اہل قبور کے لیے دعا اور ایصالِ ثواب کے 6 شرعی طریقے

اہل قبور کے لیے دعا کرتے وقت ہاتھ اٹھانے کا ثبوت

حدیث ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:

ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے باہر تشریف لے گئے اور مدینہ کے قبرستان "بقیع” پہنچے۔ وہاں آپ طویل وقت تک کھڑے رہے، پھر آپ نے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کی۔ آپ نے تین مرتبہ ایسا کیا۔ اس کے بعد آپ واپس آئے اور ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو بتایا کہ:

"میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے اور کہا: تمہارا رب تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم بقیع کے قبرستان جاؤ اور وہاں دفن مسلمانوں کے لیے مغفرت کی دعا کرو۔”

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: میں ان کے لیے کیسے دعا کروں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’اَلسَّلَامُ عَلَی أَہْلِ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَیَرْحَمُ اللّٰہُ الْمُسْتَقْدِمِیْنَ مِنَّا وَالْمُسْتَأْخِرِیْنَ وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللّٰہُ بِکُمْ لَلَاحِقُوْنَ أَسْأَلُ اللّٰہَ لَنَا وَلَکُمُ الْعَافِیَۃ.‘‘

ترجمہ: "مومن اور مسلمان گھروں والوں پر سلامتی ہو۔ ہم میں سے آگے جانے والوں اور پیچھے رہنے والوں پر اللہ تعالیٰ رحم فرمائے، اور اگر اللہ نے چاہا تو ہم بھی عنقریب تم سے ملنے والے ہیں۔ میں اللہ تعالیٰ سے اپنے اور تمہارے لیے عافیت کی دعا کرتا ہوں۔”

(مسلم، الجنائز، باب ما یقال عند دخول القبور و الدعاء لاھلھا: ۵۷۹،۴۷۹.)

ایصالِ ثواب کے ثابت شدہ طریقے

 تین دائمی نیکیوں کا ثواب

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"مرنے کے بعد انسان کے اعمال کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے، سوائے تین چیزوں کے:

◈ صدقہ جاریہ
◈ ایسا علم جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں
◈ نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے”

(مسلم: الوصیۃ، باب: ما یلحق الإنسان من الثواب بعد وفاتہ: ۱۳۶۱.)

نیکیوں کا جاری رہنا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"مومن کو مرنے کے بعد درج ذیل نیکیوں کا ثواب پہنچتا رہتا ہے:

◈ وہ علم جو اس نے لوگوں کو سکھایا اور پھیلایا
◈ نیک اولاد جو اس نے پیچھے چھوڑی
◈ قرآن کی تعلیم جو اس نے دی
◈ مسجد کی تعمیر
◈ مسافر خانہ
◈ وہ صدقہ جو اس نے اپنی صحت کی حالت میں دیا”

(ابن ماجہ: مقدمۃ، باب: ثواب معلم الناس الخیر: ۲۴۲.)

 دیگر ثابت شدہ ایصال ثواب کے اعمال

نذر کی ادائیگی

سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں:

سیّدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ:

"میری والدہ نے ایک نذر مانی تھی، مگر وہ پوری کرنے سے پہلے فوت ہو گئیں، کیا میں ان کی طرف سے نذر پوری کروں؟”

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"اپنی ماں کی طرف سے نذر پوری کرو۔”

(بخاری: الوصایا، باب: ما یستحب لمن توفیٰ فجاۃ ۱۶۷۲، مسلم: النذر: ۸۳۶۱.)

ایک اور واقعہ میں، قبیلہ جہینہ کی عورت نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:

"میری ماں نے حج کی نذر مانی تھی لیکن وہ فوت ہو گئیں، کیا میں ان کی طرف سے حج کروں؟”

آپ نے فرمایا:

"ہاں! اس کی طرف سے حج کرو۔ اگر تمہاری والدہ پر قرض ہوتا تو کیا تم ادا کرتیں؟”

اس نے عرض کیا: ہاں!

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"اللہ کا قرض یعنی نذر ادا کرو، اللہ تعالیٰ زیادہ حقدار ہے کہ اس کا قرض ادا کیا جائے۔”

(بخاری: جزاء العید، باب: الحج والنذور عن المیت: ۲۵۸۱.)

روزوں کی قضا

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"جو شخص فوت ہو جائے اور اس کے ذمے روزے باقی ہوں تو اس کا وارث اس کی طرف سے روزے رکھے۔”

(بخاری: الصوم، باب: من مات وعلیہ صوم: ۲۵۹۱، مسلم: الصیام، قضاء الصیام عن الموت: ۷۴۱۱.)

صدقہ کرنا

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:

ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا:

"میرا باپ فوت ہو گیا ہے اور اس نے کوئی وصیت نہیں کی۔ اگر میں اس کی طرف سے خیرات کروں تو کیا اس کے گناہوں کا کفارہ ہو گا؟”

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"ہاں!”

(مسلم: الوصیۃ، باب: وصول ثواب الصدقات إلی المیت: ۰۳۶۱.)

اسی طرح، ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں:

سیدنا سعد بن عبادہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا:

"میری ماں اچانک فوت ہو گئی، اور مجھے گمان ہے کہ اگر وہ کچھ کہتیں تو صدقہ کرتیں، اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا اس کو ثواب ملے گا؟”

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"ہاں!”

(بخاری: الجنائز، باب: موت الفجاۃ البغتۃ: ۸۸۳۱، مسلم: الزکاۃ، باب: وصول ثواب الصدقۃ الی المیت: ۴۰۰۱.)

قرض کی ادائیگی

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"مومن کی روح قرض کے ساتھ معلق رہتی ہے جب تک وہ ادا نہ کر دیا جائے۔”

(ترمذی: الجنائز: ۸۷۰۱.)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1