لیا تھا (بلکہ کسی دوسرے معاملے کے بدلے میں رکھی گئی ہو) تو ایسی صورت میں رہن لینے والے کے لیے گروی رکھوانے والے کی اجازت کے بغیر اس میں کھیتی کر کے یا اسے کرائے پر دے کر اس سے فائدہ اٹھاناجائز نہیں، کیونکہ یہ اس کی ملکیت ہے، لہٰذا اس میں ہونے والی نشوونما بھی راہن (گروی رکھوانے والے) کا حق ہے، اگر راہن مرتہن (رہن لینے والے) کو اس زمین سے فائدہ اٹھانے کی اجازت دے دے اور یہ قرض اس ادھار کے بدلے نہ ہو جو اس نے اس سے بطور قرض لیا تھا تو مرتہن کے لیے اس سے فائدہ اٹھاتا، جب تک یہ اسے ادا کرنے میں تاخیر کرنے کی مدت کے مقابل نہ ہو، جائز ہے، خواہ یہ کسی عوض کے بغیر ہی ہو، اگر وہ اس مدت کے مقابلے میں اس سے فائدہ اٹھا رہا ہو جو تاخیر اس سے ہو رہی ہے تو پھر مرتہن کے لیے اس سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں۔
اگر یہ رہن میں رکھی گئی زمین اس ادھار کے بدلے ہو جو بطور قرض لیا تھا تو پھر مرتہن کے لیے مطلقا اس سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں کیونکہ یہ وہ قرض ہے۔ جو اپنے ساتھ فائدہ بھی لاتا ہے اور ہر وہ قرض جو فائدہ بھی لائے، اہل علم کے اجماع اور اتفاق کے ساتھ سود ہے۔
[اللجنة الدائمة: 20244]
——————

159- زمین کے مقابلے میں رہن سے فائدہ اٹھانا
جس نے کسی کو کوئی قرض دیا تو اس کے لیے قرض لینے والے پر یہ شرط عائد کرنا جائز نہیں کہ وہ قرض کے مقابلے میں نفع لے گا، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”ہر وہ قرض جو فائدہ لائے، سود ہوتا ہے۔“ [ضعيف۔ ضعيف الجامع، رقم الحديث 4244]

علماء کرام کا اس پر اجماع ہے۔ سوال میں جو یہ ذکر کیا گیا ہے کہ قرض دینے والا مقروض سے زمین بطور گروی رکھ لیتا ہے اور جب تک وہ قرض ادا نہیں کرتا وہ اس سے فائدہ اٹھاتا رہتا ہے، یہ بھی اس قسم میں داخل ہے، اسی طرح اگر اس کے ذمے اس کا قرض ہوتا تو قرض دینے والے کے لیے جائز نہیں کہ وہ مقروض کو مہلت دینے کے بدلے زمین کا غلہ لے یا اس سے فائدہ اٹھائے کیونکہ رہن کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ قرض یا ادھار لینے کو دستاویزاتی شکل دی جائے اور قرض ملنے کی یقین دہانی ہو جائے نہ کہ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ قرض کے بدلے میں یا قرض ادا کرنے میں سستی کے مقابلے میں اس سے فائدہ اٹھایا جائے۔
[اللجنة الدائمة: 17393]
——————

160- رہن میں زیادہ کرنا
سوال: کیا رہن میں زیادہ کرنا جائز ہے، مثلاً جب کوئی شخص کسی سے بطور قرض کوئی رقم لیتا ہے تو قرض دینے والا قرض سے زیادہ رہن کا مطالبہ کرتا ہے، اس صورت کا کیا حکم ہے؟
جواب: اس میں کوئی حرج نہیں يعنی قرض دینے والے پر کوئی حرج نہیں کہ وہ قرض لینے والے سے ایسی چیز بطور رہن رکھوانے کا مطالبہ کر لے، جس کی قیمت قرض سے زیادہ ہو، مثلاً: اگر اس نے اسے دس ہزار روپے ادھار دیے اور اس سے ایسی چیز بطور گروی رکھنے کا مطالبہ کیا جس کی قیمت بيس ہزار یا اس سے زیادہ تھی تو اس میں کوئی حرج نہیں، اسی طرح وہ قرض سے کم قیمت کی چیز بھی بطور گروی لینے کا کہہ سکتا ہے، مثال کے طور پر اس نے اس کو دس ہزار قرض دیے اور پانچ ہزار کے برابر کوئی چیز بطور گروی لینے کا اظہار کیا۔
[ابن عثيمين: نور على الدرب: 1/236]
——————

161- کھجور انگور وغیرہ پهل آور مال بطور گروی رکھنے کا حکم
کھجور، انگور وغیرہ کی طرح کا کوئی پهلدار مال اور پھل بطور گروی رکھنے میں کوئی حرج نہیں، وہ مالک يعنی راہن ہی کا ہوگا، مرتہن کے لیے اسے لینا جائز نہیں، الا یہ کہ وہ ادھار میں شمار کر کے اس سے منہا کر دے لیکن پھل لینا، جبکہ قرض ابھی تک موجود ہو، حرام اور سود ہے۔ اسی طرح اگر اس نے کوئی زمین بطور گروی رکھوائی تو مرتہن کے لیے اس کی اجرت لینا جائز نہیں، الا یہ کہ وہ ادھار میں کاٹ لے، صحابہ کرام کی ایک جماعت سے مروی ہے، وہ مقروض کو مہلت دینے کے بدلے کوئی چیز لینے سے منع کرتے اور اسے سود میں شمار کرتے، لیکن اگر وہ قرض ادا کرتے وقت یا اس کے بعد اسے کوئی چیز زیادہ دے دے، تو اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
”بلاشبہ لوگوں میں سے بہترین وہ ہیں جو خوب تر انداز میں ادا کرتے ہیں۔“ [سنن أبى داود، رقم الحديث 3346]
[ابن باز: مجموع الفتاوي و المقالات: 310/19]
——————

162- جس کے پاس کوئی چیز گروی رکھی ہو، اسے اسي کے ہاتھ بيچ دینا
اس میں کوئی امر مانع نہیں، مرتہن نے گروی رکھی گئی چیز اپنے قرض پر بطور وثیقہ اپنے پاس رکھی تھی، جب قرض ادا کرنے کا وقت آجائے اور وہ چیز اسی کے پاس ہو اور راہن قرض ادا نہ کرے تو اس کے لیے وہ چیز بيچ کر اپنا قرض لے لیناجائز ہے، راهن وہ چیز مرتہن کو بھی بيچ سکتا ہے اور کسی دوسرے کو بھی، پهر مرتہن کا حق اسے دے دے۔
[ابن جبرين: 14/7]
——————

163- مملکت کے پاس رہن میں رکھے گئے مال میں تصرف کرنا
اگر کوئی چیز ملک کے لیے یا کسی دوسرے کے لیے گروی میں رکھی گئی ہو تو تمہارے لیے مرتہن کی اجازت کے بغیر اس میں تصرف کرنا جائز نہیں کیونکہ اس کے ساتھ اس کا حق وابستہ ہے، لہٰذا تمہارے لیے مرتہن کی اجازت کے بغیر اس میں تصرف کرنا جائز نہیں، چاہے وہ مرتہن ملک ہو یا ملک کے علاوہ کوئی اور اتھارٹی ہو۔
[ابن باز: مجموع الفتاوي و المقالات: 310/19]
——————

