بازار میں داخل ہونے کی دعا کے بارے میں حدیث کا تحقیقی جائزہ
سوال:
بازار میں داخل ہونے کے وقت کی ایک دعا سے متعلق روایت میں آتا ہے کہ جو شخص بازار میں داخل ہو کر یہ دعا پڑھے:
"لااله الا الله وحده لاشريك له، له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير”
تو اس کے لیے:
◈ ایک لاکھ نیکیاں لکھی جاتی ہیں،
◈ ایک لاکھ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔
کیا یہ حدیث صحیح ہے؟
(سائل: خرم ارشاد محمدی، دولت نگر، پنجاب)
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام على رسول الله، أما بعد!
یہ روایت مختلف اسناد سے مروی ہے، جن میں سے دو اہم اسناد کا تفصیلی جائزہ درج ذیل ہے:
🔹 پہلی سند:
ماخذ: کتاب الدعاء للطبرانی
حدیث کا متن:
"حدثنا عبيد بن غنام والحضرمي قالا: ثنا ابوبكر بن ابي شيبة: ثنا ابوخالد الاحمر عن المهاجر بن حبيب قال: سمعت سالم بن عبدالله يقول: سمعت ابن عمر يقول: سمعت عمر رضي الله عنه يقول: سمعت رسول الله صلي الله عليه وسلم يقول:
(من دخل سوقا من الاسواق فقال: لااله الا الله۔۔۔الخ)
(رقم الحديث: 792، 793)”
سند کی تحقیق:
➊ ابو خالد الاحمر مدلّس تھے۔
حوالہ: جزء القراءة للبخاری بتحقيقی: ص267
– چونکہ یہ روایت "عن” سے ہے، اور مدلّس راوی کی "عن” والی روایت ضعیف ہوتی ہے۔
➋ ابو خالد الاحمر اور مہاجر بن حبیب کے درمیان ملاقات ثابت نہیں۔
حوالہ: مسند الفاروق لابن کثیر، جلد2، صفحہ642، حدیث فی تضعیف ثواب توحید الله و ذکره
– اس بنا پر یہ روایت منقطع بھی ہے۔
نتیجہ:
یہ سند ضعیف ہے۔ اس کے باوجود شیخ سلیم الہلالی نے اس روایت کو "وهو اسناد حسن لذاته” لکھا ہے۔
حوالہ: عجالۃ الراغب الممتنی، جلد1، صفحہ239، حدیث183
– ضعیف و منقطع روایت کو "حسن لذاته” کہنا یا لکھنا باطل اور مردود ہے۔
🔹 دوسری سند:
ماخذ: المستدرک للحاکم
حدیث کا متن:
"مسروق بن المرزبان: ثنا حفص بن غياث عن هشام بن حسان عن عبدالله بن دينار عن ابن عمر رضي الله عنهما قال قال رسول الله صلی الله عليه وسلم:
من دخل السوق فباع واشتری فقال: لا اله الا الله۔۔۔الخ"
(المستدرک، جلد1، صفحہ539، حدیث1975)
– الحاکم نے کہا: "ھذا اسناد صحیح علی شرط الشیخین ولم یخرجاہ”
– امام ذہبی نے ان کی توثیق کو تعقب کیا ہے۔
سند کی تحقیق:
➊ حفص بن غیاث مدلّس تھے۔
حوالہ: طبقات المدلسین 1/9، طبقات ابن سعد 6/390
– حافظ ابن حجر کا انہیں غیر مدلس کہنا (النکت علی ابن الصلاح 2/637) صحیح نہیں۔
➋ ہشام بن حسان بھی مدلّس تھے۔
حوالہ: طبقات المدلسین 3/110، المرتبہ الثالثہ
– اور یہ روایت بھی "عن” سے ہے، اس لیے ضعیف ہے۔
نتیجہ:
باوجود ضعف کے، شیخ سلیم الہلالی نے اس سند کو بھی "فهذا اسناد حسن لذاته” کہا ہے۔
حوالہ: عجالۃ الراغب الممتنی، جلد1، صفحہ241
– حالانکہ سند واضح طور پر ضعیف ہے۔
🔹 دیگر ضعیف و مردود اسناد:
اس روایت کی دیگر اسناد بھی ضعیف ہیں، مزید تفصیل درج ذیل مصادر میں دیکھی جا سکتی ہے:
◈ العلل الکبیر للترمذی (2/912):
امام بخاری اور امام ابو حاتم الرازی کا تبصرہ:
"ھذا حدیث منکر”
◈ المستدرک للحاکم (1/539)
◈ عجالۃ الراغب الممتنی (1/237–243)
◈ الصحيحہ للالبانی (7/381–391، حدیث3139)
◈ الموسوعۃ الحدیثیہ: مسند الإمام أحمد (1/114، 413)
🔹 فتاویٰ علماء:
◈ علامہ شوکانی (تحفۃ الذاکرین، صفحہ273)
◈ علامہ البانیؒ اور شیخ سلیم الہلالی
– ان علما نے اس روایت کو حسن یا صحیح قرار دیا، لیکن:
✅ درست بات یہی ہے کہ:
یہ روایت اپنی تمام اسناد کے ساتھ ضعیف ہے۔
وما علینا إلا البلاغ (الحدیث:14)
ھذا ما عندی واللہ أعلم بالصواب