اہل سنت والجماعت کے نزدیک امید اور خوف کا متوازن نظریہ
ماخوذ : فتاویٰ ارکان اسلام

اہل سنت والجماعت کے مسلک میں امید اور خوف کے پہلو

سوال

اہل سنت والجماعت کے مسلک میں امید اور خوف کے بارے میں کیا مذہب ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اہل سنت والجماعت کے نزدیک امید اور خوف کے تعلق سے علما کے مختلف اقوال ہیں کہ کس پہلو کو مقدم رکھا جائے۔

امام احمد رحمہ اللہ کا قول

◈ امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
> ’’خوف اور امید کا پہلو ایک جیسا ہی ہونا چاہیے، خوف کا پہلو امید پر غالب ہو نہ امید کا پہلو خوف پر غالب ہو۔‘‘

◈ ان ہی سے یہ قول بھی منقول ہے:
> ’’اگر ان دونوں پہلوؤں میں سے کوئی ایک پہلو غالب آ جائے، تو بندہ ہلاک و برباد ہو جائے۔‘‘

اس کی وضاحت

◈ اگر کوئی شخص امید کے پہلو کو غالب کر دے تو وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بے خوف ہو جائے گا۔
◈ اور اگر خوف کے پہلو کو غالب کر دے تو وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہو جائے گا۔

بعض علما کا قول

◈ بعض علما کا کہنا ہے:
> ’’فعل طاعت کے وقت امید کا پہلو غالب ہونا چاہیے اور ارادہ معصیت کے وقت خوف کا پہلو غالب ہونا چاہیے۔‘‘

اس کی تفصیل

◈ جب بندہ طاعت کا کام کرتا ہے تو گویا کہ وہ حسن ظن کے مطابق عمل کرتا ہے، لہٰذا اس وقت امید اور آس یعنی قبولیت کا پہلو غالب ہونا چاہیے۔
◈ لیکن جب بندہ معصیت کا ارادہ کرے تو خوف کا پہلو غالب ہونا چاہیے تاکہ معصیت کا ارتکاب ہی نہ کرے۔

کچھ دوسرے علما کا قول

◈ کچھ دیگر علما نے یہ کہا:
> ’’تندرست آدمی کے لیے خوف کا پہلو اور مریض کے لیے امید کا پہلو غالب ہونا چاہیے۔‘‘

اس کی حکمت

◈ تندرست آدمی پر جب خوف کا پہلو غالب ہوگا تو یہ معصیت سے بچاؤ کا ذریعہ بنے گا۔
◈ مریض پر جب امید کا پہلو غالب ہوگا تو وہ اللہ تعالیٰ سے حسن ظن کے ساتھ ملاقات کرے گا۔

مصنف کی ذاتی رائے

◈ مصنف کی رائے یہ ہے کہ:
> اس مسئلے میں مختلف حالات میں صورت حال مختلف ہوتی ہے۔

اس کی وضاحت

◈ اگر خوف غالب ہو اور بندے کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوسی ہونے کا خدشہ ہو تو اس کے لیے لازم ہے کہ وہ اس اندیشے کو ختم کرے اور امید کے پہلو کو سامنے رکھے۔
◈ اگر امید کا پہلو غالب ہو اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بے خوف ہونے کا ڈر ہو تو اسے چاہیے کہ خوف کے پہلو کو غالب کر دے۔

دل کی حالت کا اعتبار

◈ انسان درحقیقت خود اپنا معالج اور طبیب ہے بشرطیکہ اس کا دل زندہ ہو۔
◈ لیکن جس شخص کا دل مردہ ہو، اور نہ وہ اپنے دل کا علاج کر سکتا ہو اور نہ اس کے حالات کا جائزہ لے سکتا ہو، تو پھر اسے کسی چیز کی پروا نہیں ہوتی اور وہ شتر بے مہار کی مانند ہو جاتا ہے۔


ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1