164- قرض میں شرط
سوال: ایک آدمی نے کسی آدمی سے کوئی مال بطور قرض لیا، لیکن قرض دینے والے نے یہ شرط لگائی کہ قرض لینے والا اس کے بدلے اسے زرعی زمین کا ایک رقبہ بطور رہن دے، وہ اس میں فصل اگائے گا، اور اس کا سارا غلہ یا آدھا خود رکھ لے گا اور آدھا اسے دے دے گا تاآنکہ مقروض وہ سارا مال اسی طرح واپس کر دے جس طرح اس نے اسے دیا تھا، پھر قرض دینے والا وہ زمین اسے واپس لوٹا دے گا۔ اس مشروط قرض کے متعلق شریعت کا کیا حکم ہے؟
جواب: قرض کا مقصد قرض لینے والے پر نرمی اور احسان کرنا ہے اور یہ چیز اللہ تعالیٰ کو مطلو ب اور اس کی پسندیدہ ہے، کیونکہ یہ اس کے بندوں پر احسان ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
«وَأَحْسِنُوا ۛ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ» [البقرة: 195]
”اور نیکی کرو، بے شک اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔“
یہ احسان اور نر می قرض دینے والے کے لیے جائز، بلکہ مستحب ہے اور
قرض لینے والے کے لیے جائز اور حلال، نبی صلى اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے ایک اونٹ ادھار لیا اور اس کو اس سے بہتر لوٹایا۔ [صحيح مسلم 1600/118]
جب یہ عقد یعنی قرض، عقود ارفاق اور احسان سے ہے تو اسے عقد معاوضہ اور منافع (دنیوی مادی منافع) میں تبدیل کرنا جائز نہیں کیونکہ اس طرح یہ عقد ارفاق اور احسان سے نکل کر بیع اور معاوضات کے باب میں داخل ہو جائے گا، اس لیے آپ اس معاملے میں واضح فرق محسوس کریں گے کہ ایک نے آدمی دوسرے سے کہا: میں نے تجھے یہ دینار دوسرے دینار کے بدلے ایک سال کی مدت تک ادھار بيچا، یا میں نے تجھے اس دینار کے بدلے یہ دینار بیچا، اور وہ دونوں ایک دوسرے کو دینے سے پہلے ہی جدا جدا ہو گئے، ان دونوں صورتوں میں بيع حرام ہوگی اور یہ سود ہوگا، لیکن اگر اس نے اس کو ایک دینار بطور قرض دیا اور دوسرے نے ایک مہینے یا ایک سال بعد وہ واپس کر دیا تو یہ جائز ہوگا حالانکہ قرض دینے والے نے اس کا عوض ایک سال بعد لیا کیونکہ یہاں ارفاق اور نرمی کا پہلو موجود ہے، اس بنیاد پر قرض دینے والا اگر قرض لینے والے پر کسی مادی منفعت کی شرط لگاتا ہے تو وہ قرض کے ساتھ اس کے اصلی موضوع سے، جو نرمی ہے، نکل جاتا ہے اور اس کا یہ قرض دینا حرام ہوگا۔ اہل علم کے ہاں ایک مشہور قاعدہ ہے: ”ہر وہ قرض جو فائدہ لاتا ہے، وہ سود ہے۔“
بنا بریں قرض دینے والے کے لیے قرض لینے والے پر یہ شرط عائد کرنا جائز نہیں کہ وہ اسے زمین دے اور وہ اس میں کھیتی کرے، چاہے وہ قرض دار کو اس سے حصہ بھی کیوں نہ دے کیونکہ اس نے مقروض سے فائدہ لیا ہے اور قرض اپنے اصلی موضوع، ارفاق اور احسان سے نکل چکا ہے۔
[ابن عثيمين: نور على الدرب: 7/236]
——————

قرض کے احکام
قرض: قرض سے مراد ہر وہ رقم ہے جو کسی دوسرے کو اس ذمے داری پر دی جائے کہ وہ مقررہ وقت کے بعد اسے واپس کر دے گا، قرض اگر ضائع ہو جائے تب بھی واجب الادا ہی رہتا ہے۔
——————

165- قرض کا حکم
قرض عام لوگوں کے ہاں ادھار پیسے دینے کا نام ہے، یہ سنت ہے اور باعث اجر۔ یہ اس آیت قرآنی «وَأَحْسِنُوا ۛ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ» [البقرة: 195]
(اور نیکی کرو، بے شک اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے) کے عموم میں داخل ہے۔ بعض اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی قرض مانگ لیا کرتے تھے۔ یہ قرض لینے والے کے لیے مباح ہے اور قرض دینے والے کے لیے سنت، لیکن قرض دینے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ بعد میں قرض دار کو احسان جتلا کر تکلیف نہ دے۔ مثلاً کہے: میں نے تیرے ساتھ احسان کرتے ہوئے تجھے قرض دیا اور تم مجھے اس کا اچھا بدلہ دے رہے ہو !
ارشاد ربانی ہے:
«يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُم بِالْمَنِّ وَالْأَذَىٰ» [البقرة: 264]
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اپنے صدقے احسان رکھنے اور تکلیف پہنچانے سے برباد مت کرو۔“
جہاں تک قرض لکھنے کا معاملہ ہے تو اگر قرض، قرض دینے والے کے اپنے مال سے ہو تو پھر اس آیت:
«يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوهُ» [البقرة: 282] کے عموم کے تحت اسے لکھ لینا بہتر ہے تا ہم لکھنا ترک بھی کیا جاسکتا ہے، خصوصاً جب وہ ایک عام اور معمولی چیزیں ہوں جن کی لوگوں کی نظر میں کوئی اتنی اہمیت نہیں ہوتی اور وہ انہیں نہیں لکھتے۔ اگر وہ کسی دوسرے کے مال سے قرض دے رہا ہو، مثلاً اس کے پاس کی یتیم کا مال ہو اور وہ اس کا نگران اور سرپرست ہو، پھر کسی مصلحت کے تحت اس کے مال سے کسی کو قرض دینا پڑ جائے تو پھر اس کے لیے اسے لکھنا ضروری ہوتا ہے کیونکہ یہ لکھنا اس یتیم کے مال کی حفاظت کا ضامن ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
«وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّىٰ يَبْلُغَ أَشُدَّهُ» [الأنعام: 152]
”اور یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ، مگر اس طریقے سے جو سب سے اچھا ہو، یہاں تک کہ وہ اپنی پختگی کو پہنچ جائے۔“
[ابن عثيمين: نور على الدرب: 1/244]
——————

166- دین، قرض اور سلم میں فرق
فقہا کی اصطلاح میں دین سے مراد ہر وہ چیز ہے جو کسی کے ذمے ثابت ہو، خواہ وہ قرض کی صورت میں ہو، کسی چیز کی قیمت ہو یا کوئی کرایہ جسے کسی نے ادا نہ کیا ہو، یا کوئی اور صورت ہو، بہر کیف ہر وہ چیز جو کسی کے ذمے ثابت اور واجب الادا ہو، وہ اہل علم کے ہاں دین ہے، اس بنا پر قرض اور سلم دین کی دو اقسام ہیں۔
عام لوگوں کے ہاں دین سے مراد یہ ہے کہ کوئی سامان نقد قیمت سے زیادہ قیمت پر ادھار بیچنا، تاکہ خریدار اسے بیچ کر اس کی قیمت سے فائدہ اٹھا سکے، عام لوگوں کے ہاں یہ دین ہے لیکن شریعت اور علما کی نگاہ میں دین سے مراد ہر وہ چیز ہے جو کسی چیز کی قیمت کی وجہ سے، ادھار پیسے لینے کی وجہ سے، یا پھر سلم وغیرہ کی وجہ سے کسی کے ذمے ثابت اور واجب الادا ہو۔
[ابن عثيمين: نور على الدرب: 27/15]
——————

167- آدھا منافع لینے کی شرط پر مال قرض دینے کا حکم
کوئی آدمی کسی سے آدھے منافع کی شرط پر تجارت کی غرض سے مال ادھار لے، یہ حرام اور ناجائز ہے، کیونکہ علما کے ہاں یہ قاعدہ ہے کہ ہر وہ قرض جو فائدہ لائے وہ سود ہے لیکن اس سے بہتر ہے کہ بندہ کہے: یہ مال لو، اس کے ساتھ تجارت کرو، اور آدھا منافع تیرا۔ اگر کہنے والا کہے۔ اس میں اور اس میں کیا فرق ہے؟
اس نے اس کو دس ہزار روپے بطور قرض دیے اور کہا: یہ دس ہزار قرض اس شرط پر ہے کہ آدھا منافع میرا ہوگا۔ جواب یہ ہے کہ یہ حرام ہے کیونکہ اس قرض نے فائدہ دیا ہے، لیکن اگر کہے: یہ دس ہزار لو، ان کے ساتھ تجارت کرو اور آدھا نفع تیرا۔ یہ حلال ہے۔ ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ قرض میں اگر نقصان ہو جائے تو وہ مقروض کو برداشت کرنا پڑے گا کیونکہ اس نے دس ہزار قرض لیے اور اس کے ذمے دس ہزار ثابت اور واجب الادا ہو گئے، لیکن مضاربت کے مسئلے میں جب کہے: یہ دس ہزار لے، ان کے ساتھ تجارت کر اور آدھا نفع تمھارا، اگر اس کو مال میں خسارہ ہو جائے یا مال تلف ہو جائے تو یہ اس مضارب (رب المال) کا نقصان ہوگا جس نے مال دیا تھا۔
پہلی صورت میں اگر نقصان ہو جائے تو اس نقصان کا ذمے دار قرض لینے والا ہی ہوگا اور اسے دس ہزار ادا کرنے ہوں گے، جبکہ مضاربت کی صورت میں اگر نقصان ہو جائے یا مال تلف ہو جائے تو یہ نقصان مال کے مالک ہی کو برداشت کرنا پڑے گا، (جبکہ کام کرنے والے کی محنت ضائع ہو گی) یہ ہے ان دونوں کے درمیان واضح فرق۔
[ابن عثيمين: لقاء الباب المفتوح: 9/169]
——————

168- قرض دار کی تنگدستی کی وجہ سے قرض کو زکوۃ سمجھ لینے کا حکم
یہ جائز نہیں کہ انسان فقیر سے قرض ساقط کر کے اسے زکاۃ میں شمار کر لے کیونکہ فرمان خداوندی ہے:
«وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِآخِذِيهِ إِلَّا أَن تُغْمِضُوا فِيهِ» [البقرة: 267]
”اور اس میں گندی چیز کا ارادہ نہ کرو، جسے تم خرچ کرتے ہو، حالانکہ تم اسے کسی صورت لینے والے نہیں، مگر یہ کہ اس کے بارے میں آنکھیں بند کر لو۔“
ایسے ہی میت کا قرض بھی زکاۃ سے ادا کرنا جائز نہیں۔
[ابن عثيمين: لقاء الباب المفتوح: 17/188]
——————

169- ہر وہ قرض جو نفع لائے سود ہے
سوال: کسی کو اس شرط پر قرض دینے کا کیا حکم ہے کہ وہ اس کو متعین مدت میں قرض واپس کر دے، پھر اس کو بھی اتنی ہی مقدار اور اتنی ہی مدت کے لیے قرض دے۔ کیا یہ اس حدیث میں داخل ہے کہ ”ہر وہ قرض جونف لائے سود ہے۔“ یہ ذہن میں رہے کہ زیادہ طلب کرنے کی شرط نہیں لگائی گئی۔
جواب: یہ قرض جائز نہیں کیونکہ یہ معاملہ قرض دینے والے کو اتنا ہی قرض دینے کی شرط پر مشتمل ہے جو ایک بیع میں دو بیعوں کے حکم میں ہے، نیز اس میں محض قرض کی بنیاد پر ایک زائد فائدہ لینے کی شرط بھی ہے کہ وہ بھی اس کو اتنا ہی قرض دے۔ علما کا اجماع ہے کہ ہر وہ قرض جو زائد فائدے کو متضمن ہو یا اس پر اتفاق کر لیا جائے وہ سود ہے۔
تاہم یہ حدیث: ”ہر وہ قرض جو نفع لائے وہ سود ہے۔“ ضعیف ہے۔ لیکن صحابہ کرام کی ایک جماعت سے اس حدیث کے معنی پر دلالت کرنے والے اقوال ملتے ہیں۔
[ابن باز: مجموع الفتاوي و المقالات: 294/19]
——————

170- ریال قرض لینے کی صورت میں ان کے برابر ڈالر واپس کرنے کا حکم
اگر یہ شرط لگا کر معاملہ ہو تو پھر جائز نہیں، کیونکہ یہ نقد کی نقد کے ساتھ بیعع ہے، اس میں ادھار جائز نہیں، لیکن اگر کسی نے کسی کو سعودی ریال، مصری یا آسٹریلوی پونڈ قرض دیے ہوں، پھر مقروض نے قرض ادا کرتے وقت باہمی رضا مندی کے ساتھ ان کے بدلے نقد ڈالرز دے دیے، تو اس میں کوئی حرج نہیں، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ لوگوں نے شکایت کی کہ لوگ دیناروں کے ساتھ بیع کرتے ہیں اور درہم لیتے ہیں، درہموں کے ساتھ بیع کرتے ہیں اور دینار لیتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”اگر تم اس دن کے ریٹ کے مطابق لو اور جب تم جدا ہو تو تمہارے درمیان کوئی (تصفیہ طلب) معاملہ نہ ہو تو کوئی حرج نہیں۔“ [ضعيف۔ سنن أبى داود، رقم الحديث 3354]
مثال کے طور پر اگر کوئی انسان ہزار ریال قرضہ لے، پھر ادا کرنے کے وقت دونوں متفق ہوں کہ قرض دار ہزار ریالوں کے بدلے ڈالر یا کویتی یا اردنی دینار یا آسٹریلوی پونڈ یا اس جیسی کوئی بھی کرنسی دے دے، تو اس میں کوئی حرج نہیں اگر با ہم اس پر متفق ہوں اور نقد بہ نقد لے لیں۔
[ابن بار مجموع الفتاوي و المقالات: 208/19]
——————

