بدعت اور بدعتی کے پیچھے نماز کا حکم
سوال:
بدعت گمراہی ہے اور اس سے بچنا ضروری ہے۔ ایسے افراد جو بدعتوں میں مبتلا ہوں، ان کی صحبت سے بھی اس وقت تک دور رہنا چاہیے جب تک وہ بدعات کو ترک نہ کر دیں۔
جامع ترمذی میں مجاہد سے روایت ہے کہ:
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ایک مسجد میں تشریف لائے جہاں اذان دی جا چکی تھی۔ مؤذن نے تثویب کہی۔ (یہاں تثویب سے مراد وہ طریقہ ہے جو بدعتی لوگوں نے ایجاد کیا کہ اذان کے بعد جب لوگ تاخیر کرتے ہیں تو دوبارہ ندا دی جاتی ہے جیسے "الصلوۃ الصلوۃ” یا اقامت کے وقت "آؤ نماز کی طرف” جیسے جملے کہے جاتے ہیں)۔
یہ ایک نیا طریقہ ہے جو رائج کر لیا گیا ہے۔ بعض مساجد میں دیکھا گیا ہے کہ اذان کے بعد مؤذن دوبارہ کہتا ہے: "اے اللہ کے بندو! مسجد میں آؤ، نماز پڑھو، وقت کم ہے، بھلائی کی طرف آؤ۔” یا پھر اذان سے پہلے درود شریف پڑھتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔
عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اس موقع پر فرمایا:
"ہمیں اس بدعتی کے پاس سے نکال لے چل۔”
اور وہاں نماز ادا نہیں کی۔
(جامع ترمذی، ابواب الصلوۃ، باب ما جاء فی التثویب فی الفجر، ج 1، ص 49-50)
اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ ہر بدعت گمراہی ہے اور اس میں کوئی نور نہیں۔ اس مؤذن کو بدعتی قرار دیا گیا اور اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھی گئی۔ جب یہ حال مؤذن کا ہے تو اگر امام بدعتی ہو تو اس کا کیا حال ہوگا؟
یاد رہے کہ تثویب کا حکم صرف نماز فجر کی اذان میں ہے یعنی "اَلصَّلاَۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ”۔
سوالات:
➊ کیا بدعتی امام کے پیچھے نماز ہو جاتی ہے یا اس سے اجتناب کرنا بہتر ہے؟
➋ مذکورہ بالا حدیث کی وضاحت درکار ہے کہ مؤذن نے کون سی نماز میں کون سی بدعت کی تھی جس کا یہ حوالہ ہے؟
➌ ایک حدیث میں آیا ہے کہ ہر مسلمان کے پیچھے نماز واجب ہے خواہ وہ فاسق ہو یا فاجر، اور ہر امیر کی اطاعت بھی واجب ہے چاہے وہ فاسق ہو یا فاجر۔ تو کیا اس سے یہ مراد ہے کہ فاسق و فاجر (مثلاً بغیر داڑھی والے) کے پیچھے نماز ہو جاتی ہے؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آپ کا مکتوب موصول ہوا، لیکن مکتوب کے آغاز میں نہ "بسم اللہ” لکھی گئی ہے اور نہ ہی مخاطب کو سلام کہا گیا ہے۔ آپ نے تین سوالات کیے ہیں، جن کے جوابات اللہ تعالیٰ کے فضل اور توفیق سے درج ذیل ہیں:
(۱) بدعتی امام کے پیچھے نماز کا حکم:
اگر کسی شخص کی بدعت کفر یا شرک کے درجے میں داخل ہو جائے، تو اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں اور اس سے اجتناب ضروری ہے۔
لیکن اگر وہ بدعت کفر یا شرک کے زمرے میں نہیں آتی، تو ایسے شخص کو مستقل امام نہیں بنایا جا سکتا۔ البتہ اگر کبھی اتفاقاً اس کے پیچھے نماز ہو جائے تو وہ ہو جائے گی۔
(۲) مذکورہ حدیث کی وضاحت:
حدیث میں نماز کا ذکر صراحت سے موجود نہیں کہ کون سی نماز تھی۔ البتہ بدعت کی نوعیت واضح طور پر بیان کی گئی ہے۔ آپ کی بیان کردہ عبارت کے مطابق:
مؤذن نے اذان کے بعد یا اقامت کے وقت "الصلوۃ الصلوۃ” یا "آؤ نماز کی طرف” جیسے الفاظ کہے تھے، جو بدعت شمار ہوتے ہیں۔
(۳) فاسق و فاجر کے پیچھے نماز کا حکم:
روایت "صَلُّوْا خَلْفَ كُلِّ بَرٍّ وَفَاجِرٍ” (یعنی ہر نیک و بد کے پیچھے نماز پڑھو) صحیح روایت نہیں ہے۔
اس بنا پر:
◈ بغیر داڑھی والے کو مستقل امام نہیں بنایا جا سکتا۔
◈ عارضی طور پر اگر اس کے پیچھے نماز پڑھ لی جائے تو ہو جائے گی۔
◈ داڑھی رکھنا اور بڑھانا فرض ہے کیونکہ یہ رسول اللہ ﷺ کا واضح حکم ہے۔
◈ اس امر (داڑھی رکھنے) کو فرض یا واجب کے درجے سے کم کرنے کا کوئی شرعی قرینہ موجود نہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب