بازار میں داخل ہونے کی دعا سے متعلق 2 ضعیف روایات کا تحقیقی جائزہ
ماخوذ : فتاویٰ علمیہ، جلد1، کتاب الدعاء، صفحہ 481

بازار میں داخل ہونے کی دعا کے بارے میں حدیث کا تحقیقی جائزہ

سوال:

بازار میں داخل ہونے کے وقت کی ایک دعا سے متعلق روایت میں آتا ہے کہ جو شخص بازار میں داخل ہو کر یہ دعا پڑھے:

"لااله الا الله وحده لاشريك له، له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير”

تو اس کے لیے:
◈ ایک لاکھ نیکیاں لکھی جاتی ہیں،
◈ ایک لاکھ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔

کیا یہ حدیث صحیح ہے؟
(سائل: خرم ارشاد محمدی، دولت نگر، پنجاب)

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام على رسول الله، أما بعد!

یہ روایت مختلف اسناد سے مروی ہے، جن میں سے دو اہم اسناد کا تفصیلی جائزہ درج ذیل ہے:

🔹 پہلی سند:

ماخذ: کتاب الدعاء للطبرانی
حدیث کا متن:

"حدثنا عبيد بن غنام والحضرمي قالا: ثنا ابوبكر بن ابي شيبة: ثنا ابوخالد الاحمر عن المهاجر بن حبيب قال: سمعت سالم بن عبدالله يقول: سمعت ابن عمر يقول: سمعت عمر رضي الله عنه يقول: سمعت رسول الله صلي الله عليه وسلم يقول:
(من دخل سوقا من الاسواق فقال: لااله الا الله۔۔۔الخ)
(رقم الحديث: 792، 793)

سند کی تحقیق:

ابو خالد الاحمر مدلّس تھے۔
حوالہ: جزء القراءة للبخاری بتحقيقی: ص267
– چونکہ یہ روایت "عن” سے ہے، اور مدلّس راوی کی "عن” والی روایت ضعیف ہوتی ہے۔

ابو خالد الاحمر اور مہاجر بن حبیب کے درمیان ملاقات ثابت نہیں۔
حوالہ: مسند الفاروق لابن کثیر، جلد2، صفحہ642، حدیث فی تضعیف ثواب توحید الله و ذکره
– اس بنا پر یہ روایت منقطع بھی ہے۔

نتیجہ:

یہ سند ضعیف ہے۔ اس کے باوجود شیخ سلیم الہلالی نے اس روایت کو "وهو اسناد حسن لذاته” لکھا ہے۔
حوالہ: عجالۃ الراغب الممتنی، جلد1، صفحہ239، حدیث183
– ضعیف و منقطع روایت کو "حسن لذاته” کہنا یا لکھنا باطل اور مردود ہے۔

🔹 دوسری سند:

ماخذ: المستدرک للحاکم
حدیث کا متن:

"مسروق بن المرزبان: ثنا حفص بن غياث عن هشام بن حسان عن عبدالله بن دينار عن ابن عمر رضي الله عنهما قال قال رسول الله صلی الله عليه وسلم:
من دخل السوق فباع واشتری فقال: لا اله الا الله۔۔۔الخ"
(المستدرک، جلد1، صفحہ539، حدیث1975)

– الحاکم نے کہا: "ھذا اسناد صحیح علی شرط الشیخین ولم یخرجاہ”
– امام ذہبی نے ان کی توثیق کو تعقب کیا ہے۔

سند کی تحقیق:

حفص بن غیاث مدلّس تھے۔
حوالہ: طبقات المدلسین 1/9، طبقات ابن سعد 6/390
– حافظ ابن حجر کا انہیں غیر مدلس کہنا (النکت علی ابن الصلاح 2/637) صحیح نہیں۔

ہشام بن حسان بھی مدلّس تھے۔
حوالہ: طبقات المدلسین 3/110، المرتبہ الثالثہ

– اور یہ روایت بھی "عن” سے ہے، اس لیے ضعیف ہے۔

نتیجہ:

باوجود ضعف کے، شیخ سلیم الہلالی نے اس سند کو بھی "فهذا اسناد حسن لذاته” کہا ہے۔
حوالہ: عجالۃ الراغب الممتنی، جلد1، صفحہ241
– حالانکہ سند واضح طور پر ضعیف ہے۔

🔹 دیگر ضعیف و مردود اسناد:

اس روایت کی دیگر اسناد بھی ضعیف ہیں، مزید تفصیل درج ذیل مصادر میں دیکھی جا سکتی ہے:

العلل الکبیر للترمذی (2/912):
امام بخاری اور امام ابو حاتم الرازی کا تبصرہ:

"ھذا حدیث منکر”

المستدرک للحاکم (1/539)
عجالۃ الراغب الممتنی (1/237–243)
الصحيحہ للالبانی (7/381–391، حدیث3139)
الموسوعۃ الحدیثیہ: مسند الإمام أحمد (1/114، 413)

🔹 فتاویٰ علماء:

علامہ شوکانی (تحفۃ الذاکرین، صفحہ273)
علامہ البانیؒ اور شیخ سلیم الہلالی
– ان علما نے اس روایت کو حسن یا صحیح قرار دیا، لیکن:

✅ درست بات یہی ہے کہ:

یہ روایت اپنی تمام اسناد کے ساتھ ضعیف ہے۔

وما علینا إلا البلاغ (الحدیث:14)

ھذا ما عندی واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1