171- قرض دے کر کمائی کرنا
سوال: ایسے شخص کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے جو اپنے بھائی کو اس شرط پر غیر محدود مدت کے لیے قرض دیتا ہے کہ جو سامان وہ فروخت کرے گا، اس سے اسے روزانہ سو ریال یا اس سے کم یا زیادہ دے گا؟
جواب: یہ شرط فاسد ہے، قرض دینے والے کے لیے جائز نہیں کہ وہ قرض دے کر اس قرض سے کوئی چیز کمائے، خواہ وہ کوئی مال ہو، کوئی چیز ہو، کوئی فائدہ ہو یا کرایہ، کوئی چیز بھی جائز نہیں، کیونکہ قرض صرف احسان ہے، اگر اس میں معاوضہ یا اضافہ داخل ہو جائے تو یہ بیع اور سود ہوگا، مثلاً اگر میں تجھ کو دس ریال بطور قرض دوں تو وہ دس ریال تمہارے ذمے ثابت اور واجب الادا ہو جائیں گے، جب تمہارے لیے آسانی ہوگی، تم مجھے وہ دس ریال دے دو گے۔ لیکن اگر یہ بیع ہوئی تو درست نہیں ہوگی، مثلاً اس نے کہا: میں تجھے دس ریال کے بدلے دس ریال فروخت کرتا ہوں یہاں یاد رہے کہ اگر ایک نے دوسرے کو (مجلس عقد میں) پکڑائے نہیں تو یہ بیع فاسد ہوگی۔
یہاں یاد رہے کہ قرض دینا احسان کرنا ہے اور احسان ہی مطلو ب ہے۔ اس احسان کا یہ فائدہ سود خوروں کی خواہش کے عکس ہے، شریعت نے یہ جائز قرار دیا ہے کہ تو دس روپے ادھار دے اور وہ دس ہی تجھے واپس کرے گا، لیکن جب تم نے یہ شرط عائد کر دی کہ وہ اس کے بدلے بارہ دے گا، یہ معاوضہ ہو جائے گا اور بیوع کے باب میں داخل ہوگا، اس طرح یہ سود ہو جائے گا، اس لیے اس کے متعلق علما نے ایک بڑا مفید قاعدہ درج کیا ہے کہ ”ہر وہ قرض جو کوئی فائدہ لائے وہ سود ہے۔“
[ابن باز مجموع الفتاوي و المقالات: 9/244]
——————

