باپ کے مال میں بیٹے کا حق: 2 فقہی آراء اور شرعی رہنمائی

سوال

ایک آدمی نے اپنا گھر بنایا، جس میں کچھ رقم اس کے بیٹے نے بھی خرچ کی، اور اپنی بہن کی شادی پر بھی اس بیٹے نے کچھ پیسے لگائے۔ اب وہ بیٹا اپنے والد سے وہ پیسے واپس مانگ رہا ہے جو اس نے گھر اور شادی پر خرچ کیے تھے۔ کیا والد کے ذمہ ان پیسوں کی واپسی واجب ہے؟

جواب از فضیلۃ الشیخ عبداللہ عزام حفظہ اللہ ، فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا:

"میرے والد نے میری دولت ختم کر دی ہے، اس بارے میں کیا حکم ہے؟”
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"أَنتَ وَمَالُكَ لِأَبِيكَ”
”تم اور تمہارا مال دونوں تمہارے والد کے ہیں۔“
(مسند احمد: 2/179، صحیح)

اسی طرح ایک اور فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے:

"إِنَّ أَوْلَادَكُمْ مِنْ أَطْيَبِ كَسْبِكُمْ، فَكُلُوا مِنْ كَسْبِ أَوْلَادِكُمْ”
”تمہاری اولاد تمہاری بہترین کمائی ہے، لہٰذا ان کے مال میں سے کھاؤ۔“

ان احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ والد کو بیٹے کے مال میں ضرورت کے مطابق تصرف کا حق حاصل ہے۔ اگر والدین بیٹے کا مال اپنے کسی ضرورت یا کام کے لیے لے بھی لیں تو:

◈ بیٹے کو نہ والدین سے مقابلہ کرنا چاہیے
◈ نہ ان کے ساتھ سخت کلامی کرنی چاہیے
◈ بلکہ وہ اس وقت کو یاد کرے جب والدین نے اسے محبت سے پالا، نجاستیں صاف کیں، کھلایا پلایا، تعلیم دی اور تربیت کی

یہ تمام احسانات اتنے عظیم ہیں کہ اگر بیٹا اپنی کھال بھی ماں باپ کے لیے دے دے، تب بھی ان کے احسانات کا بدلہ ادا نہیں ہو سکتا۔ بیٹے کو چاہیے کہ وہ یہ سمجھ لے کہ والدین کی رضا میں ہی اس کی نجات ہے۔ اگر والدین ناراض ہوں تو:

◈ دنیا میں ذلت
◈ اور آخرت میں ہلاکت کا سامنا ہو سکتا ہے

تجربات سے بھی یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ:

◈ جن بچوں نے والدین کو راضی رکھا، ان کی زندگی میں برکت اور سکون رہا
◈ اور جنہوں نے والدین کے ساتھ بدسلوکی کی، وہ ہمیشہ غم و افسوس میں مبتلا رہے

لہٰذا اگر ماں باپ بیٹے کا مال لے لیں، تو بیٹے کو چاہیے کہ خوش ہو اور کہے:

"روپیہ تو کیا، میرا جسم اور جان بھی آپ کی ملکیت ہے، آپ چاہیں تو مجھے بازار میں بیچ دیں، میں تو آپ کا غلام ہوں۔”

ایسے میں اگر بیٹا والد سے مال کی واپسی کا مطالبہ کرے تو یہ درست رویہ نہیں۔
واللہ اعلم بالصواب

اس معاملے میں نیت اور ارادہ اہم ہے۔ یعنی بیٹے نے یہ رقم کس نیت سے دی تھی:

➊ اگر یہ رقم باپ کی مدد اور اعانت کے طور پر دی گئی تھی:
تو یہ تحفہ شمار ہوگا، اور بیٹے نے بڑائی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس صورت میں واپسی کا مطالبہ درست نہیں۔

➋ اگر یہ رقم قرض کے طور پر دی گئی تھی:
تو بیٹے کو اس کی واپسی کا حق حاصل ہے، اور باپ پر لازم ہے کہ وہ قرض واپس کرے۔

خلاصہ

◈ اگر بیٹے نے رقم بطور تحفہ دی تھی، تو والد کے ذمے واپسی واجب نہیں
◈ اگر بیٹے نے رقم قرض کے طور پر دی تھی، تو والد پر اس کی واپسی لازم ہے

تاہم، اسلامی اخلاقیات کے مطابق، بیٹے کو والد کے ساتھ ادب و احترام کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاملہ کرنا چاہیے، کیونکہ والدین کے مقام و مرتبہ کا تقاضا یہی ہے

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1