172- بنک سے قرضہ لینے کا حکم
اگر بنک سے شری طریقے کے مطابق قرضہ لیا جائے، جیسے جتنا قرض لیا تھا اتنا ہی واپس کیا جائے اور کوئی اضافہ نہ ہو، یا بنک سے کوئی چیز معینہ مدت کے لیے ادھار خریدی جائے، چاہے اس کی قیمت نقد سے زیادہ ہی ہو، اس میں کوئی حرج نہیں۔
لیکن اگر بنک سے سودی قرضہ لیا جائے تو یہ جائز نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب مقدس اور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین میں اسے حرام قرار دیا ہے، اس کے متعلق اتنی شدید وعید آئی ہے جو مردار کھانے میں بھی نہیں۔ ارشاد ربانی ہے:
«الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ» [البقرة: 275]
”وہ لوگ جو سود کھاتے ہیں، کھڑے نہیں ہوں گے مگر جیسے وہ شخص کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان نے چھو کر خبطی بنا دیا ہو۔“
علمائے تفسیر اس کا معنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ سود خور روز قیامت اپنی قبر سے دیوانے کی طرح اٹھے گا۔
پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
«ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا ۗ وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ۚ فَمَن جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّهِ فَانتَهَىٰ فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَمَنْ عَادَ فَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ‎ ﴿٢٧٥﴾ ‏ يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ» [البقرة: 275,276]
یہ اس لیے کہ انہوں نے کہا: بیع تو سود ہی کی طرح ہے، حالانکہ اللہ نے بیع کو حلال کیا اور سود کو حرام کیا۔ پھر جس کے پاس اس کے رب کی طرف سے کوئی نصیحت آئے، پس وہ باز آجائے تو جو پہلے ہو چکا وہ اسی کا ہے اور اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے اور جو دوبارہ ایسا کرے تو وہی آگ والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے، کھلانے، لکھنے اور اس کے دو گواہوں پر لعنت فرمائی ہے، پھر فرمایا کہ وہ سب برابر ہیں۔ [صحيح مسلم 1598/106]
سود کی حر مت اور وعید کے متعلق آیات اور احادیث بہت زیادہ اور مشہور ہیں محتاج کو اگر کوئی قرض نہ دے یا اسے ادھار نہ بیچے تو وہ اس مجبور کے حکم میں نہیں جس کے لیے مردار یا سود حلال ہو جاتا ہے کیونکہ محتاج کے لیے اپنے ہاتھ سے کام کرنا ممکن ہے، لہٰذا وہ کام کر کے اپنی ضرورت پوری کر سکتا ہے یا پھر کہیں دوسری جگہ چلا جائے جہاں کوئی اسے قرض دے دے یا ادھار بیچ دے۔
مضطر اور مجبور اس کو کہتے ہیں جو بھوک کی شدت میں مبتلا ہو اور اپنی سانسیں بحال رکھنے کے لیے کچھ کمانے پر قادر نہ ہو، ایسی کیفیت میں اگر وہ مردار وغیرہ نہ کھائے تو اس کے مرنے کا خدشہ ہے۔
یہ لوگ جو بنکوں کے ساتھ سودی لین دین کرتے ہیں، ان کی حاجت اس ضرورت کے حکم میں نہیں آتی جس میں مردار وغیرہ کھانا جائز ہو جاتا ہے۔ اکثر لوگوں کے لیے سود کا معاملہ اتنا معمولی اور آسان ہے کہ وہ کھلم کھلا اس کا لین دین کرتے ہیں، اس کا فتوی بھی دیتے ہیں اور چھوٹے چھوٹے شبہات ان کی نگاہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے، اس کا سبب قلت علم، ضعف ایمان اور حب مال کے سوا کچھ نہیں، اللہ تعالیٰ ایسے کاموں سے محفوظ رکھے جو اس کے غضب کو دعوت دیتے ہیں۔ تاہم جس قدر ممکن ہو بنک کے ساتھ لین دین کرنے اور اس سے قرضہ لینے سے احتراز برتنا چاہے، خواہ یہ شرعی طریقہ کے مطابق ہی کیوں نہ ہو جس کا ذکر ہوا ہے۔ یہی محتاط اور بہتر رویہ ہے، کیونکہ بنکوں کے مال عموماً حرام سے خالی نہیں ہوتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
”جو شبہات سے بچ گیا اس نے اپنا دین اور عزت بچالی۔“ [سنن ابي داود، رقم الحديث 3330]
[ابن باز: مجموع الفتاوي و المقالات: 302/19]
——————

173- سونا قرض لینے کا حکم
کلو کے حساب سے یا نقد (سونے کے سکے) کے ساتھ سونا قرض دینا جائز ہے، اور وہ تمہیں پنڈز وغیرہ گن کر اور دیگر سونے کے ٹکڑے وغیرہ اگر ہوں تو جس قدر اس نے لیا تھا اس کے وزن کے برابر واپس کرے گا اور اس میں ان شاء اللہ کوئی قابل ممانعت چیز نہیں، مسلمانوں کے درمیان تعاون کرنا مطلو ب ہے تمہارے لیے صرف وہی سونا ہوگا جو تم نے قرض دیا تھا، چاہے اس کی قیمت بڑھ گئی ہو یا کم ہو گئی ہو۔
[اللجنة الدائمة: 2730]
——————

174- اچھے مقاصد کے لیے سودی قرض لینے کا حکم
اگر قرض سودی منافع کے ساتھ لیا جائے تو یہ سلف صالحین کے اجماع کے ساتھ نا جائز ہے کیونکہ کتاب وسنت کے دلائل اس کی حرمت پر دلالت کرتے ہیں، خواہ اس کا مقصد نیک اور اعلی ہی کیوں نہ ہو۔ نیک مقاصد حرام وسائل کو جائز قرار دے سکتے ہیں، نہ انہیں حلال ہی کر سکتے ہیں، تاہم اگر سودی فائدے کے بغیر قرض لیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں، اور اگر ممکن ہو تو ایسے لوگوں سے قرض لینا چاہیے جن کے اموال سود کی الائش سے پاک ہوں، یہی بہتر اور محتاط عمل ہے۔
[ابن باز مجموع الفتاوي و المقالات: 284/19]
——————

یہ تحریر اب تک 4 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

Leave a